مجھے لوگ جتنے بھی لگتے تھے پیارے---برائے اصلاح

الف عین
محمّد احسن سمیع راحل
محمّد خلیل الرحمن
--------
مجھے لوگ جتنے بھی لگتے تھے پیارے
ہوئے دور مجھ سے وہ سارے کے سارے
------------
نہ کوئی ملا مجھ سے جو پیار کرتا
دکھائے زمانے نے دن میں بھی تارے
-----------
کرے کون عسرت زدہ سے محبّت
نہیں پیٹ بھرتا محبّت سے پیارے
--------------
مری مفلسی سے سبھی دور بھاگے
جوانی کے دن بھی یوں تنہا گزارے
-----------
تغیّر ہے لازم یہاں زندگی میں
جو کچھ وقت بدلا پھرے دن ہمارے
----------
مرے ساتھ لوگوں کے انداز بدلے
محبّت کے ہونے لگے پھر اشارے
-------------
سبھی لوٹ آئے جو تھے دور بھاگے
جو دیکھے بدلتے ہمارے ستارے
-------------
اٹھا کر نظر جس نے دیکھا نہ مجھ کو
وہ ملنے کو آیا ہے ندیا کنارے
------------
مری لاج رکھی خدا نے ہمیشہ
نہیں چھوڑتا وہ جو اس کو پکارے
-------------
مری آپ بیتی سُنی آپ سب نے
کبھی دوسروں کے نہ ڈھونڈو سہارے
---------------
خدا پر بھروسہ جو کرتا ہےارشد
کبھی زندگی میں وہ بازی نہ ہارے
 

الف عین

لائبریرین
مجھے لوگ جتنے بھی لگتے تھے پیارے
ہوئے دور مجھ سے وہ سارے کے سارے
------------ ٹھیک ہے مگر وجہ تو بتائیں کہ ایسا کیوں ہوا؟

نہ کوئی ملا مجھ سے جو پیار کرتا
دکھائے زمانے نے دن میں بھی تارے
----------- دو لخت لگتا ہے

کرے کون عسرت زدہ سے محبّت
نہیں پیٹ بھرتا محبّت سے پیارے
-------------- درست

مری مفلسی سے سبھی دور بھاگے
جوانی کے دن بھی یوں تنہا گزارے
----------- دوسرے مصرعے میں واضح نہیں کہ کس نے

تغیّر ہے لازم یہاں زندگی میں
جو کچھ وقت بدلا پھرے دن ہمارے
---------- یہاں، کہاں؟ اس شعر کو نکال دیا جائے

مرے ساتھ لوگوں کے انداز بدلے
محبّت کے ہونے لگے پھر اشارے
------------- یہ بھی واضح نہیں، کون جس کو اشارہ کرنے لگا؟

سبھی لوٹ آئے جو تھے دور بھاگے
جو دیکھے بدلتے ہمارے ستارے
------------- درست اگرچہ رواں نہیں

اٹھا کر نظر جس نے دیکھا نہ مجھ کو
وہ ملنے کو آیا ہے ندیا کنارے
------------ ی بھی زبردستی کا شعر ہے

مری لاج رکھی خدا نے ہمیشہ
نہیں چھوڑتا وہ جو اس کو پکارے
------------- دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے، یہ تو کہا جائے کہ میں نے اسے پکارا تو میری لاج رکھ لی.....

مری آپ بیتی سُنی آپ سب نے
کبھی دوسروں کے نہ ڈھونڈو سہارے
--------------- یہ بھی دو لخت ہے

خدا پر بھروسہ جو کرتا ہےارشد
کبھی زندگی میں وہ بازی نہ ہارے
.. ہارے.. دعائیہ ہے یا جمع کا صیغہ؟ جمع کا صیغہ مانا جائے تو پہلے مصرع میں واحد نہیں ہونا چاہیے ۔ 'جو کرتے ہیں' سے درست ہو گا
 
الف عین
(ریوائزڈ)
مجھے لوگ جتنے بھی لگتے تھے پیارے
ہوئے دور مجھ سے وہ کیوں آج سارے
------
ستایا زمانے نے مجھ کو تھا ایسے
نظر آ رہے تھے مجھے دن میں تارے
------------
جو کچھ وقت گزرا تو حالات بدلے
ہوا فضل رب کا پھرے دن ہمارے
----------
مرے ساتھ لوگوں کے انداز بدلے
محبّت سے ملنے لگے پھر وہ سارے
----------
سبھی لوٹ آئے جو تھے دور بھاگے
چمکتے جو دیکھے ہمارے ستارے
---------
محبّت ہماری جو ٹھکرا رہا تھا
وہی آج دیکھو ہے گھر میں ہمارے
-----------
مقدّر ہے ہاتھوں میں رب کے تمہارا
نہ ڈھونڈو کبھی دوسروں کے سہارے
--------------
مقدّر کے قاضی کو اپنا بنا لو
وہی پھیرتا ہے سبھی دن تمہارے
------------
کبھی بھول پائے گا ارشد نہ ان کو
جو دن مفلسی میں تھے اس نے گزارے
-----------
 

الف عین

لائبریرین
مجھے لوگ جتنے بھی لگتے تھے پیارے
ہوئے دور مجھ سے وہ کیوں آج سارے
------ مطلع روائز نہیں ہوا؟ وہی مسئلہ ہے جو کہا تھا
( یہ بعد میں لکھ رہا ہوں کہ اگر مسلسل غزل ہے تو مطلع کا اس روداد سے تعلق نہیں)
ستایا زمانے نے مجھ کو تھا ایسے
نظر آ رہے تھے مجھے دن میں تارے
------------ یہ ماضی کی ہی بات کیوں؟ حال کی بات میں ہی اثر زیادہ ہے۔ پہلا مصرع اس کا ثبوت ہے کہ آپ نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ اور ایسا مجہول روپ گوارا کر لیا! زمانے نے ایسا ہے/تھا مجھ کو ستایا سامنے کا مصرعہ بلکہ جملہ ہوتا!

جو کچھ وقت گزرا تو حالات بدلے
ہوا فضل رب کا پھرے دن ہمارے
---------- اب یہ خیال ہوا ہے کہ یہ در اصل نظم ہے، یا مسلسل غزل، جس میں داستان سنائی جا رہی ہے کہ پہلے عشق میں مایوسی ملی تھی پھر رفتہ رفتہ حالات سازگار ہوتے گئے۔ آپ کی اپنی روداد ہے تو مبارکباد تو بنتی ہے! مسلسل غزل کی صورت میں درمیان میں یہ لکیر کءا کر رہی ہے؟ شعر درست ہے

مرے ساتھ لوگوں کے انداز بدلے
محبّت سے ملنے لگے پھر وہ سارے
---------- مسلسل غزل کے روپ میں درست

سبھی لوٹ آئے جو تھے دور بھاگے
چمکتے جو دیکھے ہمارے ستارے
--------- جو تھے دور بھاگے، وہ سب لوٹ آئے
بطور پہلا مصرع بہتر اور رواں ہو گا

محبّت ہماری جو ٹھکرا رہا تھا
وہی آج دیکھو ہے گھر میں ہمارے
----------- محبت ہماری یا ہماری محبت؟ اگر آپ کو وہی بہتر محسوس ہوتا ہے تو آپ کی مرضی!
دوسرے مصرعے میں 'دیکھو' بھرتی کا نہیں؟ اگر استعمال کیا بھی جائے تو 'دیکھو، وہی آج ہمارے گھر میں ہے' کی شعر شکل ہ ونی تھی۔ یعنی دیکھو لفظ پہلے ہو۔ ورنہ 'رہتا' بھی کءا جا سکتا ہے

مقدّر ہے ہاتھوں میں رب کے تمہارا
نہ ڈھونڈو کبھی دوسروں کے سہارے
-------------- مقدر اور تمہارا بہت دور جا پڑے! 'تمہارا مقدر' بھی تو لا سکتے تھے!

مقدّر کے قاضی کو اپنا بنا لو
وہی پھیرتا ہے سبھی دن تمہارے
------------ ویسے ٹھیک ہے لیکن مقدر کا قاضی کی ترکیب پسند نہیں آئی

کبھی بھول پائے گا ارشد نہ ان کو
جو دن مفلسی میں تھے اس نے گزارے
----------- یہاں مفلسی کی بات کیوں؟ مسلسل غزل میں! جو تنہائی کے دن.... کیو تو کہانی جاری رہتی ہے۔
 
الف عین
آپ کے حکم کے مطابق اغلاط ٹھیک کر لیتا ہوں ۔ آپ نے درست فرمایا ۔ میں نے مسلسل کہانی کا ذہن بنا کر ہی لکھی ہے ۔ویسے یہ میری داستان نہیں بس فرضی ہے۔ مجھے میرے رب نے ہمیشہ میری ضرورت سے زیادہ دیا ہے ،جتنا شکر کروں کم ہے۔مسلسل کہانی کی صورت میں کیا مطلع ٹھیک ہے
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
آپ کے حکم کے مطابق اغلاط ٹھیک کر لیتا ہوں ۔ آپ نے درست فرمایا ۔ میں نے مسلسل کہانی کا ذہن بنا کر ہی لکھی ہے ۔ویسے یہ میری داستان نہیں بس فرضی ہے۔ مجھے میرے رب نے ہمیشہ میری ضرورت سے زیادہ دیا ہے ،جتنا شکر کروں کم ہے۔مسلسل کہانی کی صورت میں کیا مطلع ٹھیک ہے
اغلاط درست کی گئیں، ایسا لگتا تو نہیں، کیا یوں ہوا کہ کسی غلطی کو دور کرنے میں نئی غلطی پیدا ہو گئی؟ جس پر پوسٹ کرتے وقت بھی دھیان نہیں دیا گیا؟
 
الف عین
محترم ،چونکہ یہ ایک تصوّراتی مسلسل منظوم کہانی ہے اس لئے پہلے ماضی پھر حال، پہلے جب حالات خراب تھے تو لوگ دور بھاگے ، حالات بدلے تو قریب آ گئے ، اس لئے پہلے دو شعر ماضی کے صیغے میں لکھیں ہے ، مگر پھر بھی مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے
------------
غریبی کے دن میں نے ایسے گزارے (ق)
سبھی چھوڑ بھاگے جو لگتے تھے پیارے
زمانے نے مجھ کو تھا ایسے ستایا
نظر آ رہے تھے مجھے دن میں تارے
جو کچھ وقت گزرا تو حالات بدلے
ہوا فضل رب کا پھرے دن ہمارے
مرے ساتھ لوگوں کے انداز بدلے
محبّت سے ملنے لگے پھر وہ سارے
جو تھے دور بھاگے ، وہ سب لوٹ آئے
چمکتے جو دیکھے ہمارے ستارے
ہماری محبّت جو ٹھکرا رہا تھا
وہی آج رہتا ہے گھر میں ہمارے
-----
تمہارا مقدّر ہے ہاتھوں میں رب کے
نہ ڈھونڈو کبھی دوسروں کے سہارے
محبّت خدا کی جو دل میں بسا لو
وہی پھیرتا ہے سبھی دن تمہارے
کبھی بھول پائے گا ارشد نہ ان کو
جوانی کے دن تھے جو تنہا گزارے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اب درست ہے، کیونکہ پوری غزل مسلسل نہیں، اس لئے شروع میں قطعے کا 'ق' لکھ دو۔ اور 'گھر میں ہمارے' کے بعد ایک لکیر کھینچ کر قطعے کی حدود مقرر کر دو۔ آخری تین اشعار مسلسل نہیں ہیں نا!
 
Top