لیکن ہم کرامت کو نہیں مانتے۔۔۔ ۔!!! مزمل شیخ بسملؔ

”فضائل اعمال“ (سابقہ نام ”تبلیغی نصاب“ جو بوجوہ تبدیل کردیا گیا) ہو، ”بہشتی زیور“ہو، کشف المہجوب ہو یا اسی جیسی کوئی اور تصنیف، یہ اغلاط سے پاک ہرگز نہیں ہیں۔ ان میں قرآن اور صحیح احادیث سے موافق مواد بھی ہیں اور متصادم بھی۔ اور کسی انسانی تصنیف میں اغلاط کا نہ ہونا، یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان خطا کا پتلاہے۔ اصل اور دین ان کتب میں نہیں بلکہ جیسا کہ برادرم محمد یعقوب آسی نے فرمایا، اصل دین قرآن اور صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دین اسلام کا مستند اور مکمل منبع قرآن و حدیث موجود ہے تو ہم پھر ہم اس قسم کی ناقص تصانیف کو سینے سے لگانے پر ہی کیوں مصر ہیں۔ پہلے قرآن پڑھئے۔ عربی سیکھ کر پڑھئے۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تراجم سے ہی قرآن کا دوچار مرتبہ مکمل مطالعہ کیجئے تاکہ آپ قرآن اور اسلام کی روح کو سمجھ سکیں۔ ساتھ ساتھ صحیح احادیث (جیسے بخاری و مسلم وغیرہ) کا مطالعہ کجیئے۔ جب ایک مسلمان کا قلب اور دماغ قرآن اور احادیث کی روح سے آشنا ہوجائے تو پھر دیگر اسلامی اسکالرز کی کتب ضرور پڑھئے آپ کو خود معلوم ہوتا جائے گا کہ ان کتب میں کیا کچھ قرآن و احادیث کی تشریحات پر مبنی ہیں اور کیا کچھ اس کے برخلاف۔ عموماً لوگ اپنے ”ممدوح دینی اسکالرز“ کی تحریر کو ”حرف ِ آخر“ سمجھ کر ایک طرف تو قرآن و حدیث سے ”بے نیاز“ ہوجاتے ہیں، دوسری طرف اگر کوئی ان کتب کی خامیوں کی طرف توجہ دلائے تو سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔
  1. تبلیغی نصاب میں بیشتر مقامات پر قرآن اور احادیث کے کوٹیشنز سمیت دیگر ”واقعات“ بلا حوالہ بیان کئے گئے ہیں۔ کسی بھی دینی تصنیف کے ”مستند ہونے“ کی سب سے بڑی ”پہچان“ یہ ہوا کرتی ہے کہ اس میں پیش کردہ کوٹیشنز کا حوالہ بھی موجود ہو۔ متعدد مقامات پرقرآنی آیات کا حوالہ ”پارہ نمبر فلاں، رکوع نمبر فلاں“ دیا گیا ہے۔ جبکہ قرآنی آیات کا حوالہ ہمیشہ سورت نمبر اور آیت نمبر کے طور پر دیا جاتا ہے۔
  2. فضائل اعمال نامی اس کتاب میں بہت سی ”غلط بیانیاں“ موجود ہیں جیسے امام شافعی کا نماز میں ساٹھ قرآن پاک کا پڑھنا ، ایک سید صاحب کا بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے نماز پڑھنا ، زین العابدین کا دن میں ہزار رکعات نماز پڈھنا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں شراب پینے کا حکم اور غیر محرم کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
  3. صاحب کتاب کارکنانِ تبلیغی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں: اگر چہ تم کتنے ہی ضعیف ہو ممکن ہے کہ حق تعالیٰ تم سے وہ کام لیں جو بڑے بڑوں سے نہ ہوسکے اور اگر حق تعالیٰ کسی کام کو لینا نہیں چاہتے تو انبیاء بھی کتنی کوشش کریں تب بھی وہ ذرہ نہیں ہل سکتا اور اگر کرنا چاہے تو تم جیسے ضعیف سے بھی وہ کام لے لیں جو انبیاء سے بھی نہ ہوسکے غرض جب کہ ہمارے پاس تمہارے جیسے ضعیف ہیں تو حق تعالیٰ تم سے سب کام لے لیں گے ( مکاتیب الیاس ص ۲۱)
  4. نظام الٰہی میں بھول (نعوذباللہ) ۔۔۔ ام کلثوم کے خاوند عبدالرحمٰن تھے اور ایک دفعہ ایسی سکتہ کی حالت ہوگئی کہ سب نے انتقال ہونا تجویز کرلیا ام کلثوم اٹھیں اور نماز کی نیت باندھ لی ۔ نماز سے فارغ ہوئیں تو عبدالرحمٰن کو بھی افاقہ ہوا ۔ لوگوں سے پوچھا کہ کیا میری حالت موت کی سی ہوگئی تھی ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ، فرمایا کہ،، دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا چلو احکم الحاکمین کی بارگاہ میں تمہارا فیصلہ ہونا ہے ۔ وہ مجھے لے جانے لگے کہ ایک تیسرے فرشتہ آیا اور ان دونوں سے کہا کہ تم چلے جاؤ یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی قسمت میں سعادت( نیکی ) اس وقت لکھ دی گئی تھی جب یہ ماں کے پیٹ میں تھے اور ابھی انکی اولاد کوان سے فوائد حاصل کرنے ہیں ۔ اس کے بعد ایک مہینے تک عبدالرحمٰن زندہ رہے پھر انتقال ہوا ( فضائل اعمال باب فضائل نماز صفحہ ۱۰ ) ۔۔۔ جبکہ قرآن میں فرشتوں کے بارے میں ہے (و یفعلون ما یو مرون، سورہ تحریم ۶ ) ترجمہ: وہ تو وہی کرتے ہے جن کا انہیں حکم دیا گیا ہوتا ہے ۔
  5. امام شافعی کا معمول تھا کی رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نماز میں پڑھا کرتے تھے ، نماز واحد صیغہ ہے معلوم ہوا کہ ایک نمازمیں ساٹھ قرآن پڑھا تو امام صاحب نہ ہوا کوئی کمپیوٹر ہوا ۔
  6. ایک سید صاحب کا قصہ لکھا ہے بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے ساری نماز یں پڑھیں اور پندرہ برس مسلسل لیٹنے کی نوبت نہ آئی کئی دن ایسے گزر جاتے کہ کوئی چیز چکھنے کی نوبت نہ آتی تھی ( فضائل نماز صفحہ ۶۵) عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان آبد و زاہد صحابہ میں سے تھے کی روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہتے تھے اور دن کو ہمیشہ روزہ دار رہتے ( حکایت صحابہ صفحہ ۱۶۰ ) ۔۔۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پوری پوری رات عبادت کرنے اور ہمیشہ روزہ رکھنے کو منع فرمایا دیکھئے (بخاری شریف کتاب رمضان )
  7. (۱) شیخ ابو ایوب سنوسی۔ (۲) ابوالحسین مالکی ،(۳) ابو اعلی کے متعلق زکریا صاحب نے لکھا ہے کہ ان تینوں بزرگوں نے مرنے سے پہلے ہی مرنے کا وقت بتایا چناچہ ایسا ہی ہوا ۔
  8. حسن بن حی کہتے ہے کہ میرے بھائی علی کا جس رات انتقال ہوا ، کہنے لگے جبرائیل ابھی پانی لائے تھے وہ مجھے پلا گئے اور فرما گئے کہ توں اور تیرا بھائی ان لوگوں میں سے ہے جن پر حق تعالیٰ شانہ نے انعام فرما رکھا ہے ( باب فضائل صدقات صفحہ ۴۷۸ تا ۴۸۱ ) مذکورہ واقعہ کے برعکس پڑھے ۔ حدیث::: قد کان فیما قبلکم من المم محدثون و ان کان فی امتی ھذہ فانه عمر بن الخطاب ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزرے ہوئے زمانے کی تم سے پہلی امتوں میں محدث، کشف الہام والے ہوا کرتے تھے میری امت میں اگر کوئی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتے ( بخاری شریف کتاب مناقب عمر )
  9. شیخ علی متقی نقل کرتے تھے کہ ایک فقیر نے فقراء مغرب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اس کو شراب پینے کے لئے فرماتے ہیں ۔
  10. حافظ ابو نعیم سفیان ثوری نے ایک شخص سے پوچھا اس نے کہا ایک آدمی نے ہاتھ میری ماں کے منھ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگئی اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا ۔ مین نے اس عرض کیا کہ آپ کون ہیں کی میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا انہونے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ جبکہ آئشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی غیرمحرم عورت کا ہاتھ سے نہیں چھوا بلکہ اس کو صرف بات چیت سے بیعت فرمایا ( مسلم ج ۲ صفحہ ۱۳۱ )

  11. پس نوشت: فضائل اعمال کا نسخہ اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔ اور اسے میں بارہا پڑھ چکا ہوں
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک طرف تو آپ یہ فرمارہیں ہے کہ

" کسی انسانی تصنیف میں اغلاط کا نہ ہونا، یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان خطا کا پتلاہے۔ اصل اور دین ان کتب میں نہیں "

اور پھر خود ہی امام بخاری اور امام مسلم کی لکھی ہوئی تصانیف کے حوالے بھی دے رہیں تو امام بخاری اور امام مسلم کو آپ خطاء سے مبراء مانتے ہیں ان کی تصانیف میں اغلاط نہیں ہوسکتی ؟؟؟؟
 

یوسف-2

محفلین
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک طرف تو آپ یہ فرمارہیں ہے کہ

" کسی انسانی تصنیف میں اغلاط کا نہ ہونا، یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان خطا کا پتلاہے۔ اصل اور دین ان کتب میں نہیں "
اور پھر خود ہی امام بخاری اور امام مسلم کی لکھی ہوئی تصانیف کے حوالے بھی دے رہیں تو امام بخاری اور امام مسلم کو آپ خطاء سے مبراء مانتے ہیں ان کی تصانیف میں اغلاط نہیں ہوسکتی ؟؟؟؟
آپ کے “اعتراض برائے اعتراض” کے صرف دو معنی ہیں
  1. آپ کا تعلق ان “فرقوں” سے ہے، جو “اجماع امت” پر اور قرآن کے بعد “صحیح بخاری اور صحیح مسلم” سمیت صحاح ستہ پر “ایمان” نہیں رکھتے بلکہ اجماع امت سے علیحدہ “مخصوص احادیث کے مجموعوں” پر یقین رکھتے ہیں
  2. یا پھر آپ علم حدیث کی الف بے سے واقف نہیں ہیں، جبھی آپ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو امام بخاری اور امام مسلم کی “لکھی ہوئی تصانیف” قرار دے رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی آج دنیا میں موجود “آن ریکارڈ” قرآن مجید کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ کی “لکھی ہوئی” یا “پھیلائی ہوئی کتاب” قرار دے۔ کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں “مصحف عثمانی” ہی کی “نقول” موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا “لکھا ہوا قرآن مجید” تو کہیں بھی “موجود” نہین ہے۔ اور نہ ہی “آسمان سے اترا ہوا کوئی صحیفہ قرآن” کا کوئی “وجود” ہے۔
اگر پہلی بات درست ہے تو “لکم دینکم ولی دین” کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور آپ قرآن کے نزول و ترتیب کی تاریخ کے ساتھ ساتھ احادیث کی جمع و تدوین اور تالیف کی تاریخ سے بھی سرے سے ناواقف ہیں تو آپ کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ ان سے ضرور واقفیت حاصل کیجئے کہ یہ جاننا بھی ایک مسلمان کے لئے نہایت ضروری ہے، تاکہ اس کا “قرآن و حدیث” پر درست ایمان قائم ہو۔ صحیح حدیث کے بغیر قرآن اور قرآن کے بغیر احادیث ۔۔۔ ان دونوں صورتوں میں اسلام “نامکمل” بلکہ “ناقص ” رہتا ہے۔ اسلام “قرآن و حدیث” کے مجموعہ کا نام ہے، کسی ایک کا نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 

شوکت پرویز

محفلین
آپ ستر ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھنے والے کے جہنم سے آزادی کے لئے دلیل مانگ رہیں ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو ایک بار کلمہ طیبہ خلوص دل سے پڑھ لے اس کو جنت کی بشارت ہے یعنی جب جنت کی بشارت ہے تو یقینی طور سے جہنم سے کی آزادی ۔حوالہ صحیح مسلم
اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آمین۔۔
جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک مرتبہ کی فضیلت یہ بتائی ہے، تو اسے ستّر ہزار کس نے بنا دیا ؟؟؟

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(سورۃ الحجرات، 1)
اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بیشک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
(سورۃ الحجرات، 2)
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو

میرے محترم بھائی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح بات ہے کہ ایک مرتبہ کی فضیلت یہ ہے تو اس نمبر کو کوئی کیسے بڑھا سکتا ہے۔
ہم ذاتی طور پر کتنی ہی مرتبہ پڑھیں، لیکن فضیلت بیان کرنے کے وقت ہمیں وہی بتانا پڑے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
جملہ احباب سے معذرت کے ساتھ ۔۔۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اخلاص کو بھول جاتے ہیں۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ: نماز فحاشی اور برائیوں سے روکتی ہے۔ بھائی کتنے لوگ ہیں جو حرام کا کاروبار بھی کرتے ہیں، سود لیتے بھی ہیں دیتے بھی ہیں، بدکار بھی ہیں، اور ۔۔۔ وہ نماز بھی پابندی سے پڑھتے ہیں۔ تو وہ کیا چیز ہے کہ نماز کا اثر نہیں ہو رہا یعنی وہ برائی سے نہیں روک رہی؟
وہ چیز اخلاص کی کمی اور خود کو لفظوں تک محدود کر لینا ہے۔ اخلاص ہو تو ہر شخص الف لام میم کی نیکیوں کی گنتی کرنے کی بجائے یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اس کتاب کا پیغام اور حقیقی منشا کیا ہے اور پھر اس پر اپنی حدود تک تو عمل پیرا ہو۔ اس کے لئے قرآن فہمی کو شعار بنانا پڑے گا۔ اور اس کے احکام کو مالک الملک اور قادرِ مطلق کے احکام سمجھ پر اپنانا پڑے گا۔ نہیں تو پھر دنیا اور آخرت دونوں میں محرومی کے سوا کچھ نہیں ملنے کا۔
نماز یوں پڑھی جائے جیسے اس کا حق ہے، تو دیکھئے! اللہ کریم کا ارشاد ہے:جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے میں ڈر گیا، اس کے لئے دو دو باغات ہیں۔ اور یہ کھڑا ہونا دو رکعت نماز سے لے کر پوری مدنیت تک محیط ہے۔ اور انسان کو ملے گا کیا؟ وہی جس کی اس نے کوشش کی! شرط وہی ہے اخلاص کی۔ اخلاص! کہ اللہ تو ہمارے بارے میں وہ سب کچھ جانتا ہے جس کا ہمیں ادراک تک نہیں ہوتا، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی پر بھی اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
ہر نفس کے لئے وہی کچھ ہے جو وہ کماتا ہے اور اس پر حساب واجب ہے ہر اس بات اور عمل کا جس کا وہ اکتساب کرتا ہے۔
اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم زمین و آسمان کے کناروں سے نکل بھاگنے پر قادر ہو تو بھگ نکلو! تم فرار نہیں ہو سکتے جب تک تمہیں زمین و آسمان پر تسلط حاصل نہ ہو۔ اور یہ وہ سب کچھ تو اللہ کی قدرت اور حکم میں ہے!
و ما توفیقی الا باللہ
 
اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آمین۔۔
جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک مرتبہ کی فضیلت یہ بتائی ہے، تو اسے ستّر ہزار کس نے بنا دیا ؟؟؟

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ (سورۃ الحجرات، 1)
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ (سورۃ الحجرات، 2)
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو۔۔

میرے محترم بھائی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح بات ہے کہ ایک مرتبہ کی فضیلت یہ ہے تو اس نمبر کو کوئی کیسے بڑھا سکتا ہے۔
ہم ذاتی طور پر کتنی ہی مرتبہ پڑھیں، لیکن فضیلت بیان کرنے کے وقت ہمیں وہی بتانا پڑے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے۔۔۔
صحیح مسلم کی جس حدیث کا حوالہہ دیا گیا ہے اگر اس مکمل حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کلمہ طیبہ کی ایک بار خلوص دل سے گواہی پر جنت کی بشارت کو اس وقت بھی نہیں مانا گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی تھی
 

شوکت پرویز

محفلین
صحیح مسلم کی جس حدیث کا حوالہہ دیا گیا ہے اگر اس مکمل حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کلمہ طیبہ کی ایک بار خلوص دل سے گواہی پر جنت کی بشارت کو اس وقت بھی نہیں مانا گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی تھی
میرے محترم مومن بھائی !
میرے اس سوال کا جواب دیجئے۔۔۔ :)
جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک مرتبہ کی فضیلت یہ بتائی ہے، تو اسے ستّر ہزار کس نے بنا دیا ؟؟؟
۔۔۔
میرے محترم بھائی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح بات ہے کہ ایک مرتبہ کی فضیلت یہ ہے تو اس نمبر کو کوئی کیسے بڑھا سکتا ہے۔
 
Top