لفظِ 'عشق' کی اصل

حسان خان

لائبریرین
"عشق را از عَشَقه گرفته‌اند و عَشَقه آن گیاهی‌ست که در باغ پدید آید در بُنِ درخت، اوّل بیخ در زمین سخت کند، پس سر برآرد و خود را در درخت می‌پیچد و همچنان می‌رود تا جملهٔ درخت را فراگیرد، و چنانش در شکنجه کشد که نم در میان رگ درخت نماند، و هر غذا که به واسطهٔ آب و هوا به درخت می‌رسد به تاراج می‌برد تا آنگاه که درخت خشک شود."
(شیخِ اشراق شهاب‌الدین یحییٰ سهروردی، رساله فی حقیقة العشق یا مؤنس العشاق، فصل ۱۱)


ترجمہ:
"عشق، عَشَقہ سے ماخوذ ہے، اور عَشَقہ اُس پودے کو کہتے ہیں جو باغ میں درخت کی بُن میں ظاہر ہوتا ہے، اوّلا اپنی بیخ زمین میں سخت کرتا ہے، پھر سر بلند کرتا ہے اور خود کو درخت کے گِرد لپیٹ لیتا ہے اور اُسی طرح بڑھتا رہتا ہے تا آنکہ پورے درخت پر احاطہ کر لیتا ہے، اور اُس درخت کو اِس طرح اپنے شکنجے میں کھینچ لیتا ہے کہ درخت کی رگوں میں نمی باقی نہیں رہتی، اور جو غذا بھی آب و ہوا کے ذریعے درخت تک پہنچتی ہے، وہ اُسے غارت کر لیتا ہے یہاں تک کہ درخت خشک ہو جاتا ہے۔"

× بُن = جڑ، بنیاد، اصل
× بیخ = جڑ، بنیاد

یعنی جس طرح عَشَقہ درخت پر تسلط کر کے اُسے خشک کر دیتا ہے، اُسی طرح عشق انسان کے درختِ ہستی کو خشک و بے جان کر دیتا ہے۔ اِسی وجہ سے اُسے عشق کہا جاتا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حسبِ معمول بہت اچھی اور معلوماتی تحریر ہے حسان خان ! اردو مین بھی ایک بیل (vine) کو عشقِ پیچاں کہا جاتا ہے ۔ یہ بیل درخت کی جڑ سے اگتی ہے اور اس کے تنے کے گرداگرد لپٹتی ہوئی اوپر شاخوں تک چلی جاتی ہے ۔
 
Top