لب پہ لیکن کوئی فریاد نہیں

حال کچھ ایسا بھی برباد نہیں
گوشئہ دل ہی تو آباد نہیں

آ گئے یاد مہربان مرے
آئی کیوں یاد، یہ بھی یاد نہیں

عاشقی صبر طلب کام رہا
ہم بھی تھے قیس یا فرہاد نہیں

تیرا بیمار مگر جیتا رہا
زندگی گزری مگر شاد نہیں

بہتا ہے آنکھ سے اک سیل رواں
لب پہ لیکن کوئی فریاد نہیں

جیتے ہیں آرزو میں جینے کی، پر
آرزو کی کوئی میعاد نہیں

(2020)​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ، مریم افتخار !
گویا چکی کی مشقت کے ساتھ ساتھ مشقِ سخن جاری رہی!:)

حال کچھ ایسا بھی برباد نہیں
گوشئہ دل ہی تو آباد نہیں
اچھا کہا ہے۔ خوب مطلع ہے۔

دوسرے شعر میں مہربان کا تلفظ ٹھیک نہیں باندھا۔ اس کا وزن فاعلان ہے یعنی "ہ" پر سکون ہے۔ مہربان یا مہرباں سے مصرع شروع کر کے دیکھیے تو زیادہ ردو بدل کیے بغیرتصحیح کی صورت نکل آئے گی۔

جیتے ہیں آرزو میں جینے کی پر
اس مصرع میں متعدد حروف کے اسقاط کی وجہ سے روانی نہیں ہے۔ آرزو چونکہ فارسی لفظ ہے اس لیے اس کا واؤ ساقط کرنا ٹھیک نہیں ۔ واؤ دبانے سے اس لفظ کی ادائیگی بگڑ رہی ہے۔

عاشقی صبر طلب کام رہا
ہم بھی تھے قیس یا فرہاد نہیں
مصرعِ ثانی میں تعقید کی وجہ سے گرامر گڑبڑ ہورہی ہے۔ اصولاً تو یوں ہونا چاہیے کہ: ہم بھی قیس یا فرہاد نہیں تھے۔ اس نثری صورت میں تو "یا" کا استعمال درست جگہ پر ہے لیکن تھے کو پہلے لانے کی وجہ سے اب "یا" کا استعمال درست نہیں رہا۔
امید ہے کہ اتنے عرصے بعد یو ایم پر اپنی اس پہلی غزل پر میری ناقص رائے کو مثبت انداز میں دیکھیں گی۔
یعنی اسے کہتے ہیں کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔
 
Top