محاورۂ جاں۔ عرفان صدیقی

الف عین

لائبریرین
محاورۂ جاں​
عرفان صدیقی​



سدا کہیں کوئی بے آشنا نہیں رہتا
مجھے ہوائے مسافت گلے لگانے لگی​
 

الف عین

لائبریرین
مژگاں اٹھا، اشارۂ پیکاں میں بات کر
اے جاں طلب، محاورۂ جاں میں بات کر
یا برگ ریزِ ہوٗ میں نہ ہو ہم سے ہم کلام
یا لہجۂ ہوائے بہاراں میں بات کر
کیا یوں ہی محوِ جامہ دری میں ہمارے ہاتھ
کچھ دیکھ کر تو اپنے گریباں میں بات کر
ممکن نہیں مکالمۂ درد شہر میں
اچھا یہ بات ہے!، تو بیاباں میں بات کر
کیوں رشک ہے کہ بول رہے ہیں ہمارے زخم
تو بھی زبانِ سادہ و آساں میں بات کر
پیشِ حبیب طولِ سخن اور بات ہے
اک روز جا کے بزمِ رقیباں میں بات کر
جوہر ہماری کاک میں برق و شرر کا ہے
تو لعل چاہتا ہے بدخشاں میں بات کر
****
 

الف عین

لائبریرین
اسی دنیا میں مرا کوئے نگاراں بھی تو ہے
ایک گھر بھی تو ہے، اک حلقۂ یاراں بھی تو ہے
آ ہی جاتی ہے کہیں موجِ ہوائے نمناک
اس مسافت میں کیں خطۂ باراں بھی تو ہے
راستوں پر تو ابھی برگِ خزاں اڑتے ہیں
خیر۔۔ اطراف میں خوشبوئے بہاراں بھی تو ہے
کچھ نظر آتی نہیں شہر کی صورت ہم کو
ہر طرف گردِ رہِ شاہ سواراں بھی تو ہے
حاکمِ وقت کو یوں بھی نہیں گوشِ فریاد
اور پھر تہنیتِ نذر گزاراں بھی تو ہے
ایسے آشوب میں کس طرح سے چُپ بیٹھا جائے
خون میں تےاب و تبِ حوصلہ داراں بھی تو ہے
****
 

الف عین

لائبریرین
نظر میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں
یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں
یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشمِ غزل ہی کے تو ہیں
جسارتِ سخنِ شاعراں سے ڈرنا کیا
غریب مشغلۂ قیل و قال ہی کے تو ہیں
ہوا کی زد پہ ہمارا سفر ہے کتنی دیر
چراغ ہم کسی شامِ زوال ہی کے تو ہیں
کہا تھا تم نے کہ دیتا ہے کون عشق میں جان
سو ہم جواب تمھارے سوال ہی کے تو ہیں
شہا! ملال نہ رکھ خاک اڑانے والوں سے
کہ یہ گواہ تیرے ملک و مال ہی کے تو ہیں
****
 

الف عین

لائبریرین
بے کراں رات میں تو انجمن آرا ہے کہ ہم
اے زمیں تو اس اندھیرے کا ستارہ ہے کہ ہم
اس نے پوچھا تھا کہ سر بیچنے والا ہے کوئی
ہم نے سر نامۂ جاں نذر گزارا ہے کہ ہم
کیا خبر کون زوالِ شبِ ہجراں دیکھے
یاں چراغِ شبِ ہجراں کا اشارہ ہے کہ ہم
تو ادھر کس کو ڈبونے کے لئے آئی تھی
دیکھ اے موجِ بلا خیز کنارہ ہے کہ ہم
آج تک معرکۂ صبر و ستم جاری ہے
کون جانے یہ تماشا اسے پیارا ہے کہ ہم
****
 

الف عین

لائبریرین
زوالِ عمر کی افسردگی میں پھول کھلا
ہوائے خوش بدنی میرے جی میں پھول کھلا
یہ آگ تیرے ہی افسوں کی ہے لگائی ہوئی
تری سزا ہے کہ اب آگ ہی میں پھول کھلا
بہار کب سے سرِ کوئے شب رکی ہوئی ہے
کوئی کہو کہ ذرا روشنی میں پھول کھلا
نسیم حجرہ نشیں لوگ انتظار میں ہیں
دریچے کھول، ہماری گلی میں پھول کھلا
سمجھ لرزتی لوؤں کو دعائے موسمِ وصل
چراغ موج پہ رکھ دے، ندی میں پھول کھلا
****
 

الف عین

لائبریرین
جب بھی کی ہم رہیِ بادِ بہاری ہم نے
خاک پر آگے نظر اپنی اتاری ہم نے
ہم ہر اک شخص کی دعوت پہ کہاں جاتے ہیں
پھیر دی ہے مہ و انجم کی سواری ہم نے
موجِ خوں نے کسے سیراب کیا ہے اب تک
لے کے کیا کرنا ہے یہ چشمۂ جاری ہم نے
عمر بھر ہم سے وہ اک حرف کی دوری پہ رہے
اور نہ سیکھا ہنرِ عرض گزاری ہم نے
بانوئے شہر کو ہے ہم سے تقاضا بیکار
اپنے دلبر کی نہ کی آئینہ داری ہم نے
****
 

محمد وارث

لائبریرین
جب یہ عالم ہو تو لکھیئے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک

تُو نے مٹّی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

ہم نے مدّت سے اُلٹ رکھّا ہے کاسہ اپنا
دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک

پُتلیاں گرمیٔ نظّارہ سے جل جاتی ہیں
آنکھ کی خیر میاں رونقِ بازار پہ خاک

جو کسی اور نے لکھّا ہے اسے کیا معلوم
لوحِ تقدیر بجا، چہرۂ اخبار پہ خاک

پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک

یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک

آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے
یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک

یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اُڑا دی میں نے
جم رہی تھی مرے آئینۂ اشعار پہ خاک
 

محمد وارث

لائبریرین
حاصلِ سیر بے دلاں کون و مکاں نہیں نہیں
کوئے حرم نہیں نہیں، شہرِ بتاں نہیں نہیں

جسم کی رسمیات اور، دل کے معاملات اور
بیعتِ دست ہاں ضرور، بیعتِ جاں نہیں نہیں

درد کی کیا بساط ہے جس پہ یہ پیچ و تاب ہو
دیکھ عزیز صبر صبر، دیکھ میاں نہیں نہیں

ہم فُقَرا کا نام کیا، پھر بھی اگر کہیں لکھو
لوحِ زمیں تو ٹھیک ہے، لوحِ زماں نہیں نہیں *

دونوں تباہ ہو گئے، ختم کرو یہ معرکے
اہلِ ستم نہیں نہیں، دل زدَگاں نہیں نہیں

گرمیٔ شوق کا صلہ دشت کی سلطنت غلط
چشمۂ خوں کا خوں بہا، جوئے رواں نہیں نہیں


* یہ مصرع اس طرح بھی ملتا ہے "لوحِ زمین تک تو خیر، لوحِ زماں نہیں نہیں"
 

محمد وارث

لائبریرین
ہم بندگاں تو نذرِ وفا ہونے والے ہیں
پھر آپ لوگ کس کے خدا ہونے والے ہیں

اس طرح مطمئن ہیں مرے شب گزیدگاں
جیسے یہ سائے ظلّ ِ ہما ہونے والے ہیں

بے چارے چارہ سوزیٔ آزار کیا کریں
دو ہاتھ ہیں سو محوِ دعا ہونے والے ہیں

اِک روز آسماں کو بھی تھکنا ضرور ہے
کب تک زمیں پہ حشر بپا ہونے والے ہیں

ہم پہلے تشنگی کی حدوں سے گزر تو جائیں
سارے سراب آبِ بقا ہونے والے ہیں

لگتا نہیں ہے دل کو جفا کا کوئی جواز
نامہرباں، یہ تیر خطا ہونے والے ہیں

ہم دل میں لکھ رہے ہیں حسابِ ستم گراں
کچھ دن میں سب کے قرض ادا ہونے والے ہیں

ان راستوں میں دل کی رفاقت ہے اصل چیز
جو صرف ہم سفر ہیں جدا ہونے والے ہیں

اچھّا نہیں غزل کا یہ لہجہ مرے عزیز
بس چپ رہو کہ لوگ خفا ہونے والے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیئے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمھارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر بام و در یا اخی

جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے
اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمۂ خواب کی رات بھر یا اخی

یہ بھی اچھّا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی

نہر اس شہر کی بھی بہت مہرباں ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا
ہجرتوں کے مقدّر میں باقی نہیں اب کوئی قریۂ معتبر یا اخی

زرد پتّوں کے ٹھنڈے بدن اپنے ہاتھوں پہ لیکر ہوا نے شجر سے کہا
اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر یا اخی
 

الف عین

لائبریرین
شکستہ پیرہنوں میں بھی رنگ سا کچھ ہے
ہمارے ساتھ ابھی نام و ننگ سا کچھ ہے
حریف تو سپر انداز ہو چکا کب کا
درونِ زات مگر محوِ جنگ سا کچھ ہے
کہیں کسی کے بدن سے بدن نہ چھو جائے
اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے
جو دیکھئے تو نہ تیغِ جفا، نہ میرا ہاتھ
جو سوچئےتو کہیں زیرِ سنگ سا کچھ ہے
چلع زمیں نہ سہی، آسمان ہی ہوگا
محبتوں میں بہر ھال تنگ سا کچھ ہے
***
 

الف عین

لائبریرین
خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر
اک موج بہر حال بہا لے گئی ہم کو
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو؟
ہم لوگ تو پتّے تھے، اُڑا لے گئی ہم کو
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
اس شہر میں گارت گرِ ایماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو

***
 

الف عین

لائبریرین
وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے
پھر اس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے
تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
دبیز کہر ہے یا نرم دھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اے غبارِ شب کیا ہے
دکھا رہا ہے کسے وقت ان اگنت منظر
اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں، تو پھر یہ سب کیا ہے
میں اپنے چہرے سے کس طرح یہ نقاب اٹھاؤں
سمجھ بھی جا کہ پسِ پردۂ طرب کیا ہے
یہاں نہیں ہے یہ دستورِ گفتگو عرفانؔ
فغاں سنے نہ کوئی، حرفِ زیر لب کیا ہے

***
 

الف عین

لائبریرین
اس تکلف سے نہ پوشاکِ بدن گیر میں آ
خواب کی طرح کبجی خواب کی تعبیر میں آ
میں بھی اے سرخیِ بے نام تجھے پہچانوں
تو حنا ہے کہ لہو، پیکرِ تصویر میں آ
اس کے حلقوں میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت
آہوئے شہر، مری بانہوں کی زنجیر میں آ
چارہ گر خیر سے خوش ذوق ہے، اے میری غزل
کام اب تو ہی مرے درد کی تشہیر میں آ
وہ بھی آمادہ بہت دن سے ہے سننے کے لئے
اب تو اے حرفِ طلب معرضِ تقریر میں آ
ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے
موجِ خوں اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ

***
 

الف عین

لائبریرین
‮وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں
آج اس شوخ کو نزدیک بلا کر دیکھیں
ایک جیسے ہیں سبھی گلبدنوں کے چہرے
کس کو تشبیہہ کا آئینہ دکھا کر دیکھیں
کیا تعجب کوئی تعبیر دکھائے دے جائے
ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں
جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کم بخت
اب تکلف کی یہ دیوار گرا کر دیکھیں
خیر، دلّی میں تو اوراقِ مصور تھے بہت
لاؤ، اس شہر کی گلیوں میں بھی جا کر دیکھیں
کون آتا ہے یہاں تیز ہواؤن کے سوا
اپنی دہلیز پہ اک شمع جلا کر دیکھیں
وہ سمجھتا ہے یہ اندازِ تخاطب کہ نہیں
یہ غزل اس غزل آرا کو سنا کر دیکھیں

****
 

الف عین

لائبریرین
اس سے بچھڑ کے بابِ ہنر بند کر دیا
ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا

شاید خبر نہیں ہے غزالانِ شہر کو
اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا

اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں
کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا

اب ڈھونڈ اور قدر شناسانِ رنگ و بو
ہم نے یہ کام اے گلِ تر بند کر دیا

اک اسمِ جاں پہ ڈال کے خاکِ فرامشی
اندھے صدف میں ہم نے گہر بند کر دیا
 

الف عین

لائبریرین
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

چمک رہا ہے افق تک غبارِ تیرہ شبی
کوئی چراغ سفر پر روانہ ہو گیا ہے

ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے

غرض کہ پوچھتے کیا ہو مآلِ سوختگاں
تمام جلنا جلانا فسانہ ہو گیا ہے

فضائے شوق میں اس کی بساط ہی کیا تھی
پرند اپنے پروں کا نشانہ ہو گیا ہے

کسی نے دیکھے ہیں پت جھڑ میں پھول کھلتے ہوئے
دل اپنی خوش نظری میں روانہ ہو گیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
جہانِ گم شدگاں کے سفر پہ راضی ہوں
میں تیرے فیصلۂ معتبر پہ راضی ہوں

ابھی مرا کوئی پیکر نہ کوئی میری نمود
میں خاک ہوں، ہنرِ کوزہ گر پہ راضی ہوں

یہی خیال مجھے جگمگائے رکھتا ہے
کہ میں رضائے ستارہ نظر پہ راضی ہوں

عجیب لوگ تھے مجھ کو جلا کے چھوڑ گئے
عجب دِیا ہوں، طلوعِ سحر پہ راضی ہوں

تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اُس نے
میں نے پوچھا ہے تو اقرار کیا ہے اُس نے

گر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں
شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اُس نے

وہ یہاں ایک نئے گھر کی بنا ڈالے گا
خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اُس نے

دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اُس نے

دوسرا چہرہ اس آئینے میں دکھلائ نہ دے
دل کو اپنے لئے تیار کیا ہے اُس نے

حرف میں جاگتی جاتی ہے مرے دل کی مراد
دھیرے دھیرے مجھے بیدار کیا ہے اس نے

میرے اندر کا ہرن شیوۂ رم بھول گیا
کیسے وحشی کو گرفتار کیا ہے اُس نے

میں بہر حال اسی حلقۂ زنجیر میں ہوں
ہوں تو آزاد کئ بار کیا ہے اُس نے

اب سحر تک تو جلوں گا، کوئی آئے کہ نہ آئے
مجھ کو روشن سرِ دیوار کیا ہے اُس نے
 

الف عین

لائبریرین
اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا
کتنا اچھا اپنا من، اپنا بدن لگنے لگا

جنگلوں سے کون سا جھونکا لگا لیا اسے
دل کہ جگنو تھا چراغِ انجمن لگنے لگا

اس کے لکھّے لفظ پھولوں کی طرح کھلتے رہے
روز ان آنکھوں میں بازارِ سمن لگنے لگا

اوّل اوّل اس سے کچھ حرف و نوا کرتے تھے ہم
رفتہ رفتہ رائگاں کارِ سخن لگنے لگا

جب قریب آیا تو ہم خود سے جدا ہونے لگے
وہ حجابِ درمیانِ جان و تن لگنے لگا

ہم کہاں کے یوسفِ ثانی تھے لیکن اس کا ہاتھ
ایک شب ہم کو بلائے پیرہن لگنے لگا

تیرے وحشی نے گرفتاری سے بچنے کے لئے
رم کیا اتنا کہ آہوئے ختن لگنے لگا

ہم بڑے اہلِ خرد بنتے تھے ، یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا

کر گیا روشن ہمیں پھر سے کوئ بدرِ منیر
ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا
 
Top