مجلسِ ادب

نوید صادق

محفلین
غزل۔ برائے بحث

غزل

یہ روشنی کا جو ہے سلسلہ ہمارے ساتھ
تو چل رہا ہے کوئی آئنہ ہمارے ساتھ

یہ ہاتھ یونہی تکلف میں اُٹھ گئے، ورنہ
جو ہوتا آیا ہے، ہو گا سدا ہمارے ساتھ

کسی میں کوئی ادا تھی، کسی میں کوئی ہنر
پہ کون چار قدم چل سکا ہمارے ساتھ

مگر یہ بات کسی اور سے نہیں کہنا
ہمارا ربط نہیں رہ سکا ہمارے ساتھ

ہمیں کسی سے شکایت نہیں کوئی، لیکن
جو چاہئے تھا، نہیں ہو رہا ہمارے ساتھ

گلی کے موڑ پہ سرگوشیاں ہوئیں کچھ دیر
اور اس کے بعد کوئی چل پڑا ہمارے ساتھ

ہمارا عہد غلط تھا کہ ہم غلط تھے نوید
قدم قدم پہ ہوا سانحہ ہمارے ساتھ

(نوید صادق)
 

نوید صادق

محفلین
سید اقبال طالب غزل پر گفتگو کا آغاز کرتے

سید اقبال طالب غزل پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں:

نوید صادق کی غزل پڑھی،
واہ واہ!بہت خوب!
جیتے رہئے!
سارے اشعار اچھے ہیں۔اور مقطع سب سے اچھا۔

ہمارا عہد غلط تھا کہ ہم غلط تھے نوید
قدم قدم پہ ہوا سانحہ ہمارے ساتھ

سید اقبال طالب
 

نوید صادق

محفلین
نوید صدیقی کی رائے:

نوید صدیقی کی رائے:

مزاحمتی شاعری ہمیشہ سے قوی تخیل کیے ساتھ داد پاتی رہی ہے۔
نوید نے آج کے المیے کو جیسے اپنی غزل میں کھول کر رکھ دیا ہے،
The Best One, Naveed.

نوید صدیقی
لودھراں
 

نوید صادق

محفلین
مسعود منور غزل کی بابت لکھتے ہیں

مسعود منور غزل کی بابت لکھتے ہیں:

نوید صادق کی غزل

میں چھ جون کی شام کی چائے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ساتھ پی رہا تھا۔ ہم دو گھنٹے تک اوسلو کے گابیل ہاؤس کے لان میں بیٹھے شاعری کی باتیں کرتے رہے ، اور جب ہم شاعری کی بحث کو سمیٹ ر ہے تھے تو ڈاکٹر نارنگ نے فراقؔ ، مجروح،منیر نیازی اور ناصر کاظمی کو یاد کیا اور پھر ناصر کا شعر پڑھا:

دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے

میں ناصر کے لہجے کی پھوار میں بھیگا واپسی کا سفر طے کر کے گھر پہنچا تو نوید صادق کی غزل میری منتظر تھی۔نوید صادق کی یہ پہلی غزل ہے جو مجھے پڑھنے کو ملی ہے۔ ناصر کی غزل کا ذائقہ ابھی تازہ تھا کہ ایک نئے حسی تجربے سے گزرنا پڑا۔نوید کے شعرکہنے کا انداز اُن کی زبان پر قدرت کی گواہی پیش کررہا تھا۔تمام تلازمات غزل کے مضمون کی نسبت سے بر محل لگے۔اسلوب غایت درجہ شستہ۔سادہ بھی اور پرکار بھی۔اس غزل کا کلیدی شعر میرے مطالعے کی ریاضی کے حساب سے یہ نکلا:

مگر یہ بات کسی اور سے نہیں کہنا
ہمارا ربط نہیں رہ سکا ہمارے ساتھ

"ہمارے"کا اسم اشارہ جس مشارُن الیہ( مُشارن کی یہ املا میں نے دانستہ لکھی ہے کہ دو پیشوں کارواج اردو رسم الخط کو غیر ضروری طور پر معرب کرتا ہے) کے گرد خط کھینچتا ہے وہ عالمی تناطر میں پوری انسانی جمیعت ہے مگر وقت کے سمندر میں یہ خط دائرہ در دائرہ ہے۔ دوسرے دائرے میں جمیعتِ اسلام ہے ، جبکہ تیسرے دائرے میں پاکستانی معاشرت اور چوتھے میں فرد ہے۔محولہ بالا شعر انسان کے خود سے بچھڑ جانے کے المیے کا بیان ہے ۔ انسان کا خود سے بچھڑ جانا انسانی اقدار کی موت کا دلخراش سانحہ ہے۔زندگی کی جو قیمتیں مقرر کی گئی تھیں وہ ادبی کساد بازاری اور افراطِ سخن کے سبب غایت درجہ گر گئی ہیں۔ستم ظریفی کا کلائمیکس یہ ہے کہ کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں۔سب جانتے ہیں کہ جو بویا گیا، وہی کاٹا جا رہا ہے۔یہ بے حسی کی بھیانک اور قبیح مثال ہے۔
زندگی کے فیصلے خواہ وہ کسی بھی شعبے سے متعلق ہوں نہایت مشکوک اور قابلِ اعتراض انداز میں طے ہو رہے ہیں ، جو عصری انسانی صورتحال کو ناجائز تعلقات کے مصداق نازیبا اور ناروا بناتے ہیں:

گلی کے موڑ پہ ، سرگوشیاں ہوئیں کچھ دیر
اور اس کے بعد کوئی چل پڑا ہمارے ساتھ

مقطع مفہوم کے اعتبار سے غزل کا ماحصل ہے جوعہدِ حاضر کی غلط روی اور خطا پروری کا واشگاف اعلان بھی ہے۔مجموعی طور پر یہ غزل ایک ایسی معاشرتی اور فکری صورتحال کا زائچہ مرتب کرتی ہے جس کی پہنائی میں فرد کی قوتِ عمل مفقود ہوچکی ہے اور وہ ایک ایسی انفعالی کیفیت کا زندانی ہے جس نے اُسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور نتیجے میں اُس کی قوتِ تسخیر جواب دے گئی ہے۔وہ قانونِ حوادث کا شکار ہے اور پے بہ پے سانحوں کی زد میں ہے۔نوید صادق کی یہ غزل عصری تناظر میں بنائی ہوئی لفظ و معنی کی ایک خوبصورت تصویر ہے۔
غزل پر کہنے کو ابھی بہت کچھ ہے مگر وہ میں دوسروں پر چھوڑتا ہوں کہ بات مختصر ہی اچھی ہوتی ہے۔ اور پھر جناب امیر نہجہ البلاغہ میں فرما گئے ہیں کہ جو زیادہ بولتا ہے ، زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔

مسعود مُنّور
ناروے
 

نوید صادق

محفلین
ُپرویز اختر کی رائے

ُپرویز اختر کی رائے:

غزل نوید صادق کی

جب سے دل کا عارضہ لاحق ہوا ، طبیعت اُچاٹ سی ہو گئی ۔ کبھی نہ شعر سنا اور نہ ہی کہا ۔ کل سہیل ثاقب کے ہاں مشاعرہ تھا ۔ بہت کچھ سنا لیکن سنایا کچھ بھی نہیں ۔ نوید کی غزل پڑھی تو سوچا چار لفظ لکھ دُوں ۔
غزل کا مجموعی تاثر بہت اچھا ہے ۔ نازک جذبوں کو بڑی خوبی سے نبھایا ہے ۔ہر شعر میں بے پایاں نغمگی ہے۔
المختصر دل خوش ہوا

پرویز اختر
دمام
سعودی عرب
 

نوید صادق

محفلین
سارہ جبین لکھتی ہیں

سارہ جبین لکھتی ہیں:

نوید صادق صاحب کی غزل نظر نواز ہوئی۔غزل ان کی مشاقی کی ترجمانی کرتی ہے۔اور تمام اشعار ایک سے آگے ایک ہیں۔اور ہر شعر میں خیال کی گہرائی نظر آتی ہے۔
میری جانب سے نوید صادق صاحب کو اس دلکش تحریر پر داد اور مبارکباد پیش ہے۔

سارہ
 

نوید صادق

محفلین
مہتاب قدر کی رائے

مہتاب قدر کی رائے:

شعر نمبر ۴ سے مقطع تک غزل کے اشعار بہت پسند آئے۔ویسے غزل پوری بہتر ہے۔

ع گلی کے موڑ پہ سرگوشیاں ہوئیں کچھ دیر

دوسرے مصرعہ میں ’’اور اس کے بعد‘‘ کی بجائے ’’ پھر اس کے بعد کوئی چل پڑا ہمارے ساتھ‘‘ زیادہ اچھا لگے گا۔
یہ صرف رائے ہے۔

مہتاب قدر
سعودی عرب
 

نوید صادق

محفلین
طارق بٹ کی رائے

طارق بٹ کی رائے:

نوید کی غزل

نویدصادق نے غزل کے لیے انتہائی زرخیز زمین کا انتخاب کیا، جس میں مضمون و معانی کی امکانی فصلوں سے خرمنِ ادب کو مالا مال کر دینے کے بے حد مواقع موجود تھے ۔ مگر مطلع اور فوری بعد کے دو اشعار میں وہ زمین کی اس زرخیزی سے کما حقا زر حاصل نہیں کر سکے۔ مگر اس کے فوراً بعد ہی چوتھاشعر کہہ کر انہوں نے تما م کشت غزل کی فصل ایک پیلی( قطعِ زمین) ہی میں کما لی ہے۔ کیسا سہل ممتنع ہے ، اندر کے کرب کا ،درد کا ، بے بسی کا، لا چاری کا، کیسا بھرپور اور سادا اظہار ہے۔ سبحان اللہ۔
چاہے اس شعر کو ذات کے تناظر میں رکھ کر پڑھ لو یا بقول مسعود منور وسیع عالمی تناظر میں۔ لطف دیتا ہے، اور ایک کامیاب اور اچھے اور زندہ رہ جانے والے شعر میں یہ خوبی تو ہوتی ہی ہے۔ غزل کا مجموعی تاثر اچھا ہے اور مزید بڑھ سکتا تھا اگر تما م اشعار پر ایسی ہی توجہ دی جاتی جیسے کہ آخری چار شعروں پر رہی۔
غزل کے بقیہ اشعار پر میں مسعود منور صاحب کے تبصرہ کو آگے نہیں بڑھا پاؤں گا ۔ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔
(ہمارے یہ ماڈرن صوفی مہینہ بھر جانے کس گپھا میں مجاہدہ کر رہے تھے۔ ایک آدھ دن سے نیٹ جھروکے میں لمحہ بھر درشن دے کر غائب ہوجاتے ہیں ، اس سے قبل کہ کوئی ان کی تجلی کی سہار اپنے اندر پیدا کرے اور خود کو سنبھالے ،حضرت یہ جا وہ جا۔)

طارق بٹ

۱۰ جون
۲۰۰۷ ء
 

نوید صادق

محفلین
محمد یعقوب آسی لکھتے ہیں

محمد یعقوب آسی لکھتے ہیں:

نوید صادق کی غزل اور مسعود منور کی نکتہ آفرینی

نوید صادق کی غزل پر مختلف پہلوؤں سے احباب کی طرف سے بہت مناسب آراء پہلے ہی آ چکیں، میں شاید اُن پر کوئی مفید اضافہ نہ کر سکوں۔ لہٰذا دوستوں کی اس رائے کو صاد کرتا ہوں کہ نوید صادق عصری تقاضوں کے شعور کو اشعار میں ڈھالنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔
مسعود منور صاحب کا فرمان ’’مشارٌ الیہ‘‘ کے ضمن میں البتہ محل نظر ہے۔ انہوں نے اسے ارادتاً ’’مشارن الیہ‘‘ لکھا ہے جو میرے نزدیک مستحسن نہیں ہے۔ اردو کے خمیر میں عربی کا رچاؤ در اصل ایک طویل تہذیبی ورثے کا حاصل ہے اور ہم اس سے فرار ہو ہی نہیں سکتے، اور ہمارے پاس ایسے تجربوں کا کوئی معقول جواز بھی نہیں۔ تفصیل میں جائے بغیر میرا مؤقف ہے کہ املاء کا برقرار رہنا از بس ضروری ہے۔ آپ کے پاس اگر ایک لفظ ایسا ہے جو آپ کو گراں محسوس ہوتا ہے تو اس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے بہتر ہے کہ آپ اس کا کوئی متبادل لفظ لے آئیں، ہماری لغت کچھ ایسی تہی دامن بھی نہیں ہے۔
شعراء اور ادباء کو کہا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ ناقد کا کردار یوں بھی اہم تر ہے کہ وہ شاعر اور ادیب کی راہ نمائی کرتا ہے۔ اس لئے ہمارے ناقد پر لازم ہے کہ وہ خود اپنے منصب کا احترام کرے۔
محمد یعقوب آسی
ٹیکسلا۔ پاکستان
۱۲! جون ۲۰۰۷ء
 

نوید صادق

محفلین
فرحت پروین کی رائے

فرحت پروین کی رائے:

جناب نوید صادق کی غزل نے فورم میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔میں شاعر کے کلام سے بھی زیادہ تبصروں سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔خصوصا‘‘ جناب مسعود منور، جناب یعقوب آسی، اور جناب طارق بٹ کے تبصرے۔ یہ لوگ الفاظ و معانی کی گرہیں کھول کر مفاہیم کے نئے باب وا کر دیتے ہیں، جس سے ہم جیسے کم فہموں کو اشعار کی گہری پرتوں تک پہنچنے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
جناب مسعود منور کے فصیح و بلیغ تبصرے کے بعد میری حقیر رائے کی کیا حیثیت ہے۔مگر مجھے اپنی پسندیدگی کے اظہار کا حق تو حاصل ہے۔
مجھے جناب نوید صادق کی غزل پڑھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا ہے۔بہت رواں اور خوبصورت غزل ہے۔ہر شعر ایسا ہے

’’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘

اشعار کو بھاری بھرکم الفاظ اور نامانوس تراکیب سے بوجھل نہیں کیا گیا۔اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔اور اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ سادگی کتنا کچھ جاننے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔

’’اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ‘‘کا کوئی بہتر بدل نہیں مل سکا۔سو پرانے لفظوں میں نئے دل سے دعا ہے۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!!!!

فرحت پروین
 

نوید صادق

محفلین
آصف شفیع لکھتے ہیں

آصف شفیع لکھتے ہیں:

ہما را عہد غلط تھا

ایک مدت سے نہ کچھ لکھا نہ سنا، حالانکہ میں پاکستان سے ابھی ہو کر آیا ہوں ، شاعروں سے ملاقات بھی ہوئی اور نوید صادق سے بھی بہت مختصر وقت کے لیے سہی مگر خالد علیم صاحب کے ہاں ملاقات ضرور ہوئی۔اس وقت وہ سید آلِ احمد کی کتاب چھپوا کر بہاولپور جا رہے تھے سننے سنانے کا موقع ہی نہیں ملا ورنہ عام طور پر اصرار کے بعد وہ دو تین غزلیں سنا دیا کرتے ہیں۔اگر معلوم ہوتا کہ انہوں نے اتنی اچھی غزل کہی ہوئی ہے تو سننے کا شرف ضرور حاصل کرتے۔ اس غزل میں نوید کے ہاں ایک عجب بے ساختگی اور تازہ کاری نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔یہ غزل عہدِحاضر اور اس کے مسائل کا آئینہ دکھائی دیتی ہے۔معاشرے کی زبوں حالی اور ذہنی شکستگی کی کیفیت اس سے زیادہ اختصار کیساتھ کیسے بیان کی جا سکتی ہے کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہونا چاہئیے تھا ،نہیں ہو رہا۔یہ شعر معاشرتی ناہمواری اور ناا نصافی کی منہ بولتی تصویر بھی ہے اور اس کے خلاف احتجاج بھی۔

ہمیں کسی سے شکایت نہیں کوئی، لیکن
جو چاہیے تھا نہیں ہو رہا ہمارے ساتھ

چوتھا شعر اپنے آپ سے اور معاشرے سے کٹ جانے کا عمدہ اظہار ہے۔بقول میر

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا

مقطع کو غزل کے مزاج کے حوالے سے حاصلِ غزل کہا جا سکتا ہے کہ اس میں شاعر یا اپنے آپ کو یا پورے عہد کو غلط قرار دے رہا ہے۔ہمارے عہد میں کون سا کام ہے جو ٹھیک ہو رہا ہے،شکست و ریخت اس قدر ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتاہے ۔مرحوم جمال احسانی نے بھی کچھ اسی قسم کا اظہار کیا تھا۔

تیرا انجام ہوا جو، وہی ہونا تھا جمال
اس جہاں میں تو کسی اور جہاں کا نکلا

جمال احسانی کا ایک اور شعر اسی حوالے سے۔

پھر کوئی ملال ہی غلط ہے
جب صورتِ حال ہی غلط ہے

مجمو عی طور پر یہ غزل نہ صرف عہدِ حاضر کے مسائل کا احا طہ کرتی ہے بلکہ فنی اور موضوعاتی اعتبار سے بھی تازہ کاری اور بے ساختگی کی نمایاں مثال ہے۔
محترمہ فرحت پروین کی رائے ڈسپلے نہیں ہوئی۔ان کی رائے کا انتظار رہے گا۔اسی طرح یعقوب آسی صاحب اور طارق بٹ صاحب کی گراں قدر آرا ابھی تک پڑھنے کو نہیں ملیں۔مسعود منور صاحب کی رائے پوری غزل کا احاطہ کر رہی ہے اور نہایت متناسب ہے۔
باقی احباب شاہین عباس ، رحمان حفیظ، خالد علیم اور باقی احمدپوری صاحب! سب کدھر ہیں؟
سب کی خدمت میں پر خلوص سلام۔

آصف شفیع
۱۲۔جون ۲۰۰۷ء
مکۃ المکرمہ ، سعودی عرب
asifshafee@hotmail.com
Cell: 0566382076
 

نوید صادق

محفلین
محمود شاہد لکھتے ہیں

محمود شاہد لکھتے ہیں:

نوید صادق کی غزل نظر نواز ہوئی۔
میں نے اس غزل کو کیفیت،اسلوب اور فکر کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلے حصے میں یہ دو شعر شامل کئے جاسکتے ہیں

یہ روشنی کا جو ہے سلسلہ ہمارے ساتھ
تو چل رہا ہے کوئی آئنہ ہمارے ساتھ

گلی کے موڑ پہ سرگوشیاں ہوئیں کچھ دیر
اور اس کے بعد کوئی چل پڑا ہمارے ساتھ

مذکورہ اشعار میں شاعرکی رجائیت پسند نگاہ اس کے اطمینان کا باعث بنتی ہے کہ اس کے ساتھ ایک روشنی کا سلسلہ ہے جو آئینہ کی صورت اس کے ساتھ چل رہا ہے ۔ اور روشنی کے اس سفر میں وہ اب اکیلا نہیں رہا۔اسے اس سفر میں ہم سفر بھی مل گیا ہے۔یہ دونوں شعر ایک دوسرے سے مل کر ایک افسانوی فضا تخلیق کرتے ہیں۔روشنی کا سلسلہ،آئینہ،گلی کا موڑ،سرگوشیاں،کوئی(شخص)۔ویسے پہلا شعر زبان،بیان اور معنی کے لحاظ سے ایک مکمل شعر ہے لیکن فکری سطح پر یہ غزل کے چھٹویں شعر سے اختلاط کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے۔

دوسرے حصے میں مندرجہ ذیل اشعارکو رکھا جاسکتا ہے۔

یہ ہاتھ یوں ہی تکلف میں اٹھ گئے ورنہ
جو ہوتا آیا ہے ہوگا سدا ہمارے ساتھ

کسی میں کوئی ادا تھی کسی میں کوئی ہنر
پہ کون چار قدم چل سکا ہمارے ساتھ

مگر یہ بات کسی اور سے نہیں کہنا
ہمارا ربط نہیں رہ سکا ہمارے ساتھ

ہمیں کسی سے شکایت نہیں کوئی لیکن
جو چاہئے تھا نہیں ہورہا ہمارے ساتھ

ان چاروں اشعار میں ایک ہی بات کا احساس ہوتا ہے کہ جو کچھ شاعر کے ساتھ ہورہا ہے اس پر شاعر کو اختیار نہیں ہے۔اس نے اپنے آپ کو وقت کے بہاؤ اور حالات کی رفتار کے حوالے کردیا ہے۔ان چاروں اشعار میں مختلف واقعات بیان کئے گئے ہیں لیکن ان واقعات کے اظہار کے لئے ایک جیسا لہجہ اپنایا گیا ہے۔یعنی زیریں لہر ان تما م اشعار میں ایک ہی احساس رواں ہے۔

آخری حصے میں مقطع شریک کیاجاسکتا ہے۔

ہمارا عہد غلط تھا کہ ہم غلط تھے نوید
قدم قدم پہ ہوا سانحہ ہمارے ساتھ

اس شعر میں شاعر اپنی رائے کوہمارے سامنے رکھنے کے قابل نظر آتا ہے۔وہ اپنے آپ سے سوال کرتے ہوئے ہماری رائے بھی جاننے کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے کہ بتائیں ۔’’ ہم‘‘ غلظ ہیں یا ’’ہمارا عہد‘‘۔ہم جن حادثات و سانحات کا اس دور میں شکار ہیں، اس میں یا توخود ہمارااپناقصور ہے یا پھر اس عہد کا جس میں ہم سانس لے ر ہے ہیں۔
پوری غزل میں ایک خاص کیفیت،ایک خاص درد اور ایک خاص فضا کا احساس ہوتا ہے اور شاعر اپنی باطنی دنیا کے اظہار میں کامیاب نظر آتا ہے۔

محمود شاہد
 
Top