اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

خرم بھائی ، آپ نے چار بار ٹیگ کیا ہے ، یہ لیجیے :

IbW-0095.gif
IbW-0096.gif
IbW-0097.gif
IbW-0098.gif
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم بھائی ، آپ نے چار بار ٹیگ کیا ہے ، یہ لیجیے :

IbW-0095.gif
IbW-0096.gif
IbW-0097.gif
IbW-0098.gif
حجتہ الاسلام: نعوذباللہ من ذلک۔ کیا تمہارے برے عقائد ہیں! تو تم حقیقت میں اس بات کے منتظر ہو کہ انسان کچھ دنوں میں معاذ اللہ، خدا ہونے والا ہے۔​
ابن الوقت: دہریے تو کہتے ہیں خدا کو کس نے دیکھا ہے؟ یہ بھی لوگوں کا ایک خیال ہے۔​
حجتہ السلام: لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ خدا کو دیکھا نہیں تو اس سے لازم آگیا کہ خدا ہی نہیں۔ ہم نے روح کو بھی نہیں دیکھا اور نہیں دیکھ سکتے توروح کے ہونے سے بھی انکار کرو۔​
ابن الوقت" واہ واہ تعریف الجمول بالجمول! وہ روح کو کب مانتے ہیں۔​
حجتہ السلام: تمام فلاسفہ کا اجماع ہے کہ آدمی کو اپنی ذات کا علم حضوری اور بد ییلت اولیں میں سے ہے۔ ہر شخص اپنے تیئں لفظ "میں" سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے میرا دل، میرا دماغ، میرا جس یعنی ہر شخص کو جسم کے علاوہ اپنی ہستی کا اذعان ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور ثبوت کی بھی ضرورت ہے اور اگر تمہارے نزدیک ہے تو تم کو خبط ہے اور تم قابل خطاب نہیں مگر مسلمان ہونے کا دعوی کر کے اسلام کو کیوں بد نام کرتے ہو اور لوگوں کوک یوں دھوکے میں ڈالتے ہو؟ یہ سچ ہے کہ مجامع میں،تحریرات میں تم اسلام کے نام سے فخر اور اس کی مدح و حمایت کرتے ہو مگر و اسلام ادعائی اسلام ہے جس کو صرف امتیاز قوی کہنا چاہیے۔ تم جیسے ڈھل مل یقین چند مسلمان میں نے اور بھی دیکھے ہیں۔ ان کو بھی اسی طرح کے شکوک عارض ہوئے۔ لامذہبوں اور دہریوں اور عیسائیوں، غرض اسلام کے مخالفوں سے کچھ اعتراض سن پائے، جواب سوجھے نہیں یا سوجھے اور تسکین نہیں ہوئی، اہون سمجھ کر یہ شیوہ اختیار کر لیا کہ لگے اسلام ہی کے اصول میں تاویلات کرنے۔ وہ اپنے پندار میں اسلام کی تائید کرتے ہیں مگر حقیقت میں اسلام کو کسی مخالف سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا ان کی تاویلات سے۔ انہوں نے حدیث کو تو یہ کہہ کر الگ کیا کہ پیغمبر صاحب کے ڈیڑھ سو برس بعد اس کی تدوین شروع ہوئی۔ رہ گیا قرآن اس کو مارے تاویلات کے مسخ کر دیا۔​
فصل بست و چہارم​
حجت الاسلام شہر میں جا رہے ہیں​
حجتہ السلام: لو صاحب مجھ کو اجازت دو، مجھے شہر جانا ہے۔​
ابن الوقت: کیا آپ میرے ستھ کھانا کھانا یا میرے بنگلے میں رہنا خلافِ اسلام سمجھتے ہیں؟​
حجتہ السلام: بس مذہبی چھیڑ چھاڑ رہنے دو۔ مذہب ایسی چیز نہیں ہے کہ مباحثے اور مناظرے سے کسی کے دل میں اتار دیا جائے بلکہ "ذلک فضل اللہ ہو تیہ من یشاء۔" خداوند تعالی خاص طبعیتیں پیدا کرتا ہے جو مذہبی باتوں سے متاثر اور اس کو قبول کرلیتی ہیں۔​
ابن الوقت: پھر آپ جبریوں کی سی باتیں لائے۔ اگر خدا خاص طبائع مناسبِ مذہب پیدا کرتا ہے تو پھر مواخذہ کیوں ہے؟​
حجتہ السلام: موخذہ بقدر مناسب "لایکلف اللہ نفساالا ماآتہا۔" یہ کہہ کر حجتہ الاسلام اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ ابن الوقت بھی اٹھا اور کہنے لگا: " کیا واقع میں آپ میرے پاس نہیں رہنا چاہتے؟​
حجتہ السلام: نہیں بھائی نہیں۔​
228​
ابن الوقت: آخر کچھ سبب تو بتائیے۔​
حجتہ السلام: بات یہ ہے کہ میرے یہاں ٹھہرنے سے تم کو بھی تکلیف ہوگی اور مجھ کو آسائش نہیں ملے گی۔​
ابن الوقت: آپ میری تکلیف کا خیال کیجئے نہیں اور آپ اپنی آسائش کے لیے بے تکلف جس طرح کہئے انتظام کر دیاجائے۔​
حجتہ السلام: تم کس کس بات کا انتظام کروگے۔ اول تو میری نماز ہی کا ٹھکانا نہیں۔ جس کمرے میں جاؤ تصویر، بنگلہ کیا ہے خاص بت خانہ ہے۔ پھر تم نے کتے اس کثرت سے پال رکھے ہیں کہ ازان تک دینے کا حکم نہیں اور جب تک مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھوں، میرا جی نہین خوش ہوتا۔ میں نے اترتے کے ساتھ ہی پہلے تمام بنگے کو اندر باہر سے بالتفصیل دیکھ لیا ہے۔ تم سمجھو تو میں ایک دن بھی ایسے مکان میں گزرنہیں کرستا۔ مجھ کسی طرح کا سبیتا دیکھائی نہیں دیتا۔​
ابن الوقت: اچھا تو کھانا کھا کر جائیے۔​
حجتہ السلام: بس کھانے سے بھی معاف ہی رکھو۔ میں آپ کے باورچی اور کھانے کا سب حال سن چکا ہوں۔​
ابن الوقت: کیا ہمارا باورچی میلے کچیلے، غلچے، بٹھیاروں سے بھی گیا گزرا ہوا؟ آپ کھانے کی میز کو ایک نظر دیکھیے تو سہی۔​
حجتہ السلام: بھائی جن! ظاہری صفائی تو بلاشبہ تمہارے کھانے میں بہت ہوگی۔ میں نے تم کونہیں دیکھا تو بارہا انگریزوں کو کھاتے ہوئے دیکھا ہے مگر مجھ کو تمہارے باورچی کی نسبت شبہ ہے۔​
ابن الوقت: بے شک مجھ کو معلوم ہے کہ وہ سب کچھ کھاتا پیتا ہے مگر ہمارے کھانے میں کوئی چیز ایسی نہین ہوتی کہ آپ اس سے احتراز کریں۔​
حجتہ السلام: ارے میاں کیا کہتے ہو۔ میں نے خود تمہارے یہاں ایک الماری میں شراب رکھی دیکھی ہے۔​
ابن الوقت: وہ صاحب لوگوں کے واسطے ہے۔ میں کبھی شراب نہیں پیتا اور اگر پیوں تو ہلاک ہو جاؤں۔ میرا پھیپھٹا اس قابل نہیں۔​
حجتہ السلام: جب خود تمہارے پاس شراب کا ذخیرہ ہے اور صاحب لوگ وں کو پلاتے ہو اور تمہارا باورچی بھی کسی چیز سے احتراز نہیں رکھتا تو مجھ کو تمہارے کھانے کی طرف سے اطمینان نہین۔​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین

ابن الوقت: بوائے!​
ملازم: یس سر۔​
ابن الوقت: کک کو بلاؤ۔​
کک خاضر ہوا تو ابن الوقت نے پوچھا" آج کھانے میں کیا کیا ہے؟​
باورچی: سوپ، مٹن چاپ، کٹ لس، آسٹن( آکس ٹنگ) ، بیل ریس (بوائل ریس)، پڈنگ۔​
ابن الوقت" ان چیزوں میں کس میں شراب پڑتی ہے؟​
باورچی: کسی میں نہیں مگر پڈنگ میں خمیر کے لئے شراب کا بھپارا دینا ہوتا ہے۔​
ابن الوقت: پڈنگ نشہ لاتا ہے؟​
باورچی: ذرہ نہیں۔ باورچی رخصت۔​
حجتہ الاسلام: آپ نے دیکھا۔​
ابن الوقت: کیا دیکھا؟ آپ کے سامنے باورچی کہہ نہیں گیا کہ پڈنگ نشہ نہیں لاتا۔ اسلام میں شراب کے حرام ہونے کی اصل وجہ نشہ ہے۔ جب نشہ نہیں تو پھر کیا حرج ہے اور اگر آپ کے نزدیک حرج ہے تو آپ پڈنگ نہ کھائیے۔​
حجتہ السلام: مجھ پر خدانخواستہ ایسی کیا مصیبت پڑی ہے کہ اپنے گھر کا رزق طیب، لذیذ چھوڑ کا تمہارا پھیکا، مشتبہ بسا ہندا کھانا کھاؤں۔​
ابن الوقت: یہ بلا کی توگرمی پڑ رہی ہے، آپ شہر میں جا کر بے فائدہ اپنی تندرستی کو خطرےمیں ڈالتے ہیں۔​
حجتہ السلام: میری زندگی ایسی کونسی انوکھی زندگی ہے۔ آخر اتنا بڑا غدار شہر بستا ہے اور جو سب کا حال وہ میرا حال۔​
ابن الوقت: آخر پھر ملاقات کی کیا صورت ہوگی؟​
حجتہ الاسلام" تم تو میرے پاس آنے کا قصد مت کرنا۔ کیونکہ تمہارے دل میں آب و ہوا والے شہر کا پہلے ہی سے ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ کل ہے جمعہ ، مجھ کو فرصت ہونے کی نہین۔ پرسوں لوگوں سے ملنا ملانا ہوگا۔ انشاءاللہ اتوار کو دس بچے ساڑھے د بجے میں خود آؤں گا۔ اگر کوئی وجہ مانع نہ ہو، ذری اپنے داروغہ کو کل بعد مغرب میرے پاس بھیجنا۔ میں اس سے یہاں کے انگریزوں کے کچھ حالات دریاف کروں گا ور تمہارے بھی۔​
فصل بست و پنجم​
حجت الاسلام ساس سے ابن الوقت کے پاس ٹھہرنے​
کا عذر کرتے ہیں​
حجتہ الاسلام کے بے وقت گھر پہنچنے سے سب کو حیرت ہوئی۔ لوگ اس خیال سے کہ ابن الوقت کے پاس ٹھہریں گے کھاپی کر سو سلا رہے تھے۔ جوں اس نے گھر میں قدم رکھا ساس کو کہتے سنا کہ اے ہے۔ اگر کھانا بھی کھا کرن ہیں آئے تو اتنی رات گئے اب کیا ہواگا؟ خاگینہ بن سکتا ہے لیکن اس بلا کی گرمی پڑ رہی ہے اور راستے کی حرارت الگ، انڈے گرم آگ ، نوج کوئی کھائے، سویاں بنی ہوئی تیار ہیں رومالی میں اور بھننے میں بھی کسر نہیں رہی مگر آخر ہے تو میدا، حاشاللہ میں تو نہیں دوں گئی، کھچڑی پیاس بہت لگائے گی۔ اتنے میں تو داماد نے سامنے آکر سلام کے بعد چھوٹتے کے ساتھ ہی کہا کہ اماں جان بڑی زور کی بھوک لگ رہی ہے۔ بارے کچھ شامی کباب فیرنی کے خونچے بچوں کے لئے لگارکھے تھے، ٹوکری میں کچھ نان خطائیاں بچ گئی تھیں۔ سیب کا مریہ، اچار، گھر میں تھا۔ جلدی سے ماما نے توا رکھ پتلے پتلے دو تین پراٹھے پکادیے۔ غرض ایسے ناوقت بھی بات کی بات میں جو کھانا مہیا ہوگیا، ابن الوقت کے یہاں اہتمام سے بھی میسرن ہیں ہوتا۔ جتنی دیر داماد کھانا کھاتا رہا ساس پاس بیٹھی باتیں کیاکیں:"کیوں بیٹا راستے میں ایسی کہاں دیر لگی کہ تم کو یہ وقت ہوگیا؟ میں تو سمجھی تھی کہ تم کچھ دن رہے سے بھائی کے پاس پہنچ گئے ہوگے۔"​
داماد: واقع میں، میں نے عصر کی نماز بھائی کی کوٹھی پر پڑھی اورمیرا ارادہ ان ہی کے پاس ٹھہرنے کا تھا۔​
ساس:" پھر ایسی کیا بات ہوئی کہ تم اتنی رات گئے چل کھڑے ہوئے؟​
داماد: اگر مجھ کو بھائی کے پاس ذری سیب بھی آسائش کی توقع ہوتی تو میں ہر گز نہ آتا اور یوں سمجھتا کہ سرائے میں نہ ٹھہرا ان ہی کے یہاں ٹھہرا سہی مگر وہاں تو مسلمان کے کھڑے ہونے تک کا ٹھکانا نہیں، ٹھہرنا اور رہنا تو دوکنار۔ عصر اور مغرب دو وقت کی نماز میں نے وہاں پڑھی، میرے دل کو تسلی نہیں کہ نماز ہوئی ہے۔ اب عشاء کے ساتھ دونوں کا اعادہ کروں گا۔ آدھ کوس کے گردے میں تو وہاں کہیں مسجد کا پتا نہیں۔ جماعت تو یوں گئی گزری ہوئی۔ بنگلے میں مارے تصویروں کے اتنی جگہ نہیں ایک کونے میں کوئی ایک شخص کھڑا ہو کر دو رکعت پڑھ لے۔ ناچار بر آمدے میں نماز پڑھی تو کسی مصیبت سے کہ کتے اوپر چلے آتے ہیں۔ دو تین کتے تو ایسے خونخوار اور ہیبت ناک تھے کہ اگر بھائی عین وقت پر نہ آن پہنچیں تو ضرور لپک کر میرا ٹینٹوالیں۔​
ساس: دور پار ، تمہارے دشمنوں کا۔ پھر یہ لوگ مجھ سے کیا آ آ کر کہتے تھے کہ دشمنوں نے مارے جان کے بدنام کر رکھا ہے، جو ان کو بے دین کہے وہ خود بے دین۔​
داماد: شروع میں نام لے کر تو کسی نے بھی کافر کہنے کا حکم نہیں اور بھائی ابن الوقت تو اپنے تیئں چوری چھپے بھی نہیں کھلے خزانے پکار پکار کر مسلمان کہتے ہیں اور مسلمان ہیں بھی مگر ان کا رہنا سہنا کھانا پینا، سب کچھ انگریزوں کا سا ہے، سر موفرق نہیں۔​
ساس: اے ہے غدر کے دنوں میں کچھ ایسی گھڑی کا پیرا اس موئے فرنگی کا آیا تھا کہ بچے کی مت پھیردی۔ ہم سے تو ایسا چھپایا ایسا چھپایا کہ دن کو گورے شہر میں گھسے اور رات کو ہم نے جانا کہ سارے غدر ہمارے گھر میں فرنگی چھپا رہا۔ جس وقت فرنگی کو لائے تھے اگر ذرا بھی مجھ کو معلوم ہو تو میں اس کو کھڑا پانی نہ پینے دوں۔ خدا جانے کمبخت کہاں سے سے ہمارے گھر آمرا تھا۔ نہ آتا تو بچہ ہاتھ سے جاتا۔ آخر میرا صبر پڑا ہی پڑا۔ کسی کی آہ کا لینا اچھا نہیں ہوتا۔ خدا نے اس کے پیچھے ایسا روگ لگایا کہ سارے سارے دن اٹوانٹی کھٹوانٹی لئے پڑا رہتا تھا۔ آخر کو جاتے ہی بن پڑی۔ کالا منہ، خدا کرے پھر آنا نصیب نہ ہو۔​
داماد: آپ اس انگریز کو ناحق کوستی ہیں۔ اس نے تو اتنا بڑا بھاری سلوک اس خاندان کے ساتھ کیا ہے کہ جس کی انتہاء نہیں۔ وہ اگر اس گھر میں آ کر نہ رہا ہوتا تو آج ساری عورتیں رانڈ ہو تیں ، تمام بچے یتیم ، محلے میں گدھوں کا ہل پھرگیا ہوتا، مال و اسباب کے نام کسی کو ایک پھوٹی کوڑی نہ ملتی۔ بھائی ابن الوقت کوئی دھود پیتے بچے تھے کہ بہکائے میں آگئے۔ پڑھے لکھے ، لائق، ہوشیار، ایک دم سے ڈپٹی کلکٹر کردئے گئے اور ڈپٹی کلکٹری کو ایسا سنبھالا کہ آج ڈپٹی کلکڑوں میں کوئی ان کا مدمقابل نہیں۔ ایسے شخص کو کون بہکاسکتا ہے اور وہ کویں کسی کے بہکائے میں آنے لگا ۔ وہ چاہے تو آپ ہزاروں کو بہکا کر چھوڑدے اور پھر کیا بہکائے میں آگئے؟ کرسٹان ہوگئے؟ انگریزوں کے مذہب کو تو اب ایسا لتاڑتے اور لتھیڑتے ہیں کہ ان ہی کا جی جانتا ہوگا۔ انگریز ان کو کیا بہکاتے وہ تو الٹے ان کی اس وضع سے جلتے اور خار کھاتے ہیں اور سارا جھگڑا تو اسی بات کا ہے۔ آج وہ ہندوستانی بن کر رہیں، صاحب کلکٹر سے صفائی کرادینے کا میرا ذمہ۔​
ساس: پھر بیٹا تم ہی بھائی کو کچھ سمجھاؤ۔​
داماد: میں تو ہزار دفعہ سمجھاؤں مگر کوئی سمجھنے والا بھی ہے؟ یہ جو صورت پیش آئی اس کا تو کسی کو خیال بھی نہ تھا مگر ہاں ، بھائی ابن الوقت کی غیر معمولی ذہانت اور بلند نظری دیکھ کر مجھ اچھی طرح سے یاد ہے بڑے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اس لڑکے کی حالت خطرناک ہے، یہ بڑا ہو کر نہیں معلوم کیا کرے گا!​
ساس : "ابن صاحب مجھ سےکہہ گئے ہیں کہ وہ فرنگی ان کی ہوشیاری دیکھ کر لٹو ہوگیا تھا ور وہی ان کو اکسا کر لے گیا۔ اگر یہ ساتھ نہ دیں تو فرنگیوں کے لیے دلی کبھی نہ لی جائے۔ پھر میں یہی کہوں گی اس فرنگی نے میرے بچے کو کچھ کر دیا۔ خدا اس کو کھودے۔​
داماد: ایک دم سے ڈپٹی کلکٹر کر دیا، جاگیردار کر دیا۔​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ساس: نہیں بیٹال کچھ جادو کر دیا۔​
یہ سن کر حجتہ الاسلام ہنسنے لگا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے انگریز بالکل جادوکے قائل نہیں۔​
ساس : کیا جانیں بھائی ، سنتے ہیں کہ فرنگی بڑے جادو گیر ہوتے ہیں۔ جادو کے زور سے سارے ملک لیتے چلے جاتے ہیں اور ان کو ایسا جادو آتا ہے کہ پل میں ہزاروں کوس کی خبر منگوالیں۔​
داماد: "وہ عقل کا جادو ہے۔​
ساس : اچھا تم ان کی بادشاہ زادی کو لکھو۔​
داماد: کیا؟​
ساس: یہی کہ تمہارے فرنگیوں نے ایسا ظلم کر ریکھا ہے کہ ہمارے آدمی کو بہکا کر فرنگی بنا لیا ہے۔ اگر وہ سچ مچ کی بادشاہ زادی ہے تو ضرور ہماری فریاد لے گی لیکن بعضے آدمی کہتے ہیں بادشاہ زادی کو مت لکھواؤ کمپنی کو لکھواؤ۔ کمپنی اس کی بیٹی ہے اور بادشاہ زادی نے یہ ملک بیٹی کے جہز میں دے ڈالا ہے، اب کمپنی کا حکم چلتا ہے۔ سو تم کو تواصل حال معلوم ہوگا۔ کسی ایسے کو لکھو کہ بس دیکھتے کے ساتھ ہی حکم کر دے۔ بھلا کہیں خدا کی خدائی میں ایسا بھی اندھیرہوا ہے کہ آپ ہی تو فرنگیوں نے بلایا اپنے میں ملایا اور دوسرا فرنگی ایسا ظالم آیا کہ آتے کے ساتھ لگا دشمنی کرنے۔ دیکھنا ، تم بادشاہ زادی کو یہ ساری باتیں لکھوانا، بھولنا مت۔ ذرا یہاں کے فرنگیوں کی بھی تو حقیقت کھلے کہ کسی بھلے آدمی کو دھوکا دینا ایسا ہوتا ہے۔ بادشاہی کیا گئی سارے فرنگی بے سرے ہوگئے۔​
داماد: جو تدبیر کرنے کی ہوگی، بھائی ابن الوقت کب اس سے غافل ہوں گے اور ان سے بہتر سوجھے گی بھی کس کو۔ آپ تو صرف خدا کی بارگاہ میں دعا کرتی رہیے، ہزار تدبیروں کی ایک تدبیر تو یہ ہے۔ بھائی کے ذمے کوئی الزام نہیں۔ رشوت وہ نہیں لیتے، کام چور وہ نہین، نالائق نہیں۔ کلکٹر نہیں، کلکٹر کا باوا بھی ہو تو ان کا کچھ نہیں کر سکتا۔ سارا فساد صرف انگریزی وضع کا ہے۔ خڈا مقلب القلوب ہے، وہی ان کے دل کو پھیرے تو پھیرے​
فصل بست و ششم​
حجتہ الاسلام نے صاحب کلٹر مسٹر شارپ سے​
ابن الوقت کی صفائی کرادی​
حجتہ الاسلام جب اپنے ضلع سے چلنے لگا تو اس کو اس بات کا خیال آیا تھا کہ ایسے وقت میرے جانے سے خواہی نہ خواہی لوگ سمجھیں گے کہ بھائی کی مدد کو آئے ہیں، مگر میں کسی قابل ہوں اور ان کی کیا مدد کر سکوں گا۔ بارہ دری کے لئے انہوں نے لکھا ہے سو نہ تو اس کو خریدنے کا مجھ کو مقدور ہے اور نہ میں اتنے بڑے مکان میں رہ سکتا ہوں۔ اس مکان میں رہنے کو چاہئے امیری ٹھاٹھ۔ ساری عمر رہا پردیس، ادھر کے حکام میں کسی سے معرفت نہیں، ملاقات نہیں۔ جاتا ہوں تو میرے جانے سے ان کا کچھ مطلب نہیں نکلتا اور نہیں جاتا تو مروت تقاضا نہیں کرتی۔ خیر خدا ہی آبرو رکھنے والا ہے۔ وہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔ عجیب نہیں غیب سے کوئی سامان ہو اور خدا مجھ کو بھائی ابن الوقت کی کار برداری کا ذریعہ ٹھہرائے۔ اپنے صاحب کلکٹر سے رخصت ہونے گیا تو انہوں نے پوچھا آپ ساری رخصت دلی میں صرف کریں گے یا کہیں اور بھی جانے کا ارادہ ہے؟​
حجتہ الاسلام: آپ کو معلوم ہے کہ میں حج کے بعد بمبئی سے کلکتے ہو کر یہاں چلا آیا​
 

ذیشان ابن حیدر

لائبریرین

(ص۔214)
سبھی تو ڈانٹتے اور دھمکاتے تھے، مگر کتے سرکار کے منہ لگے ہوئے، ایک نہ مانی اور سب کے سب نرغہ کر کے چڑھ آئے۔ ہر چند حجتہ الاسلام کو ہر حالت کے مناسب نماز کا قاعدہ معلوم تھا مگر یہ حالت ہی انوکھی تھی۔ اللہ اکبر تو وہ کہہ گزرا، اگر کہیں ایک لفظ بھی اس کے منہ سے اور نکلے تو کتے ضرور اس کا ٹینٹوا لیں۔ بارے اتنے میں ابن الوقت آ پہنچا۔ گھوڑے کی ٹاپ کی آہٹ پا کر کتے اس کی طرف لپکے اور ادھر حجتہ الاسلام نے کڑک کر اپنی اذان اور نماز تمام کی۔ نماز کے بعد دونوں بھائی ملے تو ابن الوقت نے کہا: ‘‘بنگلے کو تو آپ دیکھ چکے ہیں، اب اپنی آسائش کے موافق اسباب کے جہاں تہاں رکھنے کا حکم دیجئے اور تمام بنگلے اور تصرف کیجئے۔ افسوس ہے کہ کمرے کم ہیں اور چھوٹے ہیں لیکن میں نوبل صاحب کی کوٹھی میں بھی چلا جا سکتا ہوں۔’’​
(ص۔215)
فصل بست و سوم
حجتہ الاسلام اور ابن الوقت کی ملاقات اور
مذہبی گفتگو کی ابتدا، بحث اسباب
حجتہ الاسلام: میں نے جس وقت دہلی آنے کا ارادہ کیا اسی وقت یہ بات بھی دل میں ٹھہرا لی تھی کہ تمہارے ہی پاس ٹھہروں گا، چنانچہ تم کو لکھ بھی بھیجا تھا۔ اب اگر تم دوسری کوٹھی میں چلے گئے تو میرا یہاں ٹھہرنا بھی بے لطف ہے۔​
ابن الوقت: لیکن تنگی کے ساتھ رہنے میں اس سے زیادہ بے لطفی ہو گی۔ میں بھی بہ مجبوری اس بنگلے میں پڑا ہوں۔ اس کی ساخت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنگلہ رہنے کے لئے نہیں بنایا گیا بلکہ شاید کسی خاص طرح کا آفس یا گودام رہا ہو گا۔ میں شروع سے چھاؤنی میں رہتا تھا۔ وہ بنگلہ اس قدر وسیع تھا کہ کبھی کبھی چار چار صاحب لوگ بھی میرے یہاں مہمان رہے ہیں، اتنا بھی تو معلوم نہیں ہوا کہ کدھر پڑے ہیں، مدت کے قیام میں اس کو میں نے اپنی مرضی کے مطابق درست کر لیا تھا۔ کمروں کی وسعت کے مناسب فرنیچر بہم پہنچایا تھا، بڑی محنت سے خانہ باغ آراستہ کیا تھا۔ گرمی کی وجہ سے کچھ یوں ہی سی روائت ہوا میں ہوئی، کمانڈنگ آفیسر نے ڈر کے مارے فوجی عہدہ داروں کے علاوہ جتنے لوگ چھاؤنی میں تھے، دفعتہً سب کو اٹھا دیا۔ ہر چند تلاش کیا،​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 236 اور 237)

تھا اس وقت دلی جانا نہیں ہوا۔ اب تو سیدھی دِلی جاؤں گا اور غالب ہے کہ رخصت بھر وہیں رہنا ہوگا۔ اِن شاءاللہ تعالیٰ دسویں پندرھویں عرضیہ خدمت میں بھیجتا رہوں گا۔
صاحب کلکٹر : نہیں معلوم ان دنوں دِلّی میں حاکم ضلع کون ہے؟
حجتہ الاسلام : شارپ صاحب نامی کوئی صاحب ہیں۔
صاحب کلکٹر : ولیم تھاڈور شارپ؟
حجتہ الاسلام : ڈبلیو- ٹی - تو ان کے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے ، وہی ہوں گے۔
صاحب کلکٹر : وہ تو ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف تھے؟
حجتہ الاسلام : کہیں اسی طرف سی بدل کر آئے بھی ہیں۔
صاحب کلکٹر : اگر ولیم تھیاڈور صاحب ہیں تو میرے رشتے دار ہیں۔ میری خالہ زاد بہن ان کو بیاہی ہوئی ہے مگر میم صاحب ان دنوں ولایت میں ہیں۔ اگر آپ صاحب سے ملنا چاہیں تو میں ان کے نام خط لکھ دوں؟
حجتہ الاسلام : میں صاحب کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا۔ اول تو ہمارے شہر کے حاکم ، دوسرے آپ کے رشتے دار۔
صاحب کلکٹر نے شارپ صاحب کے نام چٹھی اور اپنی تصویر حجتہ الاسلام کو دی کہ چٹھی کے ساتھ یہ تصویر بھی صاحب کو دیجئے گا۔ چٹھی میں حجتہ الاسلام کے متعلق یہ مضمون تھا کہ میں اس علاقے کے تمام ڈپٹی کلکٹروں میں ان کو دل سے پسند کرتا ہوں۔ اس طرف تمام سرکاری محکموں میں چھڑا بنگالی بابو ہیں ، گویا سرکاری خدمتوں کے ٹھیکہ دار ہیں۔ مجھ کو اس قوم سے دلی نفرت ہے۔ انگریزی پڑھ کر یہ لوگ ایسے زبان دراز اور گستاخ اور بے ادب اور شوخ ہوگئے ہیں کہ سرکاری انتظام پر بڑی سختی کے ساتھ نکتہ چینیاں کرتے ہیں۔اگر کہیں ان لوگوں میں ہندوستان کے بلند حصے کے باشندوں کی طرح دلی جرات اور دلیری بھی ہوتی تو انہوں نے انگریزی حکومت کا جُو اپنی گردنوں پر سے کبھی کا اتار کر پھینک دیا ہوتا مگر شکر ہے کہ ان کی ساری بہادری زبانی ہے۔ تاہم ان کا بڑبڑانا سخت ناگوار ہوتا ہے اور میں ہمیشہ افسوس کیا کرتا ہوں کہ میں نے ایسے خود سر ، نا احسان مند اور بددل علاقے کو کیوں اختیار کیا تھا۔

حجتہ الاسلام کی وضع کے آدمی یہاں بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اپنی پرانی وضع کو بہت مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہیں اور اس کو دل سے پسند کرتے ہیں اور بندر کی طرح نقل کرنے کو ذلیل کام جانتے ہیں اور میں ان کو اس رائے کی وجہ سے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ غدر کے دنوں میں یہ عرب میں تھے نہایت بے باکی کے ساتھ جو ہر ایک سچے مسلمان میں ہوتی ہے ، غدر کی نسبت اپنی یہ رائے ظاہر کیا کرتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی نے مسلمانوں کی بڑی دل شکنی کی۔ اس نے ہندو مسلمان کوایک نگاہ سے دیکھا اور دونوں قوموں کی حالتوں کے اختلاف پر نظر نہ کی۔ وہ کیا عمدہ ایک مثال دیتے ہیں کہ حکومت یعنی سلطنت بمنزلہ ماں کے دودھ کے ہے ، مسلمان بجائے اس بچے کے ہیں جس کا دودھ حال میں چھڑایا گیا۔ اس کو دودھ کی مزہ بہ خوبی یاد ہے اور وہ اس کے لیے پھڑکتا ہے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو ایسے ہیں جیسے دو ڈھائی برس کے بچے کے آگے سو برس کا بڈھا۔ اس نے بھی قرن گزرے ماں کا دودھ پتا تھا مگر اب کی مدت ہائے دراز سے اس کو یہ خبر نہیں کہ پھیکا تھا یا میٹھا۔ کیا اگر ایک دودھ چھٹا ہوا بچہ کھچڑی کھاتے میں منہ بناتا ہے تو اس پر سختی کی جائے گی کہ تو بڑے آدمیوں کی طرح چاؤ سے کیوں نہیں کھاتا؟

سینکڑوں برس سے ہندوؤں کے پاس نہ لٹریچر ہے اور نہ علم ان کو انگریزی کا ختیار کر لینا کیا مشکل تھا ، جیسے ایک برہنہ آدمی ایک لنگوٹی کی بھی بڑی قدر کرتا ہے لیکن مسلمان اپنی کلاسیکل لینگویج (ام الالسنہ) عربی پر واجب فخر کرتے ہیں جس کے بدون اردو اور فارسی زبانیں بالکل پھیکی معلوم ہوتی ہیں۔ لاکھوں مسلمان قرآن کی باغت پر سر دھنتے اور اس کو زبانی یاد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا لٹریچر زندہ لٹریچر ہے ، نہ سنسکرت اور لیٹن کی طرح کتابوں میں مدفون۔ ان کے علوم زمانے کے انقلاب کی وجہ سے مرجھا گئے ہیں مگر مرے نہیں۔ پس اگر مسلمان انگریزی سے کنارہ کشی کرتے رہے تو ان کے پاس کنارہ کشی کرنے کی وجہ تھی۔

حجتہ الاسلام اس بات پر بڑا زور دیتے ہیں کہ ظاہر میں انصاف اسی کا متقاضی ہے کہ ہندو مسلمانوں کے جملہ حقوق برابر سمجھے جائیں لیکن نظر غور سے دیکھا جاتا ہے تو یہ انصاف اس راجا کے انصاف سے زیادہ تعریف کا مستحق نہیں جس نے اپنے علاقے
 

میر انیس

لائبریرین

صفحہ 208
حال سے واقف نہیں' مجھی کون قصور وار ٹھرائیں گے۔ اس ڈر کے مارے کسی سے اس کا مذکور بھی نہیں کرتا۔
جان نثار: جناب وہ تو کچھ صاحب کا دانہ پانی ہی زور کر رہا تھا' بمبئی پہنچتے پہنچتے صاحب اچھے خاصے تندرست تھے۔ پھر بنگلے کے چھوٹنے اس اور صاحب کے کلکٹر کے ساتھ بگاڑنے بڑھنے اور نام بنام صاحب لوگوں کے کھینچنے کی مفصل کیفیت سن کر کہنے لگا کہ جناب میں تو شروع سے لوگوں کے تیور بدلے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وہ خدا جانے صاحب کی ایسی کیا مروت تھی' اور نری محبت بھی نہیں بلکہ دبائو کہ کسی نے کان تک نہیں ہلایا۔ میری بھی ساری عمر انگریزوں میں ہی گذری ہے' ایک ہمارے صاحب تو ذات سے فرشتہ آدمی ہیں' ایسا بشر بھی ہونا مشکل ہے اور دلی کا اتنا بڑا کسپو ہے'پس دو چار ہی اس طرح کے نیک مزاج لوگ اور ہوں گے'زیادہ نہیں ورنہ جناب بھلا کہیں یہ لوگ ہندوستانی کو پتیاتے ہیں۔میں نے خود صاحب کے منہ سے سنا ہے کہ اب اشراف انگریز ولایت سے بہت کم اترتے ہیں کوئی ذات کا بھٹیارا ہوتا ہے' کوئی موچی'کوئی درزی'کوئی بوچڑ کوئی نائی' تو وہ ذاتی اصلات کہاں جائے۔بڑا رنج کا مقام ہے کہ آپ نے ہزار ہا روپیہ ہمارے ہی ہاتھوں ان لوگوں کو چٹادیا اور وقت پر یہ لوگ طوطے کی طرح آنکھیں پھیر بیٹھے'"گدھے کا کھایا پاپ نہ پن"۔ صاحب کلکٹرکو تو ساری خلقت پکارے کہتی ہے کہ کانوں کے کچے ہیں۔ وہ آپ کو بری نظروں سے تو پہلے ہی دیکھتے تھے'ایسا ہوا ہے کہ ہمارے ہی بھائی بندوں میں سے کسی نے موقع پا کر کچھ پھونک دیا اور اب آیا ہوں تو اس کی ٹوہ لگاتا ہوں مگر یہ تو فرمائیے کہ آپ نے اس توڑ کی کیا تدبیر کی۔



ابن آلوقت:
میں نے تو کچھ بھی تدبیر نہیں کی اور کر بھی کیاسکتا تھا۔ شروع شروع میں صاحب کلکٹر سے ملنا چاہا'انھوں نے انکار کیا' چپ ہورہا۔
جان نثار:
آپ نے کسی کو بیچ ڈالا ہوتا۔
ابن الوقت:
(ذرا تیز ہوکر) کیا تمہارا یہ مطلب ہے کہ میں کسی کی خوشامد کروں کہ صاحب کلکٹر سے میری خطا معاف کروادو۔ یہ تو مجھ سے ہوتی نہیں۔ زیادتی صاحب
صفحہ 209
کلکٹر کی ہے اور ان کو معذرت کرنی چاہئے' نہ الٹی مجھ کو۔

جان نثار:
پھر تو اس سے بہتر تھاکہ آپ رخصت لے کر بیٹھے رہے ہوتے۔
ابن الوقت:
تم کیسی نادانوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ ایسے وقت اگر رخصت کی درخواست کرتا تو لوگ یہ سمجھتے کہ ضرور دال میں کچھ کالا تھا۔ دشمنوں کو موقع ملتا' صاحب کلکٹر کو حجت ہاتھ آتی اور یقیناََ بھانجی مارتے اور رخصت کو منظور نہ ہونے دیتے۔ خیر اب یہ بتائو کہ بھائی حجت الاسلام تشریف لارہے ہیں اور ہمارے پاس ٹھریں گے' ان کے لئے کیا انتظام کیا جائے؟ بنگلے میں بالکل گنجائش نہیں۔
جان نثار:یہ تو آپ نے بڑی خوش خبری سنائی۔ اب خدا نے چاہا سب کام سدھ ہوجائیں گے'گنجائش کی نسبت جو آپ نے فرمایا ہے تو وہ مولوی آدمی ہیں' ان کو ایک کمرہ بھی تو بس ہے۔ ایک کمرہ کا خالی کردینا ایسا کیا مشکل ہے۔ میں اسباب کو ٹھکانے لگادوں گا۔
ابن الوقت: میں نہیں سمجھتا کہ میں ایک کمرہ بھی انکو دے سکوں گا۔ اس وقت اس بنگلے میں آٹھ کمرے ہیں' مگر اصل میں چھ تھے۔ دو کمروں میں پارٹیشن وال(پردے کی دیوار) کھڑی کرکے دو کمرے اور پیدا کئے گئے۔ڈریسنگ روم (کپڑے پہنے کا کمرہ) بالکل نہ تھا'باتھ روم (غسل خانے) میں سے نکالنا پڑامگر ایک کمرے کے جو دو کئے گئے دونوں تنگ۔ نہیں معلوم اس بنگلے کا ایسا ڈیزائن(منصوبے کا نقشہ) کیا گیا تھاکہ ایک متنفس کی بھی تو اس میں بافراغت گذر نہیں ہوسکتی تھی۔لکھنے پڑھنے کی لئے کوئی جگہ ہی سمجھ میں نہیں آتی' ناچار اتر والے لمبے کمرے کو لائبریری(کتب خانہ) بنا کر اس کے ایک حصے کو ریڈنگ روم کرلیا۔ غرض اب تک ایک باتھ روم ہے' اس کی بغل میں ایک ڈریسنگ روم'اس کے پہلو میں ایک بیڈ روم'سر پر ریڈنگ روم'اس کے برابر لائبریری' لائبریری سے ملا ہوا بلئیرڈ روم'دکھن کے سرے والے کمرے میں پیانو اگرچہ بے موقع ہے پر کیا کیا جائے! اس پر بھی اسموکنگ کا کہیں ٹھکانہ نہیں۔ اسباب ہے کہ برامدے میں اور کچھ شاگرد پیشے کے مکانات میں بھرا پڑا ہے۔سجانے کا تو کیا مذکور ہے' رکھنے تک کی جگہ نہیں۔ ہندوستانیوں میں ایک برا دستور ہے' نہ مجھ سے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 244 اور 245)

موقع ہے؟ وہ تو وہ ، لوگ تو ہم لوگوں کے ساتھ ملنے میں بھی مضائقہ کرتے ہیں۔ میرے لڑکے کی نسبت ایک جگہ پیام تھا۔ بہت دنوں بات لگی رہی۔ طرف ثانی کو بھی دل سے منظور تھا۔ مگر آخر جواب دیا کہ ہمارے یہاں چار لڑکیاں بیاہنے کو بیٹھی ہیں ، چاروں کی تمہارے یہاں کھپت ہوسکتی تو مضائقہ نہ تھا ، ایک کی ہم تمہارے یہاں کرکے ہم کو سارے شہر میں نکو بننا پڑے گا۔ اسی سے آپ قیاس کرتے ہیں کہ ہندوستانیوں کی سوسائٹی میں ہم لوگوں کی کس قدر بے عزتی ہورہی ہے مگر کیا کریں کچھ اپنے اختیار کی بات نہیں۔ میں تو اسی غصے کے مارے دلی آتا نہ تھا لیکن بھائی ابن الوقت کی طرح وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑا نہیں جاتا۔ بھائی ابن الوقت کی والدہ تو ان کو چھوٹے سے چھوڑ کر مر گئی تھیں ، ان کو پھوپھی نے یعنی میری ساس نے پالا۔ ان کی تبدیل وضع سے پھوپھی کے دل پر جو صدمہ ہوا ہے ، بس عرض کرنے کے قابل نہیں۔ دو برس سے وہ مجھ کو بلا رہی تھی ، پر میں نے ہی آنے کی حامی نہ بھری۔ اب جو سنا کہ بھائی ابن الوقت پر قرض خواہوں کا نرغہ ہے اور بارہ دری بیچنے کو ہیں تو میں نے زیادہ بے رخی کرنا خلافِ شیوہ انسانیت سمجھا ، چلا آیا۔

شارپ : ابن الوقت صاحب اور قرض دار !
حجتہ الاسلام : قرض دار بھی ہزار دو ہزار کے نہیں ، دس ہزار سے کچھ زیادہ ہی تو گڑوالوں کا ہے۔
شارپ : ہم تو سنتے تھے کہ ابن الوقت صاحب کے پاس بڑا سرمایہ ہے ۔ ساری دولت تو بیگم صاحب کی انہوں سے سمیٹی اور تحقیقاتِ بغاوت میں بھی بہت کچھ پیدا کیا۔

حجتہ الاسلام : بھلا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ انسان کے پاس سرمایہ ہو اور وہ مہاجن کے بھیاج بھرے اور ایسے مکان کو بیچنا چاہے جو اس کے بزرگوں کی حشمت اور ثروت کی یادگار ہے۔ اور نوکری میں کچھ پیدا کیا ہوتا تو آپ کی ناخوشی اعلیٰ ادنیٰ سب کو معلوم ہے ، دینے والے کبھی کے امنڈ پڑتے۔ غرض بھائی ابن الوقت کے بارے میں آپ کو جتنی خبریں پہنچتی ہیں ان میں رتی برابر بھی تو سچ نہیں۔ شیخی باز کہہ دیا ، بالکل بے جوڑ ، مال دار بنادیا ، سرتا سر غلط ، مرتشی بنا دیا ، تمام تر بہتان۔ بھلا اور زیادہ نہیں تو گڑوالوں کا ہی بہی کھاتہ منگوا کر ایک نظر دیکھیے ، جھوٹ سچ سب آپ پر منکشف ہوجائے گا۔

شارپ : بھلا پھر ابن الوقت صاحب اس قدر بدنام کیوں ہیں؟ ہم نے تو کسی کے منہ سے ان کی بھلائی نہیں سنی۔
حجتہ الاسلام : آپ کو ہندوستانیوں کے خصائص مزاجی سے بہ خوبی آگاہی نہیں۔ ہم لوگوں میں اس طرح کا حسد ہے کہ ایک کو ایک کھائے جاتا ہے اور قاعدہ ہے کہ جب کسی قوم میں ادبار آتا ہے تو حالت کے بگڑنے سے پہلے قوم کی طبائع بگڑ جاتی ہیں۔ بھائی ابن الوقت کی حالت محسود ہونے کی ہے۔ غدر لوگوں کے حق میں عذاب تھا اور ان کے حق میں رحمت ، اوروں کے لیے مصیبت تھا ان کے لیے موجبِ فلاح و برکت۔ ہندوستانیوں کے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کیا قصور ہوگا کہ ان میں ایک شخص غدر کی تمام آفتوں سے محفوظ رہا ، سرکار نے اس کی خیر خواہی کی قدر کی ، بڑی سے بڑی خدمت دی ، جاگیردی اور حکام لگے اس کی خاطر و مدارت کرنے۔
شارپ : خیر کچھ ہی ہو ، میں تو اس کا متحملّ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ہندوستانی انگریزوں کی نقل کرے۔
حجتہ الاسلام : مجھ کو بھی بہت ہی زبون معلوم ہوتا ہے۔ بھلا ہوا کہ آپ اُدھر بنگالے میں کی طرف نہ ہوئے۔ وہاں کے لوگ تو نقل کے علاوہ چھیڑتے بلکہ چڑاتے بھی ہیں۔
شارپ : وِکٹر صاحب بھی وہاں سے بہت ناراض ہیں اور وہاں کے لوگوں کی بہت شکایت لکھتے ہیں۔

حجتہ الاسلام : انگریزی پڑھ پڑھ کر وہ لوگ ایسے بے باک ہوگئے ہیں کہ کسی عام حاکم کی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے کتنا ہی پھونک پھونک کر پاؤں رکھیے مگر وہ بدون گرفت کیے نہیں رہتے۔ قانون کی تو پوری پوری اطاعت کرتے ہیں لیکن کوئی حاکم چاہے کہ بے ضابطہ کوئی کاروائی کرے کیا مجال۔ ولایت تک اُس کے دھوئیں بکھیر کر بھی بس نہ
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 242​
جائے۔ خودداری کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جس درجے کا ہو اپنے تئیں اسی درجے کے مناسب رکھے۔ کسی کو خدا نے سواری کا مقدور دیا ہے تو ضرور ہے کہ وہ ضرورت کے وقت سواری سے کام لے۔ پھر ایک بات اور ہے کہ انگریز اور ہندوستانی دونوں قسم کے حاکم ہیں مگر آپ لوگوں کی اور ہماری حکومت میں بڑا فرق ہے۔ آپ لوگ ساری عمر ہندوستان میں رہیں پھر بھی اجنبی کے اجنبی، بر خلاف ہم لوگوں کے کہ ہم ٹھہرے اس ملک کے باشندے۔ رشتہ داری، قرابت داری، دوستی، قوم ، مذہب، راہ و رسم، طرح طرح کے تعلقات ہمارے رعایا کے ساتھ ہیں۔ پس کام میں جو آزادی آپ لوگوں کو حاصل ہیں، ہم کو خواب میں بھی میسر نہیں۔ ہم لوگوں کی حالت بڑی نازک ہے اور بھائی ابن الوقت پر تو ایک سختی اور ہے کہ اپنے ہی شہر میں ان کو کام کرنا پڑا اور کام بھی تحقیقات بغاوت کا کہ بہ حسابے کوئی متنفس اس سے بری نہیں۔ انہوں نے اپنی صفائی کی حفاظت کے لیے یا خودداری کے طور پر ملنے جلنے میں کمی سی کی ہو گی، اس کو لوگوں نے شیخی سے تعبیر کر لیا مگر یہ تو فرمائیے، آپ نے بھی ان کی کوئی شیخی کی بات دیکھی؟​
شارپ صاحب نے وہ دریا گنج کا قصہ بیان کیا۔​
حجتہ الاسلام : ہر چند وکٹر صاحب میرے حال پر حد سے زیادہ مہربانی فرماتے ہیں مگر میں ان کا ادب بھی کرتا ہوں اور نہ صرف ان کا بلکہ کل حکام انگریزی کا، کیونکہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ یہ برتری ان کو خدا نے دی ہے اور خد ا کے کلام پاک میں حاکم وقت کی اطاعت کا حکم صریح موجود ہے۔ لیکن گستاخی معاف، اگر دریا گنج کے نکڑ پر بھائی ابن الوقت کی جگہ آپ یا وکٹر صاحب مجھ کو اچانک مل گئے ہوتے تو میں بھی وہی کرتا جو بھائی ابن الوقت نے کیا اور میں یقین کرتا ہوں کہ وکٹر صاحب کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے بھی شبہ نہ گزرتا کہ میں نے گستاخی کی۔​
شارپ : ہم بھی آپ کی نسبت ایسا شبہ نہیں کرتے کیونکہ آپ ہندوستانی وضع رکھتے ہیں۔ لیکن آپ کے بھائی ہندوستانی ہو کر صاحب لوگ بننا چاہتے ہیں اور چاہے گستاخی کے ارادے سے نہ ہو مگر ہم لوگوں کو ان کی تمام باتوں پر گستاخی کا احتمال ہوتا ہے۔ ان کی وجہ سے ہم کو دوسرے ہندوستانیوں سے ملنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ یہ​
صفحہ 243​
لبا س ہمارا قومی شعار ہے اور اگر کوئی ہندوستانی ہمارے جیسے کپڑے پہنے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری نقل کرتا ہے یا ہم کو چھیڑتا یا چڑاتا ہے۔ کوئی ہندوستانی ہمارے لباس کو جس میں اس کو کسی طرح کی آسائش نہیں، بے وجہ نہیں اختیار کرے گا اور سوائے اس کے کہ اس کے دل میں ہمارے ساتھ برابری کا واعیہ ہو اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہ ساری تدبیر انگریزوں کو ذلیل اور ان کی حکومت کو ضعیف اور ان کے رعب کو بے قدر کرنے کی ہے۔ آپ لوگ بھی اپنے سے کم درجے والے کو برابری کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتے تو ہم اپنی رعیت کو جیسے ہم نے بہ زورِ شمشیر زیر کیا ہے، کیوں اپنی برابری کرنے دیں گے؟ آج کو تو ابن الوقت صاحب بنیں، کل کو ایک محرر، پھر ایک چپراسی، پھر ایک قلی، سب ہماری نقل کریں گے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم سلطنت سے دست بردار ہو کر ولایت کا راستہ لیں۔ نہیں نہیں! ایسا نہ ہوا ہے، نہ ہوگا اور چونکہ میں حاکم ضلع ہوں میرا فرض ہے کہ حکومت انگریزی کے مقابلے میں کسی کو سر نہ اٹھانے دوں۔ صدر والے اندھے ہیں، ان کو لوگوں سے واسطہ نہیں پڑتا لیکن ان کو سمجھایا جائے گا۔ صرف نوبل صاحب کے خیال سے میں نے اب تک درگزر کی لیکن اب میں دیکھتا ہوں تو سخت رپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگر اپنے بھائی کو سمجھا سکیں تو شاید ان کے حق میں بہتر ہوگا۔​
حجتہ الاسلام : میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ اس گھڑی تک مجھ سے اور بھائی ابن الوقت سے تبدیل وضع کے بارے میں تحریراً یا تقریراً کوئی بات نہیں ہوئی۔ جب اول اول انہوں نے اپنی وضع بدلی، میرے پاس دلی سے خط پر خط جانے شروع ہوئے مگر مجھ کو ابن الوقت کی طبیعت کا ابتداء سے حال معلوم تھا اور میں خوب جانتا تھا کہ یہ شخص کسی کے سمجھائے سے سمجھنے والا نہیں۔ میں نے ایک کان تو کیا بہرا اور دوسرا کیا گونگا اور خبر نہ ہوا کہ کس کو بلاتے ہیں۔ تبدیل وضع کے پیچھے ساری دنیا نے تو اس شخص کو ملامت کی، کرسٹان کہا، بے دین کہا اور اب تک کہے جاتے ہیں، برادری سے نکال دیا، کوئی اس کے ہاتھ کا چھوا پانی تھوڑا ہی پیتا ہے، کنبہ چھوٹا، رشتہ دار چھوٹے، دوست آشنا چھوٹے، غرض رسوائی اور فضیحت کا کوئی درجہ باقی نہیں رہا لیکن یہ عزیز نہ سمجھا پر نہ سمجھا۔ اب فرمائیے کہ کہنے کا کیا محل اور سمجھانے کا کونسا​
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی بھائی
میں تمام دھان پانچ پنسیری کے حساب سے بکوئے تھے۔ مسلمان اس ملک کے اصلی باشندے نہیں۔ وہ ملک کو فتح کرنے آئے اور رہ پڑے۔ انہوں نے زمینداروں پر قبضہ کرنے کا یک لمحے کے لئے بھی خیال نہیں کیا اور نہ ان کو خیال کرنے کی ضرورت تھی۔ ذرائع معاش میں سے ان دنوں نوکری زیادہ معزز سمجھی جاتی تھی اور وہ ان کی مٹھی میں تھی۔ زوال سلطنت سے معاش کا وہ ایک ذریعہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا، جب کہ ہندو دوسرے تمام ذرائع پر بدستور قابض ہیں اور پھر نوکری میں آدھے کے دعوے دار، وہ بھی کہنے کو ، کیونکہ نفس الامر مٰں ہندو تین چوتھائی سے زیادہ نوکریوں پر مسلط ہایں۔
یہ جو کچھ میں نے لکھا، اگر میں نے سمجھنے میں غلطی نہ کی ہو، حجۃ الاسلام صاحب کی شخصی رائے ہے۔ مجھ کو ان سے کسی کسی بات میں اختلاف بھی ہے لیکن اگر آپ ان کو بات کرنے کا موقع دیں گے تو آپ کوئی مضمون ایسا نہ پائیں گے کہ اس پر وہ معقول رائے نہ دے سکیں۔ وہ بڑے خوش تقریر آدمی ہیں، سننے والوں کو بہت جلد اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔
ایک بات حجۃ الاسلام صاحب نے اسی قسم کی مجھ سے اور بھی کہی تھی اور وہ بھی دل کو لکتی ہوئی سی ہے۔ وہ ہندوؤں پر اپنی قوم کو اس وجہ سے بھی ترجیح دیتے ہیں کہ مذہب اسلام سلف رسپکٹ(self respect) سکھاتا ہے یعنی انسان کو اس کی نظر میں معزز کرتا ہے۔ مسلمان اس میں انسانیت کی توہین سمجھتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے ایک کلے پر طمانچہ مارے تو عیسائی کی طرح وہ دوسرا کلہ بھی اس کے سامنے کر دے کہ لے اور مار۔ اسلام نے خدا کی توحید کو بالکل نتھار دیا ہے اور کسی طرح کا شائبہ اس میں باقی نہیں رکھا۔ مسلمان سوائے ایک خدا کے جس کو کوئی انسان دیکھ نہیں سکتا، موجودات عالم میں سے ارضی ہوں یا سماوی، کسی چیز کی عبادت یعنی اعلیٰ درجے کی تعظیم نہیں کرتا۔ حجۃ الاسلام صاحب کے بیان کے مطابق اسلام خود داری اور بے تکلفی اورسادگی اور توکل اور صبر کا مجموعہ ہے۔ لیکن ہندو بندر اور سانپ اور گائے اور پیپل اور تلسی اور آگ اور پانی اور پتھر اور چاند اور سورج ہر چیز کے آگے ماتھا ٹیکنے کو موجود ہے، جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ آدمی سب میں ادنیٰ
2.gif
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی بھائی
درجے کا مخلوق ہے اور اس کو دنیا میں ادنیٰ بن کر رہنا چاہیے۔ حجۃ الاسلام صاحب اس سے یہ نتیجہ نکالتےہیں کہ مسلمان کار فرمائی اور حکومت کے لئے بنایا گیا ہے، جس طرح ہندو کارکنی اور اطاعت کے لئے۔ وہ کہتے ہیں خوشامد اور ابتدال اور ونائت کی باتیں مسلمان سے ہو نہیں سکتیں اور اگر کوئی مسلمان کرتا ہو تو جان لینا کہ مذہب میں پکا نہیں اور سرکاری خدمتوں میں مسلمانوں کی کمی کا ان کے نزدیک ایک سبب یہ بھی ہے۔ میں تو ان کو ایسی باتوں میں اکثر چھیڑا کرتا ہوں، اس غرض سے کہ کچھ کہیں ، تو ایک دن گرم ہو کر بولے کہ مسلمان چاہے مٹ ہی کیوں نہ جائیں مگر ان ککے دل پر سے یہ بات تو نہیں مٹے گی کہ انہوں نے چھ سو برس اس ملک میں حکمرانی کی ہے۔
باایں ہمہ حجۃ الاسلام صاحب کے خیالات گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ نہایت درجے کے خیرخواہانہ ہیں اور مجھ کو کامل یقین ہے کہ اگر وہ 1857ء کے غدر میں ان اضلاع کی طرف ہوتے تو اپنے بھائی ابن الوقت کے برابر یا ان سے بڑھ کر سرکار کی خیرخواہی کا کوئی کار نمایاں کرتے۔ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے عرب میں اسلامی سلطنت کا نمونہ دیکھا ہے۔ ملک نہایت تباہی کی حالت میں ہے اور افسوس ہے کہ جس جگہ مسلمانوں کی قوم پیدا ہوئی اور جہاں ان کی سلطنت کی بنیاد پڑی اس کا یہ حال ہو کہ باوجودیکہ ہر سال بلا ناغہ لاکھوں مسلمان جاتے ہیں مگر نہ امن ہے اور نہ آسائش۔ صرف دوسرے ملکوں کے صدقات پر وہاں کے لوگوں کی گزران ہے۔وہ لوگ تنزل کے ایسے درجے میں پہنچ گئے ہیں کہ نہ صرف بدترین نمونے مسلمانوں کے ہیں بلکہ بدترین نمونے انسانوں کے۔
یہ چٹھی مسٹر شارپ کے پاس جمعے کی شام کو پہنچی۔ انہوں نے سمجھا کہ خود حجۃ الاسلام لے کر آئے ہیں اور اسی خیال سے پڑھنے کے ساتھ باہر نکل آئے مگر معلوم ہوا کہ ملاقات کے لئے وقت فرصت دریافت کیا ہے۔ جواب میں کہلا بھیجا کہ اوقات کچہری کے علاوہ جس وقت جی چاہے۔ اگلے دن ایسے کوئی پونے سات بجے ہوں گے، حجۃ الاسلام پالکی میں اترتے ہی تھے کہ شارپ صاحب ہوا خوری سے واپس آئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اٹکل سے جان لیا۔ یوں تو شارپ صاحب کا معمول تھا کہ ہوا خوری سے آئے پیچھے اچھے کامل ایک گھنٹے بعد ملاقاتیوں کی نوبت پہنچتی تھی
2.gif
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص246 اور 247)

کریں۔ اُن اضلاع میں دیسی اخبار ایسے پھیل پڑے ہیں جن کا شمار نہیں۔ جس اخبار کو کھول کر دیکھیے شروع سے آخر تک گورنمنٹ کی مذّمت ، حکام کی ہجو اور اس پر بھی بند نہیں ، ناولوں کے ذریعے سے فضیحت کریں ، تھیٹروں میں نقلیں نکالیں ، سوانگ بنا بنا کر سرِ بازار پھرائیں۔ یہاں تو کل ہی میں جامع مسجد سے نماز پڑھ کر آرہا تھا ، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک انگریز گھوڑے پر سوار چلا جا رہا ہے اور لوگ ہیں کہ دو طرفہ اس کو کھڑے ہو ہو کر سلام کرتے جاتے ہیں۔ میرے ساتھ اسی طرف کا ایک خدمت گار ہے ، وہ میرے پیچھے پیچھے تھا۔ یہ کیفیت دیکھ کر اس کو سخت حیرت ہوئی اور کسی سے پوچھا ، کیوں جی ، یہ کون صاحب ہیں جس کو لوگ اس طرح پر سلام کر رہے ہیں؟ اور جب اس نے سنا کہ یہ کوئی سڑک کا ٹھیکہ دار ہے تو اس کو اور بھی تعجب ہوا مگر پھر لوگوں نے اس کو سمجھا دیا کہ اس طرف انگریزوں کی حکومت کی یہی رنگ ہے۔ کوئی انگریز ہو اس کو سلام کرنا چاہیے اور نہ کرو تو بعضے تو ٹوک دیتے ہیں اور بعضے ٹھوک بھی دیتے ہیں۔

شارپ : پھر ان اضلاع میں حکومت کس چیز کا نام ہے؟
حجتہ الاسلام : ہمارے یہاں صرف قانونی اختیارات کے عمل میں لانے کا نام حکومت ہے۔ اس میں بھی اس قدر پتّے کو مارنا پڑتا ہے کہ بس جو کرتا ہے اسی کا جی جانتا ہے۔ آپ گھبرائیے نہیں ، اب انگریزی کا چرچا ان اطراف میں بھی بہت ہو چلا ہے ، کوئی دن کو یہ بھی بنگالہ ہوا جاتا ہے۔
شارپ : کچھ پروا کی بات نہیں۔ اُس وقت تک ہماری سروس کی میعاد تو ہوچکے گی مگر یہ تو کہئے ، آپ کو اس کا انجام کیا معلوم ہوتا ہے۔
حجتہ الاسلام : انجام کی خبر تو خدا ہی کو ہے۔ یہ باتیں بڑے لوگوں کے سوچنے کی ہیں ، کیا میں اور کیا میرے رائے۔
شارپ : بھلا پھر بھی کیا ہوا ، ہر ایک انسان رائے تو رکھتا ہے ، صحیح ہو یا غلط۔
حجتہ الاسلام : خیر ، آپ پوچھتے ہیں عرض کرتا ہوں کہ میرے نزدیک انگریزی تعلیم کا یہ نتیجہ تو ایک نہ ایک دن ضرور ہونا ہے کہ گورنمنٹ کا گنگا جمنی رنگ کہ کسی قدر انگریزی ہے اور کسی قدر ایشیائی اور جس کے لیے یوریشین کا لفظ نہایت مناسب ہے اور ہم اپنی زبان میں ایسا لفظ بنانا چاہیں تو مغلئی اور انگریزی کو ملا کر "مغریزی" کہہ سکتے ہیں ، غرض گورنمنٹ کا یہ دوغلا پن تو باقی رہتا نظر نہیں آتا۔ ہندوستان اور ولایت میں جو پرلے درجے کی مغایرت اور اجنبیت تھی ، یوماََ فیوماََ کم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے چند در چند اسباب ہیں ؛ انگریزی تعلیم ، انگریزی اور دیسی اخباروں کی کثرت ، ڈاک ، ریل ، تار ، سفر ولایت کی سہولت ، ہندوستانیوں اور انگریزوں دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی جاننے پہچاننے کا شوق۔ غرض جس قدر ہندوستانیوں کی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں اسی قدر ان کے حوصلے بڑھتے جاتے ہیں۔ انجام کار ہندوستانی ضرور خواہش کریں گے کہ ہوم گورنمنٹ اور انڈین گورنمنٹ دونوں کا ایک رنگ ہو اور ولایت میں جو حقوق رعایائے سلطانی ہونے کی حیثیت سے آپ لوگوں کے تسلیم کیے گئے ہیں اور جو اختیار آپ لوگوں کو دیئے گئے ہیں ، وہی حقوق اس ملک میں ہندوستانیوں کے تسلیم کیے جائیں اور وہی اختیار اُن کو ملیں۔

شارپ : دوخواست تو معقول ہے کیونکہ 1857ء کے غدر سے ہندوستانیوں نے اپنی وفاداری کا بڑا عمدہ ثبوت دیا ہے!
حجتہ الاسلام : غدر میں رعیت کو آپ ناحق سانتے ہیں۔ غدر سے اور رعیت سے کیا تعلق؟ غدر کیا آپ کی فوج نے۔ رعیت کیوں فوج کی ذِمہ دار ہونے لگی۔ رعیّت عبارت ہے رئیساں با اقتدار سے ، بہ حیثیت کیوں مجموعی ، زمینداروں سے ، بہ حیثیت مجموعی ، تجارت پیشوں سے ، بہ حیثیت مجموعی ، اہل حرفہ سے ، بحیثیت مجموعی ، تمام رعایا کو تو بھلا کون باغی ٹھہرا سکتا ہے ، آپ کسی ایک گروہ کا نام لیجئے کہ اس نے بہ حیثیت مجموعی تمام ملک میں بغاوت کی ہے۔ جناب بحیثیت مجموعی تو آپ کی فوج نے بھی بغاوت نہیں کی۔ بغاوت ایک جاہلانہ شورش تھی خاص خاص لوگوں کی ، خاص خاص وجوہ سے ، خاص خاص مقامات میں اور ایسی شورشیں ولایت میں بھی اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ رعایا نے بحیثیت مجموعی بغاوت کی ہوتی تو مغاذ اللہ وہ طوفان کسی کے روکے رکتا بھی؟
 
Top