متاع ِ روح ۔۔۔۔۔۔۔ از س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین
متاع ِ روح
س ن مخمور


تمام زندگی خوف کے سائے میں اور چوکیداری میں گزر گئی تھی، میں پل پل اس کو اپنے سینے سے لگائے، اپنی گرفت میں لئے جیا تھا۔ دنیا کے جھمیلوں میں الجھ کر بھی پل کو میں اس سے غافل نہیں ہوا تھا، وہ مجھے میری جان سے زیادہ عزیز تھا، دنیا ایک عدو کی صورت میرے ساتھ تھی کہ بس پل کو میں غافل ہوں اور وہ اپنا وار کر جائے مجھے اس سے محروم کر جائے ، مجھے اس کے بنا جینے میں مشغول کر جائے، میں تھک چکا تھا ، فرار کی آس میں نجات کا انتظار آنکھوں میں سجائے ہر آن جیا تھا۔ مگر جیسے جیسے میں عمر گزار رہا تھا زاد ِ سفر بڑھتا جا رہا تھا اوروہ میری گرفت سے پھسل رہا تھا، آخر ایک روز تنگ آکر میں نے اپنے ہاتھوں میں تھامی ضروریات کی دیگر اشیا راہ سفر پرگرا دیں۔ آنکھ کو خیرہ کرتا ، دل کو کھینچتا ، طلب کی پیاس بڑھاتا دنیا کا حسن مجھ کو نہ صرف سرور اور شادابی کے سنہرے خواب میں الجھا رہا تھا بلکہ دھیرے دھیرے اس کے حصول کا طالب بنا رہا تھا، اور آخیر کیوں ناں طلب ہوتی دنیا جینے کے لئے ہے اور یہ کیا بات ہوئی کہ خاک کا انساں خاک ہی کو اپنا بچھونا بنائے رکھے اور خاک ہی کو اوڑھ لے ، عجب جبر پرستی رہی یہ تو، خود اپنے آپ کو سزا دینا، بس اسی طرح کے دلائل ہر گزرتا پل میری سماعت کی نذر کررہا تھا اور پھر من میں چنگاری بھڑک اٹھی، میں دنیا والوں کے ساتھ مل گیا، تنہائی تمام ہوگئی، حقیقت خواب اور خواب حقیقت میں تبدیل ہوگئے۔ میں نے پھر اپنی بانہیں کھول دیں تاکہ دنیا سے بغل گیر ہو سکوں اب وہ اپنے ہی ہاتھوں میرے سینے سے چمٹا ہوا تھا، دنیا نے اپنی مضبوط گرفت سے اس کو مجھ سے الگ کرنا چاہا تو یک دم روح تکلیف سے بلبلا گئی اور میں نے اپنی کھلی بانہیں بند کرلیں اور اس کو مضبوطی سے اپنے سینے سے لگا لیا۔

” نہیں میں اسکو اپنے آپ سے الگ نہیں کر سکتا ، میں اس کے بنا نہیں جینا چاہتا“

میں نے یہ کہتے ہوئے اپنی آنکھیں نوچ ڈالیں جن کے رستے دنیا میرے دل میں گھر کر رہی تھی، میں نے ململ سے بدن کو پرے کیا ، ریشم سی گھنی زلفوں کے سائے سے نکل کر تیز اور جھلسا دینے والے سورج کی آگ میں پناہ گزین ہو گیا۔ میری آنکھوں میں اندھیرا تھا، تکلیف سے روح کانپ رہی تھی مگر من پرسکون تھا، میں ایک طوفان سے گزر کر آیا تھا، دنیا کے ٹھگوں سے بچ کر، مگر اب انگ انگ ڈوب چکا تھا سیاہی میں، مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، ایک پچھتاوا تھا کہ میں نے کیوں تنہائی سے محفل کا رخ کیا، ذرا دیرٹھہرتا تو میری ہی تنہائی خود ایک انجمن بن جاتی۔ مگر صد افسوس میں دنیا کے ٹھگوں کے ہاتھوں آگیا اور اغیار کی چالوں سے بچنے کی خاطراپنی آنکھیں نوچ ڈالیں ، اب قدم بھر بھی چلنے کو سہارے کی ضرورت تھی ۔ لاٹھی کی محتاجگی سر پر تھی۔ میں آبدیدہ ہو گیا ۔ ایک سمندر رواں ہو چلا تھا کہ کسی نے میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور میں بنا سوچے سمجھے آنے والے کی گود میں سر رکھ کر بلک بلک کر رونے لگا۔ غور کیا تو وہ وہی تھی جس کو دھتکار کرمیں اس حال پر پہنچا تھا۔

” تم کیوں مجھ کو اپنا دشمن سمجھتے ہو؟ دیکھو میں ایسی نہیں جیسا تم سمجھتے ہو، اس حال میں تم نے خود اپنے آپ کو پہنچایا ہے، اور مجھے دیکھو میں اب بھی تمہارے پاس آئی ہوں تمہاری آنکھیں بن کر تمہاری زندگی میں روشنی بکھیرنے۔“

میں شرمندہ سا ہوگیا، چاہا کہ رو رو کر سب کچھ غرق کردوں مگر اس نے اپنے ہونٹوں سے میرے آنسو پی لئے،میں اس کا قرب پاکر مدہوش ہوگیا، ہر تکلیف ، ہر درد دور ہوتا گیا، سفر پھر شروع ہوگیا، میں اسکا ہمراہی بن گیا، دن گزرتے رہے، میں اسکو چاہنے لگا، اور وہ بھی مجھ پر فدا رہنے لگی، پلکوں پر رکھتی، دل میرا اس کے ہاتھ کا چھالا بن گیا تھا۔ میری ہر خواہش میری باندی بن چکی تھی، دنیا نے اپنی ہر نعمت میرے گرد جمع کردی تھی، پھر ایک روز اس نے ہر دوری مٹانی چاہی، میرے اور اس کے درمیان ہر فاصلہ ، ہر رکاوٹ مٹ گئی ، بس میرے سینے سے چمٹا "وہ" رہ گیا جو ہر بار میرے اور اسکے درمیان آ جاتا تھا، دنیا نے اس بار مجھ سے التجا کی کہ میں اپنے ہاتھوں پل بھر کے لئے اسکو ہٹا دوں، اپنے آپ سے جدا کر لوں تاکہ دنیا اس پل میں بس پل بھرکے لئے مجھ میں عمر بھر کے لئے اتر جائے اور مجھ میں رچ بس جائے ، میں نے لمحہ بھر کو سوچا ، مجھے دنیا سے محبت ہوگئی تھی، اس نے مجھے چاہا بھی تو خوب تھا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سینے سے چمٹے وجود کو ہٹانا چاہا، جیسے ہی میں نے اپنی مرضی سے اسکو ہٹانا چاہا اسکی مضبوط گرفت کمزور پڑ گئی، میں نے اس کو اپنے سینے سے جدا کیا اسکو بازﺅں میں تھام کرکہا بس پل بھر کی تو جدائی ہے میں پھر تم کو سینے سے لگا لوں گا۔ مگر وہ درخت سے جدا ہوئے پتے کی مانند مرجھا سا گیا تھا اس نے آہستہ سے زندگی میں پہلی بار مجھ سے کلام کیا۔

”اس ایک پل بعد نہ میں تمہارا رہوں گا نہ تم مجھے یاد کرو گے، تم کو معلوم نہیں تم اپنے ہاتھوں مجھے مار رہے ہو اور جانتے ہو میری موت تمہاری مو ت ہو گی ، وہ بھی سانسوں کے درمیاں ہمیشہ کی موت“

اس کے لہجے میں بلا کی سچائی تھی، میں ٹھٹک گیا، لپک کر اسکو پھر اپنے گلے سے لگا لیا۔ اور دنیا سے معذرت چاہی مگر اس پل دنیا کے تمام پیمانے لبریز ہو چکے تھے اس نے پھر ایک بھوکی شیرنی کی مانند حملہ کیا اور مجھ سے چمٹے وجود میں اپنے دانت گاڑ دئیے ، دنیا ناخنوں سے اس کو نوچ رہے تھی ، دانتوں سے کاٹ رہی تھی ،وہ تکلیف میں تھا، اس کی گرفت کمزور پڑ رہی تھی۔ میرے حلق سے ناقابل ِ سماعت آوازیں نکل رہی تھیں، اس کی تکلیف پل بھر میں میری تکلیف بن چکی تھی، میں آنکھوں سے اندھا ہوا میں ادھر ادھر خالی ہاتھ ہلا رہا تھا، چیخ رہا تھا، دنیا سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا، اس ہی کشمکش میں روح پر طاری مہیب اندھیروں سے کوئی چیخ روشنی کی صورت دل تک پہنچی اور دل سے اپنا سفر طے کرتی ہوئی لبوں تک آئی اور پھر فضا کی گود میں اتر گئی۔ لمحے بھر میں ماحول کانپ اٹھا، میری روح سے بے اختیاری میں اٹھنے والی پکار ایسا لگتا تھا کہ دنیا کے منہ میں ہاتھ ڈال کر اس کا دل حلق تک لے آئی ہے، روح کی گہرائیوں سے اٹھنے والی پکار کو فلک سے آگے تک کی پرواز نصیب ہو چکی تھی ، زمین کا کلیجہ کانپ اٹھا تھا، ایک ہیبت قائم ہو چکی تھی ۔ مجھ پر قہقہے لگانے والی فضا تھرتھرا گئی، بے ادب باادب ہوگئی، ہوا کے دوش پر کسی کی سواری آئی اور مجھے دنیا کی پہنچ سے دور تنہا مگر آباد جزیرے پر اتار گئی، میں نے قدم اٹھائے تو لڑکھڑا گیا۔ راہ میں گر گیا، میری سماعت میں وہی پکار تھی جو میری روح سے بلند ہوئی تھی مگر اس پل پکار بلند کرنے والا کوئی اور تھا، میں پکار لگانے والے کو دیکھنا چاہتا تھا۔ مگرافسوس اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھیں نوچ چکا تھا، آنکھوں میں اس پل بس اندھیرا ہی اندھیرا تھا،میں وہیں راہ میں بیٹھ گیا،برسوں سے جو کرتا آیا تھا وہی کرنے لگا کہ آنسو بہانے لگا، معلوم نہیں اس پل کیسے آنسو میری آنکھوں سے رواں تھے کہ گرتا ایک ایک اشک کا قطرہ میرے دل کو گرما رہا تھا، اور آخر کار میرا دل پھر بھڑک اٹھا ، دل جو برسوں سے دنیا کی چاہت میں جلا تھا آج جو بھڑکا تو معلوم یہ ہوا کہ تمام اندھیرا چھٹ گیا، مجھے یوں لگا کہ بینائی واپس آگئی ہے، میں نے آنکھیں مل مل کر دیکھا، اپنے جسم کو اپنے ہاتھوں نوچ کر دیکھا، مگر یہ ہی معلوم ہوا کہ میں کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت دیکھ رہا ہوں، میں اس جنت نظیر خطے کو دیکھنا چاہتا تھا کہ پکار بلند کرنے والے نے مجھے جانے کا، پلٹنے کا اشارہ کیا اور میں بحکم اس کے باادب اس جنت نظیر خطے کی سیر کئے بنا پلٹ پڑا، دنیا پھر میری تاک میں تھی مگر اب سہمی ہوئی ، ڈری ہوئی میں جہاں سے گزرتا دنیا کبھی اپنی آنکھیں بچھا کر میری خوشامد کرتی ، کبھی میری راہیں سجا دیتی، وہ اب خوشامد ، چاپلوسی سے مجھے اپنا کرنا چاہ رہی تھی مگر میری نگاہ پر سے پردہ اٹھ چکا تھا۔ آخر سفر کرتے کرتے میں تھک گیا تو سوچا کسی ایسی جگہ قیام کروں جہاں دنیا نہ آسکے، اور میں تنہائی میں انجمن آراستہ کروں، میں نے خاک کے ایک خطے کا انتخاب کیا اور خاک اوڑھ کر سو گیا، اس پل میری نیند پرمیرے کئی چاہنے والے رو رہے تھے، کوئی فریب کر رہا تھا، کوئی حقیقت میں میرے یوں سونے پر افسوس کر رہا تھا۔ مگر میں ، میرا من، میری روح اس پل بہت خوش اورمطمئن تھے کیونکہ وہ اس پل بھی میرے سینے سے چمٹا میرے ساتھ خاک اوڑھے لیٹاتھا، میرا ایماں میری متاع ۔۔۔۔

س ن مخمور
امر تنہائی
 
Top