ماہا خان فلپس کی نئی کتاب

ہندو

محفلین
پاکستان کے بارے میں ایک نیا ناول اس ٹوٹے ہوئے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جس میں امیروں کی محفلوں میں فحاشی اور پیسہ پرستی رائج ہے اور غریبوں کی دنیا میں ظلم اور نا انصافی کا راج ہے۔

ماہا خان فلپس کی کتاب ’بیوٹیفل فرام دِس اینگل‘ ہمیں کراچی کی عیاش محفلوں سے رحیم یار خان کے ایک سردار کی زمینوں تک کا سفر کراتی ہے اور اس کی کہانی نہ صرف پاکستانی معاشرے کے بارے میں ہے بلکہ دورِ حاضر میں میڈیا کے غیر ذمہ دار کردار اور اسلام پرمغربی خیالات اور تعصب کے بارے میں بھی۔

کہانی کی مرکزی کردار آمنہ فاروقی نامی خاتون ہے جس کا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے اور جس کی زندگی کا مقصد بہرتین تعلیم حاصل کرلینے کے باوجود صرف یہ ہے کہ وہ ’مزا کرے‘۔ وہ کراچی کے ’پارٹی کراؤڈ‘ کا حصہ ہے اور اس کی زندگی دیگر ’رنگا رنگ‘ محفلوں کے اِرد گرد گھومتی ہے جن میں شراب، منشیات اور انگریزی کے بے ہودہ الفاظ اور فقروں کا استعمال عام ہے۔

آمنہ ایک مقامی اخبار میں اس ’پارٹی سِین‘ کے بارے میں کالم لکھتی ہے۔ لیکن پھر اس کی ایک قریبی دوست ممتاز ٹی وی چینل کے لیے کام کرنے سے تنگ آکر تجویز دیتی ہے کہ آمنہ، ممتاز اور ان کی ایک اور دوست حنا مل کر ایک کمپنی قائم کریں اور دستاویزی فلمیں بنائیں۔ وہ رحیم یار خان میں شوہر کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والی ایک خاتون پر فلم بناتے ہیں جس میں مغربی ممالک بہت دلچسی لیتے ہیں۔ فلم کو بین الاقوامی شہرت مل جاتی ہے اس خاتون کا کیس مشہور ہو جاتا ہے۔

ماہا خان فلپس نے اس کتاب میں میڈیا کی شرارتوں اور غیر ذمہ داری پر بہت مزاحیہ طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے ایک کردار کو برطانوی ریالٹی ٹی وی شو ’ہو وانٹس ٹو بی اے ٹیررسٹ‘ (کون بڑے گا دہشت گرد) کی مدد کرنے کا ٹھیکہ ملتا ہے۔ اور وہ اس کے پاکستان میں انتظامات کر کے خوب پیسا کماتا ہے۔ شو میں دیگر سیلبرٹی یعنی مشہور شخصیات شریک ہوتے ہیں۔۔۔

آمنہ خود ان کتابوں کا جائزہ لیتی ہے جو مغربی ممالک میں بہت بکتی ہیں اور جو اسلامی معاشروں یا گھرانوں میں خواتین پر مظالم کی داستان ہوں۔ وہ خود اس رجحان کا مذاق اڑاتے ہوئے ’مظلوم مسلم عورت‘ کی کہانی لکھنا شروع کرتی ہے جو بہت ہنسانے والی ہے اور بیحد دلچسپ ہے۔

یہ ناول ایک بہت چٹ پٹے انداز میں لکھا ہوا ہے جس سے یقیناً اس کو اتنی مقبولیت ملے گی جتنی کہ پاکستان میں ’فیشن شوز‘ اور امیر اور ’گلیمرس‘ لوگوں کو ملتی ہے۔ یہ اکیسویس صدی کے پاکستان کی ایک یادگار تصویر کشی کرتا ہے لیکن چند لوگوں کے لیے اس کو پڑھنے سے پہلے ایک ہیلتھ وارننگ دینا ضوروری ہے: اس میں عیاشوں کی دنیا والی انتہائی نا شائستہ زبان استعمال ہوتی ہے۔ ایسے الفاظ جن کو کئی برس پہلے تک ستاروں اور ڈیش سے بدل دیا جاتا تھا۔

’بیوٹیفُل فرام دِس اینگل‘ پنگوین انڈیا نے شائع کی ہے۔ یہ ماہا خان فلپس کا پہلا ناول ہے۔ اس سے پہلے وہ بچوں کی ایک کتاب لکھ چکی ہیں۔
 
Top