محاورہ کہانی ۔ ام عبدِ منیب

ام اویس

محفلین
بَحَثَ عَنْ حَتْفِهٖ بَظِلْفِهٖ

کہا جاتا ہے کہ کسی نے اپنے گھر میں ایک دُنبی رکھی ہوئی تھی۔ ایک روز انہوں نے سوچا کہ اسے ذبح کر لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے چھری تلاش کی لیکن نہ ملی۔ ادھر اُدھر سے کوئی دوسری چیز چھری جیسی تلاش کرنا چاہی لیکن وہ بھی نہ مل سکی۔
اِدھر دُنبی نے زمین پر اپنے کُھر مارے ، وہ تو جانور تھی ، اسے کیا معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے ۔ کچی ، نرم زمین پر جب دُنبی نے اپنے کُھر مارے تو زمین کے اندر چھری دبی ہوئی تھی ۔ اس کی نوک نمودار ہو گئی۔ گھر والے تو چھری کی تلاش میں تھے۔ انہیں جب چھری زمین میں دبی نظر آئی تو فورا نکال باہر کیا۔
دنبی کو لٹایا اور پھر اسی چھری سے دنبی کو ذبح کر دیا۔ جب وہ ذبح ہو رہی تھی تو کسی کی زبان سے نکلا “بَحَثَ عَن حَتْفِهٖ بَظِلْفِهٖ “
“اس دنبی نے اپنے ہی کُھر سے اپنی ہلاکت کھود لی۔”
یہ کہاوت اب اس شخص کے لیے بولی جاتی ہے جس کے ہاتھوں خود ہی اپنے کسی بڑے نقصان کے اسباب پیدا ہوجائیں۔ اردو میں کہا جاتا ہے: اس نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لی یا اپنے لیے خود ہی گڑھا کھود لینا۔
دُنبی مؤنث ہے اس لیے اس میں مؤنث کا صیغہ ہے۔
 
Top