متاعِ آبرو رکھی ہوئی ہے ۔ مجید اختر

فرخ منظور

لائبریرین
متاعِ آبرو رکھی ہوئی ہے
تمنّا با وضو رکھی ہوئی ہے

سماعت میں مری اب تک کسی کی
صدائے خوش گلو رکھی ہوئی ہے

جہاں پر ولولے تھے اب وہاں پر
کمندِ آرزو رکھی ہوئی ہے

جہاں پر جام سجتے تھے سرِ شب
تمنّائے سُبو رکھی ہوئی ہے

متاعِ زر نہیں کھاتے ہیں لیکن
متاعِ آرزو رکھی ہوئی ہے

سرہانے خامشی کے آج بھی تو
تمہاری گفتگو رکھی ہوئی ہے

یہاں اک عزم ردّی میں پڑا ہے
وہاں اک جستجو رکھی ہوئی ہے

عجب اک بے یقینی کی فضا بھی
ہمارے چار سو رکھی ہوئی ہے

وہاں ہے میز پر گُلدان جس میں
وہ یادِ مُشکبو رکھی ہوئی ہے

وہ جو تصویر تھی دل میں، تمہاری
ابھی تک ہوُبہو رکھی ہوئی ہے

وہی لہجہ مدھُر گیتوں کے جیسا
وہی نرمی کی خُو رکھی ہوئی ہے

زباں پر ھُو کا نعرہ اور دل میں
فقط اک ہاوٗ ہُو رکھی ہوئی ہے

محبت کا جہاں دریا تھا پہلے
ذرا سی آبجو رکھی ہوئی ہے

عجب اک خامشی وقفے کی صورت
میانِ گفتگو رکھی ہوئی ہے

(مجید اختر)
 
Top