لفظ، ابلاغ، علامت

تفسیر

محفلین


لفظ، ابلاغ، علامت
ڈاکٹر ابن فرید

[line]
لفظ نیا نہیں ہوتا، اس کا استعمال نیا ہوتا ہے۔ وہ سارے الفاظ جو میں استعمال کرتا ہوں پہلی مرتبہ استعمال نہیں ہوئے ہیں مجھ سے پہلے صدیوں سے استعمال ہوتے ہیں ۔ ان کے معنی بھی نئے نہیں رہے ہیں، انہیں بڑے تنوع کے ساتھ میرے پیشرؤوں نے استعمال کیا ہے۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ الفاظ کے منتشر موتیوں کا سلگِ گہر میں پرونے کا عمل بھی مجھ تک یا آپ تک موجود نہیں ہے، اپنی تفہیم اور ابلاغ کے لیے یہ سیلقہ بھی ہمیں پیش روؤں سے ملاہے۔ پھرایک لطیف حقیقت یہ بھی ہے کہ الفاظ کا خزانہ اتنا وافروسیع اور ہمہ رنگ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی فرد اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ وہ الفاظ جن سے ہم مانوس ہیں اور جن کے فنکارانہ استعمال پر ہمیں عبور حاصل ہے۔ انہیں بھی فراونی کے ساتھ استعمال میں لانا ہمارے امکان سے باہر ہوتا ہے۔ چنانچہ تخلیقی عمل کے دوران ہمیں الفاظ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اور ہم سمٹ کر ایک محدود سرمایہ الفاظ پر قانع ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی شاعر یا ادب کی تمام تحریروں کا اگر لسانیانی شمار ( statistically ) مطالحہ الفاظ کیا جائے تو یہ ایک دلچسپ حقیقت سامنے آئے گی کہ یہ محدودیت صرف ایک تحریر تک نہیں ہوتی بلکہ اس کی تحریروں میں ایک مخصوص سرمایہ الفاظ استعمال ہوتا ہے۔ الفاظ کا تھوڑا بہت تنوع وہ ہے تحریر میں اختیار کرتا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر اس کا خزانہ الفاظ غیر متنوع ہوتا ہے۔ گویا ہر ادیب یا شاعر ارسال و ابلاغ کے رنگ برنگے چمن میں سے چند پھولوں کو چن لیتا ہے، اور ان کی ترتیب کو ادل بدل کر نئےنئےگلدستے سجاتا ہے۔

الفاظ کے انتخاب کو ہم ڈکشن ( Diction ) کہتے ہیں۔ اور ان کا ایک سلیقہ سے استعمال اسلوب (style ) کہلاتا ہے۔ یہ اسلوب ماہرین لسانیات کے نزدیک ہر فنکار کے یہاں منفرد اور اوریجنل ہوتا ہے۔ اس کی نقل نہیں کی جاسکتی۔ مجھے یہ بات کچھ دل کو لگتی ہوئی نہیں معلوم ہوتی تھی۔ چناچہ میں ایک بار ایک ماہر لسانیات سے الجھ پڑا میرا دعوی یہ تھا کہ پیروڈی نگار عام طور سے اسلوب ہی کی نقل کرتے ہیں، ان کی کامیابی کا انحصار ہی اس نقالی پر ہوتا ہے، پھر یہ کیوں کر کہا جاسکتا ہے کہ اسلوب کی نقل نہیں کی جاسکتی۔ میری اس الجھن کا جواب بڑا تسلی بخش ملا۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر پیروڈی نگار یا اسلوب کا تتبع کرنے والےاسم اور صفت کے کثرت ِاستعمال کو متحضر کرلیتے ہیں اور انہیں اسی کثرت کے ساتھ اپنے یہاں استعمال کرنے لگتے ہیں چنانچہ ان کے ہاں اسلوب کی باز گشت تو ضرور مل جاتی ہے لیکن اسلوب نہیں ملتا۔ اسلوب کا اصل انحصار حروفِ تمنا، استفہام ، امر، نہی، ندا، جار، عطف اور افعال وغیرہ پر ہوتا ہے جس کو پیروڈی نگار تا متبعین عام طور پر نظرانداز کردیتے ہیں چنانچہ اگر اصلی اور نقل تحریروں پر سے مصنفوں کے نام اڑادئے جائیں اور ان کا شماریاتی تجزیہ کیا جائے تو یہی غیراہم الفاظ دونوں میں امتیاز پیدا کریں گے یہ ایک سخن گسترانہ بات تھی، مگر اصل مسئلہ اسی بات میں پوشیدہ ہے۔ کیونکہ فنکار صرف ایسے الفاظ کو انتخاب کرتا ہے جو اس کے لئے مخصوص ہوجاتے ہیں اور دوسرا جب اسی کے جیسے الفاظ انتخاب کرنا چاہتا ہے تو کامیاب نہیں ہو پاتا؟ یہ سوال الفاظ کے انتخاب کے مسئلہ کو لسانیات کی حدود سے نکال کر نفسیات کی سر زمین میں داخل کردیتا ہے۔ انتخابِ الفاظ ڈکشن ( Diction ) اور اسلوب کے مسئلہ پر بڑی بحثیں ہوئی ہیں اور بڑے کارآمد نکات منظرعام پر آئے ہیں، لکین موجودہ دور کےتقاضے کے تحت اب لسانیت اور نفسیات کے درمیان ایک پل کی ضرورت ہے تاکہ ‘ کیوں‘ کا جواب تلاش کیا جاسکے۔

[line]
نفسیاتی نقطہ نظر سے فنکار مادی نوعیت یا خارجی حسن سےاتنا متاثرنہیں ہوتا جتنا وہ اس کی باطنی صفات کا گرویدہ ہوتا ہے۔ لفظ اس کے لئے ایک باطنی کائنات ہوتی ہے۔ جو مادہ کی طرح مردہ نہیں ہوتی لیکن توانائی کی طرح زندہ اور محترک و مضطرب ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ لفظ میں روح کہاں ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہم ذی حیات اشیا کے بارے میں بھی نہیں دے سکتےہیں، پھرالفاظ کے بارے میں کیا جواب دیں! فنکار اس روح کو اندرون کی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے، اسے مقید نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کے لئے وہ کوشاں ضرور رہتا ہے۔ چنانچہ جب وہ لفظ کوگرفت میں لینا چاہتا ہے تو اس کی روح کی وجہ سے اس حدت، زندگی اور توانائی کی وجہ سےگرفت میں لینا چاہتا ہے جو اسے لبٍ کی ہر رگ ریشہ میں گردش کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اس روح کے بغیر لفظ مردہ ہوتا ہے، اور مردہ کا حشر سوائے تدفین و ترک کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ ہر فنکار کے لئے زندہ نہیں ہوتا۔ اسے زندگی صرف انہیں الفاظ میں نظر آتی ہے جو اس کی زندگی سے مماثل ہوسکیں، اور اس کے احساس و جذبہ اور مشاہدہ تجربہ کو توانائی و ثبات عطا کرسکیں۔

الفاظ کے انتخاب کے ساتھ ان کا سلیقہ استعمال بھی فنکار کی نفسیاتی افتاد طبع کا پابند ہوتا ہے۔ اب یہ قول کافی پرانا ہوچکا ہے۔ کہ “ اسلوب ہی شخص ہے۔“ ( Style is The Man ) لیکن اس قول کی نفساتی صداقت اب بھی فرسودہ نہیں ہوئی ہے۔ فرد جب لفظ کی روح کو ہم آہنگ کرلیتا ہے تو اس سے ویسا ہی برتاؤ کرتا ہےجیسا کہ وہ اپنے آپ سے کرتا ہے۔وہ جس طرح اپنی زندگی میں ایک سلیقہ کا متلاشی ہوتا ہے اسی طرح وہ لفظوں کے استعمال میں سلیقہ کو سمونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی زندگی لاتعداد پراگندگیوں اور انتشار کی آماج گاہ ہوتی ہے۔، لیکن ان میں بقول فرینکل ( Viktor E Frankl ) معنی کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، اور جب معنی کی تلاش انجام کو پہنچ جاتی ہےتو زندگی کا سفرختم ہوجاتا ہے اسی طرح الفاظ کے سلیقہ استعمال کے لئے جستجو کا سفر جاری رہتا ہے، اور جب سلیقہ ہاتھ آجاتا ہے تو سفر ختم ہوجاتا ہےاور اسلوب کا تعین ہوجاتا ہے۔ کارواںِ سفر کبھی منزل تک کامران پہونچتا ہے، اور کبھی راہ میں ہی لٹ جاتا ہے۔ چنانچہ اسلوب کی معراج صرف کامرانی کی صورت میں حاصل نہیں ہوتی، ورنہ حشر تبتع اور نقالی یا ناپختگی کی شکل میں عبرت ناک ہوتا ہے۔

اسلوب کا یہ سفر بھی اس نفسیاتی افتاد کےمظاہرہ ( Manifestation ) کے لئے ہوتا ہے۔جس کے ارسال و ابلاغ کے لیے فن کار بے چین ہوتا ہے۔ اس کائنات کاتعقل ( intellect ) ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور دولت نہیں ہوتی اس دولت کو وہ فطرت ( Nature ) کی طرح فیاضی کےساتھ لٹا دینا چاہتا ہے، لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک فیض یاب ہونے والا اس سے پوری طرح متمتع ہونے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ چنانچہ فنکار نہ صرف لفظ لفظ میں توانائی سمونے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ ان اجزا کے مرکب سے ایک نئی توانائی کو بھی جنم دینے کی سعی کرتا ہے۔ جس طرح ہر جز کی خاصیت الگ ہوتی ہے۔اسی طرح مرکب بھی اپنے خاصہ کے لحاظ سے منفرد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فنکار کا اسلوب دوسرے مرکب میں جنم لے نہیں پاتا۔

[line]
علامت کا تعلق لفظ اور اسلوب دونوں سے بہت قریب ہے۔ لفظ حروف کا مجموعہ ہے۔ اور ہرحرف اپنی جگہ ایک نشان ( Sign ) ہے۔ اس سےایک خاص صوت یا آواز کا اشارہ ملتا ہے، اور ان آوازوں کے اشارتی مرکب سےلفظ بنتا ہے جو خود ایک اشارہ ہوتا ہے، لیکن حروف سے زیادہ جامع اور بامعنی لفظ کا ایک خاص انداز میں استعمال اس کی معنویت میں مزیدگہرائی اور وسعت پیدا کرتا ہے۔ اس طرح وہ لفظ جو مجرو حیثیت سے محض اشارہ ہوتا ہے سلیقہ استعمال کے ذریعہ علامت بن جاتا ہے۔ مثلاً غالب کا ایک شعر ہے۔


ہستی کےمت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے۔


لفظ ہستی کو مجروحیثیت سے دیکھا جائے تو ایک مخصوص و محدود معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے، اس کا ابلاغ جامد اور سطحی ہے، لیکن اس سفر میں ایک خاص سلیقہ سے استعمال نے اس لفظ میں معنی کی مختلف سطحیں پیدا کردی ہیں، ابلاغ توانا، محترک، اور تہہ وار ہوگیا ہے۔ یہاں ابلاغ کا تعین تو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کلیتہ نہیں۔ گرفت پھر بھی ڈھیلی رہے گی۔ علاوہ ازیں اس کا ابلاغ، اندازِ فکر کے ساتھ تھوڑا بہت بدلتا رہے گا۔

علامت کی دوسری جہت زمان ( Time ) کے زاویہ سے اقبال کے اس شعر کو ملاحظہ کیجئے۔


متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزومندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی


لفظ ‘ بندگی‘ ایک عرصہ سی عبودیت، مجہولیت، مظلومیت، غلامی، مجبوری کے معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے، لیکن زمانی امتداد سے اس کے معنی بدل گئے ہیں۔ اقبال نے فرد کو پھر سے زندہ کردیا ہے، اسے فعال اور با اختیار بنادیا ہےاب اسے بندگی میں ایک شان انفرادیت نظر آتی ہے، چنانچہ وہ جہدوعمل کے بدلہ میں خدائی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں بندگی اس منزل کی طرف بھی اشارہ کرتی ہےجس تک فرد پہنچنا چاہتا ہے۔وہ شعلہ مستحجل ہے اس لئے اپنی انتہا چاہتا ہےاور اس سے ہم کنار ہونے کے لیے تعجیل پسند ہے۔ خدائی کے نام مختتم سلسلہ میں اس کی ذات کی آسودگی نہیں ہوتی۔ اس طرح زمانی سفر کی وجہ سے ‘ بندگی‘ غلامی کی علامت نہیں رہی، بلکہ انسان کے مادی وجود اور اس کے بشری تقاضوں کی نمائندہ بن گئی ہے۔

[line]
مکانی جہت ( Space Dimension ) کے لئے وزیر آغا کی نظم ‘ ماں‘ کا مطالحہ مناسب ہوگا۔
وہ برگد ایک پیڑ تھی؛ ( ماں )
پیڑ جڑ سےاکھڑ کر پرے جا پڑا ؛ ( موت )
اور چھتنار کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے ہوئےسارے پنچھی ؛ ( اولادیں )
بھیانک سی چیخوں کے کہرام میں اڑ پڑے۔ آسمان کی طرف ( پردیس )


مندرجہ بالا اقتباس میں نظم کی مختلف سطروں کےسامنےمیں نے قوسین میں علامتں لکھ دی دیں بحیثت مجموعی پوری نظم ایک علامت ہے۔ لیکن اس مرکزی علامت کےساتھ مختلف ( Peripheral ) علامتیں بھی ہیں مثلاً خنک چھاؤں، دودھیاشاخ، شاخوں کی لوری اور وہ جو درج بالا ہیں۔ علامتوں کے یہ دائرے ایک دوسرے کا اسطرح احاطہ کرتے جاتے ہیں جیسےدائرہ میں اٹھنےوالی لہریں جوایک دوسری کےاردگرد ہوتی ہیں اور ان کےمرکز سےمیں کوئی لہرنہیں، لیکن اس سطح مرکز سے یکایک لہر کا ایک نقطہ ابھرتا ہے پھر یہ نقطہ ایک چھوٹے دائرے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ چاروں طرف پھیلنے بڑھنے لگتا ہے۔ یہی بے نام مرکز اپنی جگہ پر مرکزی علامت ہے جس سےتمام محیطی علامتیں وجود میں آتی ہیں۔ اپنا امتیاز برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، اور مرکز سےمحیط کی طرف پھیلنے لگتی ہیں، لیکن مرکز کےحلقہ سے اپنا سلسلہ توڑ نہیں سکتیں۔ اس نظم میں علامت کی یہی نہج اس علامت کا حسن ہے۔ باوجود یہ کہ شاعر ‘ اُڑپڑے‘ میں ابلاغ کی پختگی پیدا نہ کرسکا، چناچہ یہ محطی علامت نہ صرف صوتی لحاظ سےنا تراشیدہ ہے بلکہ معنوی لحاظ سے بھی سپاٹ ہے۔

غرض اس طرح لفظ مختلف علامتی جہتوں سے ربط و تعلق کے بعد علامت بن جاتا ہے، اور مختلف نہجوں سے اپنے اندر مختلف سطحیں پیدا کرلیتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہر علامت میں زمانی و مکانی جہتیں دونوں بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ اور فردان میں ذریعہ اتصال بنتا ہے۔ یہاں صرف توضیح کے لئے تینوں جہتوں ( فرد، زمان، مکان ) کے لئےالگ الگ مثالیں دی گئی ہیں۔ اسے کسی غلط فہمی کا موجب نہ بننا چاہیے۔

آخراً اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ فنکار علامت کے لئے جس لفظ سے ڈھانچے ( Structure ) کا کام لیتا ہے۔ وہ نیا نہیں ہوتا، وہ بہ کثرت استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ بلکہ اکثر و بیشتر اس سے علامت کا کام بھی لیا جاتا رہا ہے، لیکن شاعر اپنےفکری تقاضوں کی ترجمانی کے لیےاسلوب سےاستعمال کرکے اس علامت میں نیا پن اور انفرادیت پیدا کردیتا ہے اس طرح علامتیں نہیں ہوتی ہیں ان کا استعمال کا سلیقہ نیا ہوتا ہے۔
( ڈاکٹر ابن فرید ۔ ماہانہ “ اردو زبان “ سرگودھا ۔ جولائی ، اگست ۔ ١٩٦٩ )​
 
Top