مجبوریاں ہیں اس کی وہ بے وفا نہیں ہے

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
------------
مجبوریاں ہیں اس کی وہ بے وفا نہیں ہے
اس نے مری وفا میں کیا کچھ کیا نہیں ہے
-----------
اپنے ہی آج اپنوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں
پہلے کبھی تو ایسا ہرگز ہوا نہیں ہے
--------
جس پر بغاوتوں کا الزام دے رہے ہیں
اس نے تو جرم ایسا کوئی کیا نہیں ہے
---------
بے خوف ہے وہ ایسا ڈرتا نہیں کسی سے
بے باک اس طرح کا رہبر ملا نہیں ہے
----------------
کی مارنے کی کوشش اس کو عدو نے اس کے
پھر بھی وہ دشمنوں سے ہرگز ڈرا نہیں ہے
-----------
وہ نام اب نہیں بس اک سوچ بن گیا ہے
لوگوں کے ذہن سے وہ ہرگز گیا نہیں ہے
------
وہ چھوڑ دے وطن کو ایسا نہیں ہے ممکن
پہلے کبھی بھی ایسا اس نے کیا نہیں ہے
---------
لوٹا مرے وطن کو اس کے محافظوں نے
کھا کھا کے پیٹ ان کا اب تک بھرا نہیں ہے
---------
ارشد کبھی نہ ان سے کوئی امید رکھنا
کھوٹے ہیں سب کے سب یہ کوئی کھرا نہیں ہے
-----------
 

عظیم

محفلین
مجبوریاں ہیں اس کی وہ بے وفا نہیں ہے
اس نے مری وفا میں کیا کچھ کیا نہیں ہے
-----------مجبوریاں کچھ فٹ بیٹھتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا، صرف "مجبور" لایا جائے کسی طرح تو بہتر ہو، فی الحال میرے ذہن میں بھی کوئی متبادل نہیں آ رہا، جو آ رہے ہیں متبادل ان میں بھرتی کے لفظ داخل کرنا پڑتے ہیں وزن پورا کرنے کے لیے
ہاں
مجبور ہو گا لیکن،...
اپنے ہی آج اپنوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں
پہلے کبھی تو ایسا ہرگز ہوا نہیں ہے
--------"پر" دوسرے حصہ میں چلا گیا ہے، یہ بحر بھی وہی ہے جس کے ہر ایک ٹکڑا میں بات مکمل ہونا چاہیے، دوسرے میں لفظ "تو" بھرتی کا لگتا ہے

جس پر بغاوتوں کا الزام دے رہے ہیں
اس نے تو جرم ایسا کوئی کیا نہیں ہے
---------الزام لگ رہا ۔۔۔ بہتر معلوم ہوتا ہے، یا، بغاوتوں کے الزام لگ رہے۔۔۔

بے خوف ہے وہ ایسا ڈرتا نہیں کسی سے
بے باک اس طرح کا رہبر ملا نہیں ہے
----------------یہ ظاہر ہو تو ہوتا ہے کہ کس شخص کے لیے ہے، مگر یہ صرف انہیں اشخاص پر واضح کہا جا سکتا ہے جو موجودہ پاکستانی سیاست کی تھوڑی بہت آگہی رکھتے ہیں، دونوں مصرعوں کا آپس میں ربط بھی کمزور لگتا ہے

کی مارنے کی کوشش اس کو عدو نے اس کے
پھر بھی وہ دشمنوں سے ہرگز ڈرا نہیں ہے
-----------ٹھیک، پہلے میں واحد عدو ہے تو دوسرے میں دشمن ہونا چاہیے میرا خیال ہے

وہ نام اب نہیں بس اک سوچ بن گیا ہے
لوگوں کے ذہن سے وہ ہرگز گیا نہیں ہے
------نام اب نہیں؟ یہ بے معنی بات لگتی ہے

وہ چھوڑ دے وطن کو ایسا نہیں ہے ممکن
پہلے کبھی بھی ایسا اس نے کیا نہیں ہے
---------"کبھی بھی" میں "بھی" کی ضرورت شاید نہیں ہوتی، کسی اور انداز میں کہا جا سکتا ہے یہ مصرع

لوٹا مرے وطن کو اس کے محافظوں نے
کھا کھا کے پیٹ ان کا اب تک بھرا نہیں ہے
---------ٹھیک لگتا ہے مجھے تو

ارشد کبھی نہ ان سے کوئی امید رکھنا
کھوٹے ہیں سب کے سب یہ کوئی کھرا نہیں ہے
یہ بھی
 
عظیم
(اصلاح )
------------
مجبور ہے وہ لیکن دل کا بُرا نہیں ہے
اس نے مری وفا میں کیا کچھ کیا نہیں ہے
--------
اپنے ہی آج ہم پر کیوں ظلم ڈھا رہے ہیں
پہلے کبھی وطن میں ایسا ہوا نہیں ہے
-----------
جس پر بغاوتوں کے الزام لگ رہے ہیں
---------یا
باغی بنا کے جس کو تم پیش کر رہے ہو
اس نے تو جرم ایسا کوئی کیا نہیں ہے
-----------یا
باغی اسے یوں کہنا ، الزام ہے سراسر
کوئی بھی کام ایسا اس نے کیا نہیں ہے
----------
بے خوف ہے وہ ایسا ڈرتا نہیں کسی سے
بے باک اس طرح کا رہبر ملا نہیں ہے
-------
جیسے وہ سوچتا ہے ہمدرد بن کے سب کا
ایسا عظیم لیڈر اب تک ملا نہیں ہے
-----------
بزدل نہیں کہ ڈر کر وہ چھوڑ دے وطن کو
وہ دشمنوں سے اپنے ہرگز ڈرا نہیں ہے
-----------
کی دشمنوں نے سازش یوں گھیرنے کی ہم کو
یہ راز اب جہاں سے ہرگز چھپا نہیں ہے
-------------
 

عظیم

محفلین
مطلع قابل قبول کہا جا سکتا ہے، مگر معذرت کہ کوئی خاص بات نہیں لگتی
دوسرا شعر بھی ٹھیک ہے

باغی بنا کے جس کو تم پیش کر رہے ہو
اس نے تو جرم ایسا کوئی کیا نہیں ہے
-----------
یہ بہتر ہے اور درست بھی

بے خوف ہے وہ ایسا ڈرتا نہیں کسی سے
بے باک اس طرح کا رہبر ملا نہیں ہے
-------
درست

جیسے وہ سوچتا ہے ہمدرد بن کے سب کا
ایسا عظیم لیڈر اب تک ملا نہیں ہے
-----------
اس میں مجھے کچھ دو لختی محسوس ہو رہی ہے۔

بزدل نہیں کہ ڈر کر وہ چھوڑ دے وطن کو
وہ دشمنوں سے اپنے ہرگز ڈرا نہیں ہے
-----------
قافیہ فٹ بیٹھتا ہوا معلوم نہیں ہوتا، "ڈرا ہوا" میرا خیال ہے کہ مکمل بیانیہ ہو گا، محض "ڈرا" عجز بیانی پیدا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے

کی دشمنوں نے سازش یوں گھیرنے کی ہم کو
یہ راز اب جہاں سے ہرگز چھپا نہیں ہے
"یوں" وضاحت طلب ہے، یعنی کس طرح
کی دشمنوں نے سازش، ہم کو جو گھیرنے کی... دوسرے مصرع کا پہلے سے ربط نہیں بن رہا، "یہ راز" بھی ایک راز ہی لگ رہا ہے، یعنی واضح نہیں
 
مجبور ہے وہ لیکن دل کا بُرا نہیں ہے
اس نے مری وفا میں کیا کچھ کیا نہیں ہے
ہے جبر وقت کا پر وہ بے وفا۔۔،نہیں ہے
رگ رگ میں ہے سمایا دل سے جُدا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ایک شاعرانہ پینترا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مصرعوں کی ترتیب بدل دیجیے ۔ اوپر والا نیچے لے آئیں اور نیچے والا اوپر


رگ رگ میں تو سمایا دل سے جُدا نہیں ہے
۔۔۔۔۔کس لب پہ تیرے حق میں حرفِ دعا نہیں ہے
 
آخری تدوین:
Top