::: ماہ شوال اور ہم 4 ::: چھ روزے :::

ماہ شوال اور ہم 4

شوال کے روزوں کی فضیلت *:*:*: چھ روزے :*:*:*
شوال رمضان کے بعد آنے والا مہینہ ہے ، اِس ماہ کی فضلیتوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ اِسکا پہلا دِن عید الفطر کا ہوتا ہے اور دوسری فضلیت یہ ہے کہ رمضان کے روزے پورے کرنے کے بعد اگر شوال میں چھ روزے رکھے جائیں تو پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے ، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن صامَ رمضانَ ثُمَّ اتبَعَہُ سِتاً مِن شوالِ ، فذَاکَ صیامُ الدھر ) ( جِس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اُنکے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ سال کے روزے ہوئے ) صحیح مُسلم حدیث ١١٦٤ ، سُنن ابو داؤد ،حدیث ٢٤٣٣ ، سُنن الترمذی حدیث ٧٥٩ ، سُنن ابنِ ماجہ حدیث١٧١٦ ، سُنن الدارمی ، حدیث ، ١٧٥٤
یعنی گویا کہ اُس نے پورے سال کے روزے رکھے ، جیسا کہ ثوبان رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( صیامُ شھرٍ بِعَشرۃِ اشھُر،و ستۃِ ایامٍ بعدُھُنَّ بِشھرین فَذَلِکَ تمام سنۃ ) ( ایک ماہ ( یعنی رمضان ) کے روزے دس ماہ کے برابر ہیں اور اُن کے بعد چھ دِن دہ ماہ کے برابر ہیں ، اِس طرح ایک سال پورا ہوا ) سُنن الدارمی ، حدیث ، ١٧٥٥ ،
اور سُنن ابو داؤد کی حدیث ، ١٧١٥ میں یہ الفاظ ہیں ( مِن صامَ سِتَّۃَ اَیامٍ بعدَ الفِطرِ ، کان تمام السَّنَۃِ ) ( جِس نے فِطر ( یعنی عید الفِطر ) کے بعد چھ دِن روزے رکھے اُس کا ایک سال پورا ہوا ) شوال کے اِن چھ روزوں کے بارے میں عُلماء کا کہنا ہے کہ یہ روزے شوال کے دِنوں میں کبھی بھی رکھے جا سکتے ہیں ، یعنی آغاز درمیان یا آخر میں ، اور نہ ہی اِن کا اکٹھا رکھا جانا ضروری نہیں ہے ،
***** نفلی روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم *****
نفلی روزوں کے معاملے میں ایک بہت ہی اہم بات جو ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم ہے ( لاتصوموا یومَ السبت اِلَّا فیمَا افتُرض َ علیکُم فاِن لم یَجِدَ احدکُم اِلَّا عُودَ عِنَبٍ او لَحَاءَ شجرۃٍ فَلیَمُصّہُ )( ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو ، سوائے فرض روزے کے ، اگر تُم سے کِسی کو انگور کی چھال یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اسی کو چُوس لو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہفتے کے دِن کے روزے کی ممانعت کِس قدر شدید ہے کہ اگر درخت کی چھال یا جڑ چُوس کر ہی افطار کرنا پڑے تو بھی حالتِ افطار میں رہنا چاہئیے ، روزہ نہیں رکھنا چاہیئے ، سوائے فرض یعنی رمضان کے روزں کے ۔
یہ حدیث عبداللہ بن بُسر ، الصَّمَّاءُ بنت بُسر ، بُسر بن ابی بُسر المازنی ، اور ابی اُمامہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے مُندرجہ ذیل کتابوں میں روایت کی گئی ہے ،
صحیح ابن خزیمہ/ حدیث /٢١٦٤ ، مُستدرک الحاکم/١٥٩٢ ، اِمام الحاکم نے کہا کہ یہ حدیث بُخاری کی شرط کے مُطابق صحیح ہے ، سُنن ابو داؤد/حدیث /٢٤١٨ ، سُنن ابن ماجہ/حدیث /١٧٦٦ ، سُنن الترمذی/حدیث /٧٤٤ ، مُسند احمد ٦/ ٣٦٨ ، سُنن الدارمی/حدیث/١٧٤٩ ، سُنن البیہقی/٤/ ٣٠٢ ، مُسند عبد بن حمید/حدیث/٥٠٧ ، اِمام ابو نعیم نے '' الحُلیۃ الاولیاء '' میں ، اِمام خطیب بُغدادی نے '' تاریخ '' میں اِمام الضَّیاء المقدسی نے '' الاحادیث المُختارۃ '' میں ، اِمام الدَّولابی نے '' الکُنی '' میں ، اِمام ابنِ عساکر نے اپنی '' تاریخ '' میں اِمام ابو زرعۃ الدمشقی نے اپنی '' تاریخ '' میں ، اِمام ابن الاثیر نے '' اُسد الغابہ '' میں ، اِمام البغوی نے '' شرح السُنّۃ '' میں روایت کیا ، اور اِس کے عِلاوہ بھی یہ حدیث بہت سی دیگر کتابوں میں مُختلف اسناد کے ساتھ موجود ہے شیخ علی بن حسن نے اپنی کتاب '' زَہر الرَّوض فی حُکم صِیام یَوم السَّبت فی غیر الفَرض '' میں اِس کی مُکمل تحقیق اور تخریج کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حُکم کو ٹالنے یا بدلنے یا خاص اور عام کرنے کی کوئی دلیل نہیں ، تفصیلات جاننے کے خواہش مند اِس کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ توفیق سے میں نے بہت سے مُفید اضافوں کے ساتھ اِس کتاب کا ترجمہ کیا ہے جو تقریباً مکمل ہونے والا ہے ، اِنشاء اللہ تکمیل کے بعد اِس کی اشاعت و نشر کا انتظام کیا جائے گا ۔
***** بھائیوں ، بہنوں ، مندرجہ بالا صحیح حدیث کی روشنی میں کوئی بھی نفلی روزہ ہفتے کے دِن رکھنا جائز نہیں ، آپ صاحبان شوال کے روزے رکھتے ہوئے اور کوئی بھی نفلی روزہ رکھتے ہوئے اِس بات کو کبھی نہ بھولئیے گا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے مُسلمان بھائی بہنوں کو بھی بتائیے تا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی نافرمانی کا شکار نہ ہوں ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادل سہیل ظفر ۔
 
Top