لبیک از ممتاز مفتی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

دوست

محفلین
لبیک
از
ممتاز مفتی

میں وی جاناں ڈھوک رانجھن دی، نال میرے کوئی چلے(شاہ حسین رح)


میرے اللہ کی شان نرالی ہے کہ اس نے اپنے کوٹھے کی اس قدر منفرد تعمیر کروائی،جس میں‌نہ کوئی ڈھب ہے نہ ڈھنگ ہے اور اس بے ڈھبے بے ڈھنگے کالے کوٹھے میں ‌جاذبیت اس قدر کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کہ زائر کی نگاہیں اس پر اس حد تک مرکوز ہوجاتی ہیں ‌کہ وہ عظیم مسجد،خوبصورت اور پرہیبت دیواریں،عظیم الشان محرابیں نگاہ میں‌ہیچ ہوکر رہ جاتی ہیں اور وہ کالا بے ڈھبا کوٹھا ابھرتا ہے،ابھرے چلا جاتا ہے حتٰی کہ تمام کائنات اس کی اوٹ میں‌ آجاتی ہے۔‌
 

دوست

محفلین
باب نمبر 1بن مانگے

بن مانگے
میرے دل میں‌حج کرنے کی خواہش کبھی پیدا نہ ہوئی تھی،پھر عجیب حالات رونما ہوئے۔
فوارہ چوک کا مست:
ایک شام میں‌پنڈی فوارہ چوک سے گزر رہا تھا۔ اس وقت بجلی فیل ہونے کی وجہ سے چوک میں‌خاصا اندھیرا تھا۔حسب دستور آنے جانے والوں‌کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔میں‌بچ کر ایک طرف چل رہا تھا کہ دفعتًا ایک سیاہ فام جسم میرے سامنے ابھرا،چہرہ بھیانک تھا۔بال بکھرے ہوئے،آنکھیں‌ جل رہی تھیں۔وہ میرا راستہ روک کے کھڑا ہوگیا۔پھر خوشی سے چلا کر بولا“ تو حج پر جائے گا۔ تو حج پر جائے گا۔ سنا تونے۔“
وہ مست تھا۔ میں‌سمجھا فقیر ہے۔میں‌نے جیب سے چونی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی اور چل پڑا۔اس نے میرا بازو پکڑ لیا،ہاتھ کھولا۔ چونی میرے ہاتھ پر رکھ دی۔ پھر اس نے اپنے بائیں‌ہاتھ کی مٹھی کھولی وہ ریزگاری سے بھری ہوئی تھی۔اس نے ساری ریز گاری مجھے تھما دی۔“رکھ لے رکھ لے“ وہ بولا “تجھے حج پر جو جانا ہے،تجھے پیسے چاہیں۔ رکھ لے رکھ لے۔“
اس روز گھر پہنچ کے میں‌سوچتا رہا۔
اگر وہ چونی واپس نہ کرتا اور اتنی ساری ریز گاری میرے ہاتھ میں نہ تھما دینا۔تو اس واقعہ کو میں‌چنداں‌اہمیت نہ دیتا۔لیکن ان کوائف نے مجھےسوچنے پر مجبور کردیا۔
چار ایک دن میں‌سوچتا رہا۔وہ کون تھا۔ اس نے کیوں‌ایسا کیا۔اس نے مجھے پیسے کیوں‌دیے حج کی بات کی طرف میری توجہ منعطف نہ ہوئی۔اس کی حیثیت ضمنی رہی۔سوچنے کی بات یہ تھی کہ اتنی بھیڑ میں اس نے مجھے کیوں‌روکا،خیرات کیوں‌نہ لی۔مجھے پیسے کیوں‌دیے چار ایک دن میں سچتا رہا،پھربات میرے ذہن سے نکل گئی۔
یہ ان دنوں‌کی بات ہے جب میں‌پنڈی میں‌پبلک ریلیشنز کے دفتر میں‌ملازم تھا ذہنی طور پر میں‌ایمان اور شکوک کے درمیان میں‌لٹکا ہوا تھا۔ میں‌سمجھتا تھا کہ ماننے کے لیے جاننا ضروری ہے۔
زندگی کے پچاس سال میں‌نے جاننے کا چکر میں‌گنوا دیئے تھے۔ان دنوں‌میں‌پکا دانشور نہ تھا نہ خدا کو مانتا تھا نہ اسلام کو۔اپنے مذہب پر شرمندہ تھا۔
1955ء میں‌مری کے خواج جان ‌محمد بٹ نے مجھ پر رقت طاری کردی۔ دس دن میں‌دہاڑیں‌مارمار کر روتا رہا۔حیران تھا کہ یہ کیا ہوا۔
عقل پر بھروسہ ٹوٹ‌گیا ۔ نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا دو مہینے گزرگئے۔
خواب ہی خواب:
پھر__________ ایک رات مجھے حج کا خواب آیا۔میں‌اپنے خواب لکھ لیا کرتا ہوں۔ اس لیے نہیں‌کہ مجھے یہ گمان ہے کہ خواب پیغامات کے حامل ہوتے ہیں یا مستقبل کی خبر دیتے ہیں۔ بلکہ اس لیے کہ میں‌نفس لاشعور میں‌دلچسپی رکھتا ہوں۔
خواب میں‌ مَیں‌ نے دیکھا کہ میرے چچا مرحوم تشریف لائے ہیں۔ان کے ہاتھ میں‌دو سوٹ‌کیس ہیں۔ بغل میں‌ایک لمبا سا لفافہ دبا رکھاہے۔بولے“ یہ لویہ رہا تمھارا سامان“۔پھر لفافہ کھول کراس میں‌سےایک سلپ نکالی۔ “ اور یہ رہی تمھاری ٹکٹ۔“
“ کیسی ٹکٹ؟“ میں نے پوچھا۔
بولے “بھئی تم حج پر جو جارہے ہو۔“
یہ خواب اپنی نوعیت کے لحاظ سے انوکھا تھا۔
نوجوانی میں‌مجھے خواب نہیں آتے تھے۔آتے بھی تو بے ربط اور ڈراؤنے جو صبح کو یاد نہ رہتے۔ان دنوں‌صرف ایک باربط خواب آیا تھا۔جس سے میں اچھی طرح‌مانوس تھا۔ جسے انگریزی میں‌Night Mare کہتے ہیں۔ ڈراؤنی بڑھیا میرے پیچھے بھاگتی۔ مجھے پکڑ لیتی۔ پھر وہ میری چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ جاتی۔ ڈر کے مارے میں ‌چیختا________ اور میری آنکھ کھل جاتی۔
ادھیڑ عمر میں‌بڑھیا سے تو چھٹکارا مل گیا۔ لیکن خوابوں‌میں‌بے ربطی،افرا تفری،دوڑدھوپ خوف و ہراس قائم رہے۔اس خواب سے متعلق تین باتیں‌عجیب تھیں۔ پہلی یہ کہ ایساباربط اور صاف خواب میں‌نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
دوسری یہ کہ حج کی بات کبھی میرے نفس شاعر یا غیر شاعر میں نہیں آئی تھی۔ پھر اس کے متعلق خواب دیکھنا حیران کن بات تھی۔
تیسری یہ کہ حج کی بات اور چچا کی زبانی۔ دونوں‌ہی باتیں‌ناقابل یقین تھیں۔چونکہ میرے چچا مرحوم بھی اللہ تعالٰی کو صرف منہ زبانی مانتے تھے اور ارکان اسلام سے ناواقف تھے۔
یہ خواب دیکھ کر اب کی بار میری تمام توحج پر مرکوز ہوگئی۔کئی ایک دن میں‌سوچتارہا۔مجھے حج کی خبر کیوں‌سنائی جارہی ہے۔
حج کےمتعلق مجھے کچھ علم نہ تھا۔ نہ ہی میں‌اسے اہیت دیتا تھا۔
ان دنوں‌میری زندگی میں‌دو غیر از معمول واقعات ہورہے تھے۔ایک تو مسلسل صبح کے خواب آرہے تھے۔دوسرے میری بائیں آنکھ مسلسل پھڑک رہی تھی۔اس پھڑک میں‌ایک تو تسلسل تھا،دوسرے شدت تھی۔اس سے پہلےکبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ میری بیوی کہنے لگی۔سیانے کہتے ہیں‌بائیں‌آنکھ پھڑکے تو یہ خوش بختی کا نشان ہے۔ ضرور کوئی اچھی بات ہونے والی ہے۔
لیکن پھڑکن میں‌روز بروز شدت پید ہوتی جارہی تھی۔جو خاصی پریشان کن تھی۔ میں‌نے ڈاکٹر کی دوا استعمال کی،حکیم کی دوا کھائی۔لوک دوا آزمائی ۔آنکھ پر سنیدھور رکھا لیکن آفاقہ نہ ہوا۔
گھبرا کے میں نے خواجہ جان محمد بٹ سے پوچھا۔ ہم سب انھیں ‌بھائی جان کہہ کر بلایا کرتے تھے۔چونکہ نقش بندیہ سلسلے میں یہ ہی مروج ہے میں ‌نے کہا بھائی جان یہ کیا مصیبت ہے۔
وہ مسکرائے اور بولے:‌“ مصیبت نہیں۔آپ کو آنے والی خوش نصیبی کا پیغام دیا جارہا ہے۔“
“یہ اچھا خوش نصیبی کا پیغام ہے۔“ میں نے دل میں‌سوچا۔“ میں‌تو اس پھڑکن کی وجہ سے “ٹِیرا“ ہوا جارہا ہوں۔“
پھر میرا تبادلہ کراچی ہوگیا۔
کراچی میں:
‌ ایک دو مہینے میں‌ آوارہ گھومتارہااس دوران وہ خواب بھی آنا بند ہوگئے اور آنکھوں‌کی پھڑکن بھی جاری نہ رہی۔اس دوران میں ‌چار ایک بار قدرت اللہ شہاب سے ملا۔ ان دنوں‌قدرت اللہ شہاب صدر پاکستان کے سیکرٹری تھے۔ قدرت اللہ،اشفاق احمد کا دوست تھااشفاق نے مجھے بار بار تاکید کی کہ قدرت اللہ سے ملتے رہنا۔ میں ‌نے کہا بھائی میرے! وہ ایک بڑا آدمی ہے اور میرا بڑے آدمی سے کیا واسطہ۔
اس کے باوجود اشفاق احمد کی وجہ سے مجھے چار ایک باراس سے ملنا پڑا۔ اس دوران میں ‌نے جانا کہ قدرت اللہ ایک گونگا آدمی ہے۔ بہت کم بولتا ہے لیکن اس میں‌بلا کا عجز ہے۔
اس کے بعد قدرت اللہ نے ازخود میری پے فکسیشن میں‌مدد کرنا شروع کردیا۔ دوایک افسروں‌سے میری سفارش بھی کی ۔یوں‌ہمارے مراسم پیدا ہوگئے۔
میاں‌صاحب:
پھر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ میرے دل میں‌حج کے مفہوم کی آگاہی حاصل کرنے کے لیے تجسس پیدا ہوگیا۔
ایک روز قدرت اللہ نے مجھے فون کیا۔بولے۔“جب آپ دفتر آئیں‌تو راستے میں‌81-گارڈن ایسٹ(Garden East) سے ہوتے آئیں۔وہاں ایک صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں۔میاں‌صاحب۔ان سے ملیں‌کہیں‌میں نے بھیجا ہے۔پوچھیں،فرمائیے آپ کیا چاہتے ہیں؟“
بسیار تلاش کے بعد مجھے گارڈن ایسٹ کا وہ مکان ملا جس میں‌میا‌ں صاحب مقیم تھے۔
میں‌نے صاحب خانہ سے میاں‌صاحب کے بارے میں‌پوچھا۔ انھوں‌نے ملحقہ کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
وہ ایک چھوٹا سا خالی کمرہ تھا جس میں ایک طرف چارپائی بچھی ہوئی تھی۔دوسری طرف جاء نماز پر ایک ادھیڑ‌عمر کا آدمی عبادت میں‌مصروف تھا۔
میں‌نے جھک کے سلام کیا۔
میاں‌صاحب بڑے اخلاق سے ملے۔میں‌نے اپنا مقصد بیان کیا۔ میں‌نے کہا“مجھے قدرت اللہ شہاب نے آپ کی خدمت میں‌بھیجا ہے۔“ “وہ پوچھتے ہیں‌ کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟“
کچھ دیر کے لیے میاں ‌صاحب خاموش بیٹھے رہے۔ان کے بشرے سے سنجیدگی اور وقار کا اظہار ہورہا تھا لیکن اس کے باوجود انداز میں‌شدت کا اضطراب تھا جسے وہ دبانے کی شدید کوشش کررہے تھے۔
میری بات سن کے وہ یوں‌پھوٹ بہے جیسے کچا اندا ٹھوکر لگنے سے پھوٹ بہتا ہے۔
“کچھ نہیں‌چاہیے۔“ میاں‌صاحب نے جواب دیا۔“کچھ نہیں‌چاہیے۔اللہ کا دیا سب کچھ ہے،کون سی نعمت ہے جس سے انھوں‌نے اپنے غلام کو نہیں‌نوازا۔ان سے کہئے بس اتنی گزارش ہے کہ ہمیں‌حج پر بھجوادیں۔“
حج کی بات کرتے ہی ان کا پروقار چہرہ مسخ‌ہوگیا۔ بزرگی اور وقار پارہ پارہ ہوکر رہ گئے۔اب پر منت سماجت،بے بسی اور لاچارگی طاری ہوگئی۔ آنکھوں‌سے آنسو جاری ہوگئے۔روتے روتے وہ چلائے“ وقت بیت نہ جائے۔ ہمارے پاس پیسا ہے،کرایہ ہے اللہ کا دیا سبھی کچھ ہے۔صرف وقت نہیں۔ بس ہمیں‌حج پر بھجوا دیں۔“
وہ بچوں‌کی طرح‌بلک بلک کر رونے لگے۔روتے روتے ان کی گھگھی بندھ گئی۔
ان دنوں‌بہت قلیل تعداد میں‌لوگوں‌کو حج پر جانے کے اجازت نامے جاری ہوتے تھے۔
اس لیے صدر پاکستان کے نام بہت سی درخواستیں موصول ہوتی تھیں کہ ہمیں‌حج پر جانے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔یہ درخواستیں‌بڑی جذباتی ہوتی تھیں۔منتوں،سماجتوں اورلجاجتوں‌سے بھری ہوتی تھیں،صدر پاکستان بڑی سنجیدہ اور عقلیہ طبیعت کے مالک تھے۔انھیں‌سمجھ میں‌نہیں‌آتا تھا کہ لوگ حج کے لیے اس قدر جذباتی کیوں‌ہورہے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ قوم کو جذباتی ہونے سے احتراز کرنا چاہیے۔
میاں‌ صاحب سے ملنے کے بعد میں‌گہری سوچ میں‌پڑگیا۔
“یہ حج کیا چیز ہے ؟“میں‌نے قدرت اللہ سے پوچھا۔
انھوں‌ نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔“ حج اسلام کاایک رکن ہے۔“
“رکن تو ہے پر یہ کیسا رکن ہے جس کے لیے ایک معززباوقار بزرگ یوں‌بچے کی طرح‌رو رہا تھا، جیسے حج چوسنے والی مٹھائی ہو۔“
ریچول:
“حج ایک Ritual ہے“ قدرت نے سنجیدگی سے کہا۔
تقسیم کے فورًا بعد ایک مشہور فلم ڈائریکٹر مسعود پرویز نے مجھ سے کہا“ مفتی صاحب اگر آپ ایک ایسی فلمی کہانی لکھ دیں ‌جس میں دور جہالت کے قدیم عرب قبیلوں‌کی زندگی کی تصویر ہو۔عربوں‌کی بت پرستی،شراب نوشی،زنا کاری،بے حیائی اور عیاشی دکھانے کے بعد دفعتًا جہالت کے بادل چھٹ جائیں ا‌ور سورج نکل آئے اور محمد صلعم کی عظیم شخصیت کے اثرات عربوں‌کی کایا پلٹ دیں۔“
مسعود پرویز کے خیال نے مجھے مسحور کردیا۔فلم لکھنے کے لیے میں‌نے مکے کی تاریخ کا مطالعہ شروع کر دیا۔
تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ حج کے کوائف بالکل وہی ہیں‌جو زمانہ جہالت میں‌مکے کے بتکدے میں‌سالانہ اجتماع پر‌ادا کیے جاتے تھے۔صرف اتنا فرق ہے کہ جب لات و منات کا طواف ہوتا تھا تو زائرین ننگے ہوتے تھے۔ہاتھوں‌میں‌شراب کے پیالے ہوتے تھے اور بغلوں‌میں‌محبوبائیں‌ہوتی تھیں۔
لیکن اب زائرین کے جسم ملبوس ہوتے ہیں۔دلوں میں‌پاکیزہ جذبات کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ہونٹوں‌پر اللہ کی حمد و ثناء کے جام ہوتے ہیں۔اور اگرچہ مسجد الحرام میں ‌عورتوں‌اور مردوں‌دونوں‌کی بھیڑ ہوتی ہے لیکن وہاں‌نہ کوئی عورت ہوتی ہے نہ مرد ہوتا ہے۔
“کیا یہ سچ ہے؟“ میں‌نے قدرت اللہ سے پوچھا۔
“ہاں“ وہ بولے“تقریبًا“
اگر حج وہی پراناRitualہے تو پھر میاں‌صاحب جیسے معزز لوگ اس کے لیے کیوں‌منہ پھاڑ پھاڑ‌کر روتے ہیں۔
“پتہ نہیں“ قدرت اللہ نے کہا
قدرت اللہ ایک ایسے تنگ منہ کا مرتبان ہے اور اس نے التزامًا اپنے علم اورمشاہدے کی سطح اتنی نیچی رکھی ہوئی ہے کہ اس سے استفادہ کے لیے اس مرتبان میں‌بہت سارے پتھر پھینکنے پڑتے ہیں جب کہیں‌جاکر طالب کی چونچ ہری ہوتی ہے۔ اس قدر ہری نہیں‌کہ پیاس مٹ جائے بلکہ اس قدر ہری کہ تشنگی اور بڑھ جائے۔
قدرت کا روکھا جواب سن کر مجھ میں‌مزید پتھر مارنے کی ہمت نہ ہوئی۔میں‌نے سوچااتنی محنت کون کرےاور اگر حج کے کوائف کے متعلق پتا چل بھی جائے تو کیا فرق پڑے گا۔
اس کے بعد پاکستان کا دارالخلافہ کراچی سے پنڈی منتقل ہوگیا۔قدرت اللہ راولپنڈی آگیا اور میں‌اکیلا کراچی میں رہ گیا۔
ابھی میں‌اسی شش وپنج میں‌پڑا تھا کہ ایک روز دفتر میں‌وفاقی وزیر اطلاعات آگئے میری طلبی ہوگئی۔حاضر ہوا تو انھوں نےکہا آپ فورًا راولپنڈی چلے جائیں‌اور صدر گھر میں۔سیکرٹری ٹو پریزیڈنٹ کو رپورٹ کریں پنڈی پہنچا تو قدرت اللہ نے کہا آپ اپنی جائینگ رپورٹ دے دیں ‌آپ یہاں‌او ایس ڈی کی حیثیت سے کام کریں‌گے۔
یوں‌میں‌قدرت اللہ شہاب کا ماتحت بن گیا۔
بھس میں‌آگ:
پھر چند ایک ماہ کے بعد گویا بھس میں‌آگ لگ گئی۔پھر سے حج کے خوابوں‌کا تانتا بندھ گیا۔
میں‌ کہیں‌جانے کے لیے سامان باندھ رہا ہوں،کوئی پوچھتا ہے کہاں‌جارہے ہو۔پیشتر اس کے کہ جواب دوں،آواز آتی ہے“ یہ‌حج پر جارہے ہیں۔“
میں‌بس میں‌بیٹھ جاتا ہوں۔بس چل پڑتی ہے۔کنڈیکٹر ٹکٹ دینے آتا ہے۔“‌میں‌ملتان جاؤں گا۔“ میں‌اس سے کہتا ہوں۔ سبھی مسافر حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہیں‌اور یک زبان ہوکر چلاتے ہیں“‌یہ بس تو حج کو جارہی ہے۔“
“مگر میں‌تو ملتان_________________ روکو روکو میں‌چلاتا ہوں۔“ کنڈیکٹر نفی میں‌سر ہلاتا ہے۔ یہ بس رکے گی نہیں۔
ایک بڑھیا آتی ہے۔ میرے ہاتھ پر اٹھنی رکھ دیتی ہے۔ کہتی ہے“ اس کا گیہوں خریدنا اور‌ کبوتروں‌کو میری طرف سے ڈالنا“
“کون سے کبوتر“ میں‌پوچھتا ہوں۔
“اے روضہ پاک کے اور کونسے۔“ یہ خوابوں‌کا سلسلہ تین مہینے تک جاری رہا۔حتٰی کہ میں‌بوکھلا گیا۔
آیات ہی آیات:
پھر ایک روز راولپنڈی صدر میں بک سنٹر سے گزر رہا تھا کہ سامنے ایک کتاب نظر پڑی۔ جس پرجلی قلم سے لکھاتھا۔“حج بیت اللہ۔“
میں‌نے وہ کتاب خرید لی اور گھر جاکر۔اسے پڑھنے لگا۔کتاب پڑھ کر میں بے حد مایوس ہوا۔
کتاب کا لب لباب یہ تھا کہ حج کی نیت کرنے وقت فلاں‌آیت پڑھو۔ احرام باندھتے وقت فلاں‌آیت پڑھو۔روانہ ہوتے وقت فلاں‌آیت پڑھو۔سرزمین پاک کو پہلی بار دیکھو تو فلاں‌آیت پڑھو۔ مکہ شریف میں‌داخل ہوتے وقت فلاں‌آیت پڑھو۔ مسجد الحرام میں داخل ہوتے وقت فلاں‌آیت پڑھو۔خانہ خداپر نگاہ پڑے تو فلاں‌آیت پڑھو۔
ارے تو حج مسلسل آئتیں‌پڑھنے کا نام ہے۔لیکن اتنی ساری آیات زبانی تو یاد نہیں‌رہ سکتیں۔میں‌نے سوچا۔زائرین ساتھ چھپی ہوئی آیات کی کتابیں‌ اٹھائے پھرتے ہونگے۔
پھر جو دیکھتا ہوں‌تو لاکھوں‌زائرین کتابیں‌آنکھوں‌کے سامنے رکھے فریضہ حج ادا کررہے ہیں۔انھیں‌آئیتیں‌پڑھنے سے اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ آنکھ اٹھا کر دیکھیں کہ وہ کس کے حضور میں‌کھڑے ہیں۔ کس کے در پر استادہ ہیں۔
اور کتابوں‌کی اوٹ میں‌بیت اللہ تنہا کھڑا ہے۔اداس اکیلا______________ارے کیا میاں‌صاحب اس حج کے لیے زار و قطار رو رہے تھے۔بات اور بھی الجھ گئی۔ میں‌نے سوچا کہ چلو قدرت سے ملو چاہے مرتبان میں‌کتنے بھی پتھر ڈالنے پڑیں۔کتنی ہی محنت کرنی پڑے۔۔کر گزرو۔ شاید کچھ پلے پڑ‌جائے۔
قدرت اللہ کے ساتھ رہ کر مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ ایک بار حج کرچکا ہے۔ یہ حج اس نے ماضی قریب ہی میں‌کیا تھا۔ جب وہ صدر کا سیکرٹری تھا۔
اس حج کے متعلق اس نے کبھی بات نہ کی تھی۔اس کے پی اے سے مجھے پتہ چلا تھا کہ اس نے حج کے متعلق اپنی سرکاری پوزیشن سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا تھا۔ ایک عام آدمی کی طرح‌درخواست دی تھی۔ خود لائن میں‌کھڑ ے ہوکر ویزا لگوایا تھا اور بس کا ٹکٹ خریدا تھا۔
پہلا حج:
قدرت اللہ سے حج کے بارے میں پوچھنے کے لیے میں نے مرتبان میں‌‌پہلا کنکر مارا“کیا آپ نے پہلے بھی حج کیا ہے؟“
“ہاں‌کیا ہے“
“طیارے سے گئے تھے؟‘
“نہیں“
“ پیدل گئے تھے؟“
“نہیں۔“
“ پھر کیسے گئے تھے؟“
“‌بس سے گیا تھا۔“
قدرت اللہ سے سوالات پوچھنا،اچھی خاصی سردردی کا باعث‌ہوتا ہے۔سوالات پوچھو ان کا رویہ ایسے مجرم کا سا ہوتا ہے جو پولیس کے ہتھے چڑھا ہواہو،جسے جھوٹ بولنا گوارہ نہ ہو مگر سچ کہہ دینےسے حتی الوسع بچنا چاہتا ہو۔
سوالات کا جواب دیتے وقت ان کا رویہ اس قدر خالصتًا منطقی ہوتا ہے جس قدر ارسطو کا ہوتا تھا۔
ایک دہقان ارسطو کا فین(Fan) تھا۔وہ گاؤں سے چل کر بڑے شوق سے ارسطو سے ملنے آیا۔شہر آکر پوچھتے پوچھتے وہ ارسطو کے گھر پہنچا۔اتفاق سے اس وقت ارسطو حکیم کی دوکان پر جانے کے لیے گھر سے نکل رہا تھا۔
دہقان نے پوچھا“یہ ارسطو کا گھر ہے؟“
“جی ہاں“۔ارسطو نے جواب دیا
“ارسطو اندرہے کیا؟“
“نہیں۔“
“وہ کہاں‌ملے گا؟“
“حکیم صاحب کی دوکان پر۔“
“حکیم صاحب کی دوکان کہاں‌ہے؟“
ارسطو نے پتا بتادیا۔
کچھ دیر کے بعد دہقان حکیم کی دوکان پر پہنچا۔حکیم سے کہا مجھے ارسطو سے ملنا ہے۔حکیم نے ارسطو کی طرف اشارہ کیا“یہ رہے ارسطو۔“
“اچھا توتُو ارسطو ہے۔“ دہقان نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں“ ارسطو بولا۔ “میں‌ارسطو ہوں۔“
دہقان کو غصہ آگیا،بولا۔“ تو نے مجھے وہاں‌کیوں‌نہ بتایا کہ تو ارسطو ہے۔“
ارسطو نے جواب دیا۔“ تو نے وہاں ‌یہ پوچھا نہیں‌تھا کہ کیا تو ارسطو ہے۔پوچھتا تو بتا دیتا۔“
جواب دینے میں‌قدرت اللہ بھی سمجھ لیجئے کہ ارسطو ہے۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سوال پوچھنے میں اس دہقان کا چھوٹا بھائی ہوں۔ جواب لینے کے لیے مجھے مناسب سوال کرنا نہیں‌آتا۔
میں‌نے پوچھا “ مکہ شریف میں ٹھہرے کہاں‌تھے؟“
“ایک نالے کے کنارے ۔“
میں‌نے پوچھا۔“ نالے کے کنارے ہوٹل تھا کیا؟“
“نہیں۔“
“مکان تھا؟“
نالے کے کنارے کیا تھا؟
“نالے کے کنارے نالے کاکنارہ تھا۔“ قدرت نے جواب دیا۔
“اتنے دن نالے کے کنارے پر پڑے رہے۔زمین پر؟“
“نہیں‌وہاں‌میں نے دری بچھا لی تھی۔“
“وہاں‌دری پر پڑے رہتے تھے؟“
“ہاں۔“
“پاس پیسے نہیں‌تھے کیا؟“
“نہیں۔“
“گھر سے پیسے نہیں‌لے کے گئے تھے۔“
“لے کر گیا تھا۔“
“تھوڑے ہونگے۔“
“ نہیں‌کافی تھے۔“
“ ان دنوں‌عہدہ کیا تھا؟“
“صدر کا مشیر تھا۔“
“تو پیسے چوری ہوگئے تھے؟“
“نہیں۔“
“کسی کو دے دیے تھے؟“
“ہاں۔“
“پاس کچھ نہ رکھا؟“
“رکھا تھا۔“
“کتنا رکھا تھا؟“
“جتنے کی‌روز دو روٹیاں‌خریدی جاسکیں۔“
“باقی خیرات کردیے تھے کیا؟“
“ہاں۔“
“روٹی کے ساتھ کیا کھاتے تھے؟“
“دال۔“
“دال کہاں‌سے ملتی تھی؟“
“تندوروالا دیتا تھا۔“
“مفت؟“
“ہاں‌مفت۔“
توبہ ہے قدرت سے کون سرکھپائے۔ساری کنکریاں ‌ختم ہوگئیں‌لیکن بوتل میں ایک قطرہ پانی پر پڑا۔میں‌ نے سوچا گھر چلو۔حج سے متعلق معلومات حاصل کیے بغیر کیا میری زندگی ادھوری رہ جائے گی۔کیا فرق پڑتاہے۔
ایلگن روڈ کا مست:
عین اس وقت باہر سے شور کی آواز بلند ہوئی۔بہت سے لوگ چیخ چلا رہے تھے۔ ہم باہر نکلے۔ کوٹھی کے صحن میں‌بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ان کے درمیان ایک نو عمر شخص تھا۔وہ دیوانوں‌کی سی باتیں‌کر رہا تھا۔ہمیں‌دیکھ کر چلایا۔“وہ آگئے۔ وہ آگئے۔“اور پھر ہماری طرف بھاگا۔
کمرےمیں‌لے جاکر قدرت نے اسے کرسی پر بٹھا دیا۔
کرسی پر بیٹھ کر وہ غصے میں‌قدرت سے کہنےلگا۔“تو اسے بتاتا کیوں‌نہیں؟“
“کیا؟“ قدرت نے پوچھا۔
“جو یہ پوچھ رہا ہے۔“اس نے میری طرف اشارہ کیا۔
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا اور قدرت کی طرف اشارہ کرکے بولا۔
“اس نے پانچ حج کرنے ہیں۔ابھی چار باقی ہیں۔“
“تو بھی جائے گا،تو بھی جائے گا۔“وہ بولا“ تیری فائل بنی ہوئی ہے،ابھی دستخط نہیں‌ہوئے۔“
جب وہ چلا گیا تو میں‌نے قدرت سے کہا۔“اللہ میاں‌کے ہاں‌بھی کیا فائلیں‌چلتی ہیں؟“
“ہاں‌کہتے ہیں۔“
“اسی طرح جیسے ہمارے سکرٹریٹ میں‌چلتی ہیں؟“
“ہاں۔“
“کیا وہاں‌ کے دفتروں میں‌بھی دھاندلی ہوتی ہے؟“
قدرت ہنس پڑا“پتہ نہیں۔“
“قرائن سے تو ایسے ہی لگتا ہے یا نہیں؟“
“ہاں۔“وہ بولا“لگتا تو ایسا ہی ہے۔“
“اچھا مجھ سے ایک وعدہ کرو“
“کیا؟“ اس نے پوچھا۔
“جب بھی آپ حج پر جائیں‌مجھے ساتھ لے جائیے۔“
“اچھا۔“ وہ بولا“لے جاؤں گا۔اگر گیا تو۔“
میں‌نے کہا “اگر مجھے جانا ہی ہےتو اکیلے جانا بےکار ہوگا۔“
“کیوں؟“ اس نے پوچھا۔
“وہاں‌مجھے کون جانتا ہے۔وہاں میری حیثیت کیا ہوگی؟“
“وہاں‌کسی کی حیثیت نہیں‌ہوتی۔“وہ بولا“وہاں سب ایک ہوتے ہیں۔سب برابر ہوتے ہیں،وہاں صرف ایک رشتہ ہوتاہے۔“
“کون سا؟“ میں‌نے پوچھا۔
اللہ اور عبد:
مکہ شریف میں‌اللہ اور عبد ہوتے ہیں۔مدینے شریف میں‌رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امتی ہوتے ہیں۔
“وہاں‌بزرگ نہیں‌جاتے کیا؟“
“جاتے ہیں۔“
“تو پھر؟“
“مسجد میں‌داخل ہونے سے پہلے سب کو جوتوں‌کے ساتھ مرتبہ اور بزرگی کے عمامے اتار دینے پڑتے ہیں۔اور کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ واپسی پر اس کا عمامہ اسے مل جائے گا۔“
“تو پھر مرتبے والے بزرگ فکر مند رہتے ہونگے۔عام بندے مزے میں‌ہوں‌گے۔ اس فکر سے آزاد۔“
“ہاں۔“ وہ بولا۔
“تمہیں‌کیسے پتہ ہے؟“
“اقبال نے جو بھانڈہ پھوڑ دیا ہے،تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔“
“اقبال کو پتا تھاکیا“
“ہاں۔“
“کیسے پتا تھا؟“
“وہ صاحب نظر تھے“
“کیا وہ اللہ اور عبد کے تعلق سے واقف تھے؟“
“ہاں“
دفعتًا میں‌نے محسوس کیا کہ جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مجھ سے گہرا تعلق ہو۔میرے دل سے منہ زبانی مسلمان ہونے کا کانٹا نکل گیا۔ میرے بند بند میں‌ایک نیا رشتہ ابھرا۔ میں‌عبد ہوں۔ عبد ہوں۔میرا خالق مجھے بلا رہا ہے۔میں جاؤں‌گا ۔ ضرور جاؤں‌گا۔حج کرنے نہیں‌اپنےاللہ کو سلام کرنے کے لیے۔اپنے خالق کا شکریہ ادا کرنے کے لیےکہ اس نے مجھے بنایا۔ایسا بنایا جیسا کہ میں ہوں۔میں جاؤں گا اپنے اللہ کو منانے کے لیےجاؤں گا۔یہی عبدیت کی غایت ہے کہ بنانے والے کو منائے۔
کمرے پر خاموشی طاری تھی۔اس سنسان کوٹھی کے درختوں کی شاخیں‌سرگوشیاں کر رہی تھیں۔دور کوئی چکی چِلّا رہی تھی۔
‌ “عبد ہو۔رسول‌ص ہو۔عبد ہو۔رسول‌ص ہو۔“
 

دوست

محفلین
مانگے ملے نہ بھیک
سناٹا:
کہتے ہیں:- بن مانگے موتی ملیں‌مانگے ملے نہ بھیک سچ کہتے ہیں۔ جب تک طلب نہ تھی راہ چلتے مست اور فقیر مجھے حج پر جانے کی خوشخبری سناتے تھے۔میرے خواب حج کی نوید سے بھرے ہوئی تھے۔ پھر جب طلب بیدار ہوئی تو سب چپ ہوگئے۔ خواب بند ہوگئے۔ میں‌نے محسوس کیا جیسے ایک سناٹا طوری ہوگیا۔ گہرا عظیم سناٹا۔
میرے دوست اشفاق احمد،بانو قدسیہ،احمد بشیر،ابن انشاء قیصر سب سکہ بند دانشور ہیں۔ میری بات سن لیتے ہیں وقتی طور پر متاثر بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن التزامًا پلے باندھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ دانشور کا مسلک شک کرنا ہے۔ پلے باندھنا نہیں۔
میرے دوست محمد طفیل بذات خود ٹیلی پیتھک شخصیت ہیں۔ ان میں‌ایک رسیور لگا ہوا ہے۔ ان کی اپنی زندگی میں‌ چوتھی سمت کے مشاہدات و احساسات موجودہیں۔ لیکن وہ محمد نقوش کے رعب کی وجہ سے اپنے ان مشاہدات کا تذکرہ نہیں‌کرتے،محمد نقوش سے دبتے ہیں اسی وجہ سے ان کی شخصیت دو حصوں‌میں‌بٹی ہوئی ہے۔محمد نقوش سوچتا ہے،لکھتا ہے۔ محمد طفیل صرف دیکھتا ہے محسوس کرتاہے۔ہچکچاتا ہے اور منہ تکتا ہے۔
میرے دوست غلام دین وانی نور محمد اور راجہ شفیع میری باتوں‌کو قابل یقین سمجھتےہیں،لیکن ان میں‌ توازن کا فقدان ہے۔ایمان کے اتنے انبار لگے ہوئے ہیں کہ شک کی گنجائش ہیں‌نہیں۔ادھر جینے کی پابندی ادھر مرنے کی پابندی۔
پتہ نہیں‌توازن کی کیفیت اتنی کمیاب کیوں‌ہے کہ افراد میں‌یا تو عقلی شکوک کے ڈھیر لگ جاتے ہیں‌اور یا ایمان کےدھارے بہنے لگتے ہیں۔توازن کی کیفیت میں‌نے صرف قدرت اللہ میں پائی ہے۔قدرت اللہ کے شکوک اور ایمان میں‌عجیب سی ہم آہنگی ہے۔ ایمان شکوک کی کاٹ نہیں‌کرتا اور شکوک ایمان کے راستے میں‌حائل نہیں‌ہوتے بلکہ اسے تقویت دیتے ہیں۔
میرے دل کی تڑپ یا طلب قدرت کی وجہ سے تھی،اس لیے میرے لیے وہ وسیلہ بن گئے تھے۔
انھی دنوں ‌قدرت اللہ پر ایک ایسی افتاد آپڑی کہ میری توجہ حج سے ہٹ کر قدرت اللہ پر مرکوز ہوئی۔
قدرت کا تبادلہ:
پتہ نہیں‌کیوں‌بیرونی طاقتیں‌ہمیشہ سے قدرت اللہ کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتی رہیں۔ان کا خیال تھا کہ صدر کے سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے قدرت اللہ کا صدر پاکستان پر ایسا اثر ہے جو بیرونی طاقتوں ‌کی کاٹ کرتاہے اور ان کے راستے کی رکاوٹ بنا رہتا ہے۔
عرصہ دراز کی کوششوں‌کے بعد وہ کامیاب ہوگئے اور قدرت اللہ کو سیکرٹری صدر کےعہدے سے سبکدوش کرکے اطلاعات کا سیکرٹری لگا دیا گیا۔
اس تبادلے کے بعد بیرونی طاقتوں‌پر انکشاف ہوا کہ بات تو وہیں‌ کی وہیں رہی اور قدرت عملی طورپر جوں‌کے توں‌اثر انداز ہیں۔لہٰذہ بیرونی طاقتوں‌نے شدید دباؤ‌ڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قدرت کو مرکزی حکومت سے الگ کرکے صوبائی حکومت میں‌فائز کر دیا گیا۔
اس تبادلے کی وجہ سے ہماری توجہ حج سے ہٹ کر دوسرے معاملات پر مرکوز ہوگئی۔
پتہ نہیں‌کیوں‌اس تبادلے پر قدرت اللہ نے اپنا استعفٰے صدر کی خدمت میں‌پیش کردیا۔ یہ استعفٰے احتجاج کا مظہر نہ تھا۔ عرضہ دراز سے قدرت کی خواہش تھی کہ نوکری چھوڑ کر کوئی لکھنے پڑھنے کاکام کریں۔
صدر ایوب نہیں‌چاہتے تھے کہ قدرت اللہ کا استعفٰے منظور کریں۔ قدرت اللہ ضد کر رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوا ایک مہینہ صدر اور قدرت قدرت کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے۔صدر متحمل مزاج تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وقت جذبات کمزور کرنےاور حالات سنوارنے کی واحد کنجی ہے۔
اس لیے وہ معاملے کو طول دیتے رہے۔ انھوں ‌نے قدرت اللہ کو یہ پیشکش بھی کردی کہ اپنے لیے کوئی سا بھی عہدہ پسند کرلیں۔آپ کی وہاں‌تعیناتی کر دی جائے گی لیکن قدرت نوکری چھوڑنےپر مصر رہے۔
انہی دنوں‌اتفاق سے ایک درویش آگئے۔انھوں‌نے قدرت کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ آپ سفیر بن کر کچھ عرصہ کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں۔قدرت اللہ کو یہ بات قابل قبول نظر آئی۔ان کی خواہش تھی کہ کوئی دور کی جگہ ہو چھوٹا سا ملک ہو۔اتفاق سے ہالینڈ کی سفارت خالی تھی۔
لہٰذہ صدر نے انھیں ‌ہالینڈ کا سفیر بنا کر بھیج دیا۔
قدرت کے جانےکے بعد میرے نزدیک حج کا سارا منصوبہ ہی ڈھیر ہوکر رہ گیا۔ایک سناٹا چھاگیا۔مستوں‌نے مجھے سر راہ روکنا چھوڑ دیا۔ فقیر خاموش ہوگئے اور میں‌گویا ایک خلا میں ٹانگ دیا گیا۔
حج کی عرضی:
مہینے گزر گئے پھر ہالینڈ سے قدرت اللہ کا خط موصول ہوا لکھا تھا،مایوس نہ ہوں۔اللہ کے در پر ناامیدی گناہ ہے۔انشاءاللہ ہم ضرور حج پر حاضری دیں‌گے۔آپ حج کی عرضی گزار دیں۔
قدرت اللہ کے اس خط نے ازسر نو امید کا دیا روشن کردیا۔ میں‌سمجھا کہ خوابوں کی تعبیر کا وقت آگیا ہے۔
میں‌ نے عرضی کا فارم منگوایا۔ کوائف درج کیے ۔ رقم جمع کروائی اور پھر تیاری میں ‌مصروف ہوگیا۔
عرضی دیتے وقت میرا ایمان تھا کہ جب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ قرعہ اندازی کریں‌گے تو اللہ میاں ‌خود آکر پاس بیٹھ جائیں‌گے اور کہیں‌گے میاں ممتاز مفتی کا نام ضرور نکالو۔اسے ہم نے خود بلایا ہے۔ بڑی مشکل سے حج پر آنے کے لیے رضامند ہوا ہے۔کہیں ‌پھر سےمنکر نہ ہوجائے اور قرعہ میں‌میرا نام نکوالنے کے بعدوہ فٹافٹ مکہ معظمہ پہنچیں‌گے،تاکہ بروقت مجھے Recieveکرنے کا بندوبست کرلیں۔
جب مجھے علم ہوا کہ میرا نام قرعہ میں‌نہیں‌نکلا تو میں‌ہکا بکا رہ گیا۔
مجھے یقین ہی نہیں‌آتا تھا کہ میرا نام نہیں‌نکلا۔کئی ایک روز تو میرا ذہن ماؤف رہا۔پھر میں‌نے قدرت کو اطلاع دی کہ میرا نام قرعہ اندازی میں‌نہیں‌نکلا۔
جواب میں‌انھوں‌نے لکھ اکہ نہیں‌نکلا تو کوئی بات نہیں۔ آپ اگلے سال پھر عرضی گزاریں۔ اگلے سال پھر میرا نام نہ نکلا تو پھر دھچکا لگا۔
امید و بیم:
پھر دو مہینے تک ایک جمود سا طاری رہا۔طلب ہچکیاں‌لے لے کر ساکت ہوگئی۔ جب تیسرے سال بھی قرعہ اندازی میں میرا نام نہ نکلا تو میں مایوس ہوگیا۔
حج کے خواب پھر سے شروع ہوگئے۔ اب ان خوابوں‌ میں کوئی خوشخبری نہ ہوتی تھی بلکہ رکاوٹیں‌پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی۔ کبھی راستے میں سانپ آکھڑا ہوتا۔ کبھی راستے کا پل بیٹھ جاتا۔ کبھی کوئی خوفناک مست راستہ روک کے کھڑا ہوجاتا۔
میں‌نے قدرت کو لکھا کہ خوابوں‌سے ظاہر ہے کہ حج کی بات فسق ہوگئی۔ میں مایوس ہوچکا ہوں۔
قدرت نے جواب دیا۔آپ کے مایوس ہوجانےسے کوئی فرق نہیں‌‌پڑتا۔اللہ تعالٰی بندےسے کبھی مایوس نہیں‌ہوتا۔
ان طفل تسلیوں‌سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں‌نے سوچا ہٹاؤ،وہاں‌جاکر کرنا ہی کیا ہے۔
ایک سال اور گزر گیا۔
پھر ایک روز قدرت اللہ کا خط موصول ہوا۔لکھا تھا انشاء اللہ اس سال بیت اللہ میں حاضری دیں‌گے۔آپ تیار رہیں۔درخواست دے دیں۔ اگر قرعہ اندازی میں‌نام نہ نکلا تو بیروت پہنچ جائیں۔میں‌بھی بیروت پہنچ جاؤں گا۔ وہاں‌کوئی نہ کوئی انتظام ہوجائے گا۔ انشاءاللہ ہم منزل مقصودپر پہنچ سکیں‌گے۔
اس خط کی آمد کے بعد میں‌حج کی تیاریوں‌میں‌مصروف ہوگیا۔سب سےپہلے میں نے حج پر سات آٹھ کتابیں‌خریدیں۔اب سب کو باری باری پڑھا۔نقشے حاصل کیے۔جدہ،مکہ معظمہ،مدینہ منورہ،منٰی، مزدلفہ اور عرفات سب مقامات کو پن پوائنٹ کیا۔
حج کے ارکان کی الگ سے فہرست بنائی۔
ممنوعات کو الگ سے قلم بند کیا۔
بھولی ہوئی نماز کو ازسر نو رٹا۔
پھر میں نے حج کے ارکان کو سلسلہ وار لکھا۔ اور آخر میں ‌ان آیات کے معنی یاد کرنے لگا جو سعی کے دوران مختلف مقامات پر پڑھنی تھیں۔
فائنل لسٹ:
انھی دنوں ‌جب میں‌حج کی تیاری کرنے میں شدت سےمصروف تھا۔ قدرت کے ایک جاننے والے بزرگ ایڈوکیٹ صاحب پنڈی تشریف لائے۔
میں‌نے کہا “‌ایڈووکیٹ آپ یہاں کیسے؟“
کہنے لگے“پنڈی ایک کام سے آیا تھا۔سوچا آپ کو اطلاع دیتا جاؤں تاکہ آپ ناحق کی کوفت سے بچ جائیں۔۔
“میں‌ ‌سجھا نہیں۔“
“قدرت اللہ صاحب کا خط موصول ہوا ہے جس میں تحریر تھا کہ وہ اس سال حج پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔“
“جی ہاں“‌میں‌نے جواب دیا“ مجھے علم ہے۔“
“ میں نے انھیں‌مطلع کردیا ہے کہ اس سال آپ حج پر نہیں جارہے۔“
“لیکن وہ تو جارہے ہیں۔“ میں نے ان کی بات کاٹی۔ انھوں نے پروگرام بنا لیا ہے۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ‌ کہ نہیں‌جارہے۔“
“میں‌نے زائرین کی لسٹ دیکھی ہے۔“وہ مسکرا کر بولے۔
“کون سی لسٹ؟“
“زائرین کی لسٹ۔“
“زائرین کی لسٹ؟“ میں نے حیرانی سے پوچھا۔“مگر ابھی تو قرعہ اندازی بھی نہیں‌ہوئی۔“
ایڈووکیٹ نے پراسرار انداز سے میری طرف دیکھ اور پھر مسکرا دیے۔“وہ لسٹ نہیں۔“وہ بولے۔
“تو پھر کون سی لسٹ؟“ میں‌نے پوچھا۔
“جو زائرین اس سال حج پر حاضری دیں‌گے۔“وہ پھر مسکرائے۔“ مدینہ منورہ سے جن کی منظوری مل چکی ہے۔وہ لسٹ۔ اس لسٹ میں‌نہ تو شہاب صاحب کا نام ہے نہ آپ کا۔“
حیرت سے میں‌ہکا بکا ایڈووکیٹ صاحب کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ مسکرائے۔پھر بولے۔“بھائی میں‌نے تو متعدد بار آپ کی فائل دستخط کے لیے پیش کی لیکن ہر بار اسے دستخط کیے بغیر لوٹا دیا گیا۔“
میں‌نے حیرت سے ایڈووکیٹ صاحب کی طرف پھر دیکھا۔
“خیر کوئی نہیں۔“ وہ بولے۔ “دیر آید درست آید۔شہاب صاحب کو ان تفصیلات کا علم ہے وہ جلد ہی آپ کو اطلاع دیں‌گے۔“
ایڈووکیٹ صاحب کی بات سن کرمیں سوچ میں‌پڑگیا۔ انھیں‌بھلا کیسے پتہ چلا کہ امسال کون حج کرے گا۔ اور یہ لسٹ‌کیا چیز ہے۔ کیا حج کرنے والے کی لسٹ قرعہ اندازی سے پہلے ہی تیار ہوجاتی ہے۔ ایڈووکیٹ صاحب کی ساری بات ہی محمل تھی۔
ایڈووکیٹ صاحب ہمیشہ عجیب باتیں‌کیا کرتے تھے۔
ایڈووکیٹ صاحب:
ہم 1961ء میں‌ایڈووکیٹ‌صاحب سے متعارف ہوئے تھے۔ایک روز شہاب کے نام ان کا ایک خط موصول ہوا تھا۔ لکھا تھا،میں‌خوشاب کا ایک ایڈووکیٹ ہوں۔ مجھے کئی ایک ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ آپ ایک اچھے آدمی ہیں۔ اس لیے میرے دل میں‌آپ کے لیے خیر خواہی کا جذبہ بیدا ہوا۔پھر میں ‌نے سنا کہ آپ کے ہاں‌ اولاد نہیں‌ہوتی۔ اس پر مجھے بہت قلق ہوا۔ الل کے فضل و کرم سے میں‌نے کبھی تہجد قضا نہیں کی۔اس سے میں‌نے معمول بنا لیا کہ بلاناغہ تہجد میں اللہ پاک کے حضور التجا کرتا کہ آپ کو بچے سے نوازے۔
اللہ تعالٰٰی نے اپنے فضل و کرم سے میری گزارش کو شرف قبولیت بخشا ہے۔ کل رات مجھے یہ خوش خبری دی گئی ہے کہ آپ کے ہاں‌بچہ تولد ہوگا۔ہونے والا نومولد چند ساعت کے میری گود میں ‌ڈال دیا گیا اور حکم ہوا کہ آپ کو خبر دے دوں‌کہ ایک سال کے بعد آپ کے گھر فرزند ہوگا۔
آپ کو مبارک ہو۔
فرزند کی ولادت پر مجھے مطلع فرمائیں۔
عین ایک سال بعد قدرت کے بھر فرزند ہوا حالانکہ میڈیکل رائے کے مطابق پیدائش کا کوئی امکان نہ تھا۔
بچہ ایک سال کا ہوگیا تو ایک بزرگ صورت آدمی تشریف لائے۔انھوںنے اپنا تعارف کرایا۔ کہنے لگےمیں‌وہی شخص ہوں جس نے دو سال پہلے آپ کو بچے کی ولادت کی خبر دی تھی۔ آپ نے مجھے ولادت کی اطلاع بھی نہ دی۔
اس روز سے ایڈووکیٹ‌صاحب کے شہاب سے مراسم پیدا ہوگئے۔
بہرحال۔وہ تو محض اتفاق تھا کہ بچہ ہوگیا۔اس کا یہ مطلب تو نہیں‌کہ ایڈووکیٹ کی ایسی اوٹ پٹانگ بات کو مان لیا جائے۔
لٰٰہذہ میں‌نے اپنی تیاری جاری رکھی اگرچہ اس میں‌شدت نہ رہی۔پھر دودن بعد قدرت کا خط موصول ہوا لکھا تھا۔ بوجوہ اس سال ہم حج پر نہیں‌جارہے۔
یہ خط میری عقل سلیم کے کفن میں‌آخری میخ‌تھی۔ سمجھ نیں‌نہیں‌آتاتھا کہ یہ کیسی دنیا ہے۔
تم حج پر جاؤ گے۔
تمہاری فائل بنی ہوئی ہے۔
ابھی دستخط نہیں‌ہوئے۔
تمہارا نام فہرست میں‌شامل نہیں اس لیے تم نہیں‌جارہے۔
آخر کیوں‌خوامخواہ مجھے الجھن میں‌ڈال رکھا ہے۔ میں کب چاہتا ہوں کہ حج پر جاؤں۔
‌اس بات پر میں‌کئی ایک دن غصے میں‌بل کھاتا رہا۔
اسی سال کے اختتام پر قدرت اللہ تین سال کا بن باس کاٹ کر وطن واپس آگئے۔
میں‌نے جان بوچھ کر قدرت اللہ سے حج کی بات نہ کی۔ میں‌نہیں چاہتا تھا کہ پھر سے کسی طوطا مینا کی کہانی میں‌الجھ جاؤں۔
ایلس اور ونڈر لینڈ:
ایک دن قدرت اللہ نے مجھے فون کیا، بولے“‌آپ ‌کے پاس کچھ پیسے ہیں؟“
میں‌نے کہا“ہیں۔“
کہنے لگے “ ڈھائی ہزار کے قریب ہونگے؟“
میں‌نے کہا“ ہاں‌ ہیں۔“
“کیا آپ آسانی سے انھیں‌خرچ کرسکتے ہیں؟“
“خرچ کرنے کے لیے ہی تو رکھے ہیں۔“
“میرا مطلب آپ کو دقت تو نہیں‌ہوگی؟“
میں‌ نے کہا“نہیں۔“
بولے “تو آپ ڈھائی ہزار کا چیک سلف کے نام کاٹ کر لے آئیں۔میرے پاس،ساتھ اپنا پاسپورٹ بھی لے آئیں۔“
جب میں‌قدرت اللہ کے پاس پہنچا تو وہ بولے۔
“ہم حج پر جارہے ہیں‌اسی سال انشاءاللہ۔“
میں نے کہا “قرعہ اندازی تو ہوچکی۔ ہم نے تو عرضی نہیں‌گزاری تھی۔“
بولے “تو کوئی بات نہیں۔“
“پھر ہم کیسے جائیں‌گے۔“
“انشاءاللہ۔“
“آپ نے فہرست دیکھ لی ہے کیا؟“
“کون سی فہرست؟“
؟جس فہرست میں پچھلے سال ہمارا نام شامل نہیں تھا۔“
قدرت نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیے۔
“پچھلے سال توآپ کو ایڈووکیٹ صاحب نے اطلاع دی تھی نہ کہ آپ کا نام لسٹ میں‌شامل نہیں۔“میں‌نے کہا۔
“ہاں‌ انھوںنے اطلاع دی تھی۔“
“کیا اب انھوں‌ نے آپ کو اطلاع دی ہے کہ آپ کا نام فہرست میں‌شامل ہے۔“میں‌نے طنزًا کہا۔
“ایڈووکیٹ صاحب تو فوت ہوگئے۔“قدرت اللہ نے کہا“بہت عابد آدمی تھے۔زندگی میں انھوں‌نے کبھی تہجد قضا نہ کی تھی۔“
بات بدلنے میں‌قدرت اللہ کا جواب نہیں۔جب بات ایسے موڑ‌پر آجائے کہ پکڑے جانے کا امکان ہو تو وہ موضوع بدل دیتے ہیں۔ میں‌نے کہا۔“میں‌تو جب مانوں‌گا کہ ہم حج پر جارہے ہیں،جب میں‌وہاں‌پہنچ جاؤں گا۔“
“یہ تو بڑا اچھا ے کہ آپ پہنچ کر مان جائیں‌گے۔کئی لوگ تو پہنچ کر بھی نہیں‌مانتے۔“وہ مسکرائے۔
گزشتہ تین سال سے ایسے واقعات رونما ہورہے تھے کہ میری عقل سلیم ماؤف ہو کر رہ گئی تھی۔میں‌ایک ایسی ایلس بن گیا تھا جو ونڈر لینڈ ‌میں‌کھو گئی ہو۔
تیاری:
حج پر جانے کے سارے انتطامات یوں‌گھر بیٹھے بیٹھے ہوگئے۔ ویزا حاصل کر لیا گیا۔ فارن ایکسچینج مل گیا۔ ٹیکے لگوائے گئے،بکنگ ہوگئی مجھے یقین ہی نہیں‌آتا تھا کہ ہم واقعی جارہے ہیں۔ جب تک دوڑ‌دھوپ نہ ہو،تگ‌ودو نہ ہو،امید و بیم نہ ہو۔ کیسے یقین آئے بھلا۔
ادھر قدرت اللہ تھے وہ یوں‌اطمینان اور سکون سے بیٹھے تھے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔انھیں‌دیکھ کر یوں‌لگتا تھا جیسے وہ تیاری کے عالم میں‌ نہ ہوں بلکہ اس کے برعکس بڑ کے ایک درخت کے نیچے نروان حاصل کیے بیٹھے ہوں۔
کوئی ملنے والا آکر پوچھتا کہ آپ حج پر جارہے ہیں کیا تو وہ کہتے دعا کیجیے۔ اس بات پر مجھے شک پڑنے لگتا کہ شاید ہمارا جانا یقینی نہیں‌ہے۔چونکہ دعا کیجیے تو ان باتوں‌کے متعلق کہا جاتا ہے جو طے شدہ نہ ہوں۔
میں‌حیرت سے قدرت کی طرف دیکھتا۔اس وقت مجھے توقع ہوتی کہ قدرت چپکے سے مجھے آنکھ مار کر یقین دلائیں‌گے کہ ہم جاتو رہے ہیں،یقینی طور پر جارہے ہیںِ ایسی بات کہہ کر میں اسے ٹرخا رہا ہوں۔میری استفسارانہ نگاہ کو دیکھ کر بھی قدرت کے رویے میں‌کوئی تبدیلی نہ آتی۔ نہ وہ آنکھ مارتے نہ اشارہ کرنے اور نہ ہی آنکھ چمکاتے۔
اس وقت میری کیفیت عجیب سی تھی،جی چاہتا تھا کہ خوشی میں‌ناچوں‌کودوں۔جی چاہتا تھا کہ شہر کے ہر مکان کی کنڈی بجاؤں اور جب کوئی باہر آئے تو کہوں،جی آپ کو نہیں‌ پتہ کیا۔ میں‌حج پر جارہا ہوں۔
اس برعکس قدرت کہہ رہے تھے،دعا فرمائیں۔
پروگرام:
قدرت نے روانگی کا پروگرام ایسا بنایا کہ روانگی کا سارا مزہ کرکرہ ہوگیا۔
انھوں‌ نے کہا کہ مجھے لاہور اور کراچی میں ایسے سرکاری کام ہیں جنھیں‌ روانگی سے پہلے سر انجام دینا ضروری ہے۔ لہٰذا ہم راولپنڈی سے روانہ ہوئے تو احباب نے سمجھا کہ دورے پر جارہے ہیں۔
لاہور پہنچ کر قدرت نے سرکاری کام کرنا شروع کردیےاور اپنے اردگرد دفتر لگا لیاجیسے حج پر روانگی ایک جملہ معترضہ ہو۔
قدرت کے اس رویے نے میرے شوق پر گیلا بوریہ ڈال دیا۔
لاہور میں اشفاق اور بانوقدسیہ کا رویہ بھی عجیب سا تھا۔ یا تو اشفاق میں ‌جذبے کی شدت سرے سے ہی مفقود ہے یا اس میں‌شدت احساس پیدا ہوجائے تو اسکے جسمانی اعضاء شل ہوکر رہ جاتے ہیں اور شدت کا اظہار نہیں‌ہوپاتا۔
اشفاق ہم سے ملا تو قدرت سے کہنے لگا“ یار کیا واقعی تو حج پر جارہا ہے۔ صورت شکل سے معلوم تو نہیں‌پڑتا۔“
اشفاق قدرت کا پرانا دوست ہےاور ان معدودے چند لوگوں‌میں‌سے ہے جو بے تکلفی سے بات کرتے ہیں۔
البتہ بانو قدسیہ اور ان کی والدہ بار بار میری طرف حیرت اور اور مسرت سے دیکھتیں‌“اچھا تو کیا واقعی آپ جارہے ہیں۔“
دودن لاہور میں‌قیام کرنےکے بعد ہم کراچی پہنچے۔وہاں‌بھی قدرت اپنے اردگرد دفتر لگا کر بیٹھ گئے اور میں‌قیصر اور ابن انشاء کے پاس چلا آیا۔ابن انشاء اظہار میں‌بچے کے مصداق ہے۔ وہ شدت سے محسوس کرتا ہے۔
ابن انشاء پہلا شخص تھاجس نے مجھے یہ احساس دیا کہ میں‌حج پر جارہا ہوں اورحج پرجانا ایک عظیم واقعہ ہے اور مبارک ہیں‌وہ لوگ جنھیں‌حج پر جانے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
کے اور جے:
کاش میں‌اس روز کچھ دیر کے لیے ابن انشاء کے پاس رکتالیکن قیصے نے مجھے رکنے نہ دیا۔ وہ مجھے یوں‌ملا جیسے میں‌کراچی شاپنگ کی غرض‌سے آیا تھا۔کہنے لگا بھئی کیا پروگرام ہے۔چلو فلاں‌ہوٹل میں‌جاکر چائے پئیں۔فلاں‌مقام پر ٹہلیں۔ ہاں‌یار بڑی عمدہ فلم لگی ہوئی ہے۔سچے معنوں‌میں‌فار ایڈلٹس قسم کی کہتے ہیں، سنسر نے چوتھائی فلم کاٹ دی ہے پھر بھی کچھ مقامات رہ گئے ہیں۔آج رات پکچر رہے گی۔میں‌نے کہا بھئی عقل کی بات کرو ہم یہاں‌سے حج کو جانے کے لیے آئے ہیں۔ قیصر مسکرانے لگا۔ اس کی مسکراہٹ شیطانیت کی جھلک ہوتی ہے۔
قیصر میرا پرانا ساتھی ہے۔وہ ایک سکہ بند دانشور ہے۔ وہ مذہبی روحانی باتوں کو طوطا مینا کہانیوں‌سے زیادہ اہمیت نہیں‌دیا۔ اس سے کوئی روحانی بات کی جائے تو اس کا ردعمل Amused Disbelief کا مظہر ہوتا ہے۔
قیصر کو قدرت سے شدید چڑ ہے۔ وہ قدرت کی قابلیت کو تسلیم کرتا ہے،اس کی دانشوری کو مانتاہے۔اس کے علاوہ کچھ نہیں‌مانتا۔وہ قدرت سے ملنے سے گریز کرتا ہے۔
دو روز قیصر کے ساتھ رہنے کے بعدمیں ‌یہ بات قطعی بھول گیا کہ میں‌حج پر جارہاتھا۔ پھر دفعتًا آخری دن قدرت نے مجھے فون کیا کہ آج شام کو فلاں‌وقت حاجی کیمپ میں ‌پہنچ جائیں ‌تاکہ ہم وہاں‌سے حج سے متعلقہ ضروریات خرید لیں۔
شام کو ہم حاجی کیمپ میں‌پہنچے۔قدرت اور ڈاکٹر عفت میرے منتظر تھے۔ہم نے احرام خریدے۔ جوتے اور حاجی بیگ خریدے۔اس کے باوجود مجھے کوئی احساس نہ ہوا کہ میں ‌حج پر جارہا ہوں۔ایسے لگتا تھا کہ جیسے میرا ذہن سن ہوچکا ہو اور خون رگوں‌میں‌دوڑنے کی بجائے رینگ رہا ہو۔
خرید وفروخت کے بعد قدرت نے کہا“ہم رات کے ایک ڈیڑھ بجے ائرپورٹ پہنچ جائیں‌گے چونکہ ہمارا طیارہ رات کے تین بجے روانہ ہوگااور آپ کا طیارہ صبح ‌پانچ بجے روانہ ہوگا آپ ڈیڑ‌ھ گھنٹہ پہلے پہنچ جائیں تو مناسب ہوگا۔“
اس روز قدرت کی بات سن کر مجھے پہلی مرتبہ علم ہوا کہ ہم الگ الگ طیاروں ‌میں جدہ جارہے ہیں۔اس پر میں‌ حیران تو ہوا لیکن یہ پوچھنے کا موقع نہ تھا کہ ایسا کیوں‌ہے۔
اسی رات قیصر مجھے زبردستی وہ فلم دیکھنے لے گیا جو یقینًا“فارایڈلٹس“ تھی۔ میں‌نے بہت کوشش کی کہ ہم فلم دیکھنے نہ جائیں‌لیکن قیصر کا کہنا تھا کہ فلم دیکھنا ضروری ہے۔چونکہ دوسری صورت میں‌اگر ہمیں‌نیند آگئی اور ہم سوگئے تو ایر پورٹ کیسے پہنچیں‌گے۔
اس فلم کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ اسے دیکھتے ہوئے میں‌قطعًا بھول گیا کہ اسی رات مجھے حج پر روانہ ہونا ہے۔فلم دیکھ کر جب باہر نکلے تو جب ارم اور جے نے مجھے یاد دلایا کہ ابھی مجھے تیاری کرنا ہے تو ایک ساعت کے لیے میں‌حیران رہ گیا۔
نیت قارن:
گھر پہنچ کے میں‌نے زندگی میں‌ پہلی مرتبہ غسل کیا، اس سے پہلے صرف نہایا کرتا تھا۔غسل کے بعد جب میں‌نے احرام پہنا تو قیصر قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔جے نے قیصر کو ڈانٹا لیکن قیصر کب کسی کی ماننے والا تھا۔ اس کے قہقہے کو سن کر میں ‌نے دوڑ کر آئینہ دیکھا۔سچی بات یہ ہے کہ آئینے میں‌اپنے آپ کو دیکھ کی میرا بھی جی چاہا کہ قہقہہ مار کر ہنسوں،میرے روبرو گویا ایک بہروپیہ کھڑا تھا۔ چہرے پر نہ پاکیزگی تھی،نہ خلوص تھا، نہ خوشی تھی۔
حج پر جانے والے احرام پوشوں ‌کو میں‌نے کئی بار دیکھا ہے۔ ان کے چہروں ‌پر عقیدت،اشتیاق،اور مسرت کا نور ہوتا ہے۔انھیں‌دیکھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے۔ حاضری دینے کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔درود شریف کا ورد کرنے کو دل مچل جاتا ہے۔لیکن آئینہ میں‌میرے روبرو جو احرام پوش کھڑا تھااسے دیکھ کر قہقہہ لگانے کو جی چاہتاتھا۔
احرام پہن کر میں‌نے پہلے وہ نماز کی چھوٹی سی کتاب کھولی جو جانے سے کئی دن پہلے پنڈی سے خرید لی تھی۔ نماز کا ازسر نو مطالعہ کیا۔معانی پڑھے اور پھر ڈی ایف پی کے حج سے متعلق چھپے ہوئی کتابچے میں‌سے نیت حج کے متعلق ہدایات ازسر نو پڑھیں پھر شدید کوشش سے احترام اور خلوص طاری کرکے نیت باندھی۔
وی آئی پی لونج:
نماز سے فارغ ہوکر قیصر،اس کی بیگم جے اور اس کی اکلوتی بچی ارم اور میں‌ہم سب ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ارم اس بات پر مصر تھی کہ وہ ہمیں‌وداع کرنے ضرور جائے گی۔ہم میں‌ سے ارم وہ واحد ہستی تھی جو حج کی خوشی سے چھلک رہی تھی اور ہمارے روانگی کے واقعہ کو ایک عظیم واقعہ سمجھ رہی تھی۔
ائیرپورٹ پر قدرت اور ڈاکٹر عفت پہلے ہی موجود تھے۔وہ دونوں‌ یوں‌ بیٹھے تھے جیسے وہ وی آئی پی لونج نہ ہوبلکہ مدینے منورہ کی کوئی مسجد ہو۔ہم اس لونج میں‌چپ چاپ بیٹھے رہے۔ صدیاں‌بیت گئیں۔
تین بجے کے قریب قدرت کا پی اے داخل ہوا۔کہنےلگا آپ کا طیارہ لیٹ‌چلے گا۔میں اطلاع دوں‌گا۔پی اے کے جانے کے بعد پھر سکوت طاری ہوگیا۔پھر صدیاں‌بیٹ گئیں۔فجر کی سفیدی جھلکنے لگی۔
دفعتًا آواز آئی پی آئی اے کا طیارہ روانگی کے لیے تیار ہے۔وہ میرا طیارہ تھا۔میں اٹھ بیٹھا۔ارم خوشی سے چلانے لگی،بابا مبارک ہو۔قدرت اور ڈاکٹر عفت کو وہیں‌چھوڑ کر میں لونج سے باہر نکل گیا۔سامنے میرا طیارہ روانگی کے لیے تیار کھڑا تھا۔‌
 

دوست

محفلین
باب نمبر تین جدہ

جدہ
وہ ایک عام سا چھوٹا طیارہ تھا جیسے درون ملک اڑنے والے طیارے ہوتے ہیں۔ اس طیارے میں دو درجے تھے۔ فسٹ کلاس آگے تھی۔عمومی پیچھے۔درمیان میں‌پی آئی اے کا کیبن تھا۔فسٹ‌کلاس میں‌پاکستان کی ہاکی ٹیم میچ کھیلنے جارہی تھی۔ عمعمی حصے میں صرف زائرین تھے۔ انھوں‌نے احرام پہن رکھے تھے۔ادھر ادھر بوتلوں،تھیلوں‌اور ٹوکریوں‌کے انبار لگے ہوئے تھے۔
زائرین اور طیارہ:
زائرین کے ہاتھوں‌میں‌تسبیحیں‌تھیں جو دانہ دانہ رینگ رہی تھی۔ ہونٹ ہل رہے تھے۔ طیارے کی فضا اداس تھی۔ زائرین جذبے سے بھیگے ہوئے تھے۔ لیکن اس جذبے سے چھینٹے نہیں اڑ رہے تھے۔غالبًا اس لیے کہ جذبہ خالص خوشی کا جذبہ نہ تھا۔ احترام ادب اور تشکر نے خوشی کے پر کاٹ رکھے تھے۔ یاشاید اس لیے کہ خوشی کا والہانہ جذبہ ادب کے منافی سمجھا جاتا ہے۔
طیارے میں‌تقدس بھری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔پتہ نہیں‌تقدس میں اداسی کیوں‌ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اتنی بوجھل کیوں‌ہوتی ہے۔
جوں‌جوں‌طیارہ اڑتا جارہا تھا توں ‌توں ‌تقدس گہرا ہوتا جاتا تھا۔ اداسی دبیز ہوتی جارہی تھی،دل پر بےنام سا بوچھ پڑتا جارہا تھا۔
ایسے لگتا جیسے ہم سرزمین حجاز کو نہیں‌ جارہے تھے بلکہ ہمارا طیارہ ہائی جیک ہوچکا تھا ہائی جیکرز ہمیں‌کسی نامعلوم منزل کی طرف لیے جارہے تھے اور مسافر اللہ کے حضور دعائیں‌کررہے تھے کہ یا اللہ ہمیں‌اس مصیبت سے بچا۔
کبھی کبھار فسٹ کلاس سے قہقہے کی آواز سنائی دیتی ۔ اور اسقدر اجنبی لگتی۔ اس قدر بیگانہ محسوس ہوتی لیکن وہ آواز جلد ہی معدوم ہوجاتی،جیسے پانی کا ایک قطرہ ریت میں‌ گرگیا ہو۔
ہائی جیک:
فسٹ کلاس کے قہقہے کی آواز پر میں‌چونک پڑتا،مجھے یوں‌محسوس ہوتا جیسے وہاں‌ ہائی جیکرز چھپے ہوئے ہوں اور اپنے کارنامے کی کامیابی پر ہنس رہے ہوں۔
دراصل سارا قصور میرے قلب کا ہے۔ میرے قلب میں‌مجذوبیت کا عنصر غالب ہے۔ میں‌ان لوگوں‌میں‌سے ہوں‌جو عالم خوشی میں‌ ناچتے گاتے ہیں،حال کھیلتے ہیں،جن کے اظہار میں‌والہانہ پن ہوتا ہے۔ میرا جی چاہتاتھا کہ زائرین اٹھ کر ناچیں۔ نعرے لگائیں۔
“ لبیک اللہم لبیک“
یااللہ میں‌حاضر ہوں۔یااللہ میں تیرے حضور حاضری دینے کے لیے جا رہا ہوں۔یااللہ میں‌کتنا خوش نصیب ہو،یااللہ تو کتنا رحیم و کریم ہے کہ تو نے مجھے حاضری کی سعادت بخشی۔
میرا جی چاہتا تھا کہ چیخ ‌چیخ‌کر اپنے ہمراہیوں‌کو بتاؤں‌کہ بھائیو ہم ہائی جیک نہیں‌ ہورہے بلکہ اللہ کے حضور حاضری دینے کے لیےجا رہے ہیں۔لیکن میرے حلق میں آوا‌ز نہیں‌تھی۔شاید میں ڈرتا تھا کہ میرا والہانہ پن بے ادبی نہ ہو۔
ہمراہیوں‌سے مایوس ہوکر میں‌نے کھڑکی سے نیچے جھانکنا شروع کردیا۔جب سورج طلوع ہوگیا تو نیچے زمین کالی سی لکیر کی صورت میں‌نظر آنے لگی۔
معًا مجھے حج کی ایک کتاب میں‌سے جس کا میں‌نے مطالعہ کیا تھامتعلقہ حصہ یاد آگیا:
“ اللہ اللہ،یہ وہ ارض مقدس ہے،وہ سرزمین ہےیہاں‌ جو گیا اس کو امان مل گئی۔
یہاں‌کا ذرہ ذرہ نورانی ہے،چپہ چپہ متبرک ہے اور گوشہ گوشہ رحمت سے بھرا ہوا ہے۔“
میں‌نے بار بار شدت سے کوشش کی کہ مجھ میں ‌بھی ایسے تقدیس بھرے جذبات جاگیں‌ بدن میں‌سوئیاں‌ چبھیں،دل میں ‌مدوجزر اٹھیں۔لیکن کچھ بھی نہ ہوا،وہ کالی لکیر کالی لکیر ہی رہی۔
سالک اور مجذوب:
کیوں‌کیوں۔آخر میرے قلب میں‌کیوں‌حرکت پیدا نہیں‌ ہورہی۔میرے دل میں‌تقدیس بھرے جذبات کیوں‌نہیں‌ابھر رہے۔کیا میرا ایمان خام ہے؟کیا میرا قلب مردہ ہے۔ میرے دل میں کئی ایک سال کیوں‌کس لیے کیسے چیونٹوں‌کی طرح‌ رینگنے لگے۔مجھے اپنے آپ پر شکوک پیدا ہونے لگے۔
مجھے علم ہے کہ میرا ایمان خام ہےلیکن میرا جذبہ تو خام نہیں۔میرے جذبے میں‌ جان ہے،شدت ہے،دیوانگی ہے۔مجھ میں‌ جذبے کے سوا اور ہے ہی کیا۔
میں‌نے ایک بار پھر اپنے ہمراہیوں‌کا جائزہ لیا۔وہ سب اللہ کے کلام سے بھیگے ہوئے تھے۔وہ سب سالک تھے۔ صرف میں‌ایک مجذوب تھا اور میرا جذب بھی خام تھا۔ورنہ میں‌اکیلا نعرہ لگا سکتا تھا۔میں‌اس کھڑے پانی میں‌ اللہ اکبرکا کنکر پھینک کر حرکت پیدا کرسکتا تھا۔
لیکن میں‌بھی چپ بیٹھا رہا۔
طیارے پر وہی خاموشی،متفکر،اداس تقدس بھری کیفیت طاری رہی۔ہونٹ ہلتے رہے تسبیحیں‌ رینگتی رہیں۔ دلوں‌ پر بوجھ بڑھتا رہا۔اداسی دبیز تر ہوتی گئی۔طیارہ ہائی جیک ہوتا رہا۔
صدیاں‌ بیت گئیں۔
پھر دفعتًا کپتان کی آواز سن کر سب چونک پڑے۔پٹیاں‌ باندھ لیجئے،سگریٹ‌بجھا دیجئے،تھوڑی دیر میں‌ہم جدہ ایر پورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں۔
جہاز رک گیا------------------
جدہ ایر پورٹ:
ہم سب باری باری طیارے سے باہر نکلے۔سامنے ایک عام سا میدان تھا۔ ویسی ہی زمین جیسی ہمارے ہاں‌ہوتی ہے۔ویسی ہی مٹی۔دور ویسی ہی چھوٹی پہاڑیاں جیسے کہ ایرپورٹوں ‌کے پس منظر میں‌ ہوتی ہیں۔پتہ نہی‌کیوں‌میں‌سمجھتا تھا وہاں‌کی مٹی اور رنگ کی ہوگی۔صدیوں ‌پرانی،کالی کالی،لیکن وہ تو تازہ تھی۔ہوا بھی ویسے ہی چل رہی تھی جیسی ہمارے ایر پورٹ پر چلتی ہے۔کوئی بھی فرق نہ تھا۔اس وقت میری کیفیت بالکل اس ناٹی بوائے کی سی تھی جو اپنے گاؤں‌سے بھاگ کر سکاٹ لینڈ‌ جا پہنچا تھا اور وہاں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ وہاں ‌کی زمین ‌اتنی ہی سخت تھی۔وہاں‌کے بیر ویسے ہی مٹیالے تھے اور وہاں‌ گا گز اتنا ہی لمبا تھا۔
دیر تک میں‌اپنے جوتوں‌میں‌ کھڑا حیرت اور مایوسی سے چاروں‌طرف دیکھتا رہا۔کوئی چیز بھی تو مختلف نہ تھی___ پھر دفعتًا میری نگاہ زائرین پر جاپڑی۔ڈھیلے ڈھالے احرام پہنے۔ٹوکریاں بیگ،کمبل،تھیلے اٹھائے،سر لٹکائے،وہ سب چپ چاپ کھڑے تھے۔دفعتًا مجھے خیال آیا کہ اس منظر میں‌سب سے عجیب و غریب چیز وہ خود ہیں_____زائرین
اس کے باوجود میرا جی چاہتا تھا کہ ہم میں‌سے کوئی اس مقدس سرزمین پر پاؤں‌رکھنے کی خوشی میں‌ دونوں‌بازو اٹھا کر “یا علی“ کا نعرہ لگائے اور پھر وجدان کی کیفیت میں‌چلائے “یا اللہ میں‌حاضر ہو۔“اور پھر حضوری کی خوشی سے بے خود ہوکر دمادم مست قلندر کی دھمال شروع کردے۔لیکن زائرین سر لٹکائے کھڑے رہے۔کھڑ رہے۔حتٰی کہ ایک وسیع و عریض بس آکر ہمارے سامنے رک گئی اور ایک اعلان گونجا خواتین و حضرات بس میں‌تشریف رکھئے۔“
سامان ہی سامان:
بس زائرین کو لے کر ایک بڑے سے شیڈ کے سامنے جارکی۔لدے پھندے مسافر شیڈ کے ایک حصے میں رکھی ہوئی بنچوں‌پر بیٹھ گئے اور اپنے اپنے سامان کا انتطار کرنے لگے۔سامان آیا تو ایک افراتفری مچ گئی۔سب نے شیڈ‌کے اس حصے پر دھاوا بول دیا،جہاں‌سامان اتارا جارہا تھا۔ہاتھوں‌میں‌ٹوکریاں،بیگ تھیلے،بوتلیں کندھوں‌پر لٹکتے ہوئے کمبل،لویاں،سنبھالتے ہوئے وہ سب سوٹ کیسوں‌ٹرنکوں،اور بیگوں‌اور بستوں‌کی طرف بڑھے۔
پھر ایک شور اٹھا۔“یہ سوٹ کیس میرا ہے۔“ میرا بیگ کہاں‌ہے؟“۔ میری ٹوکری یہاں‌ پڑی تھی۔“ “ میرا سامان نہیں‌آیا۔““ میرا سامان۔“دوگھنٹے متواتر شیڈ میں‌نفسا نفسی کا عالم رہا۔ دوگھنٹے مسلسل سامان،سامان،سامان کی آوازیں گونجتی رہیں۔“سامان کدھر گیا؟“ “سامان سنبھالو۔“ “سامان چیک کرلو۔“ “سامان پکڑو۔“ “سامان تو دے دو۔“ ‘میرا سامان؟“
“ہائے میرا سامان۔“
وہ ہونٹ جو طیارے میں‌ہل رہے تھے،شیڈ میں‌ساکت ہوگئے۔تسبیحیں جو سفر کے دوران انگلیوں‌میں‌رینگتی رہی تھیں۔ رک کر کلائیوں‌ پر چڑھ گئیں۔چہرے جو تقدس بھری امیدوں‌سے منور تھے،سامان کی لگن سے متفکر ہوکر بجھ گئے۔
اس وقت ایسے لگتا تھا،جیسے ہم سب نے اتنا لمبا سفر صرف اس لیے اختیار کیا تھا کہ جدہ ایر پورٹ کے اس شیڈ سے اپنا سامان حاصل کرسکیں،اس وقت سامان کے سوا کائنات میں‌کچھ بھی نہ تھا۔سامان ہماری منزل تھا۔ سامان ہمارا مقصود تھا۔سامان ہمارا مطمع نظر تھا۔کسی کو یاد نہ رہا تھا کہ ہم زائرین ہیں کہ ہم وہاں‌ حج کرنے کی غرض‌سے آئے ہیں۔کسی کو شعور نہ تھا کہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں‌بے سروسامانی سامان بن جاتی ہے۔وہ سب چلا رہے تھے۔“اے سامان میں‌حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں،اے سامان! میں‌حاضر ہوں۔“
آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹنے لگی۔باری باری سب اپنا اپنا سامان سینے سے لگائے باہر نکل گئے۔جب میں‌باہر نکلنے لگا تو دروازے پر کھڑے افسر نے میرا پاسپورٹ دیکھ کر کہا۔
“آپ باہر نہیں‌ جاسکتے۔“
“کیوں؟“میں‌ نے حیرانی سے پوچھا۔
“کیوں‌کہ آپ نے ابھی تک معلم نامزد نہیں‌کیا اور واجبات ادا نہیں‌کیے۔“
“معلم کہاں‌ ملیں‌گے؟“ میں‌نے پوچھا۔
“ادھر حاجی کیمپ میں۔“
جدہ حاجی کیمپ:
حاجی کیمپ ایک وسیع و عریض سہ منزلہ عمارت تھی۔صحن کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جگہ جگہ سامان کے انبار لگے ہوئے تھے۔سوٹ کیس،ٹرنک،بستر،ٹوکریاں،بیگ،تھیلے۔سامان کے ارد گدر اور اوپر ملک ملک کے زائرین بیٹھے تھے۔ کھوئے ہوئے،متفکر،پریشان حال۔ان کے اردگرد برآمدوں‌میں‌بنے ہوئے سٹالوں میں‌سعودی حکومت کے مختلف محکموں‌کے کارندے مصروف کار تھے۔سٹالوں ‌پر بورڈ آویزاں تھے۔“وزارت حج“۔“وزارت صحت۔“ “شعبہ انتطامیہ۔“
“معلم! معلم!“ میں‌نے چلا چلا کر چار ایک راہ گیروں‌سے پوچھا۔کسی نے میری طرف توجہ نہ تھی۔ہر کوئی شدت سے مصروف تھا،اپنے آپ میں‌ گم تھا۔“معلم!“ اطلاعات کے کاؤنٹر پر کھڑے ہوکر میں‌چلایا۔کاؤنٹر پر کھڑے کارکن نے جواب میں‌ قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ دی اور پھر اپنے کام میں‌ لگ گیا۔
پہلی بار میں‌نے محسوس کیا میں‌اکیلا ہوں،اتنی بھیڑ‌ میں ‌اکیلا ہوں۔اس سرزمین پر اکیلا ہوں،اجنبی ہوں،جس کا نام لیتے وقت میں‌گزشتہ پچاس برس اپنی انگلیاں‌چوم کر آنکھوں پر لگاتا رہا ہوں،اس گھر کی دہلیز پر اکیلا ہوں،جس کے نام سے زندگی بھر میرے رونگٹے کھڑے ہوتے رہے ہیں۔
دیر تک میں‌حاجی کیمپ کے وسیع و عریض صحن میں تن تنہا آوارہ پھرتا رہا۔پھر دو عرب جھگڑتے ہوئے میرے پاس سے گزرے،وہ بار بار معلم معلم کی تکرار کر رہے تھے۔میں‌ ان کے پیچھے چل پڑا،اس امید پر کہ شاید کسی معلم تک پہنچ جاؤں۔حاجی کیمپ کے ایک کونے میں‌ وہ دونوں زینہ چڑھنے لگے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے لگارہا،اوپر برآمدے میں ‌پہنچا تو ایسا ریلا آیا کہ وہ دونوں‌نہ جانے کہاں‌ غائب ہوگئے۔ان کے جانے کے بعد میں پھر اکیلا رہ گیا،دیرتک بھیڑ میں‌اپنے کندھے چھیلتا رہا۔
ناگاہ میری نظر کمروں‌کے دروازوں پر جا پڑی۔دروازوں پر جگہ جگہ معلموں‌کے بورڈ لگے ہوئے تھے۔معلم ہی معلم،اب سوال یہ تھا کہ کون سے معلم کے پاس جاؤں،کوئی ایسا معلم جو پاکستانی زائرین سے متعلق ہو۔
معلم:
حج کیمپ کے اس برآمدے میں‌گھومتے پھرتے میں‌ نے محسوس کیا جیسے میں‌کسی پاکستانی کچہری کی اس جانب آ پہنچا ہوں جہاں وکیلوں‌کے منشی بڑے بڑے تختوں‌ پر ڈسک رکھے ہوئے بیٹھے ہیں۔
برآمدے میں لوگوں‌کا تانتا لگا ہوا تھا۔ ان میں‌ زائرین بھی تھے اوردوسرے بھی،سبھی اپنے اپنے کام میں‌کھوئے ہوہے تھے۔ بحث مباحثے میں مصروف تھے جیسے کچہریوں‌‌ میں‌موکل اپنے اپنے مقدمے کی تفصیلات پر تبصرے کرتے ہوئے ادھر اُدھر گھومتے پھرتے ہیں۔
کمروں‌کے اندر موکلوں‌کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔وکیل اور معلم اپنے اپنے ڈسک پر بیٹھے کاغذات کی پڑتال کررہے تھے۔لوگوں کو سمجھ بجھا رہے تھے۔ رقمیں‌ وصول کررہے تھے،کاغذات پر مہریں‌ثبت کر رہے تھے۔آدھ گھنٹہ گھونے پھرنے کے بعد میں‌محسوس کرنے لگا جیسے مجھ کسی نے مقدمہ کر رکھا ہو،اور میں‌اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لیے لاہور کی کسی چھوٹی کچہری میں‌ وکیل کی تلاش میں‌سرگرداں تھا حج کا خیال تو ذہن سے بالکل نکل چکا تھا۔
“السلام علیکم۔“ ایک پاکستانی صاحب میرے پاس آکھڑے ہوئے۔“آپ کا نام ممتاز مفتی ہےکیا؟“ میں نے حیرت سےان کی طرف دیکھا۔“جی ہاں۔“ میں‌نے جواب دیا۔“ہاں‌میں‌ممتاز مفتی ہوں۔“
میںنے اپنی یادداشت کو للکارا۔لیکن لاحاصل،وہ میرے لیے اجنبی تھے۔کہنے لگے“آپ کو معلم نامزدکرنا ہے نا؟“
“جی“ میں‌نے کہا۔
“تو آئیے۔“وہ بولے “میں‌ضروری کاروائی کرادوں۔“
وہ صاحب مجھے ایک کمرے میں‌لے گئے۔ دیر تک وہ معلم سے عربی میں‌باتیں‌ کرتے رہے۔پھر مجھ سے رقم لے کر ادائیگی کی۔ کاغذات پر مہریں‌لگوائیں اور آخر میں‌ اطمینان کا سان لے کر کہنے لگے: لیجئے صاحب یہ کام تو طے ہوگیا۔“انہوں نے کاغذات میرے ہاتھ میں‌تھما دیے۔“لیکن آپ ہیں ‌کون؟“ میں‌ نے ان سے پوچھا “معاف کیجیے میں‌نے آپ کو پہچانا نہیں۔“وہ مسکرا دیے“ آپ نے مجھے اس لیے نہیں‌ پہچانا کہ ہم پہلے کبھی نہیں‌ ملے،دراصل مجھے ایر پورٹ پر جلد پہنچ جانا چاہیے تھا۔ میں‌شہاب صاحب کو ریسیو کرنے آیا ہوں۔مجھے پہلے ہی سے علم تھا کہ آپ شہاب صاحب کے ساتھ آرہے ہیں۔ یہ سب“فارمیلیٹیز“ سر انجام دینا میں‌ نے اپنے ذمے لیا تھا۔“
“لیکن قدرت اللہ شہاب کہاں‌ہیں۔“میں‌نے ان سے پوچھا۔
“در اصل ان کو آپ سے پہلے پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن ان کا جہاز لیٹ ہوگیاہے ۔ وہ بعد از دوپہر یہا‌ں پہنچیں‌ گے۔آئیے اب میں‌آپ کو وہاں‌پہنچا دوں‌جہاں‌آپ کو ان کا انتظار کرنا ہے۔“
ہنی مون کمرا:
سفارت کا وہ کارکن مجھے ایک کوٹھی میں‌لے گیا جس کا وسیع و عریض بیرونی صحن خوبصورت ٹائلوں‌سے بنا ہوا تھا۔ کوٹھی سے باہر صحن کے ایک جانب ایک چھوٹا سا کمرا تھا،ان صاحب نے اس ملحقہ کمرے میں‌میرا سامان رکھوا دیا پھر کہنے لگے: “آپ یہاں‌آرام کیجیے، میں اب ائیر پورٹ پر جاتا ہوں تاکہ شہاب صاحب کو ریسیو کرلوں۔کسی چیز کو ضرورت ہو تو یہ بٹن دبادیجیے۔ملازم حاضر ہوجائے گا۔خدا حافظ۔“
میں‌نے کمرے کا جائزہ لیا ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ “ہنی مون“کمرا ہو۔فوم ڈبل بیڈ،قد آدم آئینے،غالیچے،فوم صوفہ سیٹ اور ایک اکساتی ہوئی ائیر کنڈیشن مشین۔کمرا تمام ساز وسامان سے لیس تھا،صرف ایک کسر باقی تھی۔ میں محسوس کرنے لگا کہ ابھی ایک لمبے کھلے بالوں‌والی لڑکی اندر داخل ہوکر کہے گی ہائی اور پھر فوم بیڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوف سے میرا گلا خشک ہوگیا۔میرے لیے کمرے میں‌بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ ایسے محسوس ہونے لگا جیسے منزل میری نگاہ سے اوجھل ہوچکی ہو۔ جیسے میری آمد کا مقصد فوت ہوچکا ہو۔دل میں‌کئی ایک سوالات ابھرے۔ آخر می‌یہاں ‌کیوں‌آیا ہوں۔ کیوں۔ کیا اس لیے کہ اس ہنی مون کمرے میں‌کوئی آ کر مجھے کہے“ہائی“ میں‌نے ایک جست بھری اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
خالی صحن:
برآمدے کے فرش پر بیٹھ کر میں‌نے دیوار سے ٹیک لگالی۔سامنے ٹائلوں‌سے بنا ہوا وسیع صحن تھا،دیر تک میں‌اس صحن کو دیکھتا رہا۔ ظاہر تھا کہ وہ کوٹھی سفارت پاکستان سے متعلق تھی۔دفتر یا شاید گھر،یا مہمان خانہ پتہ نہیں کیا۔‌ لیکن وہ صحن خالی کیوں‌ تھا۔حج کے دنوں‌میں‌ پاکستانی سفارت کا اتنا وسیع و عریض ‌ٹائلوں‌سے بنا ہوا صحن خالی کیوں‌ ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے اس صحن کی ایک ایک ٹائل پاکستانی زائرین کے لیے رورہی ہو،چلا رہ ہو،بین کر رہی ہو۔
پھر آہستہ آہستہ وہ بین سسکیوں‌میں‌ بدل گئے جیسے کوئی سسکیاں‌ لے کر آہ و زاری کررہا ہو۔“اے اللہ کیا میرا وجود اتنا ہی بے مصرف ہے کہ ان متبرک دنوں‌میں‌ بھی مجھ سے کوئی کام نہیں‌ لیا جاسکتا؟“
دفعتًا ایک دھماکے سے صدر دروازہ کھل گیا۔ زائرین کا ایک ریلا اندر گھس آیا،پھر ان کا تانتا بند گیا۔ اپنا سامان اٹھائے وہ صحن میں‌گھستے چلے آئے۔حتی کہ وہاں‌تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔
گروہوں‌کی صورت میں ‌وہ سارے صحن پر پھیل گئے۔کچھ لوگ بستر کھولنے میں‌ مصروف ہوگئے کچھ چائے بنانے کےلیے چولہے جلانے لگے۔کئی ایک نے مصلے بچھا کر نماز پڑھنا شروع کردیا۔صحن میں‌عجیب سی گہما گہمی پیدا ہو گئی۔ اس گہما گہمی کو دیکھ کر پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ میں‌حج کرنے کے لیے آیا ہوں۔ پہلی مرتبہ میرے دل کی گہرائیوں سے آواز اٹھی۔“اے اللہ میں حاضر ہو،تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں اے اللہ۔“
پھر ایک خوفناک کتا کوٹھی سے نکلا اور بھونکتا ہوا زائرین کی طرف لپکا۔اس خوفناک کتے کو دیکھ کر زائرین خوف سے اٹھ کر صدر دوازے کی طرف بھاگے۔دیکھتے ہی دیکھتے صحن زائرین سے خالی ہوگیا۔دیر تک کتا صدر دروازے میں‌کھڑا ہوکر بھاگتے ہوئے زائرین پر بھونکتا رہا۔پھر وہ مڑا۔میری طرف دیکھا۔ رک گیا۔پھر مجھ پر بھونکنے لگا لیکن یہ بھونک اور رنگ کی تھی اس میں‌دھمکی نہ تھی،تمسخر تھا جیسے طعنے دے رہا ہو۔“ تو یہاں‌کیا کررہا ہے،تیرا یہاں‌کیا کام جا چلا جا۔“ میں‌ نے لپک کر تھیلا اٹھایا اور بھاگ کر صدر دروازے سے باہر نکل گیا۔ گلی میں کچھ دور تک میں‌بھاگتا رہا پھر چلنے لگا ۔کتے کے بھونکنے کی آواز دور تک سنائی دیتی رہی حتی کہ موڑ مڑ کر میں‌بازار میں‌ داخل ہوگیا۔
بازار:
بازار میں‌ لوگ اپنے اپنے کاموں‌ میں‌ مصروف تھے۔راہ گیر اپنی اپنی دھن میں چلے جارہے تھے ان کے چہروں‌ پر مصروفیت کی مکھیاں‌ بھنبھنا رہی تھیں،انداز میں‌خشک کاروباری چستی تھی۔ان کی آنکھوں‌ میں‌ خوابوں‌کے دیے روشن نہ تھےبلکہ ان پر حقائق پسندی کے پردے پڑے ہوئے تھے۔انداز سے ایسا محسوس ہوتا تھا،جیسے انھیں ‌خبر ہی نہ ہوکہ ان کی سرزمین پر ایک عظیم واقعہ ہونے والا ہے۔ایسا عظیم واقعہ جس کے لیے دنیا کےگوشے گوشے سے لوگ وہاں‌ اکٹھے ہورہے ہیں۔
جدے کے بازاروں‌ میں زائرین احرام باندھے ہوئے گھوم پھررہے تھے لیکن دوکانداروں‌کے سوا کسی کو ان کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔وہاں‌ کوئی زائر نہیں تھا،صرف خریدار۔گاہک۔ یہ میں‌کہاں‌آگیا ہوں۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں‌ شاید غلطی سے کسی اور جگہ آگیا ہوں۔نہیں‌ نہیں‌یہ وہ سرزمین نہیں۔پی آئی اے والے غلطی سے مجھے یہاں‌لے آئے ہیں۔یہ مکہ شریف کی دہلیز نہیں‌بلکہ کوئی اور شہر ہےورنہ انھیں‌خبر ہوتی،احساس ہوتا۔
لوگوں‌سے مایوس ہوکر میری نظر سڑک کے دوروہی کھڑی عمارتوں‌کی طرف مبذول ہوگئی۔ کتنی عالی شان عمارتیں ‌ہیں۔جب میں ان کی خوبصورت عالی شان عمارتوں‌کو دیکھ رہا تھا تو مجھے کسی نے کہنی ماری اور زیر لب کہا اونہوں‌ یہ وہ جگہ نہیں۔
پھر مجھے راولپنڈی کے کوئلہ سنٹر والے بابا کا کمرہ یاد آگیا۔
کوئلہ سنٹر والے بابا:
1952 کی ایک شام کو راولپنڈی صدر میں‌گھومتے ہوئے میرا ایک بہت پرانا دوست مل گیا۔ دیر تک ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے بازار میں‌کھڑے باتیں‌ کرتے رہے، پھر میں‌نے اس سے کہا“ چلو کہیں‌ بیٹھ کر باتیں‌ کریں۔ہوٹل میں‌ چلتے ہیں۔“
“ہوٹل کیوں؟“وہ بولا“بابا کی کوٹھڑی جو ہے۔وہاں ‌چائے بھی ملے گی۔ عمدہ چائے اور پھر مفت۔ تم کوئلہ سنٹر والے بابا کو نہیں ‌جانتے کیا؟ حیرت ہے۔“
چند ایک قدم چلنے کے بعد ہم بابا کی کوٹھڑی میں جا داخل ہوئے۔
وہ ایک اندھیری کوٹھڑی تھی۔ چند ساعت کے لیے تو نگاہ دھنلائی رہی۔ پھر شکلیں‌ ابھریں۔سامنے کھدر کا جبہ پہنے بابا براجمان تھے۔ان کے ربرو پتھر کے طباخ‌میں‌مٹی کا دیا جل رہا تھا۔دئیے کی دھنلی روشنی میں‌ دیواروں‌ کے ساتھ ساتھ دو رویہ بیٹھے ہوئے لوگ نیم دروں،نیم بروں۔یوں‌دکھائی دے رہے تھے جیسے ہستی اور نیستی کے درمیان جھول رہے ہوں۔
ہم دونوں‌ایک طرف بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد اس دھندلی روشنی نے منظر کو ایک بے نام تاثر سے بھگو دیا۔ہم پر ایک عجب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ مجھے یوں‌محسوس ہوا کہ وہ کچی دیواریں‌ کھدر میں‌ ملبوس بابا،چٹائیوں‌ پر بیٹھے ہوئے سب لوگ عجز کی اس بے نام کیفیت سے سرشار تھے جو طاری ہوجائے تو ساری کائنات سربسجود ہوجاتی ہے۔
کئی ایک مہینوں‌کے بعد ہم پھر اسی بازار سے گزرے۔میں نے اپنے دوست سے کہا:“چلو یار کچھ دیر کے لیے بابا کی کوٹھڑی میں جاکر بیٹھیں۔“
بابا کے کمرے میں‌ داخل ہوکر میں‌ بھونچکا رہ گیا۔ “نہیں‌ نہیں‌یہ وہ کمرا نہیں‌ہم غلطی سے کسی اور جگہ آ گئے ہیں۔ وہاں‌تو سماں ‌ہی اور تھا۔کچی کوٹھڑی کی جگہ چمکتی ہوئی ٹائلوں‌کا بنا ہوا کمرہ جو دودھیا ٹیوبوں‌کی روشنی میں‌ جگمگا رہا تھا۔سامنے تخت پر بابا سبر چغہ پہنے یوں‌ لگ رہا تھا جیسے کوئی مغلیہ شہنشاہ اپنے نورتنوں‌ کے ساتھ محفل سجائے بیٹھا ہو۔میرے دوست نے مجھے کہنی ماری۔زیر لب کہا:“ چلو چلیں اب یہاں‌ وہ بات نہی‌رہی۔“
جدہ کی عالی شان عمارتوں،کارپٹ سڑکوں اور کاروباری بے اعتنائی کو دیکھ کر میں‌نے محسوس کیا جیسے میں بابا کے منور کمرے میں‌آگیا ہوں۔پھر مجھے کسی نے کہنی ماری،زیر لب آواز آئی۔چلو یار چلیں یہاں‌وہ بات نہیں۔
سچ جاننے میں‌ ایک خاصا لکھا پڑھا فرد ہوں‌اور آج کی دنیا کے کے متعلق خاصی بنیادی معلومات رکھتا ہوں۔مجھے علم ہے جب سے سرزمین حجاز پر تیل نے دھاوا بولا ہے تاریخ‌ کےسوا وہاں‌سب کچھ بدل گیا ہے۔ اس کے باوجود پتہ نہیں‌کس اصول کے تحت میں‌سمجھتا تھا کہ جب میں سرزمین جدہ پر قدم رکھو‌ں‌ گا تو ٹائم مشین پیچھے گھوم جائے گی۔ جدہ وہی پرانا جدہ ہوگا جس کا نقشہ برٹن صاحب اور کین صاحب نے کھینچا ہے۔عرب وہی عرب۔شہر وہی شہر ہونگے۔سڑکوں‌پر اونٹوں ‌کے قافلے چل رہے ہونگے اور شہر سے باہر چاروں‌طرف تاحد نظر ریت ہی ریت،ریت ہی ریت۔
 

دوست

محفلین
باب نمبر چار مکہ روڈ

******مکہ روڈ******​
ڈبے ہی ڈبے:
جدہ کے بازار میں چلتے چلتے مجھے ٹھوکر لگی ۔رک گیا۔ سامنے فٹ پاتھ پر ایک بہت بڑی پیٹی رکھی ہوئی تھی۔ایسا صندوق جس میں ہم گھر میں ‌رضائیاں اور لحاف رکھتے ہیں۔ پیٹی پر ڈھکنا نہیں تھا۔میں نے پیٹی کے اندر جھانکا۔ ڈبے ہی ڈبے،ڈبے ہی ڈبے۔ ساری پیٹی رنگا رنگ کے ڈبوں سے بھری ہوئی تھی۔ گلاسوں جتنے بڑے ٹین کے ڈبے ،جن پر خوبصورت رنگوں میں‌لیبل چھپے ہوئے تھے اور ان ڈبوں کے اردگرد برف کے ٹکڑے پڑے تھے۔
ایک راہ گیر رک گیا،اس نے پیٹی میں‌ ہاتھ ڈالا ایک ڈبہ نکالا۔ اٹلی کا بنا ہوا جوس ۔دوسرا نکالا،میڈن پیرس ، ہالینڈ، سپین۔ اس نے ایک ڈبے میں چھید کیا۔ غٹاغٹ جوس پیا، پیسے صندوق پر رکھے اور چل پڑا۔
ارے یہاں تو بانی کی بالٹی دو روپے میں‌ملا کرتی تھی لیکن یہ ملک ملک کے بنے ہوئے جوس کے اتنے سارے ڈبے۔میں نے حیرت سے ایک بار پھر ڈبوں کی طرف دیکھا۔ ڈبوں میں حرکت ہوئی پھر باری باری سارے ڈبے پیٹی سے باہر نکل آئے اور فٹ پاتھ پر دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔
آخری دن:
“دیکھا اسے کہتے ہیں‌افراط۔“اوپر کے ڈبے پر چھپی ہوئی شکل چلائی۔
پھر لیبلوں کی تمام اشکال قہقہے مار کر ہنسیں “افراط، افراط،“
دفعتًا میرے ذہن کی گراری نے بیک فلیش ماری۔فلیش بیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روز قدرت اور میں باتیں کر رہے تھے۔پتہ نہیں‌کیسے افراط کا ذکر چھڑ گیا تھا۔
“افراط باعث ‌برکت نہیں ہوتی۔“وہ بولے۔
“افراط تو خود برکت کا دوسرا نام ہے۔“ میں نے جواب دیا۔
“نہیں“ وہ مسکرائے “پہلے میرا بھی یہی خیال تھا۔پھر بدل گیا۔“
“کب بدلا؟“ میں نے پوچھا۔
“جب میں پہلی مرتبہ حج پر گیا تھا“
“جہاں نالے کے کنارے نالے کا کنارہ تھا،جہاں آپ نے دری بچھا کر قیام کیا تھا۔“
“ہاں“ وہ بولے وہاں ‌میں‌ نے پہلی بار کنجڑے کی دوکان پر افراط کا عالم دیکھا۔ ایک چھابے میں آلو پڑے تھے،دوسرے میں‌پیاز،تیسرے میں سوئزر لینڈ کی بنی ہوئی رسٹ‌واچز تھیں۔“
“رسٹ واچز کنجڑے کی دوکان پر۔“
“ہاں ہاں‘ وہ بولے“ ایک چھابہ رسٹ واچز سے بھرا ہوا تھا۔ایک جدید ترین کل دار کھلونوں سے۔ایک طرف ریڈیو سیٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا پیچھے چار فرج کھڑے تھے۔“
“کنجڑے کی دوکان پر فرج؟“
“ہاں ہاں فرج۔“ وہ بولے۔
“اور وہ بکاؤ ‌تھے؟“
“ہاں بکاؤ تھے۔ اس وقت میں اس افراط کو دیکھ کر حیران بھی ہوا تھا اور خوش بھی۔
عین اس وقت پیچھے سے آواز آئی۔“اس افراط کے متعلق حضور ص نے خود نشاندہی فرمائی تھی۔“ میں‌ نے مڑ‌کر دیکھا۔نورانی شکل و صورت والے ایک بزرگ کھڑے تھے۔“کیا نشاندہی کی تھی حضور ص نے؟“ میں‌ نے پوچھا۔بزرگ نے جواب دیا کہ حضور ص نے فرمایا تھا۔ ایک ایسا دن بھی آئے گا جب زمیں پر اشیاء اور زر کی افراط ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آخری دن ہونگے۔۔
“آخری دن۔“ آخری دن۔جوس کے ڈبوں ‌پر چھپی ہوئی شکلیں قہقہے مارنے لگیں۔
اس بازار میں کیا رکھا ہے۔صرف آخری دن میں واپس جانے کے لیے مڑا۔
کتا کوٹھی سے نکل کر میری طرف لپکا۔اس کی بھونک میں دھمکی کا عنصر واضح تھا۔
ڈر کر میں فٹ ‌پاتھ سے نیچے اتر گیا۔ بھوں بھوں کرتی ہوئی ایک کالی موٹر میری طرف لپکی۔بریک نے چیخ‌ ماری۔موٹر رک گئی۔موٹر میں ‌قدرت اللہ اور ان کی بیگم ڈاکٹر عفت بیٹھے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
“آئیے آجائیے۔“ قدرت نے مجھے اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔“بیٹھ جائیے۔“
“آپ یہاں؟ “ میں نے سیٹ پر بیٹھے ہوئے پوچھا۔
“ہاں ہم ائیر پورٹ سے آرہے ہیں۔ہماری فلائٹ لیٹ ہوگئی تھی۔آپ تو ٹھیک ہیں نا؟“
“ٹھیک؟“ میں چلایا “ ‌یہ مجھے آپ کہاں لے آئے ہیں،یہ تو وہ جگہ نہیں۔ یہ تو منزل نیہں،نہیں‌ یہ تو منزل نہیں۔“
قدرت مسکرائے۔
“یہ اونچی اونچی عمارتیں، یہ ساز و سامان، یہ کاروباری لوگ،افراط سے لدی ہوئی دوکانیں یہ سب کیا ہے؟“
“یہ سب کچھ بھی نہیں۔“ وہ بولے
“یہ سب کچھ۔کچھ بھی نہیں،یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“
“اگر دیکھو تو یہ سب کچھ دکھتا ہے۔“قدرت نے کہا “نہ دیکھو تو یہ “سب کچھ“ کچھ بھی نہیں۔“
“کیسے نہ دیکھیں؟“
لُک اور سی:
“سی بٹ ‌ڈونٹ لُک۔“ قدرت نے انگریزی کا سہارا لیا۔
“کیا مطلب؟“
“نظر آتا ہے تو پڑا آئے۔پر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔“
“پر دکھتا جو ہے۔“‌میں نے کہا
“دکھتا ہے تو پڑا دکھے۔“ وہ بولے۔“ اسے اہمیت کیوں دیتے ہیں آپ؟“
“میرے اہمیت دینے یا نہ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟“ میں نے جواب دیا۔
“اہمیت دینے سے ہی تو فرق پڑتا ہے۔“ قدرت اللہ نے کہا۔“ بہت فرق پڑتا ہے۔ مولانا ارشد علی تھانوی روز ریل میں اپنے گاؤں سے شہر جایا کرتے تھے۔ ڈبے میں‌بیٹھ کر وہ کھڑکیوں‌ پر لکڑی کے تختے چڑھا دیا کرتے۔ ایک روز ایک معتقد نے پوچھا۔“حضرت آپ اتنے اہتمام سے کھڑکیوں پر تختے کیوں چڑھا دیتے ہیں؟“ فرمایا“ تاکہ توجہ منزل پر مرکوز رہے۔ راستے کے مناظر میں نہ بھٹکتی پھرے۔راستے کے مناظر میں نہ الجھو تو منزل پر پہنچنے پر آنکھیں تھکی ہوئی نہیں بلکہ تازہ دم ہوں گی۔“
میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ حتی الوسع قدرت اللہ جیسوں کی باتوں‌میں نہ آنا اور سکھی رہنا چاہتے ہو تو مولانا ارشد علی تھانوی جیسے بزرگوں کے ارشادات کو پلے نہ باندھنا۔
قدرت اللہ کی باتیں ایک وقت مجھے ایسی لگتیں ہیں جیسے منہ زبانی ہوں۔ خالی باتیں کتابوں سے چنے ہوئے چمکدار جملے۔ دوسرے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے ایک جملے میں ایک دنیا آباد ہو۔جیسے ہر جملہ حرف آخر ہو،پھر میرے دل پر ایک آرا چلتا ہے۔حرف آخر،بے معنی حرف آخر،حرف آخر،حرف بے معنی۔
شخصیت کے تحفظ کے بارے میں زر تشت کہتا ہے“‌دیکھ اپنی مَیں میں آرا نہ چلنے دیجو ورنہ نہ میں رہے گی اور نہ تو تک پہنچ پائے گا۔“
جدہ پیلس پر موٹر رک گئی۔جدہ پہلس جدے کا سب سے بڑا ہوٹل ہے جہاں قدرت اور ان کی بیگم کے لیے کمرا پہلے سے ریزرو تھا۔وہ کمرا نیچی چھت کا بنا سجا کبوتر خانہ تھا۔ سارا جدہ پیلس،کمرے ،برآمدے،باتھ تیر اور شدید ائیر کنڈیشن میں ٹھٹھر رہے تھے۔
پتہ نہیں‌کیوں ائیر کنڈیشن موسم کا رد عمل نہیں کرتا۔ بلکہ برفانی کیفیت پیدا کرتا ہے۔گرمیوں میں اس کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ مکینوں کے دانت بجیں۔ دانوں کے علاوہ میرا گلا بھی بجنے لگتا ہے،دم گھٹتا ہے نجانے کیوں؟
کتے اور قافلے:
میں‌نے قدرت سے کہا “ میں اب چلتا ہوں۔“
“اچھا“ وہ بولے۔“ کل صبح تیار رہیے ہم سویرے ہی مکہ شریف کو روانہ ہوجائیں گے ۔ انشاء اللہ۔“
“ابھی کیوں‌ نہ روانہ ہوجائیں؟“ میں نے کہا
“کیوں؟“
“میرے لیے یہا‌ں رات بسر کرنا بہت مشکل ہے۔“
“کیوں۔ کیا جگہ تکلیف دہ ہے؟“
“ہاں“ میں نے کہا۔“بہت تکلیف دہ ۔“
“کیا تکلیف ہے؟“
“میرے کمرے کے سامنے ٹائلوں کا بنا ہوا وسیع و عریض صحن ہے۔“میں‌ نے جواب دیا۔
“اس میں‌کیا تکلیف کی بات ہے۔“
“وہ وسیع و عریض‌صحن خالی پڑا ہے۔ حج کے دنوں‌میں‌ خالی پڑا ہے۔“
وہ مسکرائے۔“تو اسے زائرین سے آباد کر لیجئے۔“
“لیکن کوٹھی کا خوفناک کتا وہ بھونک کر زائرین کو بھگا دیتا ہے۔“
“کتے کی آواز نہ سنئے۔“قدرت نے سنجیدگی سے کہا۔
“کیسے نہ سنوں؟“
“کتے بھونکتے رہتے ہیں، قافلے چلتے رہتے ہیں۔“وہ بولے۔
“میرا قافلہ نہیں چلتا نا۔“
قدرت نے میری بات سنی ان سنی کردی۔بولے“ دنیا میں بھونکنے والے کتے بہت ہیں۔جینا چاہتے ہیں تو ان کی آواز نہ سننے کی صلاحیت پیدا کریں۔“
پچھلی رات تک کتا وقفوں سے بھونکتا رہا۔زائرین کے قافلے آتے رہے جاتے رہے۔ صحن آباد ہوتا رہا۔ویران ہوتا رہا۔میں برآمدے کے فرش پر دیوار سے سر ٹیکے بیٹھا رہا۔ کمرے میں جاتا تو وحشت سی سوار ہوجاتی۔اپنے احرام کو دیکھتا تو ایسے لگتا جیسے فقیر محل میں ‌آگھسا ہو۔کئی بار دل چاہا کہ احرام کو اتار کر سلیپنگ سوٹ پہن لوں اور ڈبل بیڈ پر لیٹ‌کر لمبے بالوں والی لڑکی کا انتظار کروں جو آکر مجھے ہائی کہے۔پھر احرام پر نظر پڑ جاتی۔شرمندہ ہوجاتا۔
احرام سمیت بیڈ پر لیٹتا تو کمرے میں‌لگا ہوا ائیر کنڈیشن باآواز بلند طعنے دیتا۔ “ اے اللہ میں حاضر ہوں۔“ پھر قہقہے لگاتا۔
اس روز جدے میں تو میں‌ بالکل غیر حاضر تھا۔ اس کی نسبت اپنے گھر میں چٹائی پر بیٹھے ہوئے میں کہیں ‌زیادہ حاضر رہا کرتا تھا۔ان جانے میں حاضر ہوجاتا۔ اپنی طبعی ناشکری کے باوجود شکرگزاری کی ایک لہر اٹھتی۔“اے اللہ تو نے مجھے اتنا کچھ دے رکھا ہے،اتنا کچھ۔ پھر تو مجھے قدم قدم پر سنھبالتا ہے۔سہارا دیتا ہے۔
شکر گزاری کی یہ لہر مجھے حضوری میں لے جاتی۔
لیکن جدے میں‌تو اللہ تعالٰی میری زندگی سے بالکل خارج ہوچکے تھے۔میری زندگی سے ہی نہیں ‌بلکہ یوں لگتا تھا جیسے ساری کائنات سے خارج ہوچکے ہوں۔
ائیر کنڈیشن مجھے اللہ کی یاد نہیں ‌دلا رہا تھا۔وہ تو مجھے احرام پہننے پر طعنے دے رہا تھا۔میرا جی چاہا کہ اٹھ کر بھاگ جاؤں، صدر سروازے سے باہر نکل جاؤں اور کسی بدرو کے کنارے دری بچھا کر سو جاؤں۔
میں لپک کر باہر نکلاء صحن میں زائرین کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔وہ سب اپنی اپنی دریوں‌ پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔میں نے اپنی دری برآمدے میں‌فرش پر بچھا لی اور اونگھنے لگا۔
روانگی
اگلے روز صبح نو بجے کے قریب ایک کالی سیاہ اتنی لمبی مرسڈیز صدر دروازے پر آرکی۔اس میں سے ایک خوش شکل بانکا عرب جوان نکلا۔ وہ سیدھا میری طرف آیا۔“السلام علیکم۔“ وہ بولا “چلئے آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ہمیں فورًا مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوجانا چاہیے۔“
“آپ کی تعریف؟“ میں نے پوچھا۔
“میرا نام غنی ہے۔ سعودی حکومت نے مجھے شہاب صاحب کا رابطہ افسر مقرر کیا ہے۔“
“تو کیا شہاب صاحب سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے یہاں آئے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
“نہیں“ وہ بولا“‌سعودی حکومت نے انھیں کیو۔یو۔ شہاب کی حیثیت سے یہاں ‌آنے کی دعوت دی تھی۔ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ ہر مہمان کے ساتھ ایک رابطہ افسر مقرر کیا جاتا ہے۔ تاکہ مہمان کی ضروریات کا خیال رکھے اور مناسب انتظامات کرے۔“
“ہوں تو قدرت اللہ یہاں مہمان کی حیثیت سے آئے ہیں،زائر کی حیثیت سے نہیں۔“ میں نے اپنے آُپ سے کہا۔
“نہیں“ غنی مسکرایا۔“ وہ مہمان زائر کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں۔ہر سال سینکڑوں مہمان زائر یہاں تشریف لاتے ہیں۔“
کچھ دیر کے بعد ہماری مرسیڈیز مکہ معظمہ کی طرف جارہی تھی۔دونوں ‌طرف بنجر زمین پھیلی ہوئی تھی جو نہ تو ریت تھی نہ مٹی اور نہ پتھر۔درمیان میں ایک کالی فراخ‌ سڑک دوڑ رہی تھی۔
مہمان زائر:
“اچھا تو آپ مہمان زائر ہیں۔“ میں نے قدرت اللہ سے کہا۔
قدرت اللہ نے غور سے میری جانب دیکھا۔
“آپ سعودی حکومت کی دعوت پر آئے ہیں نا۔آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟“
“لیکن“‌وہ بولے “ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“
“بہت فرق پڑتا ہے۔“ میں‌ نے کہا۔‌“ آپ کا اور میرا کیا ساتھ۔آپ مہمان زائر ہیں اور میں----------“
وہ ہنسے۔ شایدآپ بھی مہمان زائر ہوں۔“
“وہ کیسے؟“
“صرف سعودی حکومت ہی نہیں، قدرت نے کہا “اور بھی بہت سے ایجینسیز(Agencies) ہیں‌جو زائرین کو دعوت دے کر یہاں بلواتی ہیں۔مہمانوں کو پتا ہی نہیں‌ چلتا کہ وہ مہمان زائر ہیں۔احساس ہی نہیں ‌ہوتا کہ وہ آیا نہیں لایا گیا ہے۔کون جانتا ہے کہ یہاں‌ کون کون مہمان زائر ہے۔“
میری ہنسی نکل گئی۔“کتنا عمدہ دل بہلاوا ہے۔“
“دل بہلاوا نہیں حقیقیت ہے ۔“ قدرت نے سنجیدگی سے کہا۔
“بعید از عقل بات ہے۔“
قدرت اللہ مسکرا دیے۔“بنیادی حقیقتیں ہمیشہ بعید از عقل ہی ہوتی ہیں۔“
فوارہ چوک کا مست مرسڈیز کے سامنے آکھڑا ہوا۔اور چلانے لگا۔تو حج پہ جائے گا۔تو حج پہ جائے گا۔
ایلگن روڈ کے نوجوان فقیر نے کھڑکی سے جھانکا۔ میں‌ نے کہا نہیں تھا تیری فائل بنی ہوئی ہے۔
پھر مرسڈیز کی ہر کھڑکی کے فریم پر میرے گزشتہ خوابوں کے مناظر یوں روشن ہوگئے جیسے وہ فریم نہیں‌ بلکہ ٹی وی سکرین ہوں۔
قدرت اللہ کی باتوں میں اثر ہے یا نہیں مجھے نہیں پتہ ۔ البتہ ان کی باتیں عجیب و غریب قسم کے Hallucinations قائم کردیتی ہیں۔بالکل ویسے ہی Hallucinations جیسے خاور صاحب کے سامنے قائم کردیے گئے تھے۔
خاور:
خاور فیشن زدہ ،رومان پسند،آوارہ مزاج نوجوان تھا۔اسے صرف دو باتوں سے دلچسپی تھی۔‌خود بننا سنورنا اور خوش شکل عورتوں کو پھنسانا۔
ایک روز لاہور کی ایک ویران سڑک پر اس نے ایک خوش شکل رنگ رنگیلی عورت کو دیکھا جو بار بار مڑ کر خاور کی طرف دیکھتی اور مسکاتی تھی۔ ایسی جاذب توجہ الھڑ کو مائل بہ کرم دیکھ کر خاور اپنی تمام مصروفیات بھول گیا اور اس نازنین کا پیچھا کرنے لگا۔
جب سڑک سنسان ہوگئی تو اس نے چار ایک لمبے ڈگ بھرے اور نازنین کے مقابل جا کر اس کی بانہہ پکڑ لی۔نازنین نے مسکرا کا خاور کی طرف دیکھا۔
ارے۔نازنین کے چہرے پر تو اتنی لمبی داڑھی تھی۔خاور گھبرا کر پیچھے ہٹا تو وہ نازنین نما بزرگ بولے،نہیں ‌نہیں‌کوئی فرق نہیں۔بات ایک ہی ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے خاور کی بانہہ پکڑ‌لی۔خاور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا اور آج وہ خود چھاج سی لمبی داڑھی لیے واپڈا کے ایک اکاؤنٹ آفس میں‌بیٹھا ہے۔
قدرت اللہ کی بھی وہی مصداق ہے۔ کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ایک شوخ مزاج رنگیلے دانشور ہوں اور کبھی وہ منہ موڑ کر دیکھتے ہیں تو ان کے چہرتے پر لمبی داڑھی دیکھ کر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے۔
سرراہ ہوٹل:
ایک دھچکا لگا،موٹر رک گئی۔
سڑکے کی ایک جانب ایک بھدی سی عمارت بنی ہوئی تھی،دوسری جانب ایک لمبا چوڑا شیڈ تھا۔ شیڈ میں‌ بے ڈحب سی میزیں پڑی تھیں جن کے ارد گرد کھجور سے بنی چھوڑی چھوٹی چارپائیاں تھیں۔ جنھیں مسافر کرسیوں کے طور پر استعمال کررہے تھے۔
شیڈ کے ایک طرف چائے کی دوکان تھی۔دھوئیں سے کالی کیتلیاں چولھوں پر رکھی ہوئی تھیں۔ میل سے اٹے موٹے ڈبے پاس دھرے تھے۔ دوسرے کونے پر ایک عارضی چولہے پر بہت بڑی کالی سیاہ کڑاہی چڑھی ہوئی تھی جس میں‌ روغن تھا۔پاس ہی میلی چکٹ چادر میں نمک اور ہلدی لگی کئی چھوٹی بڑی مچھلیاں لپٹی ہوئی تھیں۔
اس منظر کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا جیسے ہم صوبہ سرحد کے کسی قبائلی علاقے کی سڑک پر بنے ہوئی ہوٹل میں‌ بیٹھے ہیں۔
غنی کے کہنے پر ہمیں ایک الگ کمرا کھلوا دیا گیا۔جس میں چٹائی بچھی ہوئی تھی۔وہاں‌ ہم ایک ڈیڑھ گھنٹہ رکے۔نان مچھلی کھائی،چائے پی،ظہر کی نماز پڑھی اور پھر سے مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہوگئے۔
میں نے قدرت سے کہا “یہ ماحول جانا پہچانا سا لگتا ہے۔“
ڈکٹر عفت ہنسنے لگی،بولی“کیوں ‌نہ ہو جانا پہچانا،ہمارے تمدن کا مخرج و مبنی جو ہوا۔ہمارے آباء یہی ماحول لے کر برصغیر آئے تھے۔“
“ہاں جبھی۔“ میں نے کہا اور پھر سڑک کی جانب دیکھنے لگا۔
کالی سڑک مسلسل دوڑ رہی تھی۔ اس پھیلے ہوئے ویرانے میں وہ کالی سڑک عجیب سی معلوم ہورہی تھی جیسے کسی گاؤں کی گنوار نے سر پر نائیلون کا ربن باندھ رکھا ہو۔
سڑک دوڑ رہی تھی۔ منظر ساکت تھا۔
کبھی کبھار دور چھوٹے ٹیلے دکھائی دیتے۔ویران بنجر ٹیلے۔بے آب و گیاہ ہمارے ہاں کی بنجر ٹیلوں میں بھی زندگی اور تازگی کی رمق ہوتی ہے لیکن ان ٹیلوں کے پتھروں پر عجیب سی مردنی چھائی ہوئی تھی۔چاروں طرف مردنی اور اداسی کے انبار لگے ہوئے تھے۔
“انشاءاللہ ہم ایک گھنٹے تک مکہ معظمہ میں ہونگے۔“ قدرت اللہ نے کہا۔
“مجھے تو مدینہ منورہ سے دلچسپی ہے۔“ میں نے جواب دیا۔
“اور مکہ معظمہ سے؟“ ڈاکٹر عفت نے پوچھا۔
“کہاں میں کہاں اللہ میاں۔میں انہیں نہیں ‌جانتا۔“ میرے منہ سے نکل گیا۔
موٹر میں ایک گہری خاموشی طاری ہوگئی جیسے کنوئیں میں پتھر گرنے کے آواز کے بعد پر اسرار عمیق و سبیط خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔
انھیں کتنا دکھ ہوتا:
میں‌ نے قدرت کی طرف دیکھا۔ان کا چہرہ ریزہ ریزہ ہورہا تھا۔
جیسے چوٹ لگنے سے شیشہ چور چور ہوجاتا ہے۔
دفعتًا مجھے یاد آیا یہ تو وہی چہرہ ہے۔وہی چہرا۔ حیرت سے میں بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔
پاکستان سے روانگی کے ساتھ آٹح دن پہلے میں ‌سکوٹر پر اسلام آباد سے پنڈی آرہا تھا۔ راستے میں ایک دوست مل گئے۔میں رک گیا۔ سڑک سے ہٹ کر ہم دونوں باتیں ‌کرنے لگے۔قریب ہی ایک سفید ریش بزرگ نماز پڑھنے میں مصروف تھے۔
“سنا ہے تم بیت اللہ جارہے ہو۔“ میرے دوست نے پوچھا۔
“یار“ میں نے حسب عادت بے سوچے سمجھے جواب دیا۔“ مجھے اللہ سے کیا لینا دینا ہے،البتہ جی چاہتا ہے کہ مدینہ منورہ میں حاضری دوں۔حضور اعلٰی ص کو سلام کروں۔“
سفید ریش بزرگ نے سلام پھیر کر دیکھا ۔ ان کا چہرہ ریزہ ریزہ ہورہا تھا۔ جیسے چوٹ لگنے سے شیشہ چور چور ہوجاتا ہے۔
دفتتًا میں نے محسوس کیا۔ جیسے وہ چہرا بہت مانوس ہو،جیسے میں نے اسے بارہا دیکھا ہو۔کہاں۔ کب مجھے یاد نہیں‌ آرہا تھا۔
“آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں“ بزرگ بولے۔
“جی فرمائیے۔“
“آپ کو رسول اللہ ص سے اتنا لگاؤ لیکن اللہ تعالٰی کے متعلق جو کلمات آپ نے کہے ہیں۔ اگر حضور ص سن لیتے تو انھیں کتنا دکھ ہوتا۔کیاآپ ‌کو اس کا اندازہ ہے؟“
بزرگ کی بات سن کر میں بہت شرمسار ہوا،لیکن میں نے کوشش کرکے ان جذبات کو دبا دیا۔اگر میں غلطی کر بیٹھوں تو احساس ندامت کو دبا دیا کرتا ہوں۔یہ میری پرانی عادت ہے۔
دوست کو خداحافظ کہہ کر میں سکوٹر پر سوار ہو کر چل پڑا۔
“انہیں کتنا دکھ ہوتا۔“ میرے دل سے آواز ابھری۔میں نے کوشش کرکے اسے دبا دیا لیکن وہ پھر ابھری۔ حتی کہ سڑک پر چلتی ہوئی موٹروں کے ہارن چلا چلا کر کہنے لگے۔“ انہیں‌ کتنا دکھ ہوتا۔انہیں کتنا دکھ ہوتا۔پھر ساری فضا اس آواز سے گونجنے لگی۔
کالی سڑک دوڑ رہی تھی۔موٹر میں گہری خاموشی طاری تھی۔ڈاکٹر عفت بت بنی بیٹھی تھی۔قدرت اللہ کا چہرا ریزہ ریزہ تھا۔ان کے چہرے پر اتنا تاسف تھا،اتنی ندامت تھی جیسے اللہ تعالٰی کے متعلق وہ کلمات میں‌ نے نہیں‌ بلکہ انہوں نے خود کہے ہوں۔ان کے چہرے کا ریزہ ریزہ کہہ رہا تھا۔“ انہیں کتنا دکھ ہوا ہوگا۔“انہیں کتنا دکھ ہوا ہوگا۔
پھر دفعتًا مجھے وہ بات یاد آگئی۔
ایک روز میں نے قدرت سے پوچھا تھا۔“آپ کے نزدیک افضل ترین عبادت کونسی ہے؟“
بولے“ افضل ترین عبادت ہم آہنگی ہے۔“
“میں سمجھا نہیں۔“
“جسے آپ Identification کہتے ہیں۔باری تعالٰی کی کسی صفت کو اپنے پر طاری کر لینا۔“
“انہوں“ میں نے جواب دیا“ باری تعالٰی کو میں نہیں‌سمجھ سکتا۔ جو پانچ حواسوں میں مقید ہو وہ ایک غیر مرئی عظیم اور لامحدود طاقت کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔پھر ہم آہنگ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں‌ ہوسکتا۔“
“حضور اعلٰی ص جو ہیں۔ ان کے ساتھ تو Identification ہوسکتی ہے نا۔“ قدرت نے جواب دیا۔
میں‌ نے پھر سے قدرت کے ریزہ ریزہ چہرے کی طرف دیکھا۔انہیں اتنا دکھ ہورہا ہے۔کیا قدرت افضل ترین عبادت میں‌ مصروف ہیں---------------- ڈاکٹر عفت نے سر اٹھا کر غور سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور پھر ایک لمبی آہ بھر کر آنکھیں جھکا لیں۔کیا یہ اپنے شوہر کے دکھ کو محسوس کررہی ہیں۔ میں‌ نے سوچا۔
ندامت سے میری پیشانی بھیگ گئی۔
دیر تک میں سر جھکائے بیٹھا رہا۔
قدرت اورعفت دونوں خاموش تھے۔
رابطہ افسر غنی پہاڑیوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
عرب ڈرائیور چپ چاپ گاڑی چلا رہا تھا۔
پتہ نہیں کتنی دیر تک ہم سب یونہی چپ چاپ بیٹھے رہے۔پھر دفعتًا غنی کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔“ہم مکہ معظمہ میں داخل ہونے والے ہیں۔“
 

دوست

محفلین
اچھی بات ہے۔ میں وہیں پوسٹ کروں گا جب دوبارہ لکھنا شروع کی انشاءاللہ ٹھیک ایک ہفتے بعد۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top