مجھے سمجھانے آئے ہیں، سبک کیا ہے، سجل کیا ہے "علی زریون"

مجھے سمجھانے آئے ہیں، سبک کیا ہے، سجل کیا ہے
جنہیں یہ تک نہیں معلوم دنیا کیا ہے دل کیا ہے

کبھی سوچا؟ فسادِ رنگ و روغن کیوں نہیں ٹلتا؟
کبھی جانا؟ کہ آینوں کی خلوت میں مخل کیا ہے؟

یہ کیا محنت ہے؟ جس میں یومِ اجرت ہی نہیں کوئی
اٹھائے پھر رہے ہو اپنے کاندھوں پر جو سل کیا ہے؟

یہ غولِ دهشتی کس چور دروازے سے آتا ہے؟
دیارِ سبز تیری سرحدوں سے متصل کیا ہے؟

امیرِ وحشیانِ عشق ہوں میری بلا جانے
کہ مرہم کس کو کہتے ہیں، ’’دعائے مندمل‘‘ کیا ہے


مجھے بالکل کوئی عادت نہیں نخرے اٹھانے کی
میاں تو جا کے اپنے چاہنے والوں سے مل کیا ہے

سمرقند و بخارا وارتے ہیں جاننے والے
کوئی حافظ سے پوچھے یار کے ہونٹوں کا تل کیا ہے

علی زریون
 
Top