لاطینی انقلاب اور امریکہ کی پریشانی

نبیل

تکنیکی معاون
لاطینی انقلاب اور امریکہ کی پریش

بی بی سی اردو کے نامہ نگار منظور اعجاز تحریر کرتے ہیں:

امریکہ کے معروف ایونجلسٹ یعنی جہادی پادری پیٹ رابرٹسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ونزویلا کے صدر ہوگو شیواز کو قتل کروا دینا چاہیے تاکہ امریکہ کو بیس ارب کی ایک اور مہنگی جنگ نہ لڑنی پڑے۔

اب تو بہت سے امریکی بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی اسامہ بن لادنوں کی کمی نہیں ہے۔

پیٹ رابرٹسن اور پادری جیری فال ویل صلیبی جہادیوں کی سرغنہ ہیں۔ درپردہ ان کا بش انتظامیہ پر ویسا ہی اثر و رسوخ ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن کا طالبان پر تھا۔

ظاہر بات ہے کہ امریکہ کی پر پیچ سیاست میں یہ تعلق افغانستان کی قبائلی سادگی کی طرح عیاں نہیں ہے لیکن بش جیتتے ان کی ہی مدد سے ہیں اور اسی لیے ان کے صلیبی جہادی بیانات کی تردید نہیں کرتے۔

پیٹ رابرٹسن کے اس بیان سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ کے جہادی اپنے معاشی اور نظریاتی مفادات کے لیے اپنے عیسائی پڑوسیوں پر بھی عراق کی طرح حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مداخلت کی بد ترین مثالیں کیتھولک مذہب کے ماننے والے لاطینی امریکہ میں ہی ملتی ہیں۔

اب بھی بش انتظامیہ شور و غوغا تو اسلامی دہشت گردی کے بارے میں مچا رہی ہے لیکن اصل انقلابی ابال اس کے پچھواڑے لاطینی امریکہ میں اٹھ رہا ہے۔

وہاں نہ صرف ونزویلا جیسے تیل سے مالا مال ملک کے صدر ہوگو شیواز کیوبا کے فیدل کاسترو کے ساتھ دوستی بڑھا رہے ہیں بلکہ اس بر اعظم کے سب سے بڑے ممالک برازیل اور ارجنٹینا میں بھی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ والی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔

امریکہ کے پڑوسی ملک میکسیکو کے اگلے انتخابات میں بھی بائیں بازو کے صدر کے جیتنے کے امکانات واضح ہیں۔ بولیویا، اکویڈور، پیرو اور کولمبیا جیسے چھوٹے ملکوں میں بھی عوامی ابھار عوام دوست حکومتوں کے قیام کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔

امریکہ کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نہ صرف اس کے مذہبی رہنما لاطینی امریکہ کے رہنماؤں کو قتل کرنے کا پرچار کر رہے ہیں بلکہ امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ بھی تھوڑے عرصے میں اس علاقے کے کئی چکر لگا چکے ہیں۔

لاطینی امریکہ میں سیاسی تبدیلی کی روح رواں ونزویلا کے صدر ہوگو شیواز ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عظیم ناول نگار گارشیا مارکیز کے افسانوی کرداروں کی طرح عوامی ہیں۔ آجکل وہ ٹی وی پر ’ہیلو پریذیڈنٹ‘ کے عنوان سے ایک لیٹ نائٹ ٹی وی شو کرتے ہیں۔اس شو کے عوامی رنگ کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں انہوں نے اپنی بحریہ کے سربراہ کو اس شو پر بلایا اور ان سے والی بال کے کھیل پر گپ شپ کرتے ہوئے اپنے دوست کیوبا کے صدر کاسترو پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم ونزویلا سے بری طرح ہار جائے گی۔

پھر انہوں ان کسانوں کو ٹی وی پر بات چیت کے لیے بلالیا جن کو انہوں نے زرعی اصلاحات کے ذریعے امیروں سے زمینیں چھین کر دی ہیں۔

صدر ہوگو شیواز اپنی عوامی انداز اور عوام دوست پروگراموں کی وجہ سے اتنے مقبول ہیں کہ ونزویلا کے حکمران طبقے اور امریکہ مل کر بھی ان کو اکھاڑ نہیں سکا۔ ان کے خلاف مظاہرے بھی ناکام ہوئے اور ان کو نکالنے کی آئینی سازشیں بھی کسی کام نہ آئیں۔

پیٹ رابرٹسن کے بیان سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ امریکی حکمران لاطینی امریکہ کے عوامی ابھار سے خائف ہیں۔امریکی وزیر دفاع دوسالوں میں چار مرتبہ اس علاقے میں جا چکے ہیں۔ وہ ونزویلا اور کیوبا پر بولیویا کے انقلابیوں کی مدد کا الزام لگا چکے ہیں۔

یہ وہی بولیویا ہے جہاں ستر کی دہائی کے مشہور انقلابی چے گویرا کو قتل کیا گیا تھا۔ بولیویا کے علاوہ اکویڈور، پیرو اور کولمبیا میں بھی ویسے انقلاب جنم لے رہے ہیں جن کو دبانے کے لیے امریکہ کو ستر کی دہائی میں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔

اس وقت امریکہ کے لیے سب سے بڑا درد سر ونزویلا ہے جہاں کے صدر ہوگوشیواز اپنی طرز کا سوشلسٹ ماڈل اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے بہت سی زمینیں جاگیرداروں سے لے کر غریب کسانوں میں تقسیم کردی ہیں۔ وہ ونزویلا کی پٹرول کی کثیر آمدنی کو غریبوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کیوبا کے فیدل کاسترو کے ساتھ قریبی اتحاد قائم کیا ہوا ہے۔ وہ کیوبا سے عوام کی صحت کا نظام بہتر بنانے کے لیے ڈاکٹر منگوا رہے ہیں اور اس کے بدلے میں کیوبا کو سستے داموں پٹرول فراہم کر رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ امریکہ کو نہ تو ہوگوشیواز کا سوشلسٹ ماڈل پسند ہے اور نہ ہی کاسترو کے ساتھ دوستی۔

ونزویلا کی طرح برازیل اور ارجنٹینا جیسے بڑے ممالک میں بھی بائیں بازو کا معاشی پروگرام اپنانے والی پارٹیاں آچکی ہیں۔ان دونوں ملکوں کی حکومتیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے پروگرام رد کرتے ہوئے قومی پالیسیاں بنا رہی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ملکوں کی حالت پہلے سے بہتر ہو رہی ہے۔ یہ ممالک اپنے فوجی ڈکٹیٹروں کو بھی کنٹرول کر چکی ہیں اور ونزویلا اور کیوبا کے ساتھ تجارتی اور دوسرے تعلقات قائم کرنے سے گریزاں نہیں ہیں۔

لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک میں اپنی اپنی طرز کا انقلابی ابھار ہے اور ہر ملک میں اپنی طرز کی نظریاتی سمت ہے۔ صدر ہوگو شیواز یسوع مسیح کے اس پیغام کے داعی ہیں جس کے مطابق ایک سوئی کی نوک سے اونٹ تو گزر سکتا ہے لیکن امیر آدمی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

وہ عیسائیت کے اس دین آزادی کو پھیلا رہے ہیں جس کی لاطینی امریکہ میں بنیاد پادری گوٹیرز نے رکھی تھی۔ اس کے بانیوں کا دعویٰ تھا کہ کیتھولک چرچ کسانوں پر جبر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے پوپ جان پال سے لے کر آج تک کیتھولک چرچ کے رہنما دین آزادی کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ لیکن یہ پھر بھی کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔

امریکہ کی پریشانی یہ ہے کہ اس وقت جب وہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں الجھا ہوا ہے، ایران اور شمالی کوریا کے جوہری پروگراموں کے مسئلے کا حل نکال نہیں پا رہا، اس کے گھر کے پچھواڑے میں انقلابی ابھار پنپ رہا ہے۔ وہ نظریات جو ستر کی دہائی میں لا طینی امریکہ میں انقلابوں کی بنیاد بن رہے تھے واپس آرہے ہیں۔

امریکہ کو خوف ہے کہ ستر کی دہائی کے یہ نظریات دوسری براعظموں تک پھیل سکتے ہیں اور ہوگو شیواز نئے چے گویرا ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے جہادی پادری ان کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
 

جہانزیب

محفلین
نبیل بھائی اس بات پر یہاں بہت بک بک ھوئی ہے اور خیر سے موصوف صدارت کے امیدوار بھی رہ چکے ہیں اور روز ٹی وی پر پوری انسانیت کے بخشے جانے کی نوید بھی سنا رہے ہوتے ہیں۔
ویسے مجھے ونیزویلا کے صدر اور وہاں کی عوام پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ کس طرح سے انہوں نے امریکہ کی وہاں مارشل لا نافذ کروانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔
 
Top