ماچس والی لڑکی از ہینس کرسچین اینڈرسن

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ربط
ڈینش ادیب ہینس کرسچین اینڈرسن کی شاہکار کہانی ماچس والی لڑکی The Little Match Girl کا اُردو ترجمہ
Photo: INN


بلا کی سردی تھی۔ شام اندھیرے میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی تھی، اور بالآخر رات آ گئی۔ یہ سال کی آخری رات تھی۔ ایک چھوٹی سی غریب بچی، ننگے سر، ننگے پاؤں گلیوں میں پھر رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کے پاؤں میں اس کی اپنی نہیں بلکہ ماں کی چپل تھی۔ وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کے ننھے ننھے پاؤں سے بار بار نکل جاتی تھی۔ صبح جب وہ سڑک پار کرنے لگی تھی تو ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی سے بچنے کی کوشش میں چپل اس کے پاؤں سے نکل گئے۔ ایک تو گٹر میں گر گیا ، دوسرا ایک لڑکا اسے منہ چڑاتا ہوا لے کر بھاگ گیا۔
تب سےیہ بچی ننگے پاؤں پھر رہی تھی۔ سردی کی شدت سے اس کے پاؤں نیلے ہو رہے تھے۔ اس نے ایک پھٹا پرانا ایپرن باندھا ہوا تھا۔ اس نے ایپرن کی جیب میں ماچس کے کچھ پیکٹ رکھے ہوئے تھے۔ ایک پیکٹ گاہکوں کو متوجہ کرنے کیلئے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ لیکن صبح سے اب تک کوئی گاہک نہیں ملا تھا۔ اب تک اس نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں کمائی تھی۔ سردی سے کانپتی، بھوک کی شدت سے بے تاب، دکھ کی تصویر بنی یہ غریب معصوم بچی گلی گلی میں گاہکوں کی تلاش میں پھررہی تھی۔
گھروں سے لذیذ پکوانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کے منہ میں پانی آ رہا تھا۔ اس کی بھوک مزیدبھڑک اٹھی تھی۔ اب وہ جس گلی میں آئی تھی اس کے دو مکانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا سائباں تھا۔ تھکن اور بھوک سے چور بچی سستانے وہاں بیٹھ گئی۔ اپنے سرد پاؤں کو اس نے ہاتھوں سے گرمانے کی کوشش کی، پھر اکڑوں بیٹھ کر اپنی فراک سے انہیں کسی حد تک ڈھانپا لیکن وہ ویسے ہی ٹھنڈے رہے۔سردی شدید ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن اسے ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ گھر واپس جائے۔
کیسے واپس جاتی؟ صبح سے اب تک اس کی ایک ماچس بھی فروخت نہیں ہوئی تھی۔ وہ خالی ہاتھ گھر نہیں جاسکتی تھی اور ویسے بھی گھر میں سردی کون سی کم تھی! ایک کمرے والے گھر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ لگا ہوا تھا اور چھت میں ایک بڑا سا سوراخ تھا جس کو بھوسے اور پرانے کپڑوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن وہاں سے ہر وقت ٹھنڈی ہوا آتی رہتی تھی۔ اب اس کے ہاتھ سردی سے بالکل سن ہو چکے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش اس وقت کہیں سے تھوڑی سی آگ مل جائے تو اس کے ہاتھ کچھ گرم ہو جائیں۔ لیکن آگ کیسے ملے؟ کہاں سے آئے؟
اس نے لالچ بھری نظروں سے ماچس کی ڈبیہ کی طرف دیکھا۔ امید کی ہلکی سی کرن نظرآئی۔ سر جھٹک کر اس نے اپنے اس خیال کو جھٹکنے کی کوشش کی مگر خیال بار بار آتا رہا۔ اس نے جھجکتے جھجکتے ایک تیلی نکالی، ڈرتے ڈرتے اسے فرش سے رگڑا۔ ایک شعلہ نمودار ہواتو اس نے جلتی تیلی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپا، شعلے کی تپش کو محسوس کیا، شعلے کی چمک عجیب سی تھی۔
اس لمحے بچی کو ایسا لگا کہ وہ ماچس کا شعلہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑا آتشدان ہےجس پر چمکیلے پیتل کے دستے لگے ہوئے ہیں اور سنہری جالی کے پیچھے جلتی آگ اس سجے سجائے کمرے کو تاپ رہی ہے، جہاں وہ ایک دیوان پر موٹا سا گرم اونی گاؤن پہنے بیٹھی ہے۔اچانک شعلہ لپک کر ایک دم بجھ گیا۔ آتش دان، گرم اونی گاؤن، دیوان، سب اچانک غائب ہو گئے، تاریکی پھر سے چھا گئی۔ صرف بجھی ہوئی ماچس کی تیلی اس کے ہاتھ میں تھی۔اس نے ایک اور تیلی جلائی۔
سامنے دیوار کو شعلے کی روشنی نے چمکیلے موتیوں سے جڑی جھالر میں بدل دیا۔ اس کے پیچھے اسے صاف نظر آیا جیسے ایک خوش و خرم خاندان کے لوگ دستر خوان کے گرد بیٹھے ہیں اور دستر خوان پر کھانے کی پلیٹیں لگی ہیں۔ کٹوروں میں انواع و اقسام کے کھانے ہیں۔
ایک بڑا برتن گرم گرم سوپ سے بھرا ہوا ہے جس سے بھاپ نکل رہی ہے۔ ایک لڑکا سوپ کا پیالہ لے کر اس بچی کے پاس آیا۔ لیکن جیسے ہی اس نے سوپ کا پیالہ لینے کیلئے ہاتھ بڑھائے ماچس کی تیلی بجھ گئی اور پھر اندھیرا چھا گیا۔ اب اس کےسامنے صرف ٹھنڈی، پتھریلی دیوار تھی، اور کچھ نہیں۔
بچی نے نظریں اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ایک ستارہ ٹوٹ کر زمین کی طرف آ رہا تھا۔ بچی کی دادی وہ واحد انسان تھیں جن سے اسے پیار ملا تھا۔ وہ اسے کہانیاں سناتی تھیں۔ دادی نے ایک کہانی سناتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ جب آسمان سے چمکتا ہوا تارہ ٹوٹ کر گرتا ہے تو زمین سے کوئی روح آسمان کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ تارہ کس کی موت کا پیغام لے کر میری طرف بڑھ رہا ہے؟ کوئی نہ کوئی ضرور مرنے والا ہے۔ خدا جانے کون؟
بچی نے ماچس کی ایک اور تیلی جلائی،پھر سے روشنی ہوئی۔ اب اسے روشنی میں صاف نظر آیا کہ سر پر روشنی کا تاج پہنے اس کی دادی اس کے سامنے کھڑی اسے پیار سے دیکھ رہی ہیں۔
’’دادی! پیاری دادی! مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ میں بہت بھوکی ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں دادی۔ مجھے معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ ماچس بجھے گی آپ بھی چلی جائیں گی ،جیسے وہ گرم آتش دان غائب ہو گیا، جیسے سوپ کا پیالہ ۔ آپ بھی ایسے ہی چلی جائیں گی لیکن آپ نہ جانا۔ میں اب اندھیرا نہیں ہونے دوں گی۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گی۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ تیلی بجھ جاتی اس نے ایک تیلی اور جلائی، پھر دوسری، پھر اس نے ماچس کے پورے بنڈل کو تیلی دکھا دی۔ ماچس کی تمام تیلیاں ایک دم جلیں۔ ایک بہت بڑا شعلہ جلا، رات دن کی طرح روشن ہو گئی۔ دادی نے ہاتھ بڑھائے، بچی کو گود میں لیا۔تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی۔اسے لگا وہ ستاروں کی طرف جا رہی ہےلیکن ......
دو پرانے مکانوں کے درمیان بنے سائباں پر دیوار سے لگی ایک چھوٹی سی بچی، جس کے رخسار سرخ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، سردی کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ اس کا بے جان جسم سردی سے جم کر اکڑ چکا تھا۔ وہ ایسے ہی بیٹھی تھی جیسے رات کو بیٹھی تھی۔ ایک طرف جلی ماچسوں کا ڈھیرتھا، دوسری طرف، جھولی میں کچھ ماچس کی ڈبیاں۔ جیسےکہہ رہی ہو کہ کوئی تو مجھ سے ماچس خرید لے۔
صبح کی چہل پہل شروع ہو چکی ہے۔ مرد، خواتین، بچے سائباں کے پاس جمع ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بیچاری اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش میں مر گئی۔ لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ وہ اپنے تصور میں کتنی خوبصورت دنیا دیکھ رہی تھی اور اب کتنی مسرت سے اپنی بوڑھی دادی کی گود میں ایسی دنیا میں ہےجہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس، نہ سردی ہے، جہاں صرف خوشی ہی خوشی ہے، محبت ہی محبت ہے۔ پیار ہی پیار ہے۔
 

زیک

مسافر
مترجم کا نام بھی ساتھ لکھ دیں تو بہتر ہے۔ ربط سے بھی واضح نہیں ہے کہ وہاں پوسٹ کرنے والے ہی ترجمہ نگار ہیں یا نہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مترجم کا نام بھی ساتھ لکھ دیں تو بہتر ہے۔ ربط سے بھی واضح نہیں ہے کہ وہاں پوسٹ کرنے والے ہی ترجمہ نگار ہیں یا نہیں۔
مترجم کے نام کا مجھے بھی کچھ علم نہیں، بہرحال ویب سائٹ والوں کو میں نے ای میل کر دی ہے جیسے ہی وہ نام بتاتے ہیں، میں مترجم کا نام بھی درج کر دوں گا۔
 
Top