::: ماہ رمضان اور ہم (۳) ::: سحری ، فضیلت اور اہم مسائل :::

::: ماہِ رمضان اور ہم ::: 4 ::: سحری ::: فضیلت اور اہم مسائل :::
:::: سحری کیوں کرنا چاہیئے ؟ ::::
یُوں تو اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ روزہ رکھنا ہو تو سحری کے وقت کھانا بہتر ہے ، ذرا دِین داری کا خیال ہو تو کہا جاتا ہے کہ سُنّت ہے کہ سحر کے وقت کھایا جائے ، اور اگر پہلے کھا کر سو لیا جائے تو بھی کوئی خاص مُضائقہ نہیں ، آئیے ذرا اِن باتوں کا سُنّت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے :::
:::::: انس بن مالک رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تَسَحَّروا فَاِنَّ فی السَّحُورِ بَرکَۃٌ )( سحر ی کیا کرو ، کیونکہ سحری کرنے میں یقینا برکت ہے ) صحیح البُخاری/حدیث ١٩٢٣ /کتاب الصوم/باب٢٠، صحیح مُسلم حدیث ١٠٩٥ / کتاب الصیام/باب٩ ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری میں برکت ہونے کی خبر دِی ہے اور اِسکو نہ چھوڑنے کی ترغیب دی ہے ، اِس لئیے یہ معاملہ مُضائقے یا غیر مُضائقے کا نہیں ، بلکہ اِس سے بڑھ کر ہے ،،،
::: کہیں آپ اُن میں سے تو نہیں جو اپنے آپ کو سحری کی برکت سے محرُوم رکھتے ہیں ؟
::: عَمر بن العاص رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فَصلُ مَا بَینَ صَیِامنا و صَیِام اَھلِ الکِتابِ ؛ اَکلَۃ السَّحَرِ )( ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے )
صحیح مُسلم ، حدیث ، ١٠٩٦ ۔
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں فرمایا ( اِنَّھَا بَرکَۃٌ اَعطَاکُم اللَّہ ُ اِیَّاھَا ، فَلا تَدعُوہُ ) ( بے شک یہ برکت جو اللہ نے تُم لوگوں کو عطا کی ہے لہذا اسے چھوڑو نہیں ) سُنن النسائی/کتاب الصیام/باب ٢٤
::: عبداللہ ابن عَمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ( تَسحَرُوا و لَو بِجُرعَۃِ مَاءٍ ) ( سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو) صحیح ابن حبان/کتاب الصوم/باب السحور ،
::: عبداللہ ابن عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اِنَّ اللَّہ َ و الملائِکتہ ُ یَصَّلُونَ عَلیَ المُتسَحَرِینَ ) ( بے شک سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے دُعا کرتے ہیں) صحیح ابن حبان/ کتاب الصوم/باب السحور ،سحری کا کھانا چھوڑنے والا نہ صرف اِن فائدوں سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی ، اور کافروں کی نقالی کا مُرتکب بھی ہو جاتاہے ۔
*** ذرا غور فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مُطابق مسلمانوں اور اہلِ کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوںکے روزوں میں سحری کا کھانا ہی فرق کرنے والی چیز ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کھانے کے بارے میں کتنی تاکید فرمائی ہے اور کتنی خوش خبریاں دی ہیں ،
****** کہیں آپ اُن میں سے تو نہیں جو رات گئے کھانا کھا کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں تا کہ سحری کرنے میں نیند خراب نہ ہو ؟؟؟ سحری کی برکت بھی گئی ؛ کافر اور مسلمان کے روزے کا فرق بھی نہ رہا ؛ فجرکی نماز بھی گئی ؛ صِرف بھوکا پیاسا رہنا ہی تو روزہ نہیں !!!
::: سحری کا وقت کب تک ہے ؟
*** اللہ کا فرمان ہے ( وَکُلُوا وَ اشرَبُوا حَتَی یَتَبَیَّنَ لَکُم خَیطُ الابیضُ مِن الخَیطِ الاسودِ مِنَ الفَجرِ) (اور کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ فجر کے وقت میں سے تمہارے لئیے سفید دھاگہ کالے دھاگے میں سے واضح ہو جائے ) سُورت البقرہ /آیت ١٨٧ ۔
*** عدی بن حاتم رضی اللہ عنہُ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ::: یا رسول اللَّہ اِنی اجعَلُ تحت َ وسادَتی عِقالین ،عِقالاًابیض َ و عِقالاًاسودَاعرفُ اللیلَ مِن النَّھارِ فقال لہُ رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم ( اِنَّ وَسادَتَکَ لَعَرِیضٌ، اِنَّمَا ھُوَ سَوَادُ اللَّیلِ و بَیَاضُ النَّھارِ) ::: اے اللہ کے رسول میں اپنے تکیے کے نیچے دو دھاگے رکھتا ہوں ، سفید دھاگہ اور کالا دھاگہ ، تا کہ دِن میں سے رات کو جان سکوں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا ( تمہارا تکیہ بہت کُشادہ ہے ، وہ تو رات کا کالا پن اور دِن کی سُفیدی ہے ) ]] یعنی آیت سے مُراد کالے اور سفید دھاگے کا الگ الگ نظر آنا نہیں بلکہ رات اور دِن کا الگ الگ ہونا ہے ۔ صحیح مُسلم ، حدیث ١٠٩٠ ۔
*** زید بن ثابت رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے ( تَسَحَّرنَا مَع رسول ِاللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وسلم ، ثُمَّ قُمنَا اِلیٰ الصَّلاۃِ ؛ قِیلَ ؛ کَم کان بینَھُمَا ؛ قال ؛ قدرُ خَمسِینَ آیَۃً ) ( ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی اور پھر نماز کے لئیے اُٹھے ، ( زید بن ثابت رضی اللہ عنہُ سے ) پوچھا گیا ؛ نماز اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا ؛ اُنہوں نے جواب دِیا ؛ پچاس آیات کے برابر ) ( یعنی جتنا وقت پچاس آیات پڑہنے میںلگتا ہے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ١٩٢١ ، صحیح مُسلم ، حدیث ، ١٠٩٧
*** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا سَمِعَ احدُکُم النِّدَاءَ وَالاِنِاءُ عَلیٰ یَدِہِ فَلا یَضَعہ ُ حَتَّی یَقضِی حاجَتَہ ُ مَنہ ُ ::: جب تُم میں سے کوئی اذان سُنے اور کھانے کا برتن اُسکے ہاتھ میں ہو تو وہ برتن رکھے نہیں جب تک اُس میں سے اپنی ضرورت پُوری نہ کر لے ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٠ ،
اس مسئلہ کی مکمل تحقیق کے لیے سلسلہ الالحادیث الصحیحۃ ، حدیث 1394 دیکھی جائے ،
اس مندرجہ بالا حدیث میں اس بات کا جواز ملتا ہے کہ اگر سحری کھاتے کھاتے اذان شروع ہو گئی اور ابھی کھانے کی حاجت ہے تو جو کھانے کی چیز ہاتھ میں ہے اُسے چھوڑنے کی بجائے کھا لیا جائے ، لیکن اِسک بات کا ہر گز کوئی جواز نہیں کہ اذان سے کُچھ لمحات پہلے ہاتھوں میں چیزیں تھام لی جائیں تا کہ دیر تک کھایا جاسکے ۔
*** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( نِعمَ سَحُورُ المؤمِن التمرُ ) ( اِیمان والے کے لئیے بہترین سحری کھجور ہے ) صحیح ابنِ حبان ، حدیث ، ٨٨٣ ، سلسلہ احادیث الصحیحہ ، حدیث ، ٥٦٢ ،سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٤٢ ۔
: روزہ کی نیت کب اور کیسے ؟؟؟
****** اِیمان والوں کی والدہ محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ، امیر المؤمنین خلیفہ دوئم بلا فصل عُمر رضی اللہ عنہُ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ( مَن لَم یَجمَع الصَّیامَ قَبلَ الفَجرِ فَلا صیامَ لہُ ) ( جس نے فجر سے پہلے روزہ کی نیّت نہیں کی اُسکا روزہ نہیں ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٤٥٤ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں ( مَن لَم یُبَیِّتِ الصَّیامَ مِن اللَّیلِ فَلا صَیامَ لہُ) ( جس نے روزہ کی نیّت کے ساتھ رات نہیں گُزاری اُس کا روزہ نہیں ) سُنن الدارمی حدیث ١٦٩٨ ، سُنن النسائی ، احادیث ٢٣٣٠ تا ٢٣٣٩ ، اِمام الالبانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ، الاِرواء ُ الغلیل حدیث ، ٩١٤ ۔
عِلامہ شمس الحق عظیم آبادی نے '' عون المعبود '' میں اِس حدیث کی شرح میں اِمام الخطابی کا یہ قول نقل کیا [[ اِس حدیث میں اِس بات کی وضاحت ہے کہ جو پہلے وقت میں ہی روزے کی نیّت نہیں کرے گا اُس کا روزہ دُرست نہیں ہو گا ]]
اِمام محمد بن اسماعیل الصنعانی رحمہُ اللہ نے '' سُبُلُ السَّلام '' میں اِس حدیث کی شرح میں لکھا [[ یہ حدیث اِس بات کی دلیل ہے کہ روزہ کی نیّت کے بغیر رات گُزارنے والے کا روزہ دُرست نہیں ہوتا ، اِس کا مطلب یہ ہے کہ رات کے کِسی بھی پہر میں آنے والے دِن کے روزے کی نیّت کرنا ضروری ہے ، نیّت کا پہلا وقت غرُوب کا ہے ، ،،،]]
********* یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نیّت کی جگہ دِل ہے ، کِسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اِرادہ نیّت کہلاتا ہے ، وہ کام دینی ہو یا دُنیاوی ، اِنسان کے ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی اِرادہ ہوتا ہے ، وہ اِرادہ اُس کے شعور میں ہو یا لا شعور میں ، ہوتا ضرور ہے ، عِبادت کےلئیے بھی اِسی طرح اِرادہ یا نیّت ہوتی ہے ، اِس کو الفاظ کی شکل میں ادا کرنا کِسی بھی عِبادت کے لئیے سُنّت سے ثابت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے ، لہذا یہ مت بُھولئیے کہ نہ تو روزہ رکھنے یا کھولنے کی کوئی ایسی نیّت ہے جو کہ پڑہی یا بولی جائے اور نہ ہی کِسی بھی اور عِبادت کی ، حج اور عُمرہ کا تلبیہ ایک اور چیز ہے اورنیّت اور چیز ، تلبیہ کو لفظی نیّت کہنا یا سمجھنا غلط فہمی ہے ، نیّت کرنے سے مُراد اپنے اِرادے کو حاضر کرنا اور پُختہ کرنا ہے ، اگر نیّت کرنے سے مُراد کوئی الفاظ ادا کرنا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے ہمیں نیّت کرنے کا بتایا اور اُس کرنے کا بتایا اور اُس کی اہمیت کا عِلم دِیا ، ضرور الفاظ بھی سکھاتے جِن کے ذریعے نیّت کی جاتی ، مگر ہمیں سُنّت اور حدیث کے خزانوں میں صحابہ رضی اللہ عنہُم کے آثار میں ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ کی تعلیمات میں کہیں بھی کے الفاظ نہیں ملتے ، ابھی ذِکر کی گئی دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اِس بات کی واضح دلیل ہیں کہ نیّت کہنے کی نہیں کرنے کی چیز ہے کہیں اشارۃً بھی کِسی عِبادت کی کوئی نیّت کہنے کا ذِکر نہیں ، یہ طرح طرح کی نیّتں بہت بعد میں بنائی گئی ہیں ،لہذا یقینا دین کا حصہ نہیں ہے اور اللہ کے ہاں غیر مقبُول ہے براہِ مہربانی ایسے کاموں سے اپنے آپکو اور اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کو بچائیے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو جاننے اور اُس پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی پر چلتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے ۔
عام طور پر ایک روزے کی نیّت کے نام پر چند اِلفاظ ہمارے ہاں مشہور ہیں ، اور عجیب دُکھ کی بات ہے کہ حدیث کے طور پر مشہور ہیں ، '''' و بصومِ غَدٍ نویت مِن شھرِ َرمضان '''' جب کہ کہیں کِسی صحیح تو کیا کمزور حدیث میں بھی یہ ، یا کوئی بھی اور الفاظ نیّت کے لیے نہیں ملتے ، ہمارے جو بھائی اِن الفاظ کی تشہیر کرتے ہیں ، اُن پر شرعاً واجب ہیں کہ وہ نیّت کو الفاظ میں ادا کرنے اور پھر خاص خاص کاموں کے لیے خاص خاص نیّت کے اِلفاظ کی دلیل بھی پیش کریں ، اور اگر اُنکے پاس اِس کی کوئی دلیل نہیں اور یقینا نہیں ، تو پھر ایسی باتیں نشر کر کے اپنی اور دوسروں کی آخرت کی تباہی کا سبب بننے سے بچیں۔
اور اسی طرح افطار کی ''' دُعا ''' کے طور پر مشہور ہونے والے اِلفاظ کا بھی معاملہ کچھ عجیب ہی ہے ، اُس کا ذِکر اِنشاء اللہ تعالیٰ افطار کے موضوع میں کیا جائے گا ۔

::::: نفلی روزے کے لیے پہلے سے نیّت کرنا ضروری نہیں ، اور نفلی روزہ کِسی بھی وقت توڑا جا سکتا ہے :::::
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور پوچھا (ہَل عِندَکُم شَئٍی؟)( کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ )ہم نے کہا ''نہیں '' نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فَاِنِی اِذَن صَائِم)( اچھا تو پھر میرا روزہ ہے)پھرکِسی اور دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تحفے کے طور پر حیس (کاحلوہ) آیا ہے '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اَرِینِیہِ فَلَقَد اَصبَحتُ صَائِماً ) ( تو لاؤ میں صبح سے روزے میں تھا ) اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حلوہ کھا لیا ۔ صحیح مُسلم، حدیث ١١٥٤ ، کتاب الصیام / باب ٣٢
::::: سحری کرنے کے لیے پاکیزگی کی حالت میں ہونا ضروری نہیں ؟؟؟ '
ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا کہ (اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ صَلی اللَّہ عَلِیہ وسلَّم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُہُ) ( میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے)پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور انہوں نے بھی یہی بات کی۔ صحیح البخاری ، حدیث ١٨٣٠ / کتاب الصوم / باب ٢٥۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان سے متعلقہ موضوعات میں دی گئی معلومات صرف چند اہم مسائل کے بارے میں ہیں ، کسی بھی قاری ( پڑھنے والے مرد و خاتون ) کے ذہن میں اگر کوئی سوال ہو تو بلا جھجک کرے ، انشا اللہ قران و ثابت شدہ سُن۔ت کے مطابق جواب دیا جائے گا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ((( فاِنما شفاء العی السوال ::: بے شک جہالت کی شفاء سوال کرنا ہے ))) صحیح الجامع الصغیر ، 4362
اور امام مجاہد کا فرمان ہے ’’’ لا یتعلم العلم المستحی و لا المکتبر ::: حیا کرنے والا اور تکبر کرنے والا علم سیکھ نہیں سکتا )))

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگلے مضمون میں ان شاء اللہ تعالی افطار کے بارے میں بات ہو گی ، و السلام علیکم۔
 
Top