لوگ کہتے ہیں، اجنبی تُم ہو - (بَشیر بَدر)

عؔلی خان

محفلین
لوگ کہتے ہیں، اجنبی تُم ہو
اجنبی! ميری زندگی تُم ہو

دِل کسی اور کا نہ ہو پایا
آرزو میری آج بھی تُم ہو

مُجھ کو اپنا شریکِ غَم کر لو
یوں اکیلے بہت دُکھی تُم ہو

دوستوں سے وفا کی اُمّیدیں
کِس زمانے کی آدمی تُم ہو

---

شاعر: بشیر بَدر
غزل گو: ہری ہارن



---------------------------------

ایسا لگتا ہے، زندگی تُم ہو
اجنبی! کیسے اجنبی تُم ہو

اَب کوئی آرزُو نہیں باقی
جُستجُو مِیری آخری تُم ہو

مَیں زَمیں پر گھنا اندھیرا ہوں
آسمانوں کی چاندنی تُم ہو

دوستوں سے وَفا کی اُمّیدیں؟
کِس زَمانے کے آدمی تُم ہو؟

--------------

شاعر: بَشیر بَدر
غزل گو: چِترا سِنگھ


 
آخری تدوین:

عؔلی خان

محفلین
واہ جناب زبردست ایک غزل دو گائیک دو منفرد انداز

بشیر بدر کی یہ ایک ہی غزل ہے جو ہری ہارن نے اور چترا سنگھ نے گائی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہری ہارن نے غزل کا دوسرا مطلع استعمال کیا ہے اور چترا سنگھ نے پہلا لیکن ذرا سی "سہولت" کے ساتھ۔ لیکن دونوں نے کمال کی گائی ہے۔ :)


ایسا لگتا ہے ، زندگی تُم ہو
اجنبی کیسے، اجنبی تُم ہو

لوگ کہتے ہیں ، اجنبی تُم ہو
اجنبی میری زندگی تُم ہو

دِل کسی اور کا نہ ہو پایا
آرزو میری آج بھی تُم ہو

مجھ کو اپنا شریکِ غم کرلو
یوں اکیلے بہت دُکھی تُم ہو

دوستوں سے وَفا کی اُمید یں
کسی زمانے کے آدمی تُم ہو

میں زمیں پر گھنااندھیرا ہوں
آسمانوں کی چاند نی تُم ہو

لوگ آتے ہیں، لوگ جاتے ہیں
میری آنکھوں میں آج بھی تُم ہو
 
آخری تدوین:
Top