مجلسِ ادب (15 مارچ تا 31 مارچ)2007ء

نوید صادق

محفلین
شرکائے بحث

شرکائے بحث

محمد یعقوب آسی ۔۔۔ ٹیکسلا
امجد شہزاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ کینٹ
مسعود منور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناروے
طارق بٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعودی عرب
فرحت پروین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکہ
 

نوید صادق

محفلین
غزل

غزل

سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے
شام ڈھلی تو دیپ جلانا بھول گئے

دل آنگن میں دھوپ غموں کی کیا پھیلی
جگنو آنکھوں میں مسکانا بھول گئے

تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے

صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے

لفظوں کو مفہوم بدلنا یاد نہیں
رنگ دھنک کی قوس سجانا بھول گئے

جب قحطِ اجناس ٹلا ، احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے

سسکی سسکی ہونٹوں کو مسکان کیا
پلکوں پلکوں باڑ لگانا بھول گئے

تیز ہوا کو خاک اُڑانا یاد رہا
بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے

بے صبری یادیں رستے میں آن مِلیں
ہم دیوانے گھر بھی جانا بھول گئے

بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لیئے
ہم بھی احمد گیت سُہانا بھول گئے

(محمد احمد)
 

نوید صادق

محفلین
جناب محمد یعقوب آسی کی رائے

جناب محمد یعقوب آسی غزل پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں:

اچھی کوشش ہے۔ محمد احمد کی یہ غزل (بھول گئے) ایک عام سی، سیدھی سادی رومانی کیفیات حامل غزل ہے۔

محمد یعقوب آسی
ٹیکسلا
 

نوید صادق

محفلین
جناب شہزاد امجد کی رائے

جناب امجد شہزاد لکھتے ہیں:

محمد احمد کی زیرِ بحث غزل میں نہ تو کوئی نئی بات سامنے آئی اور نہ ہی کوئی بات نئے ڈھنگ اور آہنگ سے کی گئی ہے۔ محمد احمد نوجوان شاعر ہیں۔ یہ بات قابلِ تحسین ہے ایک عام اور مستعمل بحر کی غزل میں انہوں نے دس اشعار نکالے اور فنی طور پر ان کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے۔
غزل کا مطلع اور چوتھا شعر پسند آیا۔ پانچویں شعر میں لفظوں کا مفہوم بدلنا سمجھ میں نہیں آیا۔ مزید یہ کہ اس شعر کے دونوں مصرعوں میں باہم ربط کی کمی ہے اور سمجھ نہیں آتا کہ یاد نہ رہنے اور بھول جانے کا سبب کیا ہے۔
مجموعی طور پر غزل روایت کے ساتھ جُڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔

امجد شہزاد
واہ کینٹ
 

نوید صادق

محفلین
جناب مسعود منور کی رائے

جناب مسعود منور کی رائے:

فکری ریاضت اور مجاہدۂ سخن
محمد احمد صاحب کی غزل گوئی سے پہلی بار تعارف ہوا ہے۔ دس اشعار کی یہ غزل اصولِ تذکیر و تانیث کا مجموعی عدد قائم کرتی ہے اور شاعر کی زبان سے گہری واقفیت پر استوار ہے۔
سارے فکری تلازمات جانے پہچانے ہیں۔لہجہ صاف ستھرا اور اُجلا ، بلکہ غایت درجہ واضح ہے۔ لگتا ہے ہر شعر کے باطن میں گہرے تیقن اور صراحت کی توانائی ہے۔بین السطور ایک گونہ بھولپن کا احساس ہے۔ گویا کوئی سخن ساز کمال معصومیت سے لفظوں کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے ۔ ذرا یہ شعر دیکھیے:
صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے ، جیسے آنا جانا بھول گئے
سہل ممتنع کی کتنی خوبصورت مثال ہے ۔ عبد الحمید عدم بے ساختہ یاد آتے ہیں ، مگر محمد احمد کے یہاں اپنا ایک الگ اسلوب وضع ہوتا محسوس ہوتا ہے ، جو عدم کی رندی و مستی سے الگ ایک حکیمانہ سی بصیرت لیے ہوئے ہے۔
اِس غزل میں بڑی لسانی موسیقیت ہے۔ لگتا ہے کوئی گائیک بڑی لگن اور انہماک سے گا رہا ہے اور غزل کے فکری متن پر اُس کا آہنگ اوور لیپ (Overlap)ہورہا ہے ۔ مجھے اِسی میں مزا آرہا ہے۔
دوستو! مجھے تو محمد احمد کی یہ غزل بہت اچھی لگی ہے۔اُمید کرتا ہوں وہ اپنی فکری ریاضت اور مجاہدۂ سخن طرازی سے اپنی پہچان پتھر کی لکیر کے مصداق ثبت کر سکیں گے۔

مسعود مُنّور
ناروے
 

نوید صادق

محفلین
جناب طارق بٹ کی رائے

جناب طارق بٹ غزل پر رائے دیتے ہیں:

محمد احمد کی غزل

شاعر کے لہجے میں تر و تازگی ہے ۔ الفاظ میں ایک نرماہٹ سی، دھیرے دھیرے کھلتی کلیوں کا سا احساس لیے۔ خوبصورت غزل ہے ۔ مطلع اورمقطع میں بہتری کی گنجائش ہے۔ دونو ں جگہ مصرع ثانی توجہ چاہتا ہے۔ مقطع میں ، بادِ صبا اور دریچے کی مناسبت سے کوئی بات ہونی چاہیے تھی۔ مطلع کا دوسرا مصرع ،فاعل ، چاہتا ہے۔ میں اسے یوں پڑھ رہا ہوں۔
( شام ڈھلے ہم دیپ جلانا بھول گئے)
پانچویں شعر کے معنی نہیں کھل سکے ، میں امجد شہزاد کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔
مجھے یہ اشعار بہت اچھے لگے۔ مطلع ۔۔ذرا سی تبدیلی کے بعد، ( شاعر سے معذرت)۔

صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے

سسکی سسکی ہونٹوں کو مسکان کیا
پلکوں پلکوں باڑ اگانا بھول گئے

طارق بٹ
 

نوید صادق

محفلین
محترمہ فرحت پروین کی رائے

محترمہ فرحت پروین کی رائے:

یہ سیشن بہت اچھا رہا۔سب نے نو آمدہ نوجوان شاعر کو بڑھے اچھے کمنٹس دئے۔جو اُن کا حوصلہ بڑھائیں گے اور اس میدان میں آگے بڑھنے کا شوق۔ مزید پیدا کریں گے۔میرا بھی ارادہ ان کی تعریف کرنے کا تھا مگر ان کے لئے دئے گئے کمنٹس پڑھ کرخوش ہو گئی اور ارادہ ترک کر دیا۔
جناب محمد احمد کی غزل تو مجھے بھی پسند آئی کہ اس میں اس قدر موسیقیت تھی کہ لفظ گنگناتے محسوس ہوتے تھے۔کوئی ذاتی فلسفہ نہیں تھا۔صرف احساسات تھے۔بڑے پیارے، دلنشین، معصوم۔مگر ایک بات جو میں نے محسوس کی وہ صرف اس غزل سے متعلق نہیں، ایک مجموعی تبدیلی ہے۔ہر وہ انسان جو قلم کے ساتھ مخلص ہے وہ کرافٹ میں کمزور ہو سکتا ہے( میری طرح) مگر وہ اپنے احساسات و جذبات کے اظہار میں ہمیشہ سچا ہو گا۔کیونکہ قلم صرف سچ ہے ، خدا کے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کردہ۔
آپ نے دیکھا ، وقت کتنا بدل گیا ہے۔اب تو

نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں، نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں

تو اب شاعری میں بھی وہ کیفیات نہیں، کوئی حدت نہیں، کوئی شدت نہیں۔بس ایک نیم گرم سی کیفیت ہے، ایک دھیمی دھیمی آنچ۔ جب فرصت ملی کچھ اچھی گھڑیوں کو یاد کر لیا، کسی خسارے پر ذرا افسردہ ہو لئے، تھوڑا سوچ لیا اور بس!!!
لفظوں سے مفاہیم کا رشتہ ٹوٹتا جا رہا ہے۔اب کسی کو ماتمِ یک شہرِ آرزو کی فرصت کہاں۔غزلوں میں سے زخمی غزال کی دردناک چیخ بھی نکل گئی ہے، اور ذکرِ غزال چشماں بھی۔مگر یہ بھی سچ ہے

فراق و ہجر کے موسم ہوئے پارینہ قصے اب
میسر ہیں بکثرت اب تو معشوقانِ شیریں لب

سو وقت ہی بدل گیا ہے اور وقت کی رفتار کو کس نے روکا ہے۔

فرحت پروین
 
Top