چوہدری لیاقت علی
محفلین
لہر کا خواب ہو کے دیکھتے ہیں
چل تہہ آب ہو کے دیکھتے ہیں
اس پہ اتنا یقین ہے ہم کو
اس کو بیتاب ہو کے دیکھتے ہیں
رات کو رات ہو کے جانا تھا
خواب کو خواب ہو کے دیکھتے ہیں
اپنی ارزانیوں کے صدقے ہم
خود کو نایاب ہو کے دیکھتے ہیں
ساحلوں کی نظر میں آنا ہے
پھر تو غرقاب ہو کے دیکھتے ہیں
وہ جو پایاب کہہ رہا تھا ہمیں
اس کو سیلاب ہو کے دیکھتے ہیں
ابھیشک شکلا
چل تہہ آب ہو کے دیکھتے ہیں
اس پہ اتنا یقین ہے ہم کو
اس کو بیتاب ہو کے دیکھتے ہیں
رات کو رات ہو کے جانا تھا
خواب کو خواب ہو کے دیکھتے ہیں
اپنی ارزانیوں کے صدقے ہم
خود کو نایاب ہو کے دیکھتے ہیں
ساحلوں کی نظر میں آنا ہے
پھر تو غرقاب ہو کے دیکھتے ہیں
وہ جو پایاب کہہ رہا تھا ہمیں
اس کو سیلاب ہو کے دیکھتے ہیں
ابھیشک شکلا