لاحاصل کی تلاش

ناعمہ عزیز

لائبریرین
انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ رب کے دیئے پر کم ہی شکر گزاری کرتا ہے۔ ہمیں یا تو کسی چیز کا احساس اس کو پانے سے پہلے ہوتا ہے یا پھر کھو دینے کے بعد۔ جب وہ چیز ہماری یا انسان ہماری دستر س میں ہوتا ہے تب ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے لئے کیا ہے؟ ہم ہمیشہ اس چیز کو پانے کہ تگ و ودود میں رہتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہوتی۔ یا جو ہمیں پر کشش لگ جائے۔۔ہمیں ہمیشہ لاحاصل کا دکھ ہی رہتا ہے۔ا ور میں اس کو خواہشات کا نام بھی دیتی ہوں۔ اگر آپ کے پاس ایک پرانی سی سائیکل ہے تو آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ضرور ہو گی کہ آپ کے نئی سائیکل ہو اور اگر آ پ اس قابل ہو جائیں
کہ آپ ایک نئی سائیکل لے سکیں تو پھر آپ ایک نئی سائیکل کی بجائے ایک پرانی موٹر سائیکل کو ترجیح دیں گے۔خواہشِ دنیا بڑھتی ہی جاتی ہے۔
شھاب نامہ میں قدرت اللہ شھاب لکھتے ہیں کہ میں ایک بزرگ کا مقولہ سنا ہے کہ دنیا کہ مثال ایک سائے کہ سی ہے ، اگر کوئی اپنے سائے کی طرف دوڑے تو وہ اس کے آگے ی آگے بھاگتا نظر آئے گا ، اور اگر سائے کو پسِ پشت ڈالے تو وہ خود اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ جو کوئی دنیا کو ترک کرتا ہے دنیا اس کا پیچھا کرتی ہے اور جو کوئی طلبِ دنیا کی
کوشش کرتا ہے اس سے للچا للچا کر دور بھاگتی ہے۔
ہر انسان زندگی میں کسی نا کسی لاحاصل کو پانے میں سر گرداں رہتا ہے کوئی لاحاصل رشتوں کو ، کوئی لاحاصل امیدوں کو، کوئی لاحاصل خواہشات کو تو کسی کی زندگی کا مقصد لاحاصل عشق کی تلاش ہے۔
عشق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ساری لذت طلب میں ہوتی ہے حصول تو اک بے جان کیفیت کا نام ہے۔ اور انسان عشق مجازیِ سے عشقِ حقیقی کی طرف تب سفر کرتا ہے جب عشق لاحاصل رہتا ہے انسان جھولی بھر بھر کے محبت کرتا رہے اور خالی دل ۔ خالی ہاتھ رہے۔
خواہشات کو اپنے اوپر اس قدر حاوی نہیں کر لینا چاہئے کہ وہ بھوت بن کر ہمارے سر پر سوار ہو جائیں۔لاحاصل کو پانے کی کوشش کرنی چاہئے مگر جو دسترس میں ہو
اس کی قدر کرنی چاہئے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
 
Top