لیکن ہم کرامت کو نہیں مانتے۔۔۔ ۔!!! مزمل شیخ بسملؔ

کراماتِ اولیاء

عمران سیفی صاحب: کیا تبلیغی جماعت کا نصاب (فضائل اعمال نامی کتاب) درست نصاب ہے؟
ہم نے کہا کہ ہاں جی بالکل درست کتاب ہے۔
عمران سیفی صاحب: پھر تصدیق کرتے ہیں کہ جناب آپ کو مکمل یقین ہے کہ یہ درست کتاب ہے؟
ہاں جی مکمل یقین ہے۔
عمران سیفی صاحب: نہیں آپ سوچ لیں آپ کو پورا پکا یقین ہے؟
اب ہم انہیں قران کی قسم تو دے نہیں سکتے تھے اتنے چھوٹے سے معاملے پر جس کی وہ اتنی زور و شور سے توثیق و تصدیق کروا رہے تھے ہمیں معلوم تھا کہ انہیں ضرور کوئی اعتراض ہوگا جسے وہ ہماری تصدیق کے بعد دائر کردیں گے ہم نے پھر تصدیق کی کہ ہاں بھائی مکمل پکا یقین ہے کہ فضائل اعمال الحمد للہ درست کتاب ہے۔
انہوں نے جھٹ سے ایک حکایت پیش کی اور اس حکایت پر اعتراض بھی لکھا:

عمران سیفی صاحب: فضائلِ اعمال ۔۔۔ میں سے ایک واقعہ ۔۔ غور فرمائیے گا ۔۔
فضائل اعمال ۔۔ صفحہ نمبر 484 پر ابو قرطوبی فرماتے ہیں ۔۔ ”کہ ہم نے سُنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے ۔ وہاں ایک نوجوان رہتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے کشف ہو جاتا ہے اور اس کو جنت اور جہنم کے معاملات کے بارے میں خبر ہوجاتی ہے ایک دن ہمارے پاس کھانا کھاتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا میں نے ان سے پوچھا کہ کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کہا کہ میری ماں کو جہنم میں ڈال دیا گیا ہے ابو یزید کہتے ہیں میں نے جو ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ رکھا تھا اور دل میں محفوظ کر رکھا تھا میں نے اس کی والدہ کے نام کردیا میں نے یہ سب کچھ دل ہی دل میں کیا .اس نوجوان نے مُسکرانا شروع کردیا اور فرمایا پیر صاحب میری والدہ کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے“

اعتراض:
”جنت اور جہنم میں کیا ہو رہا ہے ۔۔ یہ جاننے کے لیے اس نوجوان کے پاس جو سورس آف انفارمیشن تھا وہ کیا تھا ۔۔۔۔ اسے کس نے بتایا کہ اس کی والدہ کو جہنم میں پھر جہنم سے جنت میں ڈالا جا رہا ہے“


ہمارا سوال ان سے یہ تھا کہ کیا کرامت اور کشف کا ہوجانا قران و سنت کے خلاف ہے؟ کیا کہیں قران و سنت میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ کرامت یا کشف نہیں ہو سکتا؟ اگر ایسا ہے تو کوئی آیت یا کوئی صحیح صریح حدیث پیش کی جائے کہ کشف کا ہو جانا ممکن نہیں۔

اس پر انہوں نے کہا کہ جناب کشف وغیرہ سے ولی کے بارے میں علم غیب کا ماننا لازم آتا ہے۔ اور کرامت سے شرک لازم آتا ہے۔ اب ہم نے جواب دیا کہ اگر آپ کشف و کرامت کو انسان سے واقع ہونا مانیں گے تو یقیناً علم غیب کا عقیدہ بھی ثابت ہوگا، اور شرک کا بھی۔ لیکن ہم اس سلسلے میں انسان کو مختار ہی نہیں مانتے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ کشف و کرامات وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے، اللہ کی مرضی سے، اللہ کے اختیار سے کسی نیک متبع سنت انسان سے واقع ہو جائیں۔ اس میں اس انسان کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ اس لئے نہ تو کشف سے علم غیب لازم آیا، نہ کرامت سے شرک۔

اس بات سے ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔۔۔ کچھ افاقہ ہوا تو کہنے لگے کہ اس طرح تو مشرکین بھی اپنی دلیل بنا سکتے ہیں کہ ہمارا پیر یا ہمارا بابا مختار نہیں لیکن اللہ اس پیر سے سارے کام کروا سکتا ہے۔ اس لئے ان سے مدد مانگی جائے۔

میں نے انہیں مزید سمجھایا کہ : کسی پیر، یا کسی بابا کو یہ اختیار نہیں کہ جو کام اس نے ایک وقت کر کے دکھا دیا وہ کرامت اس کی مرضی سے دوسری مرتبہ بھی صادر ہو، پھر جیسا کہ میں نے اپنا عقیدہ اوپر بیان کیا کہ انسان مختار ہے ہی نہیں اس لئے اگر کسی ولی کے ہاتھوں کوئی بہت بڑا خرق عادت کام بھی ہوجائے تب بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اس کا اختیار اللہ کو ہے، اسی وجہ سے کسی بھی بڑی سے بڑی کرامت سے کوئی ولی نہ تو مشکل کشا بن جاتا ہے نہ خدا بن جاتا ہے کہ اس سے مدد طلب کی جائے۔ (مدد سے مراد مافوق الاسباب ہیں، جیسا بیٹا یا بیٹی دینا، بارش برسانا وغیرہ۔ اس کے علاوہ ما تحت الاسباب زندہ لوگوں سے طلب کرنا جائز ہے چاہے ولی ہو یا عام انسان)۔

اب ہماری دلیل کا جواب تو عمران سیفی صاحب کے پاس کیا ہونا تھا، سرے سے کرامت کو گالیاں دینا شروع ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم نہیں مانتے کرامت کو۔ ہم معجزے کو مانتے ہیں، کرامت کا کوئی ثبوت قران و حدیث میں نہیں ملتا۔۔۔۔ ہم نے اسی وقت اصحٰب الاخدود سورہ البروج کی آیت اور اس کی تفسیر میں جو کرامت سے بھر پور واقعہ صحیح مسلم میں درج ہے وہ ان کے سامنے رکھ دیا جس میں ایک نو جوان لڑکا کوڑھ کے مریضوں کو کرامت سے شفایاب کرتا، مادر زاد اندھوں کو بینا کردیتا۔ اور اپنی موت کا طریقہ بھی بتا رہا تھا۔

اس واقعے پر سیفی صاحب مبہوت ہو گئے۔ تھوڑا ہوش آیا تو کہنے لگے کہ پہلی بات تو میں یہ بتا دیتا ہوں کہ ہمارے نظریے کے خلاف آپ چاہے پورا قران بھی پیش کردیں تب بھی ہم آپ کی ایک بھی نہیں مانیں گے۔ ہم صرف اپنے مولوی صاحب کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ اس کے خلاف ایک آیت یا ایک حدیث کیا چیز ہے، ہزاروں آیات یا لاکھوں احادیث بھی آجائیں تو ہم اپنے موقف سے ہٹ کر نہیں مانیں گے۔

ہم نے کہا کہ عمران صاحب آپ کو اس بات کی صراحت کی ضرورت نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ آپ اپنے مولوی صاحب کے اندھے مقلد ہیں، قران و حدیث سے آپ کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔
بہر حال وہ کہنے لگے کہ ”یہ اصحٰب الاخدود کی کرامت کا جو واقعہ ہے وہ نبی ﷺ کے دور سے پہلے کا ہے۔ اس لئے اس وقت ایسا ہوتا تھا اب نہیں ہوتا“ ہم نے اسی وقت ان سے دلیل طلب کی کہ آپ قران و صحیح حدیث سے ثابت کریں کہ یہ نبی ﷺ کے بعد اللہ تعالی نے کرامت کروانا بند کر دیا ہو؟
اس پر انہوں نے کہا کہ اس کے خلاف ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں صرف قیاس ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا قیاس ہے آپ کے پاس؟ کہنے لگے کی کوئی ولی کسی نبی سے بڑا خرقِ عادت کام کیسے سر انجام دے سکتا ہے؟ فضائل اعمال میں مردے کا بات کرنا، اس کا اٹھ کر چلنے پھرنے کے بھی واقعات میں موجود ہیں۔ میں نے کہا کہ جب ہم ولی سے کرامت ہونے کو ولی کا اختیار ہی نہیں مانتے، صرف اللہ کا اختیار مانتے ہیں تو اللہ کے اختیار کی کوئی حد ہے؟ پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ کرامت کی کوئی حد قران و حدیث سے متعین کر دیں جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ ولی سے صرف اس حد تک کرامت کا صدور ممکن ہے، اس کے آگے کوئی کرامت ولی سے نہیں ہوگی، تاکہ ہم سمجھ لیں کہ کرامت میں کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ قران میں فرماتا ہے کہ” اے نبیﷺ تم مردوں کو نہیں سنا سکتے“ بس یہ حد قائم ہو گئی کہ جب نبیﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے تو کوئی ولی یا غیر نبی کیسے سنا سکتا ہے؟ چہ جائیکہ کہ مردہ اٹھ کر بات بھی کرے۔

میں نے انہیں حدیث پیش کی:
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں میں جھانکا (جہاں بدر کے مقتول مشرکین) پڑے تھے آپ نے فرمایا کیا تم نے ٹھیک ٹھیک اس چیز کو پا لیا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ آپ سے کہا گیا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو پکارتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔لیکن وہ جواب نہیں دیتے ہیں۔
(بخاری کتاب الجنائز)

میں نے پوچھا کہ اب بتائیں آپ نے تو حد قائم کی تھی نبیﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے، کیا فضائل اعمال کی طرح اب آپ بخاری شریف پر بھی غیر معتبر ہونے کا فتوی لگانے کو تیار ہیں؟ کیا امام بخاری کو جھوٹا کہنے کو تیار ہیں؟ اس پر ان پر ایک مرتبہ پھر سکتہ طاری ہو گیا۔ میں تو یہ شعر گنگنا رہا تھا:
اے میرے باغ آرزو کیسا ہے باغ ہائے تو
کلیاں تو گو ہیں چار سوکوئی کلی کھلی نہیں​

پھر کافی کچھ سوچ کر کہنے لگے کہ بے شک نبی ﷺ مردے کو نہیں سنا سکتے، لیکن اللہ تو سنا سکتے ہیں نا؟ میں نے کہا جناب میں اتنی دیر سے اور کہہ کیا رہا ہوں؟ اختیار اللہ ہی کا تو ہے۔ وہی تو ہے جو زندوں کو بھی سنا سکتا ہے، اور مردوں کو بھی سنا سکتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ آپ زندوں کے سننے میں اللہ کے اختیار کے بغیر بھی قائل ہیں، اور مردوں کے سنانا اللہ کا اختیار ہی نہیں مانتے۔

بہر حال، پھر یہ صاحب اس پر تو کوئی جواب کیا لاتے، کہنے لگے کہ کسی ولی سے کوئی کرامت ایسی نہیں صادر ہوسکتی جو نبی سے نہ ہوئی ہو۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ آپ کا قیاس ہے یا قران و حدیث میں ایسا کہیں ثبوت ملتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ابھی قران سے آیت پڑھی تھی کہ نبیﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے وہی میری دلیل ہے۔ میں نے کہا کہ وہ دلیل تو میں نے توڑ دی کہ نبی نہیں سنا سکتے مگر اللہ سنا سکتا ہے، اور جس طرح اللہ کی مرضی سے نبی سنا سکتے ہیں، ولی بھی سنا سکتے ہیں۔ اور اس طرح کے جتنے بھی خرقِ عادت کام ہوں سب کے سب ولی سے بھی صادر ہوسکتے ہیں، چاہے مردوں کو سنانا ہو، یا مردوں کو زندہ کرنا ہو، اندھوں کو بینا کرنا ہو یا اپاہج کو صحتمند کرنا ہو یہ سب کام ولی سے بھی صادر ہو سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس طرح تو کوئی ولی کرامتاً نبی بھی بن سکتا ہے، کیونکہ آپ کے مطابق اللہ اس پر بھی قادر ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا نبوت کا جھوٹا دعوی کرنا خرقِ عادت کاموں میں سے کوئی کام ہے؟ کہنے لگے نہیں۔ تو میں نے کہا کہ کرامت کسے کہتے ہیں؟ کہنے لگے کہ خرق عادت کام کو۔ تو میں نے پوچھا کہ آپ کا سوال بچگانہ ہے یا نہیں؟ کہنے لگے کہ ہمارے مولوی ہمیں ایسے ہی سوالات سکھا تے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ اگر کسی ولی سے کوئی ایسی کرامت صادر ہوجائے جو نبی ﷺ سے بھی نہ ہوئی ہو تو کیا اس کا درجہ نبی سے نہیں بڑھ جائے گا؟ ہم اسی لئے کرامت کا انکار کرتے ہیں کہ ولی کی کرامت کو ماننے سے نبی ﷺ توہین لازم آتی ہے۔ اور ولی اس نبی بھی سے افضل بن جاتا ہے۔

میں نے کہا کہ یہ محض آپ کی کم فہمی اور لاعلمی ہے۔ نبی نبوت کی وجہ سے افضل ہے، معجزے کی وجہ سے نہیں۔ اگر کسی نبی سے ایک بھی معجزہ ظاہر نہ ہوا ہو تب بھی کوئی صاحب کرامت ولی اس نبی کی برابری کو نہیں پہنچ سکتا۔ دیکھو اگر افضلیت کا ثبوت کرامت اور معجزہ ہی ہوتا تو کتنے ہی غیر نبی جن کی کرامات کے واقعات ہمیں قران و حدیث سے ملتے ہیں وہ نبیوں سے افضل ہو جاتے، اس کا جواب میں اپنے استاد جی زبان میں دوں، مثال سے سمجھیں: خواب اللہ کی طرف سے آتے ہیں، کسی کا کوئی اختیار نہیں کہ جس خواب کا ارادہ کرے وہی خواب آجائے، اگر کسی بچے کو خواب آیا کہ نانا ابو گھر آئے ہیں، اس نے گھر والوں کو خواب بتا دیا۔ اور واقعتاً نانا ابو آ بھی گئے تو کیا گھر والے بچے کو کہیں گے یہ خواب ہم نہیں مانتے کہ تجھے آیا ہو، جب گھر کو بڑوں کو یہ خواب نہیں آیا تو بچے کو کیسے آسکتا ہے؟ تو یہ جہالت کا فلسفہ ہے۔
دیکھو بی بی مریم جو محض ولیہ ہیں انہیں بے موسم کے پھل ملتے ہیں لیکن حضرت زکریا جو نبی ہیں انہیں نہیں ملتے، حضرت یعقوب علیہ السلام روز اپنے منہ پر اپنے ہاتھ پھیرتے مگر کبھی بینائی نہیں آئی، مگر یوسف علیہ السلام کے صرف کُرتے کے منہ پر پھیرنے سے آگئی، جو ہوا سلیمان ؑ کا تخت اڑائے پھرتی تھی اسے یہ حکم نہیں ہوا کہ ہجرت کے وقت اللہ کے نبی ﷺ کو ایک جھٹکے میں مدینہ پہنچا دے۔ بی بی مریم ؑ جو ولیہ ہیں انہیں بغیر شوہر کے بیٹا مل گیا، مگر حضرت عائشہ جن کے شوہر خود امام الانبیاء ہیں انہیں بیٹی بھی نہیں ملی۔ حضرت سلیمانؑ نبی ہیں، مگر تخت بلقیس کا آنا ان کے صحابی کی کرامت ہے۔ تو بھئی یہ تو اللہ کے کام ہیں، وہ چاہے تو ہزاروں میل دور بیت المقدس کا کشف ہوجائے، جنت دوزخ کا کشف ہوجائے۔ اور نہ چاہے تو چند میل دور سے حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی غلط خبر پر آپ ﷺ بیعت لینا شروع کر دیں۔ وہ چاہے تو کنعان کے کنوئیں میں یعقوب ؑ کو یوسف ؑ کی خبر تک نہ ہو، اور جب چاہے تو مصر میں یوسف ؑ کے کرتے کی خوشبو کنعان میں سونگھا دے۔
آپ کا ان سب کرامات اور معجزات سے افضل اور مفضول کو پرکھنا تو انتہائی غیر منطقی اور بچگانہ بات ہے۔ آپ جو شرک اور علم غیب کے فتوے لگا رہے ہیں ان پر آپ کو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

اس پر عمران سیفی صاحب کہنے لگے کہ مزمل بھائی آپ کی ساری باتیں درست ہیں، آپ کی باتوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ لیکن ہم کرامت کو نہیں مانتے۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
مجھے تو ایسے مباحث سے معاف ہی رکھئے۔ صاحبو! میں کون ہوتا ہوں نبی اور ولی کے مقام کی تعیین کرنے والا!

میری اپنی نماز ٹھیک ہو جائے، روزہ ٹھیک ہو جائے، کھانا پینا اوڑھنا بچھونا ٹھیک ہو جائے تو بڑی بات ہے۔
اللہ مجھ پر رحم کرے۔
 
مجھے تو ایسے مباحث سے معاف ہی رکھئے۔ صاحبو! میں کون ہوتا ہوں نبی اور ولی کے مقام کی تعیین کرنے والا!

میری اپنی نماز ٹھیک ہو جائے، روزہ ٹھیک ہو جائے، کھانا پینا اوڑھنا بچھونا ٹھیک ہو جائے تو بڑی بات ہے۔
اللہ مجھ پر رحم کرے۔

بالکل۔۔۔۔اگر ہر مسلمان یہی سوچ لے تو دنیا ہی ٹھیک ہو جائے۔ لیکن یہاں ہمارے اعمال خود چاہے بد سے بد تر ہوں۔ لیکن اولیاء پر کیچڑ اچھالنا روشن خیالی سمجھی جاتی ہے۔
 
بالکل۔۔۔ ۔اگر ہر مسلمان یہی سوچ لے تو دنیا ہی ٹھیک ہو جائے۔ لیکن یہاں ہمارے اعمال خود چاہے بد سے بد تر ہوں۔ لیکن اولیاء پر کیچڑ اچھالنا روشن خیالی سمجھی جاتی ہے۔

مسئلہ یہ نہیں ہے، شیخ صاحب!

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں فرما دیا: ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا میرا طریقہ؛ جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، بھٹگو کے نہیں‘‘۔ وہیں اللہ کریم کا یہ ارشاد نازل ہوا: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین مقرر کیا‘‘۔ یہاں سب کچھ مکمل ہو گیا۔
ایک سچا مسلمان اگر بہ توفیقِ الٰہی اللہ کریم کی کتاب اور نبی کریم کے طریقے پر زندگی گزار لے تو وہ کامیاب ہوا، اور جو (چاہے وہ محمد یعقوب آسی ہو، مزمل شیخ بسمل ہو، یا عمران سیفی ہو) اپنے طرزِ عمل کو بھول اور چھوڑ کر دوسروں کو نیکی کا درس بھی دے تو وہ اللہ کریم کے اس ارشاد کو دیکھ لے: ’’یہ کیا کہ تم لوگوں کو تو نیکی کا درس دیتے ہو اور خود کو بھول گئے ہو‘‘۔

و ما توفیقی الا باللہ۔
 
مسئلہ یہ نہیں ہے، شیخ صاحب!

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں فرما دیا: ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا میرا طریقہ؛ جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، بھٹگو کے نہیں‘‘۔ وہیں اللہ کریم کا یہ ارشاد نازل ہوا: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین مقرر کیا‘‘۔ یہاں سب کچھ مکمل ہو گیا۔
ایک سچا مسلمان اگر بہ توفیقِ الٰہی اللہ کریم کی کتاب اور نبی کریم کے طریقے پر زندگی گزار لے تو وہ کامیاب ہوا، اور جو (چاہے وہ محمد یعقوب آسی ہو، مزمل شیخ بسمل ہو، یا عمران سیفی ہو) اپنے طرزِ عمل کو بھول اور چھوڑ کر دوسروں کو نیکی کا درس بھی دے تو وہ اللہ کریم کے اس ارشاد کو دیکھ لے: ’’یہ کیا کہ تم لوگوں کو تو نیکی کا درس دیتے ہو اور خود کو بھول گئے ہو‘‘۔

و ما توفیقی الا باللہ۔

آپ کی بات درست ہے۔
اور اسی کلیہ کو اگر دیکھا جائے تو اللہ نے اس کتاب یعنی قران کریم میں، اور رسول کے طریقے یعنی احادیث کی روشنی میں بہت ساری ایسی باتیں ہیں جن کا قران و سنت کی روشنی میں ماننا واجبات میں شامل ہے۔
جناب محمد یعقوب آسی صاحب آپ کی بات سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ عمل صرف قران و سنت ہے،، لیکن اس پر عمل کرنے کے لئے بھی ہم بہت سی ذیلی چیزوں کے محتاج ہیں جن کا حکم خود قران و سنت سے ہی ملتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرا عمل صرف میرے ہی مطابق قران و سنت کے مطابق ہے یا حقیقی طور پر قران و سنت ہے۔
قران و سنت پر اپنی رائے سے عمل کرنا بھی گمراہی ہے۔ :) اور جہاں تک نیکی کے درس کی بات ہے تو اگر اس کو بنیاد بنا کر اگر کوئی صرف یہی سوچتا رہے تو شاید دنیا میں نیکی اور اسلام کا درس دینے والا کوئی باقی ہی نہ رہے۔ اور اسلامی تعلیمات صرف کتابوں میں رہتے رہتے ایک دن عنقا ہوجائیں۔ دنیا کا کوئی مدرس، کوئی مبلغ چاہے وہ امام کعبہ ہی کیوں نہ ہو وہ بھی اس شرط پر سو فی صد پورا نہیں اتر سکتا۔
آپ کی رائے کے لئے بہت شکر گذار ہوں۔
 
بہت شکریہ مزمل بھائی اتنی اچھی شراکت کا۔
واقعی جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ان مباحثوں میں پڑنے کے بجائے اپنے اعمال کی فکر کریں وہیں اس بات کی بھی بہت ضرورت ہے کہ اس طرح کی غلط باتیں پھیلانے والوں کو اچھے انداز سے سمجھانے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی ان غلط بیانیوں کے شرور سے محفوظ رکھا جائے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
آپ کی بات درست ہے۔
اور اسی کلیہ کو اگر دیکھا جائے تو اللہ نے اس کتاب یعنی قران کریم میں، اور رسول کے طریقے یعنی احادیث کی روشنی میں بہت ساری ایسی باتیں ہیں جن کا قران و سنت کی روشنی میں ماننا واجبات میں شامل ہے۔
جناب محمد یعقوب آسی صاحب آپ کی بات سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ عمل صرف قران و سنت ہے،، لیکن اس پر عمل کرنے کے لئے بھی ہم بہت سی ذیلی چیزوں کے محتاج ہیں جن کا حکم خود قران و سنت سے ہی ملتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرا عمل صرف میرے ہی مطابق قران و سنت کے مطابق ہے یا حقیقی طور پر قران و سنت ہے۔
قران و سنت پر اپنی رائے سے عمل کرنا بھی گمراہی ہے۔ :) اور جہاں تک نیکی کے درس کی بات ہے تو اگر اس کو بنیاد بنا کر اگر کوئی صرف یہی سوچتا رہے تو شاید دنیا میں نیکی اور اسلام کا درس دینے والا کوئی باقی ہی نہ رہے۔ اور اسلامی تعلیمات صرف کتابوں میں رہتے رہتے ایک دن عنقا ہوجائیں۔ دنیا کا کوئی مدرس، کوئی مبلغ چاہے وہ امام کعبہ ہی کیوں نہ ہو وہ بھی اس شرط پر سو فی صد پورا نہیں اتر سکتا۔
آپ کی رائے کے لئے بہت شکر گذار ہوں۔


ان موشگافیوں سے معذرت۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت شکریہ مزمل بھائی اتنی اچھی شراکت کا۔
واقعی جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ان مباحثوں میں پڑنے کے بجائے اپنے اعمال کی فکر کریں وہیں اس بات کی بھی بہت ضرورت ہے کہ اس طرح کی غلط باتیں پھیلانے والوں کو اچھے انداز سے سمجھانے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی ان غلط بیانیوں کے شرور سے محفوظ رکھا جائے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
بالکل صحیح۔ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی بھی درست رہنمائی بہت ضروری ہے۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت ہی زبردست مزمل بھائی! یہ صرف ایک مکالماتی تحریر نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر اور صحیح عقیدے کی خوب صورت ترجمانی ہے۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے: دو گناہ ایسے ہیں، جن پر اللہ رب العزت کی طرف سے اپنے بندوں کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے۔ ایک سود کا مال کھانا، دوسرا کسی ولی کو ایذا پہنچانا۔
اللہ پاک ان دو گناہوں سمیت تمام معصیتوں سے ہماری حفاظت فرمائے آمین یا رب العالمین۔
 

نایاب

لائبریرین
اس پوسٹ پر بنا ٹیگ تبصرے کی معذرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرامت ۔ کشف ۔ کی حقیقت کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
قران پاک کو سوچ سمجھ کر تلاوت کا شرف حاصل کرنے والوں پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ ۔
انسان کو اللہ تعالٰیٰ نے بے حساب صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اس کی بلندی کے امکانات کو لامحدود بنا دیا ہے ۔ اسے زمین پر اپنا خلیفہ اور اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ اور اس کے درجات کو یہاں تک بلند فرما دیا ہے کہ وہ اللہ کے اوصاف کا آئینہ بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالٰیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی پیروی اس طریقہ سے کرے کہ خدا کے انعامات کا سزاوار بن سکے۔ مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ عمل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس سیرت مبارکہ کا مکمل طور پر پیروکار بنالے تو اللہ کے رنگ میں رنگا جائے گا اور اللہ کا پسندیدہ بندہ قرار پائے گا۔ اسلام کا حقیقی مقصود ایسے ہی انسان پیدا کرنا ہے۔
مومن کی نشانی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا، بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کو اللہ کی مرضی کے تابع رکھے احکام شریعت کی پابندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں۔۔۔

جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے (سورة آل عمران 134)
اور اللہ کی یہ محبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی کے لیئے پلک جھپکتے تخت حاضر کر دینا ممکن کر دیتی ہے ۔
جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے لیئے دوران خطبہ فرمایا گیا اک جملہ ہزاروں میل دور موجود سپہ سالار لشکر کے لیئے صدائے نصیحت بن پہنچ جاتا ہے ۔۔

کشف و کرامت کی بس صرف اک شرط کہ انسان خود کو اپنے افعال و اعمال و کردار سے اس منزل پر پہنچا دے جو کہ " اللہ کے بنائے خلیفہ " کی ہے ۔۔۔۔۔ اور پھر اس حدیث قدسی کا مکمل معنویت سے حقدار ٹھہرتا ہے ۔۔۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( جس نے میرے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )
فتح الباری حدیث نمبر (6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے
 

شوکت پرویز

محفلین
عمران سیفی صاحب: فضائلِ اعمال ۔۔۔ میں سے ایک واقعہ ۔۔ غور فرمائیے گا ۔۔
فضائل اعمال ۔۔ صفحہ نمبر 484 پر ابو قرطوبی فرماتے ہیں ۔۔ ”کہ ہم نے سُنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے ۔ وہاں ایک نوجوان رہتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے کشف ہو جاتا ہے اور اس کو جنت اور جہنم کے معاملات کے بارے میں خبر ہوجاتی ہے ایک دن ہمارے پاس کھانا کھاتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا میں نے ان سے پوچھا کہ کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کہا کہ میری ماں کو جہنم میں ڈال دیا گیا ہے ابو یزید کہتے ہیں میں نے جو ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ رکھا تھا اور دل میں محفوظ کر رکھا تھا میں نے اس کی والدہ کے نام کردیا میں نے یہ سب کچھ دل ہی دل میں کیا .اس نوجوان نے مُسکرانا شروع کردیا اور فرمایا پیر صاحب میری والدہ کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے“


اعتراض:
”جنت اور جہنم میں کیا ہو رہا ہے ۔۔ یہ جاننے کے لیے اس نوجوان کے پاس جو سورس آف انفارمیشن تھا وہ کیا تھا ۔۔۔ ۔ اسے کس نے بتایا کہ اس کی والدہ کو جہنم میں پھر جہنم سے جنت میں ڈالا جا رہا ہے“
مزمل بھائی!
صاحب واقعہ نے یہ بات کہاں سے سنی تھی??
 
مدیر کی آخری تدوین:
مزمل بھائی!
صاحب واقعہ نے یہ بات کہاں سے سنی تھی??

کہیں سے سنی ہے یقیناً۔ اور اگر نہیں بھی سنی تب بھی کشف و کرامات کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اور نہ ہی کسی کے عقیدے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے نہ فضائل اعمال پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
کہیں سے سنی ہے یقیناً۔ اور اگر نہیں بھی سنی تب بھی کشف و کرامات کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اور نہ ہی کسی کے عقیدے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے نہ فضائل اعمال پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
سوال کشف و کرامات کا نہیں، سوال ہے کہ یہ درج ذیل "دعویٰ کی کیا دلیل ہے:
جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے
 
سوال کشف و کرامات کا نہیں، سوال ہے کہ یہ درج ذیل "دعویٰ کی کیا دلیل ہے:
جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے
ستر ہزار تو دور کی بات ہے، حدیث شریف میں تو محض ایک دفعہ پڑھنے کی یہی فضیلت بیان ہوئی ہے، چنانچہ حضرت عمر نے جب وہ حدیث سنی تو صحابی کو روایت کرنے سے منع کردیا کہ کہیں لوگ اعمالِ صالحہ سے غفلت نہ اختیار کرنے لگیں۔۔۔۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
سوال کشف و کرامات کا نہیں، سوال ہے کہ یہ درج ذیل "دعویٰ کی کیا دلیل ہے:
جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے
اس دعویٰ کی تو فی الوقت کوئی دلیل نہیں۔
البتہ ایک حدیث حصن حصین میں پڑھی تھی:
لا اِلٰہ الا اللہ حصنی فمن دَخِل حصنی امن عذابی
مفہوم: لا الہ الا اللہ میرا مضبوط قلعہ ہے پس جو کوئی اس قلعہ میں داخل ہوا میرے عذاب سےمحفوظ ہو گیا۔
کیا بعید ہے کہ کلمہ طیبہ کو ستر ہزار بار پڑھ لینا ہی اللہ کے مضبوط قلعہ میں داخل ہو جانے کا مصداق ہو۔
یعنی جس کسی نے ستر ہزار بار کلمہ طیبہ کو پڑھ لیا تو وہ اللہ کے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔
اللہ کےعذاب سے محفوظ ہو جانے کا مطلب ہے جہنم کی آگ سے محفوظ ہو جانا، یعنی جہنم کی آگ کا اس پر حرام ہو جانا۔
واللہ اعلم بالصواب
 
سوال کشف و کرامات کا نہیں، سوال ہے کہ یہ درج ذیل "دعویٰ کی کیا دلیل ہے:
جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے

مجاہدات سے بہت سی ایسی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں جو ہمیں بے شک قابل اعتماد ذرائع اور قران و سنت سے معلوم نہیں ہو پاتی ہیں۔
مثلاً اگر میں آپ سے پوچھوں کہ قران میں کتنے پارے ہیں؟ تو آپ جواب دیں گے کہ 30 پارے ہیں، کتنی سورتیں ہیں؟ تو آپ کا جواب ہوگا کہ 114 سورتیں ہیں۔ لیکن اگر یہی سوال میں آپ سے حدیث کے بارے میں کروں تو آپ کیا جواب دیں گے؟ حدیثوں کی تعداد کتنی ہے؟
اس سوال کا جواب آپ کو کوئی محدث بھی نہیں دے گا۔
یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تحقیق صرف ہمارے علم و عقل تک محدود ہے۔ لیکن ریاضات و مجاہدات سے بہت سی ایسی چیزیں سامنے آئی ہیں جو واضح قران و سنت سے نہیں مگر انکی مسلمہ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کلمہ طیبہ کا مسئلہ تو درکنار، اگر آپ سے کوئی آپ کی نماز کے بارے میں سوال کر لے کہ آپ مرد و عورت کی نماز میں فرق قران و سنت سے دکھائیں؟
تو آپ یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا سکتے ہیں کہ مرد و عورت کی نماز میں قران و سنت کے مطابق کوئی فرق نہیں۔ ہم اس فرق کو نہیں مانتے۔ اور اگر کوئی آپ سے یہ سوال کرے کہ آپ امام و مقتدی کی نماز میں فرق دکھائیں؟ مثلاً امام کا تکبیرِ اولٰی اونچا اور مقتدی کا آہستہ کہنا؟ قران و سنت سے دکھا دیں؟ تو وہ شخص یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ آپ کی نماز بھی قران و سنت کے مطابق نہیں، باقی چیزوں کا قران و سنت سے سوال چہ معنی دارد؟
اب آئیں کلمہ طیبہ پر، تو معلوم ہوگا کہ کلمہ طیبہ کے فضائل بہت سارے ہیں جن کی انتہا نہیں۔ اس بات کو ہر ایک تسلیم کرتا ہے۔ اس کے حوالے سے صحیح احادیث میں بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں جن کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ اور ہم سب کا یہ بھی ایمان ہے کہ جو شخص صرف ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اور ایمان کی حالت میں بغیر شرک کے مر جائے تو گناہوں کی سزا کاٹ کر بالآخر انشا اللہ جنت میں داخل ہوگا۔
صحیح حدیث میں مروی ہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! مجھے ایسی چیز سکھا جس کے ساتھ میں تیرا ذکر کرو اور تیرے قریب تر ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: موسیٰ! لا الٰہ الّا اللہ کہہ، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب! تیرے تمام بندے یہ کلمہ کہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: موسیٰ! اگر سات آسمان اور میرے سوا ان کے رہائشی اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں ہو اور لا الٰہ اِلّا اللہ، ایک پلڑے میں ہو تو لا الٰہ الا اللّٰہ والا پلڑا جھک جائے گا۔ (اخرجہ الحاکم وابن حبان و صحہ)

پھر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ کے ذکر کو کرنے والے اور اس پر استقامت رکھنے والے، چاہے شروع میں وہ بے دلی سے اور بے مقصد اللہ کا ذکر کرتے ہوں مگر یہ ذکر ایک ایسا ذکر ہے جس سے اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ کتنے ہی بزرگان کے واقعات ہیں جو کسی تصوف کے بغیر صرف ذکر و اذکار کی برکت سے معرفت الہی کو پا گئے۔ اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ جن کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
میرے دادا مرحوم فجر کے بعد صرف اللہ اللہ اللہ کا ورد کیا کرتے تھے، اکثر و بیشتر ایسا ہوتا کہ ورد کرتے کرتے انکی ناک اور منہ سے خون آنا شروع ہو جاتا۔ یہ ذکر کی تاثیر تھی جو جسم پر دکھائی دیتی تھی، اب اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ اللہ کا ورد کسی حدیث میں نہیں ہے اس لئے یہ ذکر بدعت ہے تو یہ اس کی اپنی کم فہمی ہے۔
اب اسی ضمن میں سوچیں کہ اگر کوئی فرد واحد کلمہ توحید کو پڑھنا شروع کرے، اور ستر ہزار مرتبہ پڑھ جائے تو کیا اس اعلی اور بلند ذکر کا اس کے دل و دماغ پر کوئی اثر نہیں ہوگا؟ اگر ہوگا تو کیا ؟ کیا اللہ تعالی اسے اپنی محبت سے مالامال نہیں فرمائیں گے؟ اور اسی محبت کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ وہ ایک نیک انسان بن کر مر جائے اور مغفرت بھی ہوجائے، اور جہنم کی آگ سے خلاصی بھی۔
اب جہاں تک فضائل اعمال کا مسئلہ ہے تو اس میں حضرت شیخ الحدیث نے شروع میں ہی حدیث کی ان کتابوں کے نام لکھے ہیں جن سے تمام فضائل لکھے ہیں۔ اب اعتراض کرنے والے کا پہلا فرض یہ ہے کہ ان تمام کتب احادیث میں تلاش کرے۔ اس کے بعد کوئی اعتراض کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ فضائل میں ضعیف احادیث بھی حجت ہوتی ہیں، اور اس پر تمام محدثین کا اتفاق ہے، کیونکہ عبادت سے صرف شیطان روکا کرتا ہے، اگر کوئی انسان کسی کو عبادت کے حوالے سے کسی ضعیف حدیث سے فضائل سنائے تو وہ حجت ہیں، اور تمام فضائل کے حوالے سے بڑے بڑے محدثین کی جتنی کتابیں ہیں سب میں صحیح اور ضعیف احادیث شامل ہیں۔ (مطالبے پر ان کے نام بھی فراہم کئے جائیں گے) اب اگر کسی ایسے آدمی کو کلمے کی فضیلت سنائی جائے جو کلمہ پڑھنا بھی نہ جانتا ہو، اور اسے بتایا جائے کہ کلمہ ستر ہزار مرتبہ پڑھو اللہ تعالی جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ نصیب فرمائیں گے، اور اسے سن کر وہ کلمے کا ورد کرنا شروع بھی کردے تو فائدہ ہوا یا نقصان؟ کیا اس نے کوئی بدعت یا شرک کیا؟ اور عین ممکن ہے کہ اللہ اسی سے اس کی ہدایت کا سامان کردیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
سوال کشف و کرامات کا نہیں، سوال ہے کہ یہ درج ذیل "دعویٰ کی کیا دلیل ہے:
جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے
میرے محترم بھائی
آدمی جس قدر توحید میں خالص ہوگا اسی کے بقدر اس سے دنیا اور آخرت میں بلائیں اور پریشانیاں دور ہوں گی۔ ارشاد باری ہے:
(الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَ۔ٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ) (الأنعام: 82)
"جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لیے امن ہے اور وہی راه راست پر چل رہے ہیں۔"
نیز ارشاد ہے:
(لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَ۔ٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ) (الأنبیاء: 103)
"وه بڑی گھبراہٹ (بھی) انہیں غمگین نہ کر سکےگی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے، کہ یہی تمہارا وه دن ہے جس کا تم وعده دیئے جاتے رہے۔"

ستر ہزار بار خلوص نیت و دل سے کلمہ طیبہ کے ورد و ذکر سے مشرف ہونے والے کی شان کیا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اک بار خلوص دل سے کلمہ طیبہ کو ذکر کر لینے پر درج احادیث جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے پر دال ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

کلمہ طیبہ کی فضیلت حسب ذیل احادیث سے واضح ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابو ہریرہ میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ، اور تمہیں باغ کے باہر جو شخص بھی ایسا ملے کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو اسے جنت کی بشارت دےدو۔" (صحیح مسلم حدیث رقم: 31)

اس حدیث جس کا تعلق قیامت کے دن حساب کتاب سے ہے اس سے بھی اس کلمہ طیبہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے ایک امتی کو برسر خلائق نجات عطا فرمائے گا ۔اللہ ننانوے رجسٹر کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا ہر رجسٹر کا طول و عرض حد نگاہ تک ہو گا۔پھر اللہ تعالیٰ کہے گا!کیا تو اس میں درج باتوں میں سے کسی کا انکار کرتا ہے ؟یا تیرے خیال میں میرے لکھنے والے محافظین نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟وہ امتی کہے گا!نہیں،اے میرے رب!اللہ فرمائے گا :کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟وہ کہے گا:نہیں،اے میرے رب!اللہ تعالیٰ فرمائے گا :کیوں نہیں،ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے بلاشبہ آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر یہ درج ہو گا۔میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اس کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ کہے گا:دونوں کا وزن کیا جاتا ہے،تو دیکھ!امتی کہے گا:اے میرے رب!اس ٹکڑے کی ان رجسٹروں کے سامنے کیا حیثیت ہے؟اللہ فرمائے گا!تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔پس سارے رجسٹر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے اور کلمہ شہاد ت والا کاغذ کا ٹکڑا دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔لیکن قطعہ کاغذ والا پلڑا بھاری اور رجسٹروں والا پلڑا ہلکا ہو جائے گا۔(اس لیے کہ )اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی۔(ترمذی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن سب سے خوش نصیب وہ کون آدمی ہوگا جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے؟تو آپ نے جواب دیا: قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت اس شخص کونصیب ہوگی جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اخلاص کے ساتھ "لا إله إلا الله" کہا ہو۔" (صحیح بخاری رقم: 99، و 6570)
مذکورہ احادیث سے کلمہ "لا الہ الا اللہ" کی فضیلت اور اس کے ذکر و ورد پر مداومت کرنے والے کے لیئے دنیا و آخرت میں امن و سلامتی کی خوش خبری عین حق ہے ۔ اور آخرت کی کامیابی " جہنم کی آگ سے بچنا اور جنت میں دائم رہنا " ہی ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top