محاورۂ جاں۔ عرفان صدیقی

الف عین

لائبریرین
اپنے آنگن ہی میں تھا، راہگزر میں کیا تھا
ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا

سبز پتّوں نے بہت راز چھپا رکھے تھے
رُت جو بدلی تو یہ جانا کہ شجر میں کیا تھا

تھا کمیں گاہ میں سناٹے کا عالم، لیکن
اک نیا رنگ یہ ٹوٹے ہوئے پر میں کیا تھا

تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا

اور کیا دیکھتی دنیا ترے چہرے کے سوا
کم سے کم رنگ تھا سرخی میں، خبر میں کیا تھا

تم یہ دیکھو کہ فقط خاک ہے پیراہن پر
یہ نہ پوچھو کہ مرے رختِ سفر میں کیا تھا

تم بتاتے تو سمجھتی تمہیں دنیا عرفانؔ
فائدہ عرضِ ہنر میں تھا، ہنر میں کیا تھا

کینوس
 

الف عین

لائبریرین
ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا

اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا

یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا

سب تری دین ہے۔۔۔ یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا کچھ بھی نہ تھا

اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دعا کچھ بھی نہ تھا

لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے
اس میں تیرا ہنر اے دستِ جفا کچھ بھی نہ تھا

سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا
اڑ کے سوکھے ہوئے پتے نے کہا کچھ بھی نہ تھا
 
Top