لمحۂ فکریہ

نوید صادق

محفلین
لمحۂ فکریہ

امریکہ عالمِ انسانیت کا دشمن

متحدہ سویت سوشلسٹ رپبلک کو اپنے ایجنٹوں کے ساتھ مل کر توڑنے کے بعد اب امریکہ کی پوری توجہ عالمِ اسلام کو تباہ کر نے کی ہے اور خصوصاً مشرق وسطیٰ کے امیر اور کمزور عرب ممالک اس کے نشانے پر ہیں۔ برطانیہ اپنی روایت کے مطابق بے شرمی کے ساتھ تمام آپریشن میں شامل ہے بلکہ کئی معاملے میں شیطانی سوچ رکھنے کی وجہ سے قیادت بھی کرتی ہے۔ اسرائیل کا دفاع کر نا ہر حال میں امریکہ کہ پالیسی ہے خواہ واشنگٹن میں ریپبلیکن یا ڈیموکریٹ اقتدار میں رہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تا کیونکہ یہودیوں کے ہاتھ میں امریکہ کے کئی اہم ادارے ہیں ۔ معاشیات اور میڈیا پریہودیوں کا غلبہ ہے خواہ ٹی وی ہو اخبار ہو یا رسالے ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل خود ایک بڑی طاقت ہے تمام طرح کے جدید اسلحہ کے علاوہ ایک اٹومک پاور بھی ہے۔

بقول سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹینٹ کے امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی اور بش انتظامیہ نے جھوٹ کہہ کر امریکی عوام کو گمراہ کیا تھا کہ صدام حسین امریکہ کے لئے ایک ناگزیر خطرہ تھا ۔ اس طرح امریکی عوام کو جن کی اکثریت جاہل ہے عراق کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا تھا۔ ڈک چینی جنگ کا بہت زیادہ حامی تھا جب عراق میں کثیر تعداد میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار WMDکا کہیں پتہ نہ چلا جس کو بنیاد بنا کر امریکہ نے عراق پر شرمناک حملہ کیاتھا تو ڈک چینی نے سی آئی اے پر الزام لگا یا کہ انکی ریپورٹ غلط تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کے کیا اتنے بڑے اقدام سے پہلے جہاں اقوام متحدہ کی بھی پرواہ نہ کی جائے کسی آزاد ملک پر جو ایک دوسرے بر اعظم میں ہو اور جس کا امریکہ جیسی بڑی طاقت سے کوئی مقابلہ نہیں بغیر کسی تحقیق کے وحشیانہ بمباری سے تباہ کرنے کے بعد اس ملک پر قبضہ کر لینا اور اسکی دولت کو لوٹنا کہاں تک جائزہے۔

قبضہ کے بعد عراقی عوام سے خطاب کرتے ہوئے شیطان بش نے کہا تھا کہ اب عراق کے عوام کے لئے امن آزادی اور ترقی کا اک نیا دور شروع ہوگا لیکن اس کے برعکس آج عراق کی جو صورتحال ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے ۔ جابر قابض افواج عراقی عوام پر وہ مظالم ڈھارہے ہیں جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ خود کو جمہوریت اور انسانیت کے علمبردار کہنے والے جنگلی درندے سے بھی زیادہ وحشی نظر آتے ہیں۔ مذہب سے دوری اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے لا علمی نے انہیں درندہ بنادیا ہے۔ عورتوں کے ساتھ زنا کرنا معصوم مرد عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کردینا انہیں ذلیل کرنا لوٹنا اور اذیت دینا قابض افواج کا روزانہ کا معمول ہے اور جب اس ظلم کے خلاف کوئی غیرت مند آواز بلند کرتا ہے تو اسے تخریب کار کہا جاتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی نظر میں اپنے ملک کی سلامتی کے لئے لڑنا ظالم کو ظالم کہنا مجبور اور بیکس عوام کا دفاع کر نا تخریب کاری ہے۔

ابھی چند دنوں قبل بی بی سی ٹی وی پر بر طانیہ کے ایک سابق جرنل سر مشیل روز نے کہا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ کو شکست تسلیم کر لینی چاہیے اور عراق سے واپس نکل جانا چاہیئے۔ عراقی عوام کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ قابض افواج کے خلاف حملہ کرے جس طرح امریکی عوام نے برطانوی افواج کے ساتھ کیا تھا اور برطانیہ نے شمالی امریکہ میں اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔

لاکھوں عراقی امریکی افواج خصوصاً اور برطانیہ آسٹر یلیا اور دوسرے عیسائی اور یہودی مغربی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ملک کا پورا ڈھانچا تباہ ہو چکا ہے۔ بجلی پانی خوراک اور دوا سے عراقی عوام محروم ہیں۔ خوبصورت بغداد کی سڑکیں بیل گاڑی چلانے کے قابل نہیں۔ فیکٹری کھیت باغات مکانات سب بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں درس گاہوں کو تباہ کر دیا گیا ہے ساری نادر کتابیں یا لوٹی جاچکی ہیں یا تباہ کر دی گئی ہیں۔ اور پتہ نہیں کتنی دیر یہ عذاب عراقیوں کے مقدر میں ہے۔

جنگ بر بریت اور تباہی سے امریکی افواج کو سکون ملتاہے۔ امریکہ کی شرمناک تاریخ اس بات کا ثبوت ہے واشنگٹن کی کالی دیوار پر ویتنام میں مارے گئے ہزاروں امریکی سپاہیوں کے نام کندہ ہیں۔ غیرت ہوتی تو یہ دیوار نہ بنائی جاتی۔ یہ سپاہی بیشک مارے گئے تھے لیکن وحشیانہ ظلم کرتے ہوئے ا پنے ملک کا دفاع کر تے ہویے یا انسانی حقوق کا دفاع کرتے ہوئے نہیں مارے گئے تھے۔ یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح طاقت
کے نشے میں چور بڑی طاقت چھوٹے ملک کو زیر رکھنا چاہتی ہے اور اس غرض کے لیے اپنے نوجوانوں کو بھیڑ بکری کی طرح کٹوادیتے ہیں اور انکے اہلِ خانہ کو جن کے یہ چشم و چراغ ہوتے ہیں ہمیشہ کے لئے جدائی اور ذلت کے عمیق غار میں سسکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

چار ہزار سے زائد امریکی سپاہی عراق میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لیکن کیا ان زانی جابر اور ظالم فوجیوں کے عزیزخوش ہوںگے کہ انہوں نے ملک کے لئے بڑا کام انجام دیا ہے بلکہ ان کا سر ہمیشہ شرم سے جھک جائیگا جب بھی عراق کی تباہی کا ذکر ہوگا کہ ہمارا بھائی بیٹا یا شوہر بھی اس وحشیانہ اور غٰیر منصفانہ ظلم کا حصہ تھے۔ بے شرم بش پھر بھی اس طرح گھومتا ہے اور ملٹری کی تقریب میں تقاریر کر تا ہے کہ ہماریے بہادر سپاہی عظیم کارناماں انجام دے رہے ہیں اور ہمارے دشمنوں سے امریکہ کو بچانے کے لئے اپنی جان کی قربانی دے رہے ہیں۔ در اصل عراق میں امریکی برطانوی آسٹریلوی اور دوسری مغربی افواج کو شکست کا سامنا ہے اور ان کی ساری کلی کھل گئی ہے۔ اسلحہ سے ہی اگر جنگ جیتی جاتی تو اسرائیل کو جسکے سپاہی جدید ترین ہتھیار سے لیس تھے لبنان میں شکست نہ ہوتی۔ ڈر اس بات کا ہے کے شکست اور رسوائی اور ایران کے خوف سے بش کوئی نیا محاذ نہ کھول دے جس سے مشرق وسطیٰ اور دنیا ایک ایسی تباہی کی طرف چل پڑے کہ سب کچھ راکھ ہو جایے۔

حیرت کی بات ہے کے بہت سے ممالک اور اپنے لوگ مغربی میڈیا سے متاثر ہو کر اسے جنگ کہتے ہیں یہ جنگ نہیں اک عبرتناک اور شرمناک قبضہ ہے ۔ دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوج اپنے مفاد کو حاصل کر نے کے لیے بہانہ بناکر دنیا کے ایک عظیم تاریخی ملک کو پارہ پارہ کر رہی ہے ۔ امریکہ اور یورپ جب تاریکی اور جہالت کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے تہذیب کا جب ان نام نہاد انسانیت کے چمپین کے ہاں نام و نشان تک نہ تھا اس وقت بغداد علم و فن کا مرکز تھا اور دنیا کو اس نے حساب فلسفہ طب لسانیات اور سب سے بڑھ کر تہذیب و تمدن دیا ہے۔ اس انبیاوں کی سر زمین کو محض تعصب کی وجہ سے اس طرح پامال کیا گیا ہے کے شاید جبینِ انسانیت سے یہ دھبہ صدیوں مٹایا نا جا سکے ۔

اسلام سے خوف زدہ مغربی ممالک اپنی طاقت کے نشے میں چور اسلام کو بدنام اور مٹانا چاہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اکثر مختلف مغربی میڈیا پر حضور ﷺ کی ذات پر اور اسلام پر کیچڑ اچھالے جاتے ہیں اور انہیں اپنی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ در اصل مسئلہ یہ ہے کے نام نہاد آزادی نے مغربی معاشرے کی شکل اور اقدار ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے ۔ کلیسا ویران رہتا ہے سوائے چند ضعیف لوگوں کے جنکے پاس اور کوئی جگہ جانے کو نہیں ہوتی۔ ذہنی پریشانی اور بیزاری کے شکار لوگوں تک جب اسلام کی دعوت پہنچتی ہے اور وہ اس کے مختلف پہلوں پر غور کرتے ہیں تو فوراً شرمندہ ہو کر اس کے آغوش میں پناہ لیتے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ اب یہی اک راہِ نجات ہے۔

افغانستان کے وہ جاہل پٹھان جو کل تک امریکہ کے مجاہد تھے اور جنہیں امریکہ نے روس کے خلاف خوب استعمال کیا تھا اور جدید اسلحہ بھی فراہم کیاتھا روس کے پسپا ہونے کے بعد امریکی بیداد کے شکار ہیں۔ گاوں کے معصوم لوگ امریکی بمباری کا نشانہ بنتے ہیں ۔ اسی طرح سوڈان صومالیہ اور ایران بلکہ ہر مسلم ملک میں امریکہ کے خلاف خوف اور نفرت میں روز بہ روز اضافہ ہو رہاہے اور مسلم ممالک مغربی سازش کو سمجھنے لگے ہیں اور آپسی اختلافات دور کرنے کے خواہشمند ہیں۔
ٖٖ
یہی وجہ ہے کے امریکی اور برطانوی حکمراں جھوٹے الزام لگاکر سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کو استعمال کر کے مسلم ممالک کو اپنے حصار میں زیر کر کے رکھنا چاہتے ہیں اس لیے سب سے پہلے انہیں معاشی طور پر تباہ کر نے کا منصوبہ بنایا ہے خواہ اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے پھر ان پر الزام لگاکر حملہ کر کے تباہ کر دیا جائے اور اپنے قبضہ میں رکھا جائے۔ مداخلت کرنے پر تخریب کاری کا لیبل چسپاں کر دیا جائے۔ در اصل وہ چاہتے ہیں کہ مسلم امہ ان کے سامنے صدیوں تک اپنے گھٹنوں پر رینگتی رہے۔ اب ایسے وحشی درندوں کے ساتھ کس قسم کا رشتہ رکھا جایے اس بات پر سنجیدگی سے غور کر نے کی ضرورت ہے۔ میری نگاہ میں تو ان سے دور رہنے میں ہی بھلائی ہے لیکن آپسی رنجش کو بالائے طاق رکھ کر امت مسلمہ کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے کی ضرورت ہے تاکہ کسی جارحیت کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے۔

تباہی عالمِ انسانیت ہی جس کا مقصد ہو اسے انسان کہتے ہیں تو کہیے ہم نہیں کہتے

(سید اقبال طالب)
الخوبر۔سعودی عرب
 

الف نظامی

لائبریرین
نوید صادق نے کہا:
بقول سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹینٹ کے امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی اور بش انتظامیہ نے جھوٹ کہہ کر امریکی عوام کو گمراہ کیا تھا کہ صدام حسین امریکہ کے لئے ایک ناگزیر خطرہ تھا ۔ اس طرح امریکی عوام کو جن کی اکثریت جاہل ہے عراق کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا تھا۔ ڈک چینی جنگ کا بہت زیادہ حامی تھا جب عراق میں کثیر تعداد میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار WMDکا کہیں پتہ نہ چلا جس کو بنیاد بنا کر امریکہ نے عراق پر شرمناک حملہ کیاتھا تو ڈک چینی نے سی آئی اے پر الزام لگا یا کہ انکی ریپورٹ غلط تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کے کیا اتنے بڑے اقدام سے پہلے جہاں اقوام متحدہ کی بھی پرواہ نہ کی جائے کسی آزاد ملک پر جو ایک دوسرے بر اعظم میں ہو اور جس کا امریکہ جیسی بڑی طاقت سے کوئی مقابلہ نہیں بغیر کسی تحقیق کے وحشیانہ بمباری سے تباہ کرنے کے بعد اس ملک پر قبضہ کر لینا اور اسکی دولت کو لوٹنا کہاں تک جائزہے۔
درندوں سے انسانیت کی توقع کرنا عبث،
کیا کسی اسلامی ملک میں یہ جرات ہوئی، او آئی سی نے اس مسلہ کو اٹھایا کہ wmd کدھر ہیں اور اس بہانے سے جو قبضہ کیا گیا اور جو عراق میں تباہی کی گئی اس کا ہرجانہ ادا کیا جائے۔
 
Top