ماوراء الطبیعیات و مابعد الطبیعیات

سر یہ تو مجھے بھی درکار ہے محفل کے سائنس وانوں کو ٹیگ کرنا پڑے گا۔۔

یہ سائنس کا نہیں بلکہ فلسفہ کا سوال ہے۔
مابعد الطبیعیات فلسفہ کی شاخ ہے۔ اس کے چند سوالات ہوتے ہیں جس کے گرد یہ شاخ گھومتی ہے۔ مثلاً:
مطلق حقیقت کیا ہے؟
آیا مطلق حقیقت کا وجود ہے یا نہیں؟
کیا مطلق حقیقت کو معلوم کیا جاسکتا ہے؟
کیا عقل اس کا سراغ لگا سکتی ہے؟
کیا حقیقت میں احدیت ہے یا ثنویت دوئی یا تکثیریت وغیرہ۔
علم کیا ہے؟
علم کے ماخذات کیا ہوتے ہیں؟
آیا جو ہم حواس سے حاصل کرتے ہیں وہ مطلق ہے یا اضافی؟
علم محدود ہے یا لامحدود؟
طبیعیات کی دنیا سے برتر کوئی دنیا ہے یا نہیں؟
اگر ہے تو اس میں مظاہر کی معنویت کیا ہوتی ہے؟
کائنات کی کوئی غرض و غایت ہے یا نہیں؟
اور اس طرح کے بیسیوں سوالات مابعد الطبیعیات کا موضوع ہوتے ہیں۔
در حقیقت مابعد الطبیعیات کا بنیادی مقصد کائنات اور اس میں ہونے والے مظاہر کے لیے ایک مطلق توجیہہ ترتیب دینا ہے جسے ہم سائنس کی زبان میں آج کل فائنل تھیوری یا تھیوری آف ایوریتھنگ کہتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
عام طور پر ان دونوں اصطلاحات کو ادل بدل کر استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید تفہیم کے لیے نیٹ سے ایک اقتباس اڑایا ہے، اور آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

ماوراء الطبیعیات (Metaphysics), فلسفہ کی ایک اہم شاخ ہے۔ یہ عالم کے داخلی و غیر مادی امور سے بحث کرتی ہے۔ وجودیت، الہیات و کونیات اسکی ذیلی شاخیں ہیں۔ خدا، غایت، علت، وقت اور ممکنات اس کے موضوعات ہیں۔ ہستی و وجود کے --- ہونے --- کی وجہ اور فہم و ادراک کے مسائل میں الجھ کر کون (being) کی تلاش اسکے خاص موضوعات ہیں۔ علم فلسفہ کی اس شاخ تنظیر و تفکر میں کسی بھی موجود کے پہلے سبب سے بحث کی جاتی ہے۔ دور قرون وسطی (Medieval) کے یونانی لفظ سے metaphysika ماخوذ ہے آج کا میٹافزکس اور دو الفاظ کا مرکب ہے ، 1- meta بمعنی پس از یا بعد 2- physics بمعنی طبیعی وطبیعیات یا فطرت۔
اوپر بیان شدہ ماخوذیت کے بعد سادہ الفاظ میں اسکو یوں کہ سکتے ہیں کہ ؛ قدرت یا فطرت سے آگے (سوچ یا کام)، یا پھر یوں کہ لیں کہ فطرت (طبیعیات) سے آگے یا طبیعیات کے بعد یعنی مابعدالطبیعیات۔ اور یہی ، طبیعیات کے بعد (کام) ، ارسطو کے تحریر کردہ بیان میں فطرت اور طبیعیات کا ذکر ختم ہونے پر 13 ویں مقالے یا دانش نویسہ کا عنوان بھی ہے جو عربی کے دور عروج میں ترجمہ ہوا۔ ارسطو کی تحریر میں تو اسکو طبیعیات کے بعد (کام) کہا گیا تھا مگر لاطینی والوں کے ترجمہ کا کمال کہیئے کہ انہوں نے اسکو ؛ طبیعیات سے (آگے یا ماوراء) علم ، ترجمہ کردیا اور اسی ؛ بعد (after) اور آگے یا ماوراء (beyond) کے محرف یا تفسیرسہوا سے اسکا آج کا فلسفیانہ --- مابعد --- کا مفہوم آیا ہے۔

ربط
 
ہم سمجھے شاید اسے میٹا فزکس کہتے ہیں سر
میری غلط فہمی دور کرنے پر بہت شکریہ۔ سرِ دست اس موضوع پر کچھ کتب تو تجویز فرما دیجئے

ما بعد الطبیعیات کے لیے کوئی مخصوص کتابیں نہیں ہوتیں۔
اردو میں میرے علم میں نہیں ہے۔۔ انگریزی میں البتہ بہت سی کتابیں ہیں۔ اگر آپ مبتدی ہیں تو بہتر ہے کہ کسی فلسفی کو پڑھنے سے بہتر ہے کہ سوانح اور تواریخ پڑھیں۔ قابلَ ذکر کتابوں میں ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی برٹرینڈ رسل کی۔ سٹوری آف فلاسفی از ول دیوراں۔ پرابلمز آف فلاسفی از برٹرینڈ رسل۔ ایک شہرہ آفاق ناول ہے سوفیز ورلڈ۔ اسی طرح اردو میں علی عباس جلال پوری صاحب کی روایاتَ فلسفہ دیکھیں۔ یہ نسبتاً آسان کتابیں ہیں۔ اس کے بعد دیکارت کو پڑھیں، کانٹ کی کریٹک آف پیور ریزن، ہیگل کی سائنس آف لاجک پڑھیں، اس کے علاوہ ایک جدید تر کتاب جو کچھ دنوں پہلے پڑھنا شروع کی تھی لیکن جاری نہیں رکھ سکا وہ ہیڈیگر کی بی انگ اینڈ ٹائم ہے۔
 
اس پر میں دو کتابیں پڑھ چکا ہوں۔
فلسفہ کیا ہے، یہ اردو ترجمہ ہے کسی انگلش کتاب کا
فلسفے کے بنیادی مسائل، یہ مقامی مصنف کی کتاب ہے نہایت آسان انداز میں لکھی گئی ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے
سر دست دونوں کتابوں کے مصنفین کا نام ذہن سے محو ہے۔
 
بڑی بات ہے سات آٹھ ماہ کے بعد نظر التفات پڑی اور پھر ایسے برسے کہ۔۔۔۔۔۔


غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طوفاں کیے ہوئے
 

arifkarim

معطل
اس پر میں دو کتابیں پڑھ چکا ہوں۔
فلسفہ کیا ہے، یہ اردو ترجمہ ہے کسی انگلش کتاب کا
فلسفے کے بنیادی مسائل، یہ مقامی مصنف کی کتاب ہے نہایت آسان انداز میں لکھی گئی ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے
سر دست دونوں کتابوں کے مصنفین کا نام ذہن سے محو ہے۔
کیا اردو میں قدرتی فلاسفی جو جدید سائنس کا جد امجد ہے پر کوئی کتاب موجود ہے؟
 

arifkarim

معطل
حل تجویز فرمائیں بھیا
خیر تھوڑی سرچ بہتر کرنے سے ایک مضون تو مل گیا ہے:
http://scienciat.blogspot.no/2014/01/blog-post_19.html?m=1

حل یہی ہے کہ سائنس کو بطور قدرتی فلسفہ پڑھایا جائے جیسا کہ مغرب میں آج بھی ہوتا ہے۔ سائنس اور فلسفے کو الگ تھلگ کر دینے کی وجہ سے عوام اسے "علم" تصور ہی نہیں کرتی۔ جبکہ حقیقت میں اصل علم ہی یہی جو تجربات اور مشاہدات پر عین پورا اترتا ہے یعنی کہ سائنس۔ دیگر فلسفے تو محض خام خیالیاں ہیں۔
 
میں عام طور پر کہتا ہوں کہ اردو میں فلسفہ نہیں لکھا گیا۔ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب سوانح اور تواریخ کے تراجم اور تشاریح ہیں۔
 

arifkarim

معطل
حل تجویز فرمائیں بھیا
میں نے جب پانچویں میں پہلی بار سائنس پڑھی تو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ یہ قدرتی فلسفہ ہے۔ تمام سائنس کے اساتذہ اس بات پر متفق تھے کہ سائنس مغربی مادی علوم ہیں جنکا ہماری دیسی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں فلسفہ صرف دینیات اور اسلامیات تک محدود ہوگیا۔ یوں بچپن ہی سے بچوں کے دلوں میں اس فلسفہ کی طرف اجنبیت سی ڈال دی جاتی ہے۔ حالانکہ تاریخ میں کیا عرب کیا فارسی تو کیا ہندوستانی سب فلسفی ہی قدرتی فلسفہ کا پرچار کرتے تھے۔ جیسے ابن الہیشم، ابن سینا، ابن رشد، الجبر، آریابھاتا، براہماگپتا وغیرہ۔ ان سب کی کاوشوں کے بغیر مغرب میں قدرتی فلاسفی کبھی بھی جدید سائنس میں تبدیل نہ ہو پاتی
 
میں عام طور پر کہتا ہوں کہ اردو میں فلسفہ نہیں لکھا گیا۔ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب سوانح اور تواریخ کے تراجم اور تشاریح ہیں۔
اردو میں فلسفہ خودی ضرور لکھا گیا۔
در دشت جنوں من جبریل زبوں صیدی
یزداں بہ کمند آور ای ہمت مردانہ
 

فرقان احمد

محفلین
کیا اردو میں قدرتی فلاسفی جو جدید سائنس کا جد امجد ہے پر کوئی کتاب موجود ہے؟
شاید اس طرح کی کتب لکھنے کا رواج کم کم رہا ہے اور اس موضوع پر کتب کی تلاش عبث معلوم ہوتی ہے۔ تاہم، اردو میں فلسفہ پر کچھ کتب کا سراغ ملا تو ہے۔ یہ رہا ربط
 
Top