لاہور:15کی عمارت میں دھماکا،متعدد افرادہلاک و زخمی

خرم

محفلین
یہ ردعمل تو غیر متوقع نہیں‌ہے۔ ظالمان اور ان کے حواریوں سے اگر یہ توقع کی جائے کہ وہ لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیں گے تو یہ احمقانہ خواہش ہی کہی جاسکتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑنے کے عزم کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔ سانپ مرتے مرتے بھی ڈنک مارتا رہتاہے۔ اسے کچلے بغیر چھوڑ دینا مزید زہر پینے کے مترادف ہوگا۔
اور اس سارے قصے میں "شریفوں" کا کوئی بیان ابھی تک نظر سے نہیں گزرا۔ پنجاب میں تو ان کی حکومت ہے اور عوام کی حفاظت ان کی ذمہ داری۔ ان کی خاموشی کیا کہہ رہی ہے؟
 

خرم

محفلین
کٹھ پتلی نہیں بلکہ یہ کہ وہ اس وقت بھی اپنے "ہارڈ لائنر" ووٹ‌بچانے کی فکر میں ہیں۔ ابھی بھی یاروں کو ان سے توقعات ہیں۔
 

گوہر

محفلین
لاہور بم دھماکہ

تحرےر: محمد الطاف گوہر

کبھی کبھی حالات و واقعات بھی انسان کو اتنا بے بس کر دیتے ہیں کہ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا اور جب کبھی بے سرو سامانی کا یہ عالم دیکھنے کو ملتا ہے تو رگِ جان تک سنسنی دوڑ جاتی ہے ۔ہربا شعور انسان کبھی بھی بے یقینی اورجمود کی کیفیت کو اپنے اوپر طاری نہیں رہنے دیتا مگر توقعا ت صرف دوسروں پہ لگا کر معاملات سے پہلو تہی کی جائے تو کبھی نہ کبھی حالات آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے تک لے آتے ہیں اور حالات کا ریلہ بہا کر لیجائے تو پھرباشعوری کیسی ؟
میں ابھی اپنے دفتر میں آکر بیٹھے ہی تھا کہ اچانک ایک بجلی سی کوند گئی اور اندھیرا ہو گیا ۔میرے دفتر کے سامنے والا شےشہ کا دروازہ دو ٹکڑے ہو کر لہرانے لگا جبکہ ہر طرف دھند ہی دھند اور گرد کے بادل چھا رہے تھے اس سرعت کے ساتھ واقعہ ہوا کہ صرف میںیہی سوجھ ہوئی کہ فوراً بلڈنگ سے باہر نکلا جائے ۔ لہذا تمام لوگوں کو جوکہ دفتر میں موجود تھے اور انکی ہوائیاں سی اڑی ہوئی تھیں انکو لیکر کمروںسے باہر نکل آئے ۔ہر طرف بے سرو سامانی کا عالم تھا۔بچے رو رہے تھے جبکہ خواتین کا عالم بھی کچھ یہی تھا۔مر دحضرات جنکی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور بے سرو سامانی کے عالم میںبھاگ رہے تھے۔کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اچانک کیا ہو گیا ہے اب صرف دو باتوںکا امکان تھا یا تو زلزلہ آےا ہے یا پھر کوئی بم دھماکہ ہوا ہے ۔باہر سڑک پہ آنے سے پتہ چلا کہ ایک طرف دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیںجبکہ ہماری بلڈنگ کے سامنے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طالبات سہمی ہوئیں گیٹ اور سڑک کے اطراف میں موجود تھیں جبکہ اسی سڑک پر لوگوں کا جم غفیر تھا اور ہر ایک حواس باختہ ایک دوسرے سے یہی پوچھ رہا تھا کہ بتاﺅ کیا ہوا ؟
یہاں اس عالم ِپریشانی میں قیاس آرائیاں یہیں تھیںکہ کہیںقریب ہی یا پھر مال روڈ پر یہ سانحہ پیش آےا ہوگا۔دریں اثناءفائرنگ کی آواز سنائی دی اور لوگوںمیں پھر افرا تفری پھیل گئی ۔جبکہ لوگوںکے فق چہرے پیلے پڑ چکے تھے اور ایک قطعی سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے کہ آےا ہم اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ۔بہرحال ہمت کر کے میں فوراً جائے حادثہ پر پہنچا وہاں پر ایک حشر برپا تھا ،ریسکیو 15 کی بلڈنگ جو کہ کوئنز روڈ پر واقع ہے مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی اور اس سے ملحقہ عمارات بھی شدید متاثر ہوئیں تھیں ۔اب الارم بجاتی گاڑیاں جمع ہونی شروع ہو گئیں اور ریسکیو 15 کی تباہ شدہ بلڈنگ کے ملبے تلے دبے لوگوں کی تلاش شروع کر دی گئی تھی۔جبکہ ملحقہ عمارات کے دووازے اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے کے باعث بہت سے راہ گزر بری طرح زخمی ہو چکے تھے ۔اور وہاں جمع لوگوں نے زخمیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت نزدیک گنگا رام ہسپتال کے ایمر جنسی تک پہنچانا شروع کر دیا۔ریسکیو 15 کی بلڈنگ کے ملبے تلے سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کاکام بھی شروع ہو چکا تھااور ساتھ ساتھ موقع پر موجود ایمبولینس مثاثرین کو نزدیکی ہسپتالوںمیں پہنچا رہیں تھیں ۔
اس موت کے منظر کو دیکھنے کے لیے واقعی جگرہ چاہیے تھا جو کہ اب ہر فرد کے پاس ہونا چاہیے کیونکہ اب مزید کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے جان نہیں چھڑائی جاسکتی ۔ایک بات سب لوگوں کی زبان پر تھی کہ لاہور کے مرکزمیں اتنی محفوظ جگہ پر اور وہ بھی ریسکیو15 جیسے ادارے بھی حملہ سے محفوظ نہیں تو ہم اپنے آپ کو کہاں تک محفوظ سمجھےں ؟ہماری حکومت نے ہمارے لیے کونسے عملی اقدامات کیے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے آ پکو محفوظ سمجھیں ۔شدید مذمت کے بیان جاری ہوتے رہتے ہیں مگر عملی طور پر خوف وہراس کے بادل چھٹتے دکھائی نہیں دیتے ۔
اس پریشانی کے عالم میں بچے سکولوں سی جاتے نظر آئے جنکے چہرے خوفزدہ اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ رہے تھے جبکہ انہوں نے ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھام رکھا تھاکہ کہیں پھر اس دہشت ناک مرحلہ سے گزرنا نہ پڑ جائے ۔یہ دمکتے پھول جو کہ صبح سکول جاتے ہوئی چہچہاتے ہوئے اور اٹھکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں ،کملائے ہوئے لگ رہے تھے انکی خاموش نگاہیں سوالیہ نشان بنی ہوئیں تھیں کہ ہمارا کیا قصور ہے ؟ ہمیں کونسا مستقبل دے رہے ہو ؟ہمارا ملک ہمارے لیے کونسے نئے تحفے لیے ہوئے ہے ۔ان دہشتناک مناظرنے ماحول کوالمناک بنا دیا تھا۔
کیا ہم اسے ایک گنا ہ اور سہی سمجھ کر بھول جائیں ؟دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی اپنے عروج پہ ہے جبکہ عام آدمی عدم تحفظ اور بے اعتمادی کا شکا ر ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ اگر معاملات یونہی رہے تو پھر گھروں میں بیٹھے ہوئے یا پھر بستروں میں پڑے ہوئے عدم سدھار جائیں گے ۔اپنی تقدیر تو اپنے ہاتھوں میں ہے اور کس کا انتظار کر رہے ہیں کہ تحفظ دے ؟
اب سماجی روابط (Social contects)کی ضرورت ہے جوکہ ایک مکمل اور مستحکم معاشرے کی تکمیل کر سکتا ہے ۔اب بنیادی سطحوں پر عوامی حلقوں میں بیداری کی کیفیت پیدا ہو جانی چاہیے ۔اپنی مدد آپ کے تحت گلی محلوں میں نوجوانوں کو بزرگوں کی زیرِنگرانی اتحاد بنانا پڑے گا جو کہ کسی بھی وقت برے حالات سے نپٹنے کے لیے تیار ہو۔بیرونی سازشوں نے اس ملک عزیز کے ایک بڑے حصے کو عدم استحکام کی آگ میں دھکیل دیا ہے جبکہ اغیار ہمیشہ سے یہی چاہتے آئے ہیں کہ یہ متزلزل اور بے یقینی کے حالا ت کا شکار رہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمرانوں نے جو پالیساں اپنائی ہوئی ہیں آیا انہوں نے اس کے رد عمل کے لیے بھی کچھ کیا ہے یا پھرسب کچھ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔یہ ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں آےا ہم خود بے حس ہیں اور بیدا ر نہیں ہونا چاہتے یا پھر اپنے آپ کو حالات کے رحم وکرم پہ چھوڑنے کو تیار ہیں ۔اب اس قوم کے نوجوان جب تک اپنی مدد آپ کے تحت ہاتھ سے ہاتھ ملائے معاملات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اٹھ کھڑے نہےں ہو نگے تب تک حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ۔ہم سیل رواں پر بہتے ہوئے کائی کے تنکے نہیں کہ حالات کی موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ رہیں اور جانے کب کوئی انجانی موج اُڑے اور اُٹھا کر کہیں پھینک دے یا پھر حالات کے گرداب میں پھنس کے اپنا وجود کھو بیٹھیں۔
بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے

FeedBak

mrgohar@yahoo.com
 
1037.gif
 

زینب

محفلین
اللہ کرے ایک حملہ قومی اسمبلی پر ہو جائے سارے سوئے کے سوئے آگے کو سدھار جایئں ۔خس کم جہاں پاک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

خرم

محفلین
ویسے یہ بددُعا تو ہر پاکستانی دیتا ہے زینب بہنا لیکن ووٹ پھر انہی سوئے ہوئے لوگوں کو ہی دیتا ہے۔:battingeyelashes:
 
Top