باب نمبر چار مکہ روڈ
******مکہ روڈ******
ڈبے ہی ڈبے:
جدہ کے بازار میں چلتے چلتے مجھے ٹھوکر لگی ۔رک گیا۔ سامنے فٹ پاتھ پر ایک بہت بڑی پیٹی رکھی ہوئی تھی۔ایسا صندوق جس میں ہم گھر میں رضائیاں اور لحاف رکھتے ہیں۔ پیٹی پر ڈھکنا نہیں تھا۔میں نے پیٹی کے اندر جھانکا۔ ڈبے ہی ڈبے،ڈبے ہی ڈبے۔ ساری پیٹی رنگا رنگ کے ڈبوں سے بھری ہوئی تھی۔ گلاسوں جتنے بڑے ٹین کے ڈبے ،جن پر خوبصورت رنگوں میںلیبل چھپے ہوئے تھے اور ان ڈبوں کے اردگرد برف کے ٹکڑے پڑے تھے۔
ایک راہ گیر رک گیا،اس نے پیٹی میں ہاتھ ڈالا ایک ڈبہ نکالا۔ اٹلی کا بنا ہوا جوس ۔دوسرا نکالا،میڈن پیرس ، ہالینڈ، سپین۔ اس نے ایک ڈبے میں چھید کیا۔ غٹاغٹ جوس پیا، پیسے صندوق پر رکھے اور چل پڑا۔
ارے یہاں تو بانی کی بالٹی دو روپے میںملا کرتی تھی لیکن یہ ملک ملک کے بنے ہوئے جوس کے اتنے سارے ڈبے۔میں نے حیرت سے ایک بار پھر ڈبوں کی طرف دیکھا۔ ڈبوں میں حرکت ہوئی پھر باری باری سارے ڈبے پیٹی سے باہر نکل آئے اور فٹ پاتھ پر دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔
آخری دن:
“دیکھا اسے کہتے ہیںافراط۔“اوپر کے ڈبے پر چھپی ہوئی شکل چلائی۔
پھر لیبلوں کی تمام اشکال قہقہے مار کر ہنسیں “افراط، افراط،“
دفعتًا میرے ذہن کی گراری نے بیک فلیش ماری۔فلیش بیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روز قدرت اور میں باتیں کر رہے تھے۔پتہ نہیںکیسے افراط کا ذکر چھڑ گیا تھا۔
“افراط باعث برکت نہیں ہوتی۔“وہ بولے۔
“افراط تو خود برکت کا دوسرا نام ہے۔“ میں نے جواب دیا۔
“نہیں“ وہ مسکرائے “پہلے میرا بھی یہی خیال تھا۔پھر بدل گیا۔“
“کب بدلا؟“ میں نے پوچھا۔
“جب میں پہلی مرتبہ حج پر گیا تھا“
“جہاں نالے کے کنارے نالے کا کنارہ تھا،جہاں آپ نے دری بچھا کر قیام کیا تھا۔“
“ہاں“ وہ بولے وہاں میں نے پہلی بار کنجڑے کی دوکان پر افراط کا عالم دیکھا۔ ایک چھابے میں آلو پڑے تھے،دوسرے میںپیاز،تیسرے میں سوئزر لینڈ کی بنی ہوئی رسٹواچز تھیں۔“
“رسٹ واچز کنجڑے کی دوکان پر۔“
“ہاں ہاں‘ وہ بولے“ ایک چھابہ رسٹ واچز سے بھرا ہوا تھا۔ایک جدید ترین کل دار کھلونوں سے۔ایک طرف ریڈیو سیٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا پیچھے چار فرج کھڑے تھے۔“
“کنجڑے کی دوکان پر فرج؟“
“ہاں ہاں فرج۔“ وہ بولے۔
“اور وہ بکاؤ تھے؟“
“ہاں بکاؤ تھے۔ اس وقت میں اس افراط کو دیکھ کر حیران بھی ہوا تھا اور خوش بھی۔
عین اس وقت پیچھے سے آواز آئی۔“اس افراط کے متعلق حضور ص نے خود نشاندہی فرمائی تھی۔“ میں نے مڑکر دیکھا۔نورانی شکل و صورت والے ایک بزرگ کھڑے تھے۔“کیا نشاندہی کی تھی حضور ص نے؟“ میں نے پوچھا۔بزرگ نے جواب دیا کہ حضور ص نے فرمایا تھا۔ ایک ایسا دن بھی آئے گا جب زمیں پر اشیاء اور زر کی افراط ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آخری دن ہونگے۔۔
“آخری دن۔“ آخری دن۔جوس کے ڈبوں پر چھپی ہوئی شکلیں قہقہے مارنے لگیں۔
اس بازار میں کیا رکھا ہے۔صرف آخری دن میں واپس جانے کے لیے مڑا۔
کتا کوٹھی سے نکل کر میری طرف لپکا۔اس کی بھونک میں دھمکی کا عنصر واضح تھا۔
ڈر کر میں فٹ پاتھ سے نیچے اتر گیا۔ بھوں بھوں کرتی ہوئی ایک کالی موٹر میری طرف لپکی۔بریک نے چیخ ماری۔موٹر رک گئی۔موٹر میں قدرت اللہ اور ان کی بیگم ڈاکٹر عفت بیٹھے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
“آئیے آجائیے۔“ قدرت نے مجھے اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔“بیٹھ جائیے۔“
“آپ یہاں؟ “ میں نے سیٹ پر بیٹھے ہوئے پوچھا۔
“ہاں ہم ائیر پورٹ سے آرہے ہیں۔ہماری فلائٹ لیٹ ہوگئی تھی۔آپ تو ٹھیک ہیں نا؟“
“ٹھیک؟“ میں چلایا “ یہ مجھے آپ کہاں لے آئے ہیں،یہ تو وہ جگہ نہیں۔ یہ تو منزل نیہں،نہیں یہ تو منزل نہیں۔“
قدرت مسکرائے۔
“یہ اونچی اونچی عمارتیں، یہ ساز و سامان، یہ کاروباری لوگ،افراط سے لدی ہوئی دوکانیں یہ سب کیا ہے؟“
“یہ سب کچھ بھی نہیں۔“ وہ بولے
“یہ سب کچھ۔کچھ بھی نہیں،یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“
“اگر دیکھو تو یہ سب کچھ دکھتا ہے۔“قدرت نے کہا “نہ دیکھو تو یہ “سب کچھ“ کچھ بھی نہیں۔“
“کیسے نہ دیکھیں؟“
لُک اور سی:
“سی بٹ ڈونٹ لُک۔“ قدرت نے انگریزی کا سہارا لیا۔
“کیا مطلب؟“
“نظر آتا ہے تو پڑا آئے۔پر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔“
“پر دکھتا جو ہے۔“میں نے کہا
“دکھتا ہے تو پڑا دکھے۔“ وہ بولے۔“ اسے اہمیت کیوں دیتے ہیں آپ؟“
“میرے اہمیت دینے یا نہ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟“ میں نے جواب دیا۔
“اہمیت دینے سے ہی تو فرق پڑتا ہے۔“ قدرت اللہ نے کہا۔“ بہت فرق پڑتا ہے۔ مولانا ارشد علی تھانوی روز ریل میں اپنے گاؤں سے شہر جایا کرتے تھے۔ ڈبے میںبیٹھ کر وہ کھڑکیوں پر لکڑی کے تختے چڑھا دیا کرتے۔ ایک روز ایک معتقد نے پوچھا۔“حضرت آپ اتنے اہتمام سے کھڑکیوں پر تختے کیوں چڑھا دیتے ہیں؟“ فرمایا“ تاکہ توجہ منزل پر مرکوز رہے۔ راستے کے مناظر میں نہ بھٹکتی پھرے۔راستے کے مناظر میں نہ الجھو تو منزل پر پہنچنے پر آنکھیں تھکی ہوئی نہیں بلکہ تازہ دم ہوں گی۔“
میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ حتی الوسع قدرت اللہ جیسوں کی باتوںمیں نہ آنا اور سکھی رہنا چاہتے ہو تو مولانا ارشد علی تھانوی جیسے بزرگوں کے ارشادات کو پلے نہ باندھنا۔
قدرت اللہ کی باتیں ایک وقت مجھے ایسی لگتیں ہیں جیسے منہ زبانی ہوں۔ خالی باتیں کتابوں سے چنے ہوئے چمکدار جملے۔ دوسرے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے ایک جملے میں ایک دنیا آباد ہو۔جیسے ہر جملہ حرف آخر ہو،پھر میرے دل پر ایک آرا چلتا ہے۔حرف آخر،بے معنی حرف آخر،حرف آخر،حرف بے معنی۔
شخصیت کے تحفظ کے بارے میں زر تشت کہتا ہے“دیکھ اپنی مَیں میں آرا نہ چلنے دیجو ورنہ نہ میں رہے گی اور نہ تو تک پہنچ پائے گا۔“
جدہ پیلس پر موٹر رک گئی۔جدہ پہلس جدے کا سب سے بڑا ہوٹل ہے جہاں قدرت اور ان کی بیگم کے لیے کمرا پہلے سے ریزرو تھا۔وہ کمرا نیچی چھت کا بنا سجا کبوتر خانہ تھا۔ سارا جدہ پیلس،کمرے ،برآمدے،باتھ تیر اور شدید ائیر کنڈیشن میں ٹھٹھر رہے تھے۔
پتہ نہیںکیوں ائیر کنڈیشن موسم کا رد عمل نہیں کرتا۔ بلکہ برفانی کیفیت پیدا کرتا ہے۔گرمیوں میں اس کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ مکینوں کے دانت بجیں۔ دانوں کے علاوہ میرا گلا بھی بجنے لگتا ہے،دم گھٹتا ہے نجانے کیوں؟
کتے اور قافلے:
میںنے قدرت سے کہا “ میں اب چلتا ہوں۔“
“اچھا“ وہ بولے۔“ کل صبح تیار رہیے ہم سویرے ہی مکہ شریف کو روانہ ہوجائیں گے ۔ انشاء اللہ۔“
“ابھی کیوں نہ روانہ ہوجائیں؟“ میں نے کہا
“کیوں؟“
“میرے لیے یہاں رات بسر کرنا بہت مشکل ہے۔“
“کیوں۔ کیا جگہ تکلیف دہ ہے؟“
“ہاں“ میں نے کہا۔“بہت تکلیف دہ ۔“
“کیا تکلیف ہے؟“
“میرے کمرے کے سامنے ٹائلوں کا بنا ہوا وسیع و عریض صحن ہے۔“میں نے جواب دیا۔
“اس میںکیا تکلیف کی بات ہے۔“
“وہ وسیع و عریضصحن خالی پڑا ہے۔ حج کے دنوںمیں خالی پڑا ہے۔“
وہ مسکرائے۔“تو اسے زائرین سے آباد کر لیجئے۔“
“لیکن کوٹھی کا خوفناک کتا وہ بھونک کر زائرین کو بھگا دیتا ہے۔“
“کتے کی آواز نہ سنئے۔“قدرت نے سنجیدگی سے کہا۔
“کیسے نہ سنوں؟“
“کتے بھونکتے رہتے ہیں، قافلے چلتے رہتے ہیں۔“وہ بولے۔
“میرا قافلہ نہیں چلتا نا۔“
قدرت نے میری بات سنی ان سنی کردی۔بولے“ دنیا میں بھونکنے والے کتے بہت ہیں۔جینا چاہتے ہیں تو ان کی آواز نہ سننے کی صلاحیت پیدا کریں۔“
پچھلی رات تک کتا وقفوں سے بھونکتا رہا۔زائرین کے قافلے آتے رہے جاتے رہے۔ صحن آباد ہوتا رہا۔ویران ہوتا رہا۔میں برآمدے کے فرش پر دیوار سے سر ٹیکے بیٹھا رہا۔ کمرے میں جاتا تو وحشت سی سوار ہوجاتی۔اپنے احرام کو دیکھتا تو ایسے لگتا جیسے فقیر محل میں آگھسا ہو۔کئی بار دل چاہا کہ احرام کو اتار کر سلیپنگ سوٹ پہن لوں اور ڈبل بیڈ پر لیٹکر لمبے بالوں والی لڑکی کا انتظار کروں جو آکر مجھے ہائی کہے۔پھر احرام پر نظر پڑ جاتی۔شرمندہ ہوجاتا۔
احرام سمیت بیڈ پر لیٹتا تو کمرے میںلگا ہوا ائیر کنڈیشن باآواز بلند طعنے دیتا۔ “ اے اللہ میں حاضر ہوں۔“ پھر قہقہے لگاتا۔
اس روز جدے میں تو میں بالکل غیر حاضر تھا۔ اس کی نسبت اپنے گھر میں چٹائی پر بیٹھے ہوئے میں کہیں زیادہ حاضر رہا کرتا تھا۔ان جانے میں حاضر ہوجاتا۔ اپنی طبعی ناشکری کے باوجود شکرگزاری کی ایک لہر اٹھتی۔“اے اللہ تو نے مجھے اتنا کچھ دے رکھا ہے،اتنا کچھ۔ پھر تو مجھے قدم قدم پر سنھبالتا ہے۔سہارا دیتا ہے۔
شکر گزاری کی یہ لہر مجھے حضوری میں لے جاتی۔
لیکن جدے میںتو اللہ تعالٰی میری زندگی سے بالکل خارج ہوچکے تھے۔میری زندگی سے ہی نہیں بلکہ یوں لگتا تھا جیسے ساری کائنات سے خارج ہوچکے ہوں۔
ائیر کنڈیشن مجھے اللہ کی یاد نہیں دلا رہا تھا۔وہ تو مجھے احرام پہننے پر طعنے دے رہا تھا۔میرا جی چاہا کہ اٹھ کر بھاگ جاؤں، صدر سروازے سے باہر نکل جاؤں اور کسی بدرو کے کنارے دری بچھا کر سو جاؤں۔
میں لپک کر باہر نکلاء صحن میں زائرین کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔وہ سب اپنی اپنی دریوں پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔میں نے اپنی دری برآمدے میںفرش پر بچھا لی اور اونگھنے لگا۔
روانگی
اگلے روز صبح نو بجے کے قریب ایک کالی سیاہ اتنی لمبی مرسڈیز صدر دروازے پر آرکی۔اس میں سے ایک خوش شکل بانکا عرب جوان نکلا۔ وہ سیدھا میری طرف آیا۔“السلام علیکم۔“ وہ بولا “چلئے آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ہمیں فورًا مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوجانا چاہیے۔“
“آپ کی تعریف؟“ میں نے پوچھا۔
“میرا نام غنی ہے۔ سعودی حکومت نے مجھے شہاب صاحب کا رابطہ افسر مقرر کیا ہے۔“
“تو کیا شہاب صاحب سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے یہاں آئے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
“نہیں“ وہ بولا“سعودی حکومت نے انھیں کیو۔یو۔ شہاب کی حیثیت سے یہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ ہر مہمان کے ساتھ ایک رابطہ افسر مقرر کیا جاتا ہے۔ تاکہ مہمان کی ضروریات کا خیال رکھے اور مناسب انتظامات کرے۔“
“ہوں تو قدرت اللہ یہاں مہمان کی حیثیت سے آئے ہیں،زائر کی حیثیت سے نہیں۔“ میں نے اپنے آُپ سے کہا۔
“نہیں“ غنی مسکرایا۔“ وہ مہمان زائر کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں۔ہر سال سینکڑوں مہمان زائر یہاں تشریف لاتے ہیں۔“
کچھ دیر کے بعد ہماری مرسیڈیز مکہ معظمہ کی طرف جارہی تھی۔دونوں طرف بنجر زمین پھیلی ہوئی تھی جو نہ تو ریت تھی نہ مٹی اور نہ پتھر۔درمیان میں ایک کالی فراخ سڑک دوڑ رہی تھی۔
مہمان زائر:
“اچھا تو آپ مہمان زائر ہیں۔“ میں نے قدرت اللہ سے کہا۔
قدرت اللہ نے غور سے میری جانب دیکھا۔
“آپ سعودی حکومت کی دعوت پر آئے ہیں نا۔آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟“
“لیکن“وہ بولے “ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“
“بہت فرق پڑتا ہے۔“ میں نے کہا۔“ آپ کا اور میرا کیا ساتھ۔آپ مہمان زائر ہیں اور میں----------“
وہ ہنسے۔ شایدآپ بھی مہمان زائر ہوں۔“
“وہ کیسے؟“
“صرف سعودی حکومت ہی نہیں، قدرت نے کہا “اور بھی بہت سے ایجینسیز(Agencies) ہیںجو زائرین کو دعوت دے کر یہاں بلواتی ہیں۔مہمانوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ مہمان زائر ہیں۔احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ آیا نہیں لایا گیا ہے۔کون جانتا ہے کہ یہاں کون کون مہمان زائر ہے۔“
میری ہنسی نکل گئی۔“کتنا عمدہ دل بہلاوا ہے۔“
“دل بہلاوا نہیں حقیقیت ہے ۔“ قدرت نے سنجیدگی سے کہا۔
“بعید از عقل بات ہے۔“
قدرت اللہ مسکرا دیے۔“بنیادی حقیقتیں ہمیشہ بعید از عقل ہی ہوتی ہیں۔“
فوارہ چوک کا مست مرسڈیز کے سامنے آکھڑا ہوا۔اور چلانے لگا۔تو حج پہ جائے گا۔تو حج پہ جائے گا۔
ایلگن روڈ کے نوجوان فقیر نے کھڑکی سے جھانکا۔ میں نے کہا نہیں تھا تیری فائل بنی ہوئی ہے۔
پھر مرسڈیز کی ہر کھڑکی کے فریم پر میرے گزشتہ خوابوں کے مناظر یوں روشن ہوگئے جیسے وہ فریم نہیں بلکہ ٹی وی سکرین ہوں۔
قدرت اللہ کی باتوں میں اثر ہے یا نہیں مجھے نہیں پتہ ۔ البتہ ان کی باتیں عجیب و غریب قسم کے Hallucinations قائم کردیتی ہیں۔بالکل ویسے ہی Hallucinations جیسے خاور صاحب کے سامنے قائم کردیے گئے تھے۔
خاور:
خاور فیشن زدہ ،رومان پسند،آوارہ مزاج نوجوان تھا۔اسے صرف دو باتوں سے دلچسپی تھی۔خود بننا سنورنا اور خوش شکل عورتوں کو پھنسانا۔
ایک روز لاہور کی ایک ویران سڑک پر اس نے ایک خوش شکل رنگ رنگیلی عورت کو دیکھا جو بار بار مڑ کر خاور کی طرف دیکھتی اور مسکاتی تھی۔ ایسی جاذب توجہ الھڑ کو مائل بہ کرم دیکھ کر خاور اپنی تمام مصروفیات بھول گیا اور اس نازنین کا پیچھا کرنے لگا۔
جب سڑک سنسان ہوگئی تو اس نے چار ایک لمبے ڈگ بھرے اور نازنین کے مقابل جا کر اس کی بانہہ پکڑ لی۔نازنین نے مسکرا کا خاور کی طرف دیکھا۔
ارے۔نازنین کے چہرے پر تو اتنی لمبی داڑھی تھی۔خاور گھبرا کر پیچھے ہٹا تو وہ نازنین نما بزرگ بولے،نہیں نہیںکوئی فرق نہیں۔بات ایک ہی ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے خاور کی بانہہ پکڑلی۔خاور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا اور آج وہ خود چھاج سی لمبی داڑھی لیے واپڈا کے ایک اکاؤنٹ آفس میںبیٹھا ہے۔
قدرت اللہ کی بھی وہی مصداق ہے۔ کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ایک شوخ مزاج رنگیلے دانشور ہوں اور کبھی وہ منہ موڑ کر دیکھتے ہیں تو ان کے چہرتے پر لمبی داڑھی دیکھ کر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے۔
سرراہ ہوٹل:
ایک دھچکا لگا،موٹر رک گئی۔
سڑکے کی ایک جانب ایک بھدی سی عمارت بنی ہوئی تھی،دوسری جانب ایک لمبا چوڑا شیڈ تھا۔ شیڈ میں بے ڈحب سی میزیں پڑی تھیں جن کے ارد گرد کھجور سے بنی چھوڑی چھوٹی چارپائیاں تھیں۔ جنھیں مسافر کرسیوں کے طور پر استعمال کررہے تھے۔
شیڈ کے ایک طرف چائے کی دوکان تھی۔دھوئیں سے کالی کیتلیاں چولھوں پر رکھی ہوئی تھیں۔ میل سے اٹے موٹے ڈبے پاس دھرے تھے۔ دوسرے کونے پر ایک عارضی چولہے پر بہت بڑی کالی سیاہ کڑاہی چڑھی ہوئی تھی جس میں روغن تھا۔پاس ہی میلی چکٹ چادر میں نمک اور ہلدی لگی کئی چھوٹی بڑی مچھلیاں لپٹی ہوئی تھیں۔
اس منظر کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا جیسے ہم صوبہ سرحد کے کسی قبائلی علاقے کی سڑک پر بنے ہوئی ہوٹل میں بیٹھے ہیں۔
غنی کے کہنے پر ہمیں ایک الگ کمرا کھلوا دیا گیا۔جس میں چٹائی بچھی ہوئی تھی۔وہاں ہم ایک ڈیڑھ گھنٹہ رکے۔نان مچھلی کھائی،چائے پی،ظہر کی نماز پڑھی اور پھر سے مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہوگئے۔
میں نے قدرت سے کہا “یہ ماحول جانا پہچانا سا لگتا ہے۔“
ڈکٹر عفت ہنسنے لگی،بولی“کیوں نہ ہو جانا پہچانا،ہمارے تمدن کا مخرج و مبنی جو ہوا۔ہمارے آباء یہی ماحول لے کر برصغیر آئے تھے۔“
“ہاں جبھی۔“ میں نے کہا اور پھر سڑک کی جانب دیکھنے لگا۔
کالی سڑک مسلسل دوڑ رہی تھی۔ اس پھیلے ہوئے ویرانے میں وہ کالی سڑک عجیب سی معلوم ہورہی تھی جیسے کسی گاؤں کی گنوار نے سر پر نائیلون کا ربن باندھ رکھا ہو۔
سڑک دوڑ رہی تھی۔ منظر ساکت تھا۔
کبھی کبھار دور چھوٹے ٹیلے دکھائی دیتے۔ویران بنجر ٹیلے۔بے آب و گیاہ ہمارے ہاں کی بنجر ٹیلوں میں بھی زندگی اور تازگی کی رمق ہوتی ہے لیکن ان ٹیلوں کے پتھروں پر عجیب سی مردنی چھائی ہوئی تھی۔چاروں طرف مردنی اور اداسی کے انبار لگے ہوئے تھے۔
“انشاءاللہ ہم ایک گھنٹے تک مکہ معظمہ میں ہونگے۔“ قدرت اللہ نے کہا۔
“مجھے تو مدینہ منورہ سے دلچسپی ہے۔“ میں نے جواب دیا۔
“اور مکہ معظمہ سے؟“ ڈاکٹر عفت نے پوچھا۔
“کہاں میں کہاں اللہ میاں۔میں انہیں نہیں جانتا۔“ میرے منہ سے نکل گیا۔
موٹر میں ایک گہری خاموشی طاری ہوگئی جیسے کنوئیں میں پتھر گرنے کے آواز کے بعد پر اسرار عمیق و سبیط خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔
انھیں کتنا دکھ ہوتا:
میں نے قدرت کی طرف دیکھا۔ان کا چہرہ ریزہ ریزہ ہورہا تھا۔
جیسے چوٹ لگنے سے شیشہ چور چور ہوجاتا ہے۔
دفعتًا مجھے یاد آیا یہ تو وہی چہرہ ہے۔وہی چہرا۔ حیرت سے میں بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔
پاکستان سے روانگی کے ساتھ آٹح دن پہلے میں سکوٹر پر اسلام آباد سے پنڈی آرہا تھا۔ راستے میں ایک دوست مل گئے۔میں رک گیا۔ سڑک سے ہٹ کر ہم دونوں باتیں کرنے لگے۔قریب ہی ایک سفید ریش بزرگ نماز پڑھنے میں مصروف تھے۔
“سنا ہے تم بیت اللہ جارہے ہو۔“ میرے دوست نے پوچھا۔
“یار“ میں نے حسب عادت بے سوچے سمجھے جواب دیا۔“ مجھے اللہ سے کیا لینا دینا ہے،البتہ جی چاہتا ہے کہ مدینہ منورہ میں حاضری دوں۔حضور اعلٰی ص کو سلام کروں۔“
سفید ریش بزرگ نے سلام پھیر کر دیکھا ۔ ان کا چہرہ ریزہ ریزہ ہورہا تھا۔ جیسے چوٹ لگنے سے شیشہ چور چور ہوجاتا ہے۔
دفتتًا میں نے محسوس کیا۔ جیسے وہ چہرا بہت مانوس ہو،جیسے میں نے اسے بارہا دیکھا ہو۔کہاں۔ کب مجھے یاد نہیں آرہا تھا۔
“آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں“ بزرگ بولے۔
“جی فرمائیے۔“
“آپ کو رسول اللہ ص سے اتنا لگاؤ لیکن اللہ تعالٰی کے متعلق جو کلمات آپ نے کہے ہیں۔ اگر حضور ص سن لیتے تو انھیں کتنا دکھ ہوتا۔کیاآپ کو اس کا اندازہ ہے؟“
بزرگ کی بات سن کر میں بہت شرمسار ہوا،لیکن میں نے کوشش کرکے ان جذبات کو دبا دیا۔اگر میں غلطی کر بیٹھوں تو احساس ندامت کو دبا دیا کرتا ہوں۔یہ میری پرانی عادت ہے۔
دوست کو خداحافظ کہہ کر میں سکوٹر پر سوار ہو کر چل پڑا۔
“انہیں کتنا دکھ ہوتا۔“ میرے دل سے آواز ابھری۔میں نے کوشش کرکے اسے دبا دیا لیکن وہ پھر ابھری۔ حتی کہ سڑک پر چلتی ہوئی موٹروں کے ہارن چلا چلا کر کہنے لگے۔“ انہیں کتنا دکھ ہوتا۔انہیں کتنا دکھ ہوتا۔پھر ساری فضا اس آواز سے گونجنے لگی۔
کالی سڑک دوڑ رہی تھی۔موٹر میں گہری خاموشی طاری تھی۔ڈاکٹر عفت بت بنی بیٹھی تھی۔قدرت اللہ کا چہرا ریزہ ریزہ تھا۔ان کے چہرے پر اتنا تاسف تھا،اتنی ندامت تھی جیسے اللہ تعالٰی کے متعلق وہ کلمات میں نے نہیں بلکہ انہوں نے خود کہے ہوں۔ان کے چہرے کا ریزہ ریزہ کہہ رہا تھا۔“ انہیں کتنا دکھ ہوا ہوگا۔“انہیں کتنا دکھ ہوا ہوگا۔
پھر دفعتًا مجھے وہ بات یاد آگئی۔
ایک روز میں نے قدرت سے پوچھا تھا۔“آپ کے نزدیک افضل ترین عبادت کونسی ہے؟“
بولے“ افضل ترین عبادت ہم آہنگی ہے۔“
“میں سمجھا نہیں۔“
“جسے آپ Identification کہتے ہیں۔باری تعالٰی کی کسی صفت کو اپنے پر طاری کر لینا۔“
“انہوں“ میں نے جواب دیا“ باری تعالٰی کو میں نہیںسمجھ سکتا۔ جو پانچ حواسوں میں مقید ہو وہ ایک غیر مرئی عظیم اور لامحدود طاقت کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔پھر ہم آہنگ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔“
“حضور اعلٰی ص جو ہیں۔ ان کے ساتھ تو Identification ہوسکتی ہے نا۔“ قدرت نے جواب دیا۔
میں نے پھر سے قدرت کے ریزہ ریزہ چہرے کی طرف دیکھا۔انہیں اتنا دکھ ہورہا ہے۔کیا قدرت افضل ترین عبادت میں مصروف ہیں---------------- ڈاکٹر عفت نے سر اٹھا کر غور سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور پھر ایک لمبی آہ بھر کر آنکھیں جھکا لیں۔کیا یہ اپنے شوہر کے دکھ کو محسوس کررہی ہیں۔ میں نے سوچا۔
ندامت سے میری پیشانی بھیگ گئی۔
دیر تک میں سر جھکائے بیٹھا رہا۔
قدرت اورعفت دونوں خاموش تھے۔
رابطہ افسر غنی پہاڑیوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
عرب ڈرائیور چپ چاپ گاڑی چلا رہا تھا۔
پتہ نہیں کتنی دیر تک ہم سب یونہی چپ چاپ بیٹھے رہے۔پھر دفعتًا غنی کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔“ہم مکہ معظمہ میں داخل ہونے والے ہیں۔“