مجید اختر

  1. فرخ منظور

    متاعِ آبرو رکھی ہوئی ہے ۔ مجید اختر

    متاعِ آبرو رکھی ہوئی ہے تمنّا با وضو رکھی ہوئی ہے سماعت میں مری اب تک کسی کی صدائے خوش گلو رکھی ہوئی ہے جہاں پر ولولے تھے اب وہاں پر کمندِ آرزو رکھی ہوئی ہے جہاں پر جام سجتے تھے سرِ شب تمنّائے سُبو رکھی ہوئی ہے متاعِ زر نہیں کھاتے ہیں لیکن متاعِ آرزو رکھی ہوئی ہے سرہانے خامشی کے آج بھی تو...
  2. فرخ منظور

    لوحِ ایّام ۔ مجید اختر

    لوحِ ایّام آج کھولا جو اتفاقاً ہی اپنے سامان میں رکھا اک بیگ ڈھیر نکلا پرانی یادوں کا اور یکدم چمک اٹھا ماضی موم جامہ کیے ہوئے تعویذ ایک یٰسین، اک حدیثِ کساء جیبی سائز کی اک دعا کی کتاب (اب دعا کا حساب کیا رکھنا کچھ قبولی گئی ہیں، کچھ باقی ایک دن ہوں گی مُستجاب سبھی کھلتے کھلتے کھلے گا بابِ...
  3. فرخ منظور

    بہت کم وقت ہے دیکھو ۔ ۔ ۔ مجید اختر

    بہت کم وقت ہے دیکھو ۔ ۔ ۔ مجھے تم سے محبت ہے تمہارے گھر کے پھولوں سے گزر کر مرے کمرے کی کھلتی کھڑکیوں میں پیار کی مہکار بستی ہے تمہارے بام سے ہوکر مرے آنگن کی بیلوں پر صبح سے شام تک چڑیوں کی اڑتی ڈار کی چہکار رہتی ہے نسیم۔ صبح میرے گھر پہنچنے تک تمہاری چھت کے زینوں سے اترتی اور چڑھتی ہے...
  4. فرخ منظور

    نشہء شوق ہے فزوں شب کو ابھی سحر نہ کر ۔ مجید اختر

    غزل نشہء شوق ہے فزوں شب کو ابھی سحر نہ کر دیکھ حدیثِ دلبراں اتنی بھی مختصر نہ کر سارا حسابِ جان و دل رکھا ہے تیرے سامنے چاہے تو دے اماں مجھے ، چاہے تو درگذر نہ کر اپنوں سے ہار جیت کا کیسے کرے گا فیصلہ اے میرے دل ٹھہر ذرا ، یہ جو مہم ہے سر نہ کر اُس کا یہ حسن وہم ہے ، تیرا یہ عشق ہے...
Top