مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ برائے اصلاح

سوالیہ نشان ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن جو آپ نے "خونِ دل" کے بارے فرمایا اس پر بہت کوشش کی پر بے سود۔ اگر کچھ تجویز کریں یا موجودہ صورت کو قابلِ قبول تصور کریں تو نوازش ہوگی۔​
:)

رد و قبول کا اختیار میرا نہیں آپ کا ہے۔
میرا ایک طریقہ رہا ہے (جب میں شاعری کِیا کرتا تھا، ہاہاہا) کہ جو شعر اپنے کہے میں نہیں آ رہا اس کو الگ رکھ لیا، دو چار چھ مہینے، سال دو سال بعد وہ کسی نہ کسی طور مان جایا کرتا تھا۔
 
’’لعبت‘‘ میرے لئے نیا لفظ ہے، آپ مطمئن ہیں تو درست!

ایک وضاحت کر دوں کہ اس غزل کے حوالے مجھے کوئی ابہام درپیش نہیں تھا۔ فنی، فکری، لفظی، معنوی زاویوں سے کوئی بھی شخص کسی فن پارے پر بات کرے گا تو وہ صرف اپنی بات نہیں کرے گا۔ یعنی اس کی ’’میں سمجھتا ہوں‘‘ میں بہت سے لوگ ’’غیر مذکور‘‘ ہوتے ہیں۔
 
ابہام کے عمومی حوالے سے ایک گزارش میں اکثر کیا کرتا ہوں۔

ہم شاعری کرتے ہیں تو محض اپنے لئے نہیں کرتے بلکہ ہمارا مدعا کسی نہ کسی (فرد یا جماعت) کو اپنے خیالات، نظریات، محسوسات، خدشات، توقعات، توہمات وغیرہ سے شناسا کرنا ہوتا ہے۔ یعنی قاری یا سامع کسی نہ کسی طور ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور ہمیں اپنی بات جس قدر عمدگی سے ہو سکے اس قاری یا سامع تک پہنچانی ہے۔ اسی کو ابلاغ کہا جاتا ہے۔ قاری یا سامع کو نکال دیجئے اور اپنے آپ سے باتیں کیجئے، تو آپ کو نہ کسی بحر کی ضرورت ہے نہ وزن کی نہ ردائف ق قوافی کی نہ صنائع بدائع کی نہ روزمرے اور محاورے کی۔ بلکہ وہاں تو لفظ بھی ایک اضطراری عمل ہوا کرتے ہیں۔
جب تک قاری یا سامع ہے، تب تک ابلاغ کی سطح کا ممکنہ حد تک بلند رہنا ضروری ہے، اس کی ضد ’’ابہام‘‘ ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
’’لعبت‘‘ میرے لئے نیا لفظ ہے، آپ مطمئن ہیں تو درست!

لعبت کا لفظ احمد فراز نے بھی کئی جگہ استعمال کیا ہے

کئی لاپتہ میری لَعبتیں
جو کسی طرف کی نہ ہوسکیں
جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں
جو نہ جانے والوں کو روسکیں

آخر کو ضرورت ہی خریدار کی نکلی
مریم سی وہ لعبت بھی تو بازار کی نکلی

اک لبعتِ ہندی نے فراز اب کے لکھا ہے
رادھا کو کبھی کرشن مراری نہیں بھولے
 
چلئے اس بہانے ایک لفظ ہی ڈھونڈ لیتے ہیں۔

لَعبَت : گُڑیا، مُورَت
’’فرہنگِ تلفظ‘‘ از ڈاکٹر شان الحق حقی۔ ناشر: مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد۔

لَعُوب: ناز و انداز والی حسینہ جاریۃ اللعوب (جمع: لَوِاعِب، لَعائِب)
’’مصباح اللغات‘‘ (عربی اردو) از عبدالحفیظ بلیاوی۔ ناشر: خزینہء علم و ادب لاہور۔
 

اسد قریشی

محفلین
ابہام کے عمومی حوالے سے ایک گزارش میں اکثر کیا کرتا ہوں۔

ہم شاعری کرتے ہیں تو محض اپنے لئے نہیں کرتے بلکہ ہمارا مدعا کسی نہ کسی (فرد یا جماعت) کو اپنے خیالات، نظریات، محسوسات، خدشات، توقعات، توہمات وغیرہ سے شناسا کرنا ہوتا ہے۔ یعنی قاری یا سامع کسی نہ کسی طور ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور ہمیں اپنی بات جس قدر عمدگی سے ہو سکے اس قاری یا سامع تک پہنچانی ہے۔ اسی کو ابلاغ کہا جاتا ہے۔ قاری یا سامع کو نکال دیجئے اور اپنے آپ سے باتیں کیجئے، تو آپ کو نہ کسی بحر کی ضرورت ہے نہ وزن کی نہ ردائف ق قوافی کی نہ صنائع بدائع کی نہ روزمرے اور محاورے کی۔ بلکہ وہاں تو لفظ بھی ایک اضطراری عمل ہوا کرتے ہیں۔
جب تک قاری یا سامع ہے، تب تک ابلاغ کی سطح کا ممکنہ حد تک بلند رہنا ضروری ہے، اس کی ضد ’’ابہام‘‘ ہے۔


:confused:
 

اسد قریشی

محفلین
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
یہ شعر تقطیع کر کے دیکھو! مطلب پہلا مصرع
باقی ترمیمات خوب ہیں، میں متفق ہوں،



اعجاز صاحب، تمام تر اصلاحات کے بعد ایک مرتبہ پھر سے پیش ہے، بس ایک مصرعہ"پیار، اُلفت۔۔۔۔" والا آپ کی توجہ کا طالب ہے۔

مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
مشقِ گریہ کی ریاضت کا ثمر پایا ہے
آنکھ سے بہتے ہوئے اشک سِتارہ کرلوں
خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم
کر چکا ہوں جو کہو تم تو دوبارہ کر لوں
میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر
اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں
لُعبتِ حُسن کہ پھول اپنی قبائیں کتریں
گر اجازت ہو اسد میں بھی نظارہ کر لوں
 

الف عین

لائبریرین
اس مصرع کا کچھ متبادل سوچتا ہوں۔
یہ مصرع اب بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے
میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر
یوں کہو تو
میری منزل، مرا رستہ، مرے سپنے، مرا گھر
 
Top