مثبت ذہنی رویہ یا مثبت سوچ

مثبت ذہنی رویہ [Positive mental attitude (PMA)] کا تصور سب سے پہلے 1937 میں نپولین ہل (Napoleon Hill) نے اپنی کتاب تھنک اینڈ گرو رچ (Think and Grow Rich) میں متعارف کرایا تھا۔

کتاب میں حقیقتاً مثبت ذہنی رویہ ((PMA) کی اصطلاح کا استعمال نہیں کی گئی لیکن زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ایک اہم عنصر کے طور پر مثبت سوچ کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس کے بعد 1960 میں نپولین ہل (Napoleon Hill) مشترکہ انشورنس (Combined Insurance) کمپنی کے بانی ، ولیم کلیمنٹ اسٹون (William Clement Stone) کے ساتھ مل کر ’’مثبت ذہنی رویہ کے ذریعے کامیابی‘‘ (Success Through a Positive Mental Attitude) نامی کتاب لکھی جس میں مثبت ذہنی رویہ کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔

مثبت ذہنی رویہ وہ فلسفہ ہے جو انسان کو ذہنی اور جسمانی صحت اور کامیابی کیلئے ہر حال میں مثبت سوچ اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ جو انسان ہر حال میں مثبت ذہنی رویہ اختیار کرتا ہے وہ اپنی اور دوسروں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی اور کامیابی لاتا ہے۔ مثبت سوچنے والے انسان ہر حال میں پر امید اور خوش رہتے ہیں۔ ہر حال میں پرامید رہنا مثبت سوچ کی اساس ہے۔

مثبت سوچ کی متعضاد منفی سوچ ہے جو شکست، ناکامی، ناامیدی، غصہ، بد مزاجی ، مایوسی ، دوسروں کو ذلیل کرنے کی خواہش وغیرہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔

’’ (Positive mental attitude (PMA) ‘‘ بعد میں’’Positive Thinking‘‘ کی نئی اصطلاح سے مشہور ہوئی اور اردومیں ’’مثبت سوچ‘‘ کی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے جو کہ ’’Positive Thinking‘‘ کا بس ترجمہ ہے جبکہ ’’حسن ظن یا نیک گمان‘‘ سے تعبیر کیا جانا زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ ’’حسن ظن یا نیک گمان‘‘ کی اصطلاح ہمارے دین اسلام میں پہلے دن سے موجود ہے اور اس بارے میں ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث بھی موجود ہیں۔

1960 کے بعد مغربی ممالک میں ’’مثبت سوچ‘‘ کے موضوع پر ایک انقلاب آگیا۔ بے شمار

موٹیویشنل اسپیکرز (Motivational Speakers) اور لائف کوچز (Life Coaches) وغیرہ نے لوگوں کو ’’مثبت سوچ‘‘ کی تربیت دینے کیلئے ٹریننگ سینٹرزقائم کیں، بے شمار کتابیں لکھیں اور بہت سارے سیمینار اور ٹریننگ وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو مثبت سوچنے اور کامیابی کے زینے پر چڑھنے میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی کامیاب ہوئے۔

مغربی ممالک کے ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ورکرز کی پروڈکٹیویٹی (Productivity) بڑھانے کیلئے ’’مثبت سوچ‘‘ کے موضوع پر ٹریننگ کی انعقاد کرواتے رہتے ہیں۔ میں جب دبئی میں تھا تو مجھے بھی اپنی کمپنی کی طرف سے اس طرح کی بعض ٹریننگ میں حصہ لینے کا موقع ملا تھا۔

پاکستان میں بھی پچھلے چند سالوں سے بعض موٹیویشنل اسپیکرز (Motivational Speakers) نے ’’مثبت سوچ‘‘ کے موضوع کو اپنی ٹریننگ کا حصہ بنایا ہوا ہے لیکن ابھی اس موضوع پر بہت کام ہونا ہے۔

میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ اس موضوع پر لکھا جائے۔ بعض دوستوں سے مشورہ کیا تو سب نے سراہا۔

جیسا کہ اوپر بیان کر چکا ہوں کہ جدید دنیا 1960 کے بعد مثبت سوچ اپنانا سیکھا جبکہ اسلام 1400 سال پہلے سے ہی اپنے ماننے والوں میں مثبت سوچ پیدا کرتا چلا آرہاہے۔ مجھے قرآن و سنت کی ہر تعلیم انسان کو مثبت سوچ دینے والی ملی۔

قرآن وسنت میں کسی بھی مقام پر کوئی ایسا کوئی مواد نہیں ملتا جو انسان کو مثبت کے بجائے منفی سوچ دیتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی مثبت انداز فکر اپنایا اور مثبت قدم اٹھایا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اسی مثبت سوچ اور مثبت اقدام کے ذریعے ساری دنیا میں اپنی فتوحات سکے جمائے اور دنیا و آخرت کے کامیاب ترین انسان بنے۔

مغرب میں مثبت سوچ کے موضوع پر جو کچھ ابھی تک کہا یا لکھا گیا ہے ہمارے پاس قرآن و سنت اور سلف صالحین کی تعلیمات میں اس سے کہیں زیادہ مواد موجود ہے۔ لہذا میں نے سوچا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے بارے میں میں جو کچھ لکھتا ہوں کیوں نا اسے جدید دنیا کی نئی اصطلاح ’’مثبت سوچ‘‘ کے ساتھ ہم آہنگ کردو۔ میرا علم تو وسیع اتنا نہیں، بس اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کچھ لکھ لیتا ہوں۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ میرے اور آپ کے علم میں برکت دے اور اس علم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بھی دے۔ آمین۔

تحریر: محمد اجمل خان
۔
 
نمبر 1: حوصلہ دیجئے اور مثبت سوچ پیدا کیجئے

آپ ﷺ غار حرا میں ہیں۔

اللہ کا ایک فرشتہ آتا ہے اور کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ کہتے ہیں: میں پڑھنا نہیں جانتا
یہ سن کر فرشتہ آپ ﷺ کو زور سے بھیچتا ہے، پھر چھوڑ کر کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ دوبارہ وہی جواب دیتے ہیں کہ : میں پڑھنا نہیں جانتا
فرشتہ آپ ﷺ کو پکڑ کر دوسری بار بھیچتا ہے اور کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ تیسری مرتبہ بھی وہی کہتے ہیں: میں پڑھنا نہیں جانتا
اب تیسری بار فرشتہ آپ ﷺ کو پکڑ کر اس زور سے بھیچتا ہے کہ آپ ﷺ کو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے اور چھوڑ کر پھر کہتا ہے:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (١) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (٢) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (٣) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (٤) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (٥) سورة العلق
’’ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا (1) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا (2) پڑھیئے کہ آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے (3) جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا (4) جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا (5)‘‘۔ سورة العلق

پھر آپ ﷺ فرشتہ کے ساتھ ساتھ ان کلمات کو دھرانے لگتے ہیں۔ آپ ﷺ کے قلب مقدس پر وحی کی نزول کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ دل پر دباؤں ہے، لرزا طاری ہے، خوف کا غلبہ بھی ہو رہا ہے, سارا جسم کانپ رہا ہے۔ اسی حالت میں وحی مقدس پڑھتے ہوئے غار حرا سے اتر کر آ رہے ہیں۔ آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لاتے ہیں اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ سے فرماتے ہیں:
’’ مجھے کمبل اوڑھا دو‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’ مجھے کمبل اوڑھا دو‘‘
آپ ﷺ کو کمبل اوڑھا دیا جاتا ہے۔

جب آپ ﷺ کو کچھ سکون ہوتا ہے تو آپ ﷺ حضرت خدیجہؓ سے سارا واقعہ بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’میری جان کو خطرہ ہے‘‘۔
حضرت خدیجہؓ کہتی ہیں:
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا‘‘۔
کیونکہ
1. آپ (ﷺ) تو صلہ رحمی کرتے ہیں،
2. ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں،
3. محتاجوں کے لئے کماتے ہیں،
4. مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور
5. حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں،

اس بار نبی کریم ﷺکافی پریشان ہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کو اتنا پریشان ہوتے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ایسی حالت میں عام طور پر خواتین خود پریشان ہوکر ہاتھ پاؤں چھوڑ دیتی ہیں۔ لیکن آپ ﷺ کی وفا شعار عقیلہ و فہیمہ بیوی یہ سمجھ گئیں کہ یہ موقع حوصلہ کھونے کا نہیں بلکہ حوصلہ دینے کا ہے۔ آپ جانتی تھیں کہ ایسے موقع پر شوہر کو توجہ اور پیار چاہئے ہوتا ہے، بیوی کو شوہر کا سہارا بننا پڑتا ہے اور شوہر کے دل میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا آپؓ نے وہی کیا۔

دیکھئے ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کس خوبصورت انداز میں آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی اچھائیاں اور خوبیاں یاد دلاتی ہیں اور آپ ﷺ کے دل میں مثبت سوچ پیدا کرتی ہیں۔ آپؓ اپنے اس عمل سے امت کو کسی کے دل میں اور خاص کر امت کی بیٹیوں کو اپنے شوہروں کے دلو میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی قاعدہ کلیہ سکھا دیتی ہیں، جس سے امت قیامت تک فائدہ اٹھاتی رہے گی، ان شاء اللہ۔

قاعدہ: کسی میں مثبت سوچ پیدا کرنے کیلئے اُسے اسکی نیکیاں، اچھائیاں اور خوبیاں یاد دلائیے اور حوصلہ دیجئے۔

یاد رکھئے: مثبت سوچ زندگی سنوارتی ہے اور کامیابی دلاتی ہے دنیا و آخرت دونوں میں۔

تحریر: محمد اجمل خان

۔
 
نمبر 2 : علماء کی رفاقت مثبت سوچ دیتی ہے

اپنی طرف سے آںحضرت ﷺ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرنے کی پوری کوشش کے بعد مزید تسلی کے لیے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں۔

ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہؓ کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانۂ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ (انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے (ﷺ ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے۔

ورقہ بن نوفل نے آنحضرت (ﷺ) سے دریافت کیا: ’’بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ‘‘۔

چنانچہ آپ ﷺ نے ورقہ بن نوفل کو غار حرا میں پیش آنے والا سارا وقعہ اول تا آخر سنا دیا۔

جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ ’’یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش! میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا: ’’کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں)‘‘۔

ورقہ بن نوفل نے جواب دیا: ’’ہاں ایسا ہی ہوگا، یہ سب کچھ سچ ہے۔ کیونکہ جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی بھرپور مدد کروں گا‘‘۔ (مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے)۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت خدیجہؓ کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے جائیں تاکہ اُن کی طرف سے آپ کو یہ یقین دہانی کرادی جائے کہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات پر جو یہ واقعہ اچانک گزرا ہے، درحقیقت وحی الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء پر نازل کرتے رہے ہیں تاکہ آپ کے دل سے منفی سوچ جیسے خوف و خدشات وغیرہ دور ہو جائے (جو اس واقعے کے سبب آپ کے دل و دماغ میں چھائے ہوئے تھے) اور آپ کا دل مظبوط ہو اور اس میں نبوت کا بارِگراں اٹھانے کیلئے مثبت و تعمیری سوچ پیدا ہو جائے۔

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ

’’مشکل حالات میں علم والے سے مشورہ کرنا چاہئے‘‘۔

یعنی جب بھی کوئی ایسا معاملہ در پیش ہو جس کا مثبت حل ہمارے پاس نہ ہو تو ہمیں ایسے علم والے سے رجوع کرنی چاہئے جو بہتر اور مثبت مشورہ دے سکے۔۔ یہ کلیہ دین و دنیا دونوں معاملوں کیلئے ہے، لیکن دین کے معاملے میں خاص ہے کونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

۔ ۔ ۔ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (43) سورة النحل
۔ ۔ ۔ اگر تم نہیں جانتے ہو تو علم والوں سے پوچھ لیا کرو(43) سورة النحل

علم والوں کی صحبت بہت مبارک صحبت ہے۔ علما کی مجالس میں بیٹھنے سے دلوں میں خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے، گناہوں سے بچنا ممکن ہوتا ہے اور عبادت میں دل لگتا ہے۔ جب تک انسان علما کی صحبت میں رہتا ہے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی رہتا ہے اور ذہن میں مثبت اور تعمیری سوچ پروان چڑھتی رہتی ہے۔

لیکن افسوس کہ علما کو گالی دینا آج کل کے ماڈرن نوجوانوں کا فیشن بن گیا ہے جو کہ منفی رویہ اور منفی سوچ کا نتجہ ہے۔ دین و دنیا کی کامیابی کیلئے اسے مثبت سوچ سے بدلنا ضروری ہے۔

یاد رکھئے! علما کو گالی دینے والے علم سے محروم اور دین سے دور ہوجاتے ہیں اور دنیا و آخرت کی ذلالت ان کی مقدر بن جاتی ہے۔ اس لئے کسی بھی صاحب علم کو گالی دینے والے توبہ کریں۔

آج کل تو کسی علم والے کی مجالس کا ملنا بڑے نصیب کی بات ہے اور اگر کسی ایسے عالم کی مجالس میں بیٹھنے کا موقع مل جائے جن میں درج ذیل چار خصوصیات ہوں تو اور بھی نصیب کی بات ہے:

1) عالم باعمل اورباکردار ہوں۔
2) علومِ شریعہ پر عبور ہو۔
3) غور و خوص، تفکّر و تدبّر کے حامل ہوں۔
4) امَربالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوں۔

لہذا علما کو اپنا رفیق بنائیے اور ان کی صحبت اختیار کیجئے۔
علم والوں سے پوچھنا اپنا شعار بنا لیجئے وہ آپ کو مثبت سوچ دیں گے۔

یاد رکھئے: علما کی رفاقت مثبت سوچ دیتی ہے
اور

مثبت سوچ زندگی بناتی ہے، کامیابی دلاتی ہے

تحریر: محمد اجمل خان
۔
 
نمبر 3 : ’’ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگئے‘‘ اور مثبت سوچ اپنائیے

مغربی اقوام یہ جانتی ہیں
کہ
Nothing is Free in This World
’’ اس دنیا میں "فری" کچھ بھی نہیں ہے‘‘
اور وہ اس بات کو سمجھتی اور عمل کرتی ہیں۔
مغرب میں لوگ فی گھںٹہ کے حساب سے کام کرتے ہیں۔
دفتری اوقات میں وہ اپنا کوئی پرئیویٹ کام نہیں کر سکتے ہیں۔
جتنا وقت وہ کام کرتے ہیں اتنا ہی وقت کی انہیں ادائگی کی جاتی ہے۔
اس معاملے میں وہ سب بڑے ایماندار ہیں اور ایمانداری سے کام کرتے ہیں۔
وہ وقت کی اہمیت اور قیمت کو سمجھتے ہیں، اس لئے وقت ضائع نہیں کرتے۔
وہ وقت کو تو وہ اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز، سب سے قیمتی کرنسی سمجھتےہیں۔
لیکن افسوس کہ ہم مسلمان جنہیں دن میں پانچ وقت وقت پر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے،
وقت کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتے، وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے، وقت کوئی قیمت نہیں سمجھتے۔

اس دنیا میں "فری" کچھ بھی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ یہ اصل میں اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔
لیکن ہم نے اسے بھلا دیا اور کافروں نے اسے اپنا لیا جس طرح ہماری بہت سی دوسری اچھائیاں انہوں نے اپنا لی ہے۔
تو میں کہہ رہا تھا کہ
’’اس دنیا میں "فری" کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ ۔ ۔
یہ پڑھ کر شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آپ سے اپنی اس تحریر کی کچھ قیمت مانگوں گا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بے شک میری یہ تحریر بھی ’’فری‘‘ نہیں ہے لیکن اس قیمت مجھے میرا رب عطا کرے گا اور میرا رب جو سارے کائنات کا اکلوتا بادشاہ ہے وہ جب عطا کرے گا تو اپنی شان کے مطابق عطا کرے گا۔

لہذا ’’اس دنیا میں "فری" کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ ۔ ۔

دنیا میں جو بھی ہمارے پاس ہے اور دنیا کی جس چیز سے بھی ہم مستفید ہوتے ہیں وہ سب ہم پر ہمارے رب کی نعمتیں ہیں۔
ان میں چیونکہ زیادہ تر نعمتیں جیسے ہوا، پانی، سورج، چاند، ستارے، روشنی، اندھیرا، سانس کا آناجانا، رگوں خون کا ہمیں بغیر محسوس ہوئے دوڑنا، غذا کا بغیر کسی مشقت کے پیٹ میں ہضم ہوجانا وغیرہ وغیرہ ہمیں ’’فری‘‘ میں ملی ہوئی ہے لیکن اصل میں ان میں کوئی چیز بھی ’’فری‘‘ نہیں ہے۔

کیونکہ ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کل قیامت کے دن ہم سے ہر نعمت کے بارے پوچھا جائے گا اور ہمیں ہر نعمت کا حساب دینا ہوگا تو جس چیز کا حساب دینا ہو وہ ’’فری‘‘ کیسے ہو گیا۔

اگر صرف اس ایک بات کو ہم مسلمان سمجھ لیتے تو ہماری دنیا و آخرت بن جاتی، مسلم ملک و معاشرے سے ساری برائیاں اور سارے کرپشن ختم ہوجاتے۔

کافر تو صرف مادی چیزوں کے بارے میں سمجھتا ہے کہ ’’فری‘‘ نہیں۔ لیکن ہم مسلمانوں کیلئے یہ تو بڑا گمبھیر معاملہ ہے، یہاں تو جسمانی، ذہنی، روحانی کوئی بھی چیز ’’فری‘‘ نہیں، یہاں تک کہ ہمارے دلوں میں آتے جاتے خیالات بھی ’’فری‘‘ نہیں، ہماری سوچ بھی ’’فری‘‘ نہیں۔

اس لئے ہمیں اپنی سوچ کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں مثبت سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دلوں میں منفی سوچ کا یلغار تو ہوگا کیونکہ ”شیطان انسان کے بدن میں ایسے پھرتا ہے جیسے خون پھرتا ہے“۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 5678، ترقیم فوادعبدالباقی: 2174)

اور یہ شیطان ہی ہے جو ہمیں وسوسے میں ڈالتا ہے جس سے ہمارے اندر منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ لیکن منفی سوچ اس وقت تک نقصاندہ نہیں جب تک ہم اسے زبان پر نہیں لاتے یا اس پر عمل نہیں کرتے کیونکہ

ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ انہیں عمل میں یا زبان پر نہ لائیں۔“ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 2528)

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّ۔هِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (36) سورة فصلت
’’اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناه مانگ لیا کرو یقیناً وه بہت ہی سننے واﻻ اور جاننے واﻻ ہے‘‘۔ (36) سورة فصلت

لہذا جوں ہی دل میں کوئی شیطانی وسوسہ اور منفی سوچ پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگئے یعنی ’’ أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم‘‘ پڑھئے، سورة الناس پڑھئے اور اپنی سوچ کو مثبت بنائیے۔

اصول: منفی سوچ کو ختم کرنے کیلئے ’’ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگئے‘‘ اور مثبت سوچ اپنائیے۔

یاد رکھئے: مثبت سوچ زندگی بناتی ہے

تحریر: محمد اجمل خان۔
۔
 
نمبر 4: احساسِ ذمہ داری سے مثبت سوچ

دین سے دوری کا نتیجہ انسان کے ذہن میں منفی سوچ پیدا کرتا ہے۔ بعض مرد حضرات اپنے بیوی بچوں کو کہہ دیتے ہیں:
’’میں نہ کماؤں تو تم سب بھوکے مر جاؤ‘‘۔
یہ منفی سوچ ہے اور خالق کو ناراض کرنے والی بات ہے۔
سارے جہان کی پرورش کرنے والا اور سب کو رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ فرمایا:

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّ۔هِ رِزْقُهَا ۔ ۔ ۔(6) سورة هود

’’زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو‘‘ ۔ ۔ ۔(6) سورة هود

اور یہ بھی فرمایا:

إِنَّ اللَّ۔هَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ﴿٥٨﴾ سورة الذاريات
’’بیشک اﷲ ہی رزق دینے والا ہے، بڑی قوت والا (اور) زبردست ہے‘‘(58)۔ سورة الذاريات

ہم اور آپ تو صرف وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔
لہذا مثبت سوچ رکھیں۔
اپنے رب کو چیلنج نہ کریں۔
اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔

فرمانِ الٰہی ہے:

لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّ۔هُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّ۔هُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّ۔هُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧﴾ سورة الطلاق
’’اور کشادگي والا اپنی کشادگي کے مطابق خرچ کرے اور جس کے رزق میں تنگی ہے وہ اسی میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے کہ اللہ کسی نفس کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے جتنا اسے عطا کیا گیا ہے، عنقر یب اللہ تنگی کے بعد آسانی اور کشادگی پیدا کرے گا‘‘(7)۔ سورۃ الطلاق

اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل وعیال کا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے‘‘۔ (بخاری ومسلم)

جب انسان اپنی ذمہ دارویوں کو سمجھتا ہے تو اسے انجام دینا آسان ہو جاتا ہے۔ اپنی بیوی، بچے اور والدین وغیرہ کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، رہائش وغیرہ، یہ سب کچھ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر آج آپ کی رزق میں تنگی ہے تو مثبت انداز میں اپنی اخراجات کم کرنے کی اور اپنی آمدنی بڑھانے کی سوچئے۔ اگر آپ کسی اور وجہ سے پریشان ہیں تو اس کا حل ڈھونڈھئے۔ منفی سوچ کو ذہن میں لاکر اس کا غصہ اپنے گھروالوں پر نہ نکالئے۔ اور اللہ کی ناشکری اور نافرمانی کرنے سے بچئے۔

جب آپ اپنی ذمہ دارویوں کو سمجھیں گے تو آپ میں مثبت سوچ پیدا ہوگی اور آپ کو منفی سوچ سے نجات ملے گی۔ مثبت سوچ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچائے گی اور آپ کو ایک اچھا انسان بننے میں مدد دے گی۔ نتیجتاً آپ اپنے گھر والوں سے اچھے اخلاق سے پیش آ سکیں گے۔

یاد رکھئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں‘‘۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 3895)

اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:

”ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو“۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر: ١١٦٢)

لہذا سب سے بہتر اخلاق والا بننے کیلئے ہمیں اپنے گھر میں بہتر برتاؤ کرنا ضروری ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا تفویض کردہ احساسِ ذمہ داری سے ہی ممکن ہے۔ جب انسان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے تو اس میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے۔ مثبت سوچ سے کام میں لگن اور ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔

لہذا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کریں۔ مثبت سوچ سے ہی انسان اچھے اخلاق والا بن سکتا ہے۔

اصول: ذمہ داریوں کو سمجھنا، مثبت سوچ کیلئے ضروری ہے۔

تحریر: محمد اجمل خان
۔
 
نمبر 5 : مثبت سوچ - دل کو اسکی غذا دیجئے

جب ہم پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ کوئی کام کرتے ہیں جیسے کوئی کتاب پڑھنے، یا کچھ اور کرتے ہیں تو ہمارا ذہن پوری طرح اسی کام میں لگا رہتا ہے اور اِدھر اُدھر کی کوئی اور خیال اس میں نہیں آتا، کسی اور سوچ کا ذہن پر یلغار نہیں ہوتا۔ لیکن جوں ہی ہم انہماکیت سے نکلتے ہیں یا ہمارا توجہ بٹتا ہے یا ہماری مصروفیت ختم ہوتی ہے تو ہمارے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

انگریزی کی ایک کہاوت ہے: ’’Empty Mind is Evil’s Workshop’’

یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جب آدمی فارغ یا بیکار رہتا ہے تو اس کا ذہن خالی رہتا ہے اور اس وقت اس کے ذہن میں زیادہ تر منفی سوچ ہی پیدا ہوتی ہیں۔ ہماری سوچ کا مرکز ہمارا دل ہے۔ سوچ سے کبھی کوئی دل خالی نہیں رہتا۔ چاہے ہم جاگے ہوں یا سوئے ہوں، ہمارا دل ہر لمحہ سوچتا رہتا ہے اور جو سوچتا ہے اسے ہمارے ذہن کو بھیجتا رہتا ہے۔

اگر ہمارے دل کو اسکی غذا ملتی رہے اور وہ تندرست و توانا ہو تو اس میں مثبت اور تعمیری سوچ پیدا ہوتی ہے اور اگر دل کو اس کی صحیح غذا نہیں ملے تو وہ بیمار ہو جائے تو وہ شیطان کا مسکن یا ورکشاپ بن جاتا ہے پھر اس میں زیادہ تر منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔

لہذا مثبت سوچ کیلئے دل کو اس کی صحیح غذا دینا اور اسے اس کی مناسب کام میں لگائے رکھنا اور حرام و مشتبہ کام سے بچائے رکھنا ضروری ہے۔

ہمارے دل کی غذا ’’ایمان اور تقویٰ‘‘ ہے۔ لہذا مثبت سوچ کیلئے دل کو اسکی غذا دیجئے اور اپنے دل کو صحیح کیجئے۔

کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’یاد رکھو انسانی جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے، سن لو! وہ دل ہے‘‘۔ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 52)

پھر آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل صحیح نہ ہو‘‘۔(مسند احمد)

ایمان کیا ہے؟
توحید و رسالت کی گواہی کے ذریعے دین کے دائرے میں داخل ہونا اسلام ہے اور اسلام کو دل میں بسا لینے کا نام ایمان ہے۔ یا یوں سمجھیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی تمام باتوں کا یقین کرنے اور دل سے سچ جاننے کا نام ایمان ہے۔ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل میں ایمان ہے یا نہیں، اسے صرف اللہ جانتا ہے لیکن یہ بندۂ مومن کے قول و عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔

تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ کا مطلب ہے پرہیز گاری، نیکی اور ہدایت کی راہ۔
تقویٰ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت، رغبت، خوف و خشیت کے ملے جلے اُس کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ کر گناہوں کو چھوڑنے اور احکام الٰہی کوبجا لانے کا پختہ عزم و ارادہ پیدا ہوتا ہے اور پھر بندے کا عمل بھی اسی کے مطابق ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم میں تقویٰ کا اطلاق تین معنی میں ہوا ہے ۔

خوف وخشیت الہٰی
طاعت وعبادت
معاصی اور گناہ سے اجتناب

آپ ﷺ نے اپنے قلبِ اطہر کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا! ’’ تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے‘‘ ۔ (صحیح مسلم)

جب دل کو اخلاص کا تڑکہ کے ساتھ ’ایمان‘ اور ’تقویٰ‘ کی روشنی مل جاتی ہے تو وہ تندرست و توانا ہو جاتا ہے اور اسکی تندرستی ے آثار بندۂ مومن کے اعضاء وجوارح پر ظاہر ہوتے ہیں۔ پھر بندۂ مومن جب نماز، روزہ، عمرہ و حج، ذکاۃ، ذکر و اذکار، قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور و تدبر، علما و صالحین کی صحبت وغیرہ کے ساتھ اپنے دل کو مطلوب کام میں لگائے رکھتا ہے تو ایسا دل مثبت اور تعمیری سوچ میں لگ جاتا ہے اور وہ شیطان کا مسکن یا ورکشاپ نہیں بنتا۔

ذیل کی آیات ان ہی باتوں کو بیان کرتی ہیں:

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّ۔هِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّ۔هِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (28)۔ سورة الرعد
’’(یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے تسکین ملتی ہے۔ یاد رکھو ذکرِ الٰہی سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘(28)۔ سورة الرعد

۔ ۔ ۔ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّ۔هِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّ۔هُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (11) سورة التغابن
’’۔ ۔ ۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے‘‘۔(11) سورة التغابن

وَمَن يَتَّقِ اللَّ۔هَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (2) سورة الطلاق
’’اورجو کوئی تقویٰ الٰہی اختیار کرتا ہے اللہ اس کیلئے (رنج و غم سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دیتا ہے‘‘۔(2) سورة الطلاق

یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایمان اللہ تعالی کی اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔

نَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّ۔هُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) سورة الأنفال
’’بیشک مومن تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘‘۔(2) سورة الأنفال

اللہ اکبر! ایمان اور تقویٰ مومن کا کتنا عظیم ہتھیار ہے۔

لہذا جس دل میں ایمان اور تقویٰ جتنا زیادہ ہوگا، اس میں منفی سوچ کا گزر اتنا ہی کم ہوگا۔
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دل لگاتے ہیں، ان کے دلوں میں مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے۔

اصول: ایمان، تقویٰ اور عبادتِ الٰہی مثبت سوچ پیدا کرتی ہے۔

مثبت سوچ زندگی بناتی ہے، کامیابی دلاتی ہے

اے اللہ ہمارا ایمان بڑھا دے، ہمارے دلوں میں تقویٰ پیدا فرمادے اور ہمیں اپنی عبادت میں مصروف رکھ تاکہ ہم مثبت سوچیں اور مثبت کام کریں۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان

۔*
 
Top