مجھے دنیا ستاتی ہے مگر تم کیوں ستاتے ہو---برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع؛راحل؛
-----------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
----------
مجھے دنیا ستاتی ہے مگر تم کیوں ستاتے ہو
وفائی بھول کر میری ، مرے دل کو جلاتے ہو
-----------
پریشانی نمایاں ہے تمہارے آج چہرے سے
بھروسہ ہے اگر مجھ پر تو کیوں مجھ سے چھپاتے ہو
------------
بھلا کر حشر کے دن کو رہے دنیا میں ہی کھوئے
کمایا تھا جو محنت سے اسے پھر چھوڑ جاتے ہو
------------
وفائی بھول کر میری چلے ہو ساتھ غیروں کے
مجھے تم بے وفا کہہ کر تو یوں خود کو چھپاتے ہو
---------
تمہیں پیدا کیا جس نے وہ رازق بھی تمہارا ہے
یقیں کامل یہی رکھنا مگر تم بھول جاتے ہو
-------
تمہاری بات پھیلے گی کسی کو گر بتا دو گے
چھپانا چاہتے ہو گر ، کسی کو کیوں بتاتے ہو
-----------
مجھے ایسے ہی لگتا ہے کبھی کھایا نہیں تم نے
وطیرہ یہ تمہارا ہے کہ جب شادی پہ جاتے ہو
--------یا جب دعوت پہ جاتے ہو
-----------
طریقے سے ،سلیقے سے ، کہو ارشد جو کہنا ہے
کسی سے بات کرتے ہو تو کیوں غصّے میں آتے ہو
----------
 

الف عین

لائبریرین
اس پر محنت کرنا بیکار ہے۔ اس لئے اصلاح کی کوشش نہیں کر رہا
کچھ باتیں بہر حال
وفائی مجرد کوئی لفظ نہیں، وفا کا متضاد بے وفائی ہوتا ہے، با وفا کا بے وفا،
آخری دونوں اشعار مزاحیہ لگتے ہیں۔
چھپانے بتانے والے شعر میں ایک ہی بات دونوں مصرعوں میں کہی گئی ہے الگ الگ طرح سے
 
استادِ محترم--وفائی غلطی سے وفائیں کی جگہ لکھا گیا ہےلیکن چونکہ آپ کو غزل اچھی نہیں لگی اس لئے میں نے بھی اسے بہتر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے
 
Top