مجنوں کہو نہ اس کو جو لیلیٰ میں کھو گیا ٭ راحیلؔ فاروق

مجنوں کہو نہ اس کو جو لیلیٰ میں کھو گیا
جو جس میں کھو گیا وہی وہ آپ ہو گیا

کیا شیخ نے بِہشت کی تصویر کھینچ دی
ایک اور اجَل گِرِفتہ خرابات کو گیا

مُلّا کو بھینٹ کی یہ بُری چاٹ لگ گئی
سرمد شہید خون سے مسجد بھگو گیا

ہجراں غُنودگی میں غنیمت گزر گئے
آغوش میں غزل کی میں غم کھا کے سو گیا

اے تو کہ تو نے میں نہیں رہنے دیا مجھے
اپنا پتا پکار کہ میں خود سے کھو گیا

اَسرار یوں تو سر میں سمانے کے تھے نہیں
سودا سما گیا تو سبھی کچھ سمو گیا

دل باغ باغ تھا مگر اس نے خبر نہ لی
اچھی زمین دیکھ کے غم بیج بو گیا

سجدے نے توڑ دی تھی عَزازیل کی کمر
عاجز وہ ہے کہ بارِ امانت بھی ڈھو گیا

روتی گئی ہے وقت کی راہوں پہ عاشقی
ایک ایک سنگِ میل کو سیلاب دھو گیا

باتیں تو تھیں وہی جو ہمیشہ کی ہیں مگر
راحیلؔ حرف حرف میں نغمے پرو گیا

راحیلؔ فاروق
 
Top