مار نہیں پیار۔۔۔۔

ہانیہ

محفلین
مار نہیں پیار
qalamkar.pk/bilal-hassan-bhatti-4/

قلم کار06/12/2017
bilal-hassan-bhatti.jpg

جب بھی بچوں کو پڑھانے کی بات ہو تو میری گفتگو میں سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ “ایجوکیشنل سائیکالوجی” ہوتا ہے۔ اسی لئے اب میرے دوست بھی یہ لفظ کسی بھی بحث کے درمیان بول کر مجھے تنگ کرتے رہتے ہیں۔ میں ہمیشہ بچوں کو پٹائی کے بغیر پڑھانے پر زور دیتا ہوں۔ جبکہ ہمارے ہاں اکثریت اساتذہ کا یہ کہنا ہے کہ پٹائی کے بغیر بچوں کو پڑھانا ناممکن ہے۔ جب بھی انہیں پٹائی کے بغیر پڑھانے پر دلائل دیں تو یہ باتیں ان کو غیر یقینی، غیر فطری اور کتابی باتیں لگتی ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ ماننا ہے۔ جو استاد تعلیمی نفسیات اور خاص کر بچوں کی نفسیات سے نابلد ہو وہ شخص کبھی ایک بہترین استاد نہیں بن سکتا۔ چاہے وہ اپنے مضمون میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو۔ کیونکہ بچوں کی ذہنی استعداد کو سمجھے بغیر ان کو دی جانے والی تعلیم اگر ان کی دماغی سطح سے کم یا زیادہ ہو گی تو بچے کے لئے یہ سب سیکھنا بہت مشکل ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں پر زیادہ تشدد ہوتا ہے کیونکہ وہاں پڑھانے والوں کو پٹائی کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں آتا۔ ہمارے اساتذہ تو کہتے ہیں کہ “وگڑیاں تگڑیاں دا ڈنڈا ای پیر اے” یعنی بچے کی ہر غلطی کا حل ڈنڈے میں ہی پوشیدہ ہے۔ پڑھانے پر تو پھر بھی کمپرومائیز ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کے لئے ڈسپلن ڈنڈے کے بغیر لانا ناممکن ہے۔ کیونکہ یہ ساری قوم ہی خراب ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ ڈنڈے والوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔

میرے نزدیک یہاں بچوں کی نفسیات سے لاعلمی ہی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ یہ وہی اساتذہ ہیں جنہوں نے اپنا تعلیمی دور پٹائی کھا کر گزارا اور اب وہ پٹائی کے علاوہ کوئی اور طریقہ جانتے ہی نہیں۔ عام طور پر دیکھا جائے تو اساتذہ اپنی تمام پریشانیوں اور گھریلو لڑائیوں کا غصہ اسکول آ کر بچوں پر نکالتے ہیں۔ اگر معمول سے ہٹ کر بچہ اس دن کوئی چھوٹی سی بھی غلطی کر دے تو پھر اُسکی خوب پٹائی ہوتی ہے۔ بلکہ ایک بچے کی وجہ سے اکثر ساری کلاس ہی پھنس جاتی ہے۔ وہ ٹیسٹ جو ایک ہفتہ پہلے دے کر ماسٹر صاحب بھول گئے ہوں گے وہ بھی انہیں یاد آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے اساتذہ ہمیشہ بچوں کو افلاطون سمجھتے ہیں۔ وہ بات جو انہیں پورا ہفتہ یاد نہیں رہی بچے کو اسکی تفصیل ایک ہفتے تک کیسے یاد رہ سکتی ہے؟ یہی لوگ دو دفعہ کوئی سبق بتا کر سمجھتے ہیں کہ اب بس بچہ اسے ساری عمر کے لیے یاد رکھے گا۔ حالانکہ انہیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ بچوں کو کسی نئی چیز سے متعارف کروانے میں وقت لگتا ہے۔ جو بچے کی ذہنی استعداد پر منحصر ہوتا ہے۔ معذرت کے ساتھ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مار کر ان اساتذہ کو ذہنی سکون ملتا ہے اور ان کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پٹائی بغیر بھی پڑھانا ممکن ہے یا کہ ہمارے اساتذہ کا اختیار کیا ہوا طریقہ ہی سب سے بہترین طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں انعام کا ذکر اکثر ٹریننگ میں سننے کو ملتا ہے لیکن سزا کے بارے میں ان کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ بچوں کو مارنا بالکل نہیں جبکہ سچویشن ہینڈلنگ کا متبادل طریقہ بہت کم ہی بتایا جاتا ہے۔ بچوں کے بات نہ ماننے یا سبق یاد نہ کرنے پر والدین اور اساتذہ کے پاس بس ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ سزا دینا،خاص طور پر منفی سزا دینا، سزا کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے منفی سزا اور دوسری ہے مثبت سزا۔ جس کا ہمارے ہاں تصور ہی تقریبا ناپید ہو چکا ہے۔
منفی سزائیں:
اس قسم کی سزا دینے کو تمام ماہرین تعلیم نے ہی منع کیا ہے۔ مغربی ماہرین تعلیم تو ایک طرف امام غزالی اور ابن خلدون جیسے مسلمان ماہرین تعلیم نے بھی انتہائی ناگزیر حالت میں بھی بس ایک یا دو سے زیادہ چھڑیاں مارنے کی اجازت دی ہے۔ ان منفی سزاؤں میں بہت سی ایسی سزائیں ہیں۔ جس سے بچے کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ جیسا کہ ساتھی طالب علموں سے بچوں کی پٹائی کروانا، بچوں کو کہنا کہ وہ خود زور سے اپنے چہرے پر تھپڑ ماریں، ساتھی طالب علموں کے سامنے بچوں کو جگتیں مارنے اور مختلف باتوں سے انہیں ڈی گریڈ کرنا اور بچے کو کلاس یا سکول سے ہی نکل جانے جیسی سزائیں دینا شامل ہیں۔ یہ سزائیں بچوں کی شخصیت پر گہرا تاثر چھوڑتی ہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سب نئے آنے والے میل اور فیمیل اساتذہ یہ کام کر رہے ہیں۔ اس سے بچہ کا خود پر یقین اُٹھ جاتا ہے۔ وہ خود کو کم تر سمجھنے لگتا ہے۔ اس میں منفی سوچ پروان چڑھتی ہے جو کہ بچے کی آئندہ زندگی کو تباہ کر دیتی ہے۔ جب کہ جسمانی سزائیں بھی بچوں کی ذہنی و جسمانی قابلیت کو شدید متاثر کرتی ہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں سے پڑھانے اور آٹھ سال سے پڑھتے ہوئے میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی بے جا ڈانٹ اور سزا بچے کو آپ سے متنفر کر دیتی ہے۔ وہ آپ کے نام بگاڑنے ، دوستوں میں آپکا مذاق اُڑانے اور گالیاں دینے سے لے کر مارنے جیسے انتہائی اقدام تک جا سکتے ہیں اور جاتے بھی ہیں۔

مثبت سزائیں:
اس قسم کی سزاؤں کی ترویج ہمارے ہاں تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ وہ سزائیں ہیں جن کو اپنا کر بچے کے رویے میں بہت جلد تبدیلی لائی جا سکتی ہیں۔ ان سے بچے کے منفی رجحانات میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے اور ایک خاص مدت کے بعد بچے منفی رویے ترک کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بچہ سبق یاد نہیں کر کے آیا یا کام لکھ کر نہیں لاتا تو آپ اُسے اپنے پاس کھڑا کر کے اُس کو وہ سبق یاد کروا سکتے ہیں۔ بس آپ کو اس کی توجہ کتاب پر مبذول کروانی ہے۔ اور دو تین منٹ بعد ان کو یاد دہانی کرواتے رہنا ہے۔ بچے کو کھڑا رکھ کر بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔ اگر ایک گھنٹہ بھی اس طرح بچے کو پڑھایا جائے تو وہ بہت جلد اپنا سبق یاد کر سکتا ہے۔ لیکن اس دوران آپ کو صبر کا دامن نہیں چھوڑنا، اگر بچہ ہوم ورک لکھ کر نہیں آ رہا تو ان کی چھٹی بند کر دیں اور جب تک اپنا کام مکمل نہ کرے چھٹی نہ دیں۔ دیکھیں پھر تین دن کے اندر اندر بچہ اپنا رویہ کیسے بدلے گا۔ ڈسپلن کے لئے بچوں میں ہر کام میں ہلکا پھلکا مقابلہ کرواتے رہنا چاہیے۔ اور جلد کام کرنے والے کی تعریف کریں لیکن یاد رہے کہ اس سے بچوں میں منفی رجحان اجاگر نہ ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے ہی مخالف ہو جائیں۔
میری تمام اساتذہ سے جو کسی بھی طرح تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔چھوٹی سی گذارش ہے کہ وہ بچوں پر کسی طرح کا کوئی تشدد نہ کریں ۔ اگر والدین مارنے کا کہیں بھی تو آپ کو ان والدین کو سمجھانا چاہئیے کہ مارنا کسی طور بھی بچے کو راہ راست پر لانے کا بہترین طریقہ کار نہیں ہے۔ بلکہ یہ بچے کو متشدد بناتا ہے۔ میری یہ تحریر پڑھنے والے تمام والدین سے بھی گذارش ہے کہ خدارا جب آپ بچے کو اسکول چھوڑنے جائیں تو اساتذہ کو ہرگز یہ نہ کہا کریں کہ ہمارے بچوں کی چاہے ہڈیاں توڑ دو۔ لیکن ہمارا بچے کی کارکردگی اچھی ہونی چاہئیے۔ یہ اجازت نامہ جہاں بچے پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ وہیں اساتذہ کو مزید کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ جس سے وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی بچوں کو بغیر کسی جھجھک کے خوب مارتے ہیں۔یہ اساتذہ کا فرض ہے کہ والدین کو یہ بات سمجھائیں کہ مارنے کے علاوہ ہم مثبت طریقے سے ہم بچے کی غلط عادتیں ختم کر سکتے ہیں۔ آپ جنہیں پڑھاتے ہیں وہ تو معصوم سے پھول ہوتے ہیں۔ آپ بچوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔

بچوں کی کردار سازی اور شخصیت سازی آپ کا فرض ہے۔ بچے والدین سے بڑھ کر آپ کو کاپی کرتے ہیں۔ وہ والدین سے زیادہ آپ کے الفاظ پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے خدارا بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار مار کر ان کو متشدد نہ بنائیں۔ بچوں کے دماغ میں یہ نہ بٹھا دیں کہ ہر مسئلے کا حل مارنے میں ہی پوشیدہ ہے۔ آپ کو بچوں کی غلطیوں کو برداشت کرنا ہو گا۔ بلکہ یوں کہیں کہ سکول والے چھ گھنٹے آپ کے نہ مارنے کا روزہ ہیں۔ آپ کسی بھی طرح ایک ماہ خود کو مارنے سے روک کر بچوں کو پیار سے پڑھائیں۔ آپ اگر پوری توجہ سے اگر مثبت سزا دے کر بچوں کو ایک ماہ پڑھا لیں تو آپ بچوں میں یقینی بدلاؤ دیکھیں گے۔ خدارا اگر آپ کی کوششوں سے ایک بھی ایسی نسل تیار ہو گئی جو مسائل کا حل تشدد کے بغیر بھی نکال سکیں گے۔ پھر نا صرف بچے بلکہ ان کے والدین اور پورا معاشرہ آپ کی عزت کرے گا۔ اس نئی نسل سے ہم بہترین ڈاکٹر سائنسدان، نفسیات دان، ادیب اور فلاسفر دیکھ سکیں گے۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم سب اساتذہ اس نئی نسل میں مثبت اقدار کی آبیاری کریں گے

مار نہیں پیار - Qalamkar | قلم کار
 

شمشاد

لائبریرین
اسکولوں میں جسمانی سزا دینا تقریباً ختم ہو گئی ہے، البتہ مدارس میں یہ کام ابھی بھی جاری و ساری ہے۔
 

ہانیہ

محفلین
اسکولوں میں جسمانی سزا دینا تقریباً ختم ہو گئی ہے، البتہ مدارس میں یہ کام ابھی بھی جاری و ساری ہے۔

سر شہر کے سکولوں میں چینج آیا ہے۔۔۔۔لیکن دیہات میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے۔۔۔۔ وہاں اب بھی جس کا جو دل چاہتا ہے۔۔۔کرتا ہے۔۔۔۔
 
Top