فارسی شاعری لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کی منتخب غزلوں کا منظوم اردو ترجمہ - ڈاکٹر خالد حمید

حسان خان

لائبریرین
ترجمے کی کیا ہی بات ہے۔ لیکن اگر پہلے کی طرح اس کو فارسی کے اصل متن کے ساتھ شعر با شعر لکھا جاتا تو لُطف دوبالا ہو جاتا۔ کیونکہ فارسی اشعار دیکھنے کے لئے دیوان حافط ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے۔
السلام علیکم تلمیذِ گرامی!
اگر آپ ہر غزل کے سر پر موجود فارسی مصرعے پر کلک کریں گے تو آپ ان غزلوں کے فارسی متن تک پہنچ جائیں گے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
وعلیکم السلام، حسان خان جی۔
واہ، بہت خوب۔۔ اس ترکیب سے تو میں بالکل ناواقف تھا۔ بس مقصد حل ہو گیا۔
براہ کرم اس مفید مہم کو جاری رکھیں، جزاک اللہ!
 

حسان خان

لائبریرین
نه هر که چهره برافروخت دلبری داند

ہر اک جو چہرہ سنوارے، نہ دلبری جانے
نہ رکھ کے آئینہ ہر اک سکندری جانے
ہر اک جو طرفِ کُلہ کج کرے، ضرور نہیں
کلاہ داری و آئینِ سروری جانے
ہزار بال سے باریک ہیں یہاں نکتے
ہر اک نہ سر کو منڈا کر قلندری جانے
میں غرقِ اشک ہوا ہوں، رہا نہ چارہ کوئی
نہ غم کے بحر میں ہر اک شناوری جانے
ہوں ایسے رندِ سکوں سوز کا غلام کہ جو
گدا صفت ہے مگر کیمیاگری جانے
ہے تیرے خال سے خوش میری آنکھ کی پُتلی
کہ قدرِ گوہرِ یک دانہ جوہری جانے
نہ ہارتا دلِ دیوانہ گر پتا ہوتا
کہ آدمی بچہ بھی شیوۂ پری جانے
نہ شرطِ مُزد لگا، گر ہے بندگی تجھ کو
کہ خواجہ خود روشِ بندہ پروری جانے
بہ قدّ و چہرہ بنا شاہ جو حسینوں کا
جہان گیر ہو گر دادگُستری جانے
ہو کیسا خوب وہ گر سیکھ لے وفاداری
ہر اک حسین وگرنہ ستمگری جانے
سمجھتا ایک وہی ہے کلام حافظ کا
جو لطفِ طبع و سخن سنجیِ دری جانے
 

تلمیذ

لائبریرین
هزار نکته باریک تر ز مو این جاست
نه هر که سر بتراشد قلندری داند

ہزار بال سے باریک ہیں یہاں نکتے
ہر اک نہ سر کو منڈا کر قلندری جانے

بلا شک!
شکریہ حسان خان جی۔
 

حسان خان

لائبریرین
یاری اندر کس نمی‌بینیم یاران را چه شد

یار کی یاری ہوئی کیا اور یاراں کیا ہوئے
دوستی کا کیا بنا اور دوست داراں کیا ہوئے
آبِ حیواں کیوں ہے گدلا، خضرِ فرّخ کیا ہوا
پھول کیوں مرجھا گئے، عیشِ بہاراں کیا ہوئے
صد ہزاراں گل کھلے ہیں، ہے مگر سنساں چمن
عندلیبوں پر بنی کیا اور ہزاراں کیا ہوئے
لعل و گوہر ہیں کدھر، الماسِ تاباں ہیں کہاں
تابشِ مہرِ منوّر، باد و باراں کیا ہوئے
نغمۂ زہرہ کہاں ہے ساز کیوں خاموش ہے
شوقِ مستی کا بنا کیا، مے گساراں کیا ہوئے
کون کرتا ہے ادا دنیا میں حقِّ دوستی
حق شناسوں کا ہوا کیا اور یاراں کیا ہوئے
گیند تو میداں میں ہے، چوگانِ بازی کیا ہوئی
تیز گھوڑے تو بہت ہیں شہسواراں کیا ہوئے
حق شناسی جانتا حافظ نہیں ہے اب کوئی
جانتے تھے لوگ جو اسرارِ دوراں کیا ہوئے

اس غزل کا جو منظوم ترجمہ مولوی محمد احتشام الدین دہلوی نے کیا تھا وہ بھی یہاں موجود ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
درختِ دوستی بنشان که کامِ دل به بار آرد

قرارِ دوستی کر لو کہ تسکیں ہو، قرار آئے
کرو مت دشمنی کہ اس سے رنجِ بے شمار آئے
جو ہے مہمانِ مے خانہ تو سیکھ آداب رندی کے
بنے ہے دردِ سر مستی اگر اس سے خمار آئے
شبِ صحبت ملی کم کم، ملے روزِ خوشی تھوڑے
بہت گردوں نے گردش کی، بہت لیل و نہار آئے
عماری دارِ لیلیٰ کو خدایا ایسا گمرہ کر
کہ کھو کر راستہ اپنا بہ قیسِ دل فگار آئے
بہارِ عمر مانگ اے دل، یہ کیسا باغ ہے جس میں
بہار آئے خزاں آئے، خزاں آئے بہار آئے
خدایا جب سے میں اُلجھا ہوں اُس ظالم کی زلفوں میں
نہ دل ہے چین سے کچھ اور نہ کچھ جاں کو قرار آئے
تُو خستہ ہے مرے دل اور صد من بارِ غم تجھ پر
ملے تھوڑی سی مے کچھ دن تو شاید کچھ قرار آئے
خدا چاہے تو پیری میں بھی حافظ ایک دن تجھ کو
کنارِ آبِ جو ہو، تیرا دلبر در کنار آئے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
هزار نکته باریک تر ز مو این جاست
نه هر که سر بتراشد قلندری داند

ہزار بال سے باریک ہیں یہاں نکتے
ہر اک نہ سر کو منڈا کر قلندری جانے

بلا شک!
شکریہ حسان خان جی۔
ہزار بال کہنے سے ایک تعقید پیدا ہورہی ہے ۔ لفظ ہزار چونکہ بال کے بجائے نکتے کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے میری ناچیز رائے میں یہاں ہزار کے بجائے ہزاروں کہنا زیادہ بہترہوگا ۔
ہزاروں بال سے باریک ہیں یہاں نکتے
ہر اک نہ سر کو منڈا کر قلندری جانے
 
Top