لفظ قدر کے تلفظ اور اس کے استعمال کا مسئلہ

اساتذہ کرام جناب الف عین صاحب اور جناب محمد یعقوب آسی صاحب اور دیگر اہل زبان اور اہل علم سے لفظ قدر کے متعلق راہنمائی کی ضرورت ہے۔
گردشِ دوراں مجھے یوں آزمانا چھوڑ دے
اس قدر تو مشکلیں میری بڑھانا چھوڑ دے
اوپر بیان کردہ میرے شعر پر ایک مہربان نے یہ (نیلے رنگ میں لکھی ہوئی) رائے دی جو کہ کافی صائب معلوم ہوتی ہے
قدر، اس لفظ کے دو تلفظ ہیں۔ ایک میں ”د“ مفتوح ہے (قضا و قدر والا قدر)، اور ایک میں ساکن جس کا یہاں مقام ہے۔ دالِ ساکن کے ساتھ جو قدر ہے اس کے دو معانی ہیں۔ ایک جو مقدار کو واضح کرتا ہے جیسا کہ یہاں کر رہا ہے، اور دوسرا کسی کی شوکت کو ظاہر کرتا ہے، قدر و منزلت والا۔ آپ نے قدر کی دال کو مفتوح باندھا ہے جب کے یہاں مقام ثانی الذکر قدر کا ہے۔
مگر میں چونکہ مبتدی ہوں۔ اور زبان کی باریکیوں سے نا بلد تو مجھے اس بارے میں مزید راہنمائی کی ضرورت ہے۔ میرے خیال دونوں تلفظ والے قدر سے مقدار والا معنی لیا جا سکتا ہے۔ اور میری ناقص رائے میں (شاید غلط ہی ہو) جس،اس اور کس کے ساتھ قَدَر ہی آتا ہے۔جو مقدار کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ ذیل میں غالب کے چند اشعار پیش کرتا ہوں اور آپ احباب کی تفصیلی رائے کی تمنا کرتا ہوں۔
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے ؟ دیکھا چاہیے

گردش محیطِ ظلم رہا جس قدر، فلک
میں پائمالِ غمزۂ چشمِ کبود تھا

حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ دل ہے
زخمِ تیغِ قاتل کو طرفہ دلکشا پایا

اور بہ کے ساتھ غالب نے اسکو (قد+ر، دال سکون کے ساتھ) باندھا ہے۔
دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا

بہ قدرِ ظرف ہے ساقی خمارِ تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
 
آخری تدوین:

نعمان خالد

محفلین
اساتذہ کرام جناب الف عین صاحب اور جناب محمد یعقوب آسی قدر، اس لفظ کے دو تلفظ ہیں۔ ایک میں ”د“ مفتوح ہے (قضا و قدر والا قدر)
محترم فاروق احمد بھٹی صاحب، عربی میں لفظ "قدر" میں "د" مفتوح نہیں بلکہ ساکن ہے، مثلاً "لیلۃ القدر" اور "تؤمن بالقدر خیرہ وشرہ" دونوں میں ہی "د" ساکن ہے۔ باقی باتوں کا جواب تو اساتذہ کرام اور اہل علم ہی دے سکتے ہیں۔
 
محترم فاروق احمد بھٹی صاحب، عربی میں لفظ "قدر" میں "د" مفتوح نہیں بلکہ ساکن ہے، مثلاً "لیلۃ القدر" اور "تؤمن بالقدر خیرہ وشرہ" دونوں میں ہی "د" ساکن ہے۔ باقی باتوں کا جواب تو اساتذہ کرام اور اہل علم ہی دے سکتے ہیں۔
نیلے رنگ میں جو سطور لکھی تھیں وہ میری رائے نہ تھی کسی کی تھی۔لیکن شاید میں نے رائے لکھنے کے بعد اس بات کی طرف اشارہ کیا تو اشکال پیدا ہو گیا اب تدوین کر کے زیادہ واضح کر دیا ہے
 
"قدر" یعنی "صدر" کے وزن پر ، قدراندازی کا لفظ یا آیا ہے جیسے تیر اندازی کہتے ہیں ۔ صرف یہیں یاد آرہا ہے کہ "قدر" ہوتا ہے ۔
 
"قدر" یعنی "صدر" کے وزن پر ، قدراندازی کا لفظ یا آیا ہے جیسے تیر اندازی کہتے ہیں ۔ صرف یہیں یاد آرہا ہے کہ "قدر" ہوتا ہے ۔
اوپر جو میں نے غالب کے اشعار لکھے ہیں پہلے گروپ میں اس، جس، کس کے ساتھ قدر کا استعمال دال پر زبر کے ساتھ ہے۔ اور دوسرے گروپ میں بہ کے ساتھ قدر دال ساکن کے ساتھ ہے۔
اب میرا سوال اس بارے میں ہے کہ دونوں تلفظ کے ساتھ اس کا مطلب مقدار لیا گیا ہے(میرے سمجھنے کے مطابق) اگر ایسا ہے تو مسئلہ حل ہے۔ بس کسی صاحبِ علم کا انتظار ہے
 

الف عین

لائبریرین
قضا و قدر، یعنی تقدیر جس سے مشتق ہے، اور بمعنی قیمت، ان دونوں الفاظ میں دال ساکن ہے۔ مقدار ظاہر کرنے والا لفظ دال مفتوح کے ساتھ قدَر ہی ہوتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اردو میں قدر دو الفاظ ہیں، ایک دال ساکن کے ساتھ اور ایک دال متحرک کے ساتھ، دونوں کے معنی مختلف ہیں۔ امثال میں دونوں الفاظ کی مثالیں غالب کے ہاں درج ہیں:

1۔ قدر (دپر زبر ): مقدار، تعداد، وغیرہ
امثال:

شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
(غالب)

ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا
(غالب)


2۔ قدر (دپر جزم یا سکون): عزت، بڑائی، تقدیر، قدرت، وغیرہ
امثال:

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا

تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلّف، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں
 
قضا و قدر، یعنی تقدیر جس سے مشتق ہے، اور بمعنی قیمت، ان دونوں الفاظ میں دال ساکن ہے۔ مقدار ظاہر کرنے والا لفظ دال مفتوح کے ساتھ قدَر ہی ہوتا ہے۔
بہت بہت شکریہ راہنمائی فرمانے کے لئے
اردو میں قدر دو الفاظ ہیں، ایک دال ساکن کے ساتھ اور ایک دال متحرک کے ساتھ، دونوں کے معنی مختلف ہیں۔ امثال میں دونوں الفاظ کی مثالیں غالب کے ہاں درج ہیں:
نوازش اشکال کو دور فرمانے کے لئے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قضا کے ساتھ جو قد ر ہوتا ہے وہ ۔قدَر ہوتا ہے۔دال پر زبر والا۔بمعنی مقررہ اندازہ۔
انا کل شیء خلقنہ بِقَدَر۔وما امرنا ۔۔۔۔
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل اور چند دیگر جگہوں پر جیسا کہ اول مراسلے میں مذکور ہے۔ بظاہر غالب نے قدر د ساکن والا استعمال کیا ہے۔لیکن شاید
یہاں غالب نے غا لباً تسکین اوسط کا سہارا بشکل تحریک اوسط لیا ہے۔
 
Top