مجھے کسی سے پیار تھا جو روگ بن کے رہ گیا---برائے اصلاح

الف عین
محمّد خلیل الرحمن
فلسفی
------------
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
------------
مجھے کسی سے پیار تھا جو روگ بن کے رہ گیا
جو زندگی سے پیار تھا وہ اشک بن کے بہہ گیا
---------------
دکھوں بھری تھی زندگی سکوں کہیں نہ مل سکا
مجھے ملے ہزار غم جنہیں خوشی سے سہہ گیا
----------------
سبھی یہاں ہے عارضی نہ زندگی سے پیار کر
مجھے ملا فقیر جو یہ بات مجھ سے کہہ گیا
----------
چلو نبی کی راہ پر یوں زندگی گزار دو
ہے کامیاب زندگی جو تُو اسی پہ رہ گیا
----------------
ضمیر تجھ سے جو کہے وہ بات سُن ضمیر کی
مجھے ملا اک آدمی جو بات دل کی کہہ گیا
-------------
نہیں ہے سہل زندگی یہ مشکلوں کا ساتھ ہے
خوشی ملے گی حشر میں انہیں اگر تُو سہہ گیا
 

فلسفی

محفلین
مجھے کسی سے پیار تھا جو روگ بن کے رہ گیا
جو زندگی سے پیار تھا وہ اشک بن کے بہہ گیا
ارشد بھائی پہلے کی نسبت خیالات میں جدت ہے لیکن لکھنے کے بعد تھوڑا وقت غزل اپنے پاس رکھا کریں اور اس پر مزید وقت لگایا کریں تاکہ کوئی بہتر صورت بن سکے۔ پہلا مصرعہ بہت اچھا ہے۔
ایک تجویز ہے باقی اشعار کو آپ خود بہتر کرنے کی کوشش کیجیے

مجھے کسی سے پیار تھا جو روگ بن کے رہ گیا
وہ غم کسی کی یاد کا جو اشک بن کے بہہ گیا
 
فلسفی بھائی دراصل میرے ذہن میں جو نقطہ تھا وہ یہ ہے کہ کسی کا پیار تو روگ بنا ،اس کے ساتھ مجھے زندگی سے جو پیار تھا یا جو زندگی سے پیار کرنا وہ بھی اشک بن کے بہہ گیا۔جو آپ فرما رہے ہیں وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے
 

فلسفی

محفلین
فلسفی بھائی دراصل میرے ذہن میں جو نقطہ تھا وہ یہ ہے کہ کسی کا پیار تو روگ بنا ،اس کے ساتھ مجھے زندگی سے جو پیار تھا یا جو زندگی سے پیار کرنا وہ بھی اشک بن کے بہہ گیا۔جو آپ فرما رہے ہیں وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے
ارشد بھائی، جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ تو آپ کی بیان کرسکتے ہیں۔ میرا اشارہ فقط الفاظ کے چناؤ کی طرف تھا تاکہ روانی بہتر ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک تو قافیہ تنگ ہے اور جو تین چار مل سکے، وہ نباہے نہیں گئے۔
مجھے کسی سے پیار تھا جو روگ بن کے رہ گیا
جو زندگی سے پیار تھا وہ اشک بن کے بہہ گیا
--------------- دونوں مصرعوں میں آپسی ربط سمجھ میں نہیں آتا، 'سے پیار تھا' دہرایا گیا ہے

دکھوں بھری تھی زندگی سکوں کہیں نہ مل سکا
مجھے ملے ہزار غم جنہیں خوشی سے سہہ گیا
---------------- یہ بھی دو لخت محسوس ہوتا ہے، سکوں غم کا متضاد تو نہیں، کہیں خوشی نہ مل سکی: شاید بہتر ہو

سبھی یہاں ہے عارضی نہ زندگی سے پیار کر
مجھے ملا فقیر جو یہ بات مجھ سے کہہ گیا
---------- یہ زندگی ہے عارضی، نہ اس سے عشق کر کبھی/ نہ اس سے راہ و رسم رکھ
بہتر متبادل ہے

چلو نبی کی راہ پر یوں زندگی گزار دو
ہے کامیاب زندگی جو تُو اسی پہ رہ گیا
---------------- قافیہ درست نہیں نبھایا جا سکا۔ جو رہ گیا مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ جو اس راہ پر چل نہ سکا!

ضمیر تجھ سے جو کہے وہ بات سُن ضمیر کی
مجھے ملا اک آدمی جو بات دل کی کہہ گیا
------------- ضمیر تجھ سے جو بھی کچھ کہے تو اس کی بات سُن
رواں نہیں؟

نہیں ہے سہل زندگی یہ مشکلوں کا ساتھ ہے
خوشی ملے گی حشر میں انہیں اگر تُو سہہ گیا
..... یہ بھی واضح نہیں، حشر میں تو نیک لوگ خوش ہوں گے، مشکلات سے کیا تعلق؟ ہاں، اگر ان کے اعمال اچھے ہوں گے تو مشکلیں ان کے گناہ معاف کروا دیں، یہ ممکن ہے
 
الف عین

مجھے کسی سے پیار تھا جو روگ بن کے رہ گیا
وہ غم کسی کی یاد کا جو اشک بن کے بہہ گیا
-------------
دکھوں بھری تھی زندگی کہیں خوشی نہ مل سکی
مجھے ملے ہزار غم جنہیں خوشی سے سہہ گیا
-----------
یہ زندگی ہے عارضی، نہ اس سے عشق کر کبھی
مجھے ملا فقیر جو یہ بات مجھ سے کہہ گیا
------------------
چلو نبی کی راہ پر یوں زندگی گزار دو
ہے کامیاب تب ہی تُو اگر اسی پہ رہ گیا
----------------

ضمیر تجھ سے جو بھی کچھ کہے تو اس کی بات سن
مجھے ملا اک آدمی جو بات دل کی کہہ گیا
--------------
نہیں ہے سہل زندگی یہ مشکلوں کا ساتھ ہے
خوشی ملے گی بعد میں انہیں اگر تُو سہہ گیا
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو میرے مشوروں پر عمل کر ہی لیا۔ بس، رہ گیا والے شعر میں وہی خامی اب بھی ہے، راہ پر چلا اور راہ پر رہ گیا متضاد معنی رکھتے ہیں
 
Top