اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

عائشہ عزیز

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی بھائی

IbW-0075.gif
 

ذیشان ابن حیدر

لائبریرین



(ص۔190)
صاحب کلکٹر: اوہو ابن الوقت نے اس قدر اپنی شان بڑھا رکھی ہے۔​
سر رشتہ دار: ان کے شاہانہ خرچ ہیں، ہندوستانیوں کا کیا مقدور ہے، صاحب لوگ بھی اس طرح بے دریغ نہیں خرچ کر سکتے۔ ایک ہمارے جنٹ صاحب ہیں، ڈپٹی صاحب سے چوگنی تنخواہ پاتے ہیں، دو گھوڑوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتے۔ ایک گھوڑا میم صاحب کی سواری میں رہتا ہے۔ ان کی اپنی سواری کا گھوڑا کچھ بیمار ہو گیا تھا تو اس گرمی میں پیدل کچہری آتے تھے۔​
صاحب کلکٹر: کیا ابن الوقت صاحب گھر کے بڑے امیر ہیں؟​
سر رشتہ دار: ان کا خاندان تو مسلمانوں کے پادریوں کا خاندان ہے، یہ اپنی ذات سے ایک بیگم کے مختار تھے۔ بیگم صاحب قلعے کے باہر کشمیری دروازے رہتی تھی، غدر ہوا تو حکم دیا کہ تمام مال و اسباب قلعے پہنچوا دو۔ اہتمام کرنے والے ہمارے ڈپٹی صاحب۔ سنا ہے کہ کچھ کاٹھ کباڑ تو قلعہ پہنچا، باقی انہوں نے سب یہاں اپنے ہاں ڈھلوا منگوایا۔ اتنے میں بیگم صاحب مر گئی، سارا اثاثہ جہاں کا تہاں رہ گیا۔​
صاحب کلکٹر: اگر ایسا ہوا تو بڑی نمک حرامی کی بات ہے اور میں کبھی خیال نہیں کر سکتا کہ ایسے شخص نے سچے دل سے نوبل صاحب کی جان بچائی ہو گی۔​
سر رشتہ دار: صاحب بہادر کی قسمت اچھی تھی کہ سرکار کی طرف کی کوئی لڑائی نہیں بگڑی ورنہ مسلمان کسی دوسرے مذہب کے آدمی کو دیکھ نہیں سکتے۔ انگریز تو خیر بھلا نئے آئے ہوئے ہیں، ہم ہندوؤں کو ان کے ساتھ رہتے ہوئے سینکڑوں برس ہر گئے اور اب ان کا بس چلے تو ایک ہندو کو زندہ نہ چھوڑیں۔​
صاحب کلکٹر: اگر واقع میں نوبل صاحب کی جان کو نیک ارادے سے بچایا تو اس کا یہ صلہ کچھ کم نہیں تھا کہ سرکار نے ان کی اور ان کے خاندان کی جان بخشی کی اور ان کے گھروں کو لٹنے نہیں دیا یا خیر! زمینداری تک کا بھی مضائقہ نہیں لیکن ایسے شخص کو حکومت کا ایک عہدہ دینا میرے نزدیک شاید بالکل خلافت مصلحت ہو۔ کیوں سر رشتہ دار! لوگ کیا خیال کرتے ہیں؟​
سر رشتہ دار: ڈپٹی کلکٹری تو ان سے ایک دن نہ چلتی مگر نوبل صاحب بہادر کی​
(صفحہ 191)
پرورش سے سارے کام سدھ گئے اب ذرا مشکل پڑے گی، عملہ ناراض، اہل معاملہ شاکی​
صاحب کلکٹر: لوگوں کی نا رضا مندی کا اصل سبب کیا ہے؟​
سر رشتہ دار: عملے تو سخت گیری اور بد زبانی سے ناراض ہیں اور کام بھی وقت پر نہیں نکلتا۔ اہل معاملہ دیر کی وجہ سے نالاں ہیں مہینوں لوگ پڑے جھولتے ہیں، تب بہ مشکل چھٹکارا ملتا ہے۔​
صاحب کلکٹر: معلوم ہوتا ہے کہ ابن الوقت صاحب کھیل تماشے میں بہت لگے رہتے ہیں۔​
سر رشتہ دار: یہ بھی ہے اور لوگ کچھ اور بھی کہتے ہیں۔ یہاں سے جو کوئی کبھی کاغذ طلب کیا گیا تو اکثر یہی جواب آیا کہ ڈپٹی صاحب کے نج پر ہے، ابھی حکم اخیر شاملِ مثل نہیں ہوا۔​
صاحب کلکٹر: اب ڈپٹی صاحب کے شاہانہ خرچ کے لئے کسی آمدنی کا تلاش کرنا ضروری نہیں، انہوں نے بہت کچھ کما لیا ہو گا۔​
سر رشتہ دار: اگر کمایا ہے تو پھر اتنا کمایا ہے کہ اس سے چہار چند خرچ بھی رکھیں تو اُن کو کسی طرح کی کمی نہیں۔​
صاحب کلکٹر: تعجب ہے کہ کوئی نالش کیوں نہیں دائر ہوئی!​
سر رشتہ دار: نوبل صاحب کے ڈر سے کسی نے دم نہیں مارا۔ اب دیکھا چاہیے، ڈپٹی صاحب بھی متردو تو معلوم ہوتے ہیں۔​
صاحب کلکٹر: خیر، اب کام کا کیسا انتظار کرنا ہو گا۔​
سر رشتہ دار: فدوی کے نزدیک تو مناسب یہ ہے کہ ڈپٹی صاحب کو تو صرف مثلوں کی تکمیل پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ بھی بڑا بھاری کام ہے اور باقی ماندہ مقدمات کو حضور اپنے اجلاس میں منتقل فرما لیں یا کسی حاکم ماتحت کو دے دیں۔ منشی رام سیوک صاحب کی اجلاس میں بھی کام کی کمی ہے۔ حضور کو معلوم ہے کہ منشی صاحب کیسے​
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 188
جمعدار: حضور مال کے حاکم ہوئے۔ اللہ حضور کو لاٹ کرے۔
اتنے میں ایک محرر روبکاراطلاع یابی لکھوانے کے لئے دوڑا ہوا آیا گویا بڑی خوشخبری لایا۔عملے کے تیور تو بدلے ہوئے تھے سو تھے ' چونکہ ابن الوقت میں پانی مرتا تھا' اس کا یہ حال ہوگیا تھا کہ ان کی بات بات کو چھڑ خانی سمجھتا تھا۔عجب مشکل آپڑی تھی؛اگرکوئی اس کا ادب نہ کرتا تو گستاخ اور اگر کرتا تو سمجھتا کہ ہم کو بناتا ہے۔ جائزے کے کوئی چھوتھے یا پانچویں دنسر رشتہ دار نج پر رپورٹ خوانی کو گیاتو صاحب کلکٹر نے فرمایا کہ چیف کمشنر صاحب محکمہٓ بغاوت کی تخفیف کے لئے بہت مستعمبل ہیں اور جاتے جاتے کہ گئے ہیں کہ دیکھو اس کام پر خص نگرانی رکھنا۔
سر رشتہ دار: جہاں تکفدوی کو معلوم ہے 'ڈیڑھ دو برس کا کام باقی ہے۔
صاحب کلکٹر: ڈیڑھ دو برس!ہم سے نوبل صاحب نے کہا کہ اگر وہ ولایت جانے پر مجبور نہ ہوتے تو آخر سال تک یہ ہمہ وجوہ طے کردیتے۔
سر رشتہ دار:بے شک ' نوبل صاحب بہادر رہتے تو ایسا ہی ہوتا۔
صاحب کلکٹر: نوبل صاحب نے ہم کو کہا تھا بہت تھوڑے مقدمے فیصلہ کرنے کو ہیں اور ابن الوقت صاحب ان میں کارروائی کر رہے ہیں اور ان کے تصفیے میں زیادہ دیر نہیں ہوگی، بڑا کام مژلوں کو مرتب کرکے داخل دفترت کرنا ہے۔اسی خیال سے ہم نے ایک محرر کی تخفیف کا بھی حکم نہیں دیا۔اگر عملے یہ سمجھ کر کہ نوبل صاحب نہیں ہیں' کام میں غفلت یا کوتاہی کریں گے تو ہم ان کو سخت سزا کرنے کو موجود ہیں مگر کام ضرور آخر سال تک مکمل کرنا ہوگا۔
سر رشتہ دار: عملوں میں تو کسی کی مجال نہیں کے سر سو حکم کے خلاف کرسکے بلکہ اگر حضور کا ارشاد ہوگا تو صبح سے شام تک ان سے محنت لی جائے گی۔
صاحب کلکٹر: بس تو مثلوں کی ترتیب عملے کا کام ہے۔
سررشتہ دار:بغاوت کا عملہ فدوی کا ہی رکھوایا ہوا ہے۔ جب یہ عملہ قائم ہونے لگا تو عملہ ڈھونڈنے نہیں ملتا تھا۔ جناب نوبل صاحب بہادر نے حکم دیا تو
صفحہ 189
فدوی نے چن چن کر اچھے ہوشیار عملے جمع کردئے اور فدوی کو بخوبی معلوم ہے کہ عملوں میں سے کسی کا کام پس ماندہ نہیں۔۔ مثلوں میں بڑی فردگذاشت دستخط کی ہے۔ حجور خیال فرمائیں کہ تاوقتیکہ حاکم متوجہ نہ ہو' دستخط کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔
صاحب کلکٹر: عملوں نے وقتاَ فوقتاَ احکام پر دستخط کیوں نہیں کروائے' یہ ان کا قصورہے۔اچھا ! ان سے جواب لے کر پیش کرئو ہم تمام عملہٓ بغاوت کو سزا کریں گے۔
سر رشتہ دار: حضور مالک اور خوند ہیں۔ فدوی کاو جب اس کا علم ہوا تو فدوی نے عملے کو بہت دھمکایا تھا۔حقیقت حال کا عرض نہ کرنا بھی نمک حرامی ہے۔ کہنے لگے جان کیا غضب میں ہے: کہیں تو ماں ماری جائے نہیں باپ کتا کھائے۔سر رشتہ دار صاحب!ہمارے ڈپٹی صاحب(ابن الوقت) سے کام پڑے تو معلوم ہو' نہ ان کے آنے کا ٹھکانا نہ کچہری برخاست کرنے کا ٹھکانا۔ دستخط کرانا تو بڑی بات ہے'سلام کے لیے سامنے جانے کے لیے بھی بڑاحوصلہ چاہئے۔
صاحب کلکٹر: کیا بات ہے؟آخر ہندوستانی عملے صاحب لوگوں کی پیشی میں بھی کام کرتے ہیں یا نہیں؟
سر رشتہ دار: صاحب لوگ اگر اس طرح قہر کی نظر رکھیں تو ایک دن کام نہ چلے۔ کام کے لئے کسی وقت نہ خوش بھی ہوتے ہیں اور پھر دیا بھی کرتے ہیں۔ صاحب کلکٹر: تم بھی کبھی ابن الوقت کی ملاقات کو گئے ہو؟
سر رشتہ دار: میں بے چارہ محرر'میری کیا اوقات؛ راہ میں آمنا سامنا ہوا سلام کرلیا۔
صاحب کلکٹر: تم کبھی ابن الوقت کے بنگلے پر گئے ہو؟
سر رشت دار: دو چار بار دل میں آیا پر سنا کہ اول تو اپنی وضع کے لوگوں کے سوائے کسی ہندوستانی سے نہیں ملتے اور ملتے بھی ہیں تو گھنٹوں انتظار کراتے ہیں۔ کچہری کے دنوں میں تو کہیں آنا جانا ہو نہیں سکتا' رہا اتوار ایک دن اور اسی میں اپنا اور گھر کا سارا کام کاج۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی بھائی
سمجھنے والے کو ابن الوقت کی یہ حالت تازیانہ عبرت تھی۔ اسی طرح انسان ساری عمر بہ کمال اطمینان دنیا کی درستی میں لگا رہتا ہے اور اس کو دنیا کے ساتھ دل بستگی ہو جاتی ہے۔ دفعۃ اس کو دنیا چھوڑنی پڑتی ہے اور چونکہ وہ دنیا سے مانوس تھا، اس کو دنیا کی ابدی مفارقت کا سخت صدمہ ہوتا ہے۔ وہ سازوسامان دنیا میں سے کوئی چیز ساتھ نہیں لے جا سکتا ور جو ساتھ لے جاسکتا ہے یعنی اعمال وہ عاقبت میں شاید اس سے زیادہ بہ کار آمد نہ ہوں جیسے ایک گھر کا فرنیچر دوسرے گھر میں۔ وہ عاقبت میں اپنے لئے آسائش کی جگہ نہیں پاتا اور جگہ پاتا بھی ہے تو وہاں کے مناسب فرنیچر نہیں رکھتا۔ خدا اپنے فضل سے ہم کو توفیق دے کہ گرویدہ دنیائے چند روزہ نہ ہوں اور عاقبت کے لئے جہاں ہم کو سدا رہنا ہے سامان کرتے رہیں۔ آمین!
ابن الوقت اگر چاہتا تو منت سے، خوشامد سے، شاید کاربراری کر لیتا مگر وہ تھا مغرور، برخود غلط، نہ کسی سے پوچھا نہ گچھا جھٹ ایک چٹھی دھر کمانڈنگ افسر کے نام دھر گھسیٹی کہ ہم بالکل انگریزی طور پر رہتے ہیں اور اس وجہ سے پار سال بھی ہم کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ امسال بھی ہمارے ساتھ اسی قاعدے کا برتاؤ ہونا چاہیے۔ کمانڈنگ افسر نے فورا اس کے جواب میں لکھ بھیجا کہ چھاؤنی میں لوگوں کا بہت اژدہام ہو گیا ہے اور سپاہیوں کی تندرستی کے لئے بھیڑ کا کم کرنا ضرور ہے۔ یہ پہلا انتظام ہے کہ جو لوگ فوج سے علاقہ نہیں رکھتے چھاؤنی کے اندر نہ رہیں۔ اس جواب کے بعد تدبر کے سب راستے بند ہوگئے اور چارو نا چار بنگلہ خالی کر دینا پڑا۔ ایک ذری سی بات میں بے چارہ ابن الوقت بیٹھے بٹھائے ہزار بار سو کے پھیر میں آ گیا اور کرکری ہوئی سو الگ۔ وقت پر موقع کا بنگلہ نہ ملا اور خیر یوں ہی سا ملا بھی تو اپنی غرض کوڈیوڑھا دونا کرایہ دینا پڑا۔نقل و حرکت میں اسباب کا اسباب خراب ہوا اور زیر باری کا تو کچھ پوچھتا ہی نہیں۔
IbW-0075.gif
 

زلفی شاہ

لائبریرین
فصل شانزدہم
سر رشتہ دار کے بہکانےسے صاحب کلکٹر ابن الوقت سے بدگمان ہوئے
ابن الوقت کو حقیقت میں محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اس کو نوبل صاحب سے کس قدر تائید پہنچ رہی ہے۔ ان کا پیٹھ موڑنا تھا کہ ہر طرف سے مصیبتوں نے آ گھیرا۔ یوں بھی نوبل صاحب تنخواہ میں، عزت میں، کسی طرح کلکٹر صاحب سے کم نہ تھے اور پھر کیا انگریز کیا ہندوستانی، سب کو اس بات کا کامل اذعان تھا کہ بغاوت کا محکمہ عارضی ہے، یہ کام ختم ہوا اور نوبل صاحب ضرور کہیں نہ کہیں کے اور بیس بسوے تو قسمت دہلی کے کمشنر ہوں گے یا چیف کمشنر کے سیکرٹری ہو جائیں تو عجب نہیں، کیونکہ چیف صاحب ان کی طرف بہت ملتفت معلوم ہوتے ہیں۔ اس خیال سے لوگوں کے دلوں میں نوبل صاحب کی بڑی ہیبت تھی اور انہی کی وجہ سے سارا عملہ ابن الوقت کے نام سے تھراتا تھا۔ اب جو میدان پایا خالی ایک دم سے سب کے سب پھیر بیٹھے۔ سپردگی چارج کا روبکار جاری ہونا تھا کہ عملے لگے آپس میں اشارے کنائے کرنے۔ سب سے پہلے کلکٹری کے چپراسی جمع ہو کر سلام کو آئے۔ ابن الوقت اپنے کام میں مصروف تھا، جمعدار نے چند قدم آگے بڑھ کر کہا کہ کلکڑی کے چپراسی سلام کو حاضر ہیں۔
ابن الوقت: (سراٹھا کر) یہ کیسا سلام ہے؟
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 184​
فصل سیزدہم
نوبل صاحب کا دفعتاً ولایت جانا ہوا، ابن الوقت کو بنگلہ چھوڑنا پڑا​
لیکن درد سر روز روز زور پکڑتا جاتا تھا، یہاں تک کہ 1859ء کی گرمیوں میں تو یہ ہوگیا کہ جس روز گرمی کا اشتدار ہوتا تو سارے دن ان سے اٹھا نہیں جاتا تھا اور ڈاکٹر تو مدتوں سے کہہ رہا تھا، اب اس نے بھی سختی کی کہ اگر تم برسا ت میں ٹھہرو گے تو یقیناً ہلاک ہو جاؤ گے، میں نے تمہارے درد سر کی نسبت بہ خوبی تشخیص کر لی ہے کہ سمندر کی ہوا کے سوائے اس کی اور کوئی دوا نہیں۔ مگر صاحب کا ارادہ تھا کہ آخری رپورٹ روانہ کردوں تب جاؤں۔ کام بھی بہت سمٹ آیا تھا لیکن قاعدہ ہے کہ کام کا پیچھا ہی بھاری ہوتا ہے۔ برسات چلی آ رہی تھی اور ابھی رپورٹ کا لکھنا بھی شروع نہیں ہوا تھا مگر کیا استقلال ہے اور کس قدر کام کا درد ہے کہ ڈاکٹر بھی متقاضی تھا اور درد سر بھی بر سر ترقی تھا، نوبل صاحب کا یہ حال تھا کہ درد سر نے بہت ستایا، پڑ رہے، پھر ذرا طبیعت سنبھلی، اٹھ کھڑے بیٹھے، کام کرنے لگے۔ غرض اس بندہ خدا نے رخصت کا نام ہی لینا چھوڑ دیا۔ صاحب کمشنر نے اپنے طور پر اس کی اطلاع چیف صاحب کو دی۔ وہاں سے حکم آیا کہ باقی ماندہ کام صاحب کلکٹر کو دے دو اور تم رپورٹ کا مواد لے کر فوراً ولایت کو روانہ ہو جاؤ، چیف صاحب یقین کرتے ہیں کہ جہاز میں تمہاری طبیعت درست ہو جائے گی اور تم ولایت جا کر رپورٹ تیار کرنا اور تمہارے سفر اور قیام ولایت کا زمانہ سروس میں شمار کیا جائے گا اور تم کو پوری تنخواہ دی جائے گی۔​
اس حکم کے آتے ہی صاحب کمشنر نے کھڑے کھڑے صاحب کلکٹر کو جائزہ دلوا، نوبل صاحب کو تیسرے دن ولایت چلتا کیا۔ صاحب کے روانہ ہونے سے ہفتہ عشرہ پہلے ڈاکٹر نے ملاقات کی ممانعت کردی تھی۔ پس اس اثناء میں ابن الوقت کے ساتھ بھی صاحب کی کوئی تفصیلی ملاقات نہ ہونے پائی۔ غرض صاحب روانہ ہوئے تو ابن الوقت ہکا بکا سا رہ گیا۔ نہ اپنی کہی نہ ان کی سنی۔ اس کو صاحب کے جانے کا سب​
صفحہ 185​
سے زیادہ ملال تھا مگر ذاتی محبت کی وجہ سے۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ صاحب کے جانے سے اس کو تبدیل وضع کے برے نتیجے اس قدر دق کریں گے۔​
نوبل صاحب کے جاتے جاتے برسات کی آمد اور گرمی کی اشتداد کی وجہ سے ہوا مین ردایت کے آثار پیدا ہو چلے تھے۔ شہر میں تو بیماری کا زور تھا، چھاؤنی میں بھی کہیں کہیں شکایت سنی جاتی تھی۔ نوبل صاحب کو روانہ ہوئے چوتھا یا پانچواں دن تھا، کمانڈنگ افسر نے حکم عام جاری کیا کہ انگریزوں کے شاگرد پیشہ کے سوائے کوئی نیٹو (Native) چھاؤنی کی حدود میں نہ رہے، شہر کا کوئی آدمی چھاؤنی میں نہ آنے پائے اور انگریزوں کے شاگرد پیشوں میں سے بھی بنگلے پیچھے ایک آدمی ضرورت کی چیزیں لینے کو ایک بار شہر میں جائے اور دن کے سات بجے کے اندر اندر واپس آجائے او ر تاریخ حکم سے ایک ہفتے بعد اس کی پوری پوری تعمیل ہو۔ سال گذشتہ میں بھی ایسا ہی اتفاق پیش آیا تھا تو نوبل صاحب نے سمجھا دیا تھا کہ مسٹر ابن الوقت نیٹو تو ہیں مگر ان کا طرز ماند و بود بالکل ہم لوگوں کا سا ہے اور ان کے احاطے میں صفائی کے قواعد کی تعمیل پوری پوری ہوتی ہے۔ چنانچہ فوجی عہدہ داروں نے ابن الوقت کے حالات سے کچھ تعرض نہیں کیا۔ اب کی بار دو مشکلیں جمع ہوگئیں، نوبل صاحب تو تشریف لے گئے اور کمانڈنگ افسر صاحب نئے آئے ہوئے تھے۔ ابن الوقت سے صاحب سلامت تو تھی مگر کھان پان کی نوبت نہیں آئی تھی۔​
جنرل آرڈر دیکھ کر ابن الوقت کو بڑا تردد پیدا ہوا اور حقیقت میں بڑے تردد کا مقام تھا کیونکہ اس نے صد ہا روپے خرچ کرکے احاطے کو مدتوں کی محنت سے اپنی مرضی کے مطابق درست کیا تھا، بڑی تلاش سے کمروں کی وسعت اور ان کے مواقع کے لحاظ سے فرنیچر جمع کیا تھا، خانہ باغ کی درستی میں بہت کچھ محنت کرنی پڑی تھی۔ ابن الوقت تمام اسٹیشن کے بنگلوں اور کوٹھیوں کے چپے چپے سے واقف تھا۔ ہر طرف نظر دوڑائی کوئی بنگلہ ڈھب کا سمجھ میں نہ آیا اور جو دو چار تھے سو مشغول اور اگر مشغول نہ بھی ہوتے تاہم یہاں کا اکثر فرنیچر وہاں کے لیے بے جوڑ اور پھر خانہ باغ تو کسی طرح اٹھا لے جانے کی چیز نہیں۔​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم میں واپس حاضر ہو گیا ہوں کچھ دن کی غیر حاضری کے بعد میرے لیے اگر کوئی کام رہتا ہے تو مجھے بتا دیں کون سی پوسٹ پر ہے اور میں دوبارہ ٹیگ ہونے کے لیے تیار ہوں شکریہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
194

بگاڑا نہیں، تبدیل وضع کی وجہ سے سب کے ساتھ ساتھ خدا واسطے کا بیر۔
غرض ابن الوقت نے جوں توں پرائیویٹ روم میں اکیلے پڑے پڑے وہ دن تو تیر کیا ۔ اس نے کئی بار عملے سے پوچھوایا بھی کہ اگر ہمارے کرنے کا کچھ کام ہو تو ہم اجلاس پر آئیں۔ عملے نے یہی جواب دیا کہ سر رشتہ دار صاحب مقدمات متدائرہ کے لئے بہت جلدی مچا رہے ہیں ، ہم سے کے سب انہی شلوں کے چھانٹے میں مصروف ہیں اور سرکار کے کرنے کا کام اب رہ بھی کیا گیا ہے ، یہ مثلیںٕ کلکٹر صاحب کے اجلاس میں جالیں گی تب دفتر کے داخلے کے لئے مثلوں کی ترتیب شروع ہو گی۔ اس وقت اگر احکام ترتیبی پر کہیں دستخط رہ گئے ہوں گے ، ایسے کاغذ علیحدہ رکھتے جائیں گے، بہت سے کاغذ جمع ہو گئے ، دستخط کرا لئے۔
ابن الوقت کی خوداری نے اس کے حق میں ایک خرابی یہ اور کر رکھی تھی کہ وہ ہندوستانیوں کے ساتھ ملنے میں مضائقہ تو کرتا ہی تھا ،ا س سے ہر شخص اس کے پاس جاتا ہوا جھجکتا تھا اور آج کل جو کاروائیاںٕ درپردہ اس کے خلاف ہو رہی تھیں وہ ان سے مطلقا بے خبر تھا۔ نوبل صاحب کے چلے جانے کا ایک اثر یہ تو ضرور اس پر بھی منکشف ہو اکہ جو لوگ اس سے ملتے جلتے رہتے ہیں ( اور وہ تھے ہی کتنے ) پہلے ہی دن سے ملاقات میں کمی سی کرنے لگے اور اب جو یہ خبر منتشر ہوئی کہ تمام مقدمات متدائرہ صاحب کلکٹر نے اٹھوا منگوائے ،لوگوں نے اس خیال سے کہ مبادا صاحب کلکٹر دیکھ پائیں یا ان تک خبر پہنچ جائے ، اس کی کچہری کا آنا جان تک بالکل ترک کر دیا۔
ابن الوقت کے جی میں آیا بھی چلوں صاحب کلکٹر سے زبانی کہوں یا چٹھی لکھوں ، پھر سوچا اور ٹھیک سوچا کہ ابھی تک مجھ کو شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں، مقدمات منگوا لئے ، درد سر کم تربہ ! کھ میری تنخواہ تو نہیں گھٹا دی ، جاگیر تو نہیں ضبط کر لی۔ رہا لوگوں کا خیال تو انہوں نے تبدیل وضع پع مجھ کو کیا کچھ نہیں کہا اور اب تک کیا کچھ نہیں کہتے ۔ میرا ذاتی تعزز جو ہے سو ہے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی
گیا اور دنیا بھی برباد ہوئی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
ابن الوقت کو ایک امر کی طرف سے تو اطمینان ہوا کہ صاحب کلکٹر کا ما فی الضمیر جلد منکشف ہو گیا۔ اب مقدمات کے اٹھوا منگوانے کی وجہ بھی سمجھ میں آئی اور دریا گنج کی سڑک پر جو اکھڑی اکھڑی باتیں انہوں نے کی تھیں ان کی بھی بدھ مل گئی۔ ابن الوقت نے فورا ایک چٹھی صاحب کلکٹر کو لکھی: ’’قبل اس کے کہ میں ضابطے کے مطابق آپ کے روبکار کا جواب دوں، اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ براہ مہربانی مجھ کو ضابطے کا جواب دینے پر مجبور نہیں کریں گے، میں بہ منت آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مجھ کو اپنی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت دیجئے تا کہ میں بالمشافہ آپ کے تمام شبہات کو رفع کر دوں۔ آپ کو میرے معاملے میں کسی وجہ سے غلطی واقع ہوئی ہے اور اجنبیت کی حالت میں غلطی کا ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں اور مجھ کو کامل یقین ہے کہ جب پوست کندہ حقیقت آپ پر ظاہر کی جائے گی، آپ کا دل میری طرف سے ضرور صاف ہو جائے گا۔ میری بدقسمتی ہے کہ صرف انگریزی وضع کے سبب لوگ مجھ سے نا حق دشمنی رکھتے ہیں اور میرے حاسد بھی کم نہیں۔پس بہت تھوڑی توقع ہے کہ لوگ بھلائی کے ساتھ میرا تذکرہ کریں گے۔ میں آپ سے رعایت کی درخواست نہیں رکھتا بلکہ انصاف چاہتا ہوں اوراگر از روئے انصاف میں آپ کی مہربانی کا مستحق نہ نہ ثابت ہوں تو اس بے عزتی سے جو حاکم بالادست کی ناخوشی کا ضروری نتیجہ ہے،بہت بہتر ہوگا کہ میں خود کام سے علیحدگی اختیار کروں۔ آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ قطع نظر روحی تکلیف کے جو مجھ پر گزر رہی ہے، اس حالت سے میرا رہنا کار سرکار کے حق میں کسی طرح بھی مفید نہیں۔‘‘
صاحب کلکٹر کا مزاج ابن الوقت کی طرف سے اس قدر برہم تھاکہ انہوں نے بہ اتکرہ تمام اسی کی چٹھی کے لفافے پر پنسل سے لکھ دیا کہ میں کسی نیٹوکو اپنی کوٹھی پر انگریزی وضع سے دیکھنا نہیں چاہتا۔اس پر بھی ابن الوقت نے دو دن تک روبکار کو بلا جواب ٹال رکھا۔ تیسرے دن تقاضے کا روبکار آ دھمکا۔بہ ایں شدت کہ کچہری پرخاست کرنے سے پہلے جواب نہیں دیں گےتو ضابطے کی کاروائی کی جائے گی۔ اب چاروناچار جواب دینا ہی پڑا۔
IbW-0081.gif
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی
گیا اور دنیا بھی برباد ہوئی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
ابن الوقت کو ایک امر کی طرف سے تو اطمینان ہوا کہ صاحب کلکٹر کا ما فی الضمیر جلد منکشف ہو گیا۔ اب مقدمات کے اٹھوا منگوانے کی وجہ بھی سمجھ میں آئی اور دریا گنج کی سڑک پر جو اکھڑی اکھڑی باتیں انہوں نے کی تھیں ان کی بھی بدھ مل گئی۔ ابن الوقت نے فورا ایک چٹھی صاحب کلکٹر کو لکھی: ’’قبل اس کے کہ میں ضابطے کے مطابق آپ کے روبکار کا جواب دوں، اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ براہ مہربانی مجھ کو ضابطے کا جواب دینے پر مجبور نہیں کریں گے، میں بہ منت آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مجھ کو اپنی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت دیجئے تا کہ میں بالمشافہ آپ کے تمام شبہات کو رفع کر دوں۔ آپ کو میرے معاملے میں کسی وجہ سے غلطی واقع ہوئی ہے اور اجنبیت کی حالت میں غلطی کا ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں اور مجھ کو کامل یقین ہے کہ جب پوست کندہ حقیقت آپ پر ظاہر کی جائے گی، آپ کا دل میری طرف سے ضرور صاف ہو جائے گا۔ میری بدقسمتی ہے کہ صرف انگریزی وضع کے سبب لوگ مجھ سے نا حق دشمنی رکھتے ہیں اور میرے حاسد بھی کم نہیں۔پس بہت تھوڑی توقع ہے کہ لوگ بھلائی کے ساتھ میرا تذکرہ کریں گے۔ میں آپ سے رعایت کی درخواست نہیں رکھتا بلکہ انصاف چاہتا ہوں اوراگر از روئے انصاف میں آپ کی مہربانی کا مستحق نہ نہ ثابت ہوں تو اس بے عزتی سے جو حاکم بالادست کی ناخوشی کا ضروری نتیجہ ہے،بہت بہتر ہوگا کہ میں خود کام سے علیحدگی اختیار کروں۔ آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ قطع نظر روحی تکلیف کے جو مجھ پر گزر رہی ہے، اس حالت سے میرا رہنا کار سرکار کے حق میں کسی طرح بھی مفید نہیں۔‘‘
صاحب کلکٹر کا مزاج ابن الوقت کی طرف سے اس قدر برہم تھاکہ انہوں نے بہ اتکرہ تمام اسی کی چٹھی کے لفافے پر پنسل سے لکھ دیا کہ میں کسی نیٹوکو اپنی کوٹھی پر انگریزی وضع سے دیکھنا نہیں چاہتا۔اس پر بھی ابن الوقت نے دو دن تک روبکار کو بلا جواب ٹال رکھا۔ تیسرے دن تقاضے کا روبکار آ دھمکا۔بہ ایں شدت کہ کچہری پرخاست کرنے سے پہلے جواب نہیں دیں گےتو ضابطے کی کاروائی کی جائے گی۔ اب چاروناچار جواب دینا ہی پڑا۔
IbW-0081.gif
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
195

فصل نوزدھم
صاحب کلکٹر اور ابن الوقت کا بگاڑ
ہندی کی ایک مثل ہے "دکھتے چوٹ کنونڈے بھینٹ " ۔ رپورٹ خوانی میں سر رشتہ دار ابن الوقت کی طرف سے صاحب کلکٹر کے کان بھر چکا تھا سو اتفاق آج کو ناگہانی گویا اسی مثل کے سچ کرنے کو ، ابن الوقت کی صاحب کلکٹر سے مٹھ بھیڑ ہو گئی۔ ابن الوقت کی عادت دونوں وقت ہوا خوری کی تو تھی ہی ، کوئی ساڑھے پانچ بجتے بجتے کچہری سے سوار ہوا تو سیدھا میر ٹھ کی سڑک کو ہو لیا۔ آفتاب تھا پس پشت اور ٹھنڈی ٹھنڈی پوروا ہوا سامنے سے آ رہی تھی ۔ شاہ ورے سے بھی کوئی کوس ڈیرھ کوس آگے نکل گیا تھا کہ آفتاب نیچے لٹک آیا۔ چاندنی رات کے خیال سے دل تو ابھی لوٹنے کونہیں چاہتا تھا مگر جمنا پر کشتیوں کا پل تھا! یہ تصور ہوا ایسا نہ ہو تاریکی میں گھوڑے کا پاؤں کہیں کسی گھڑے میں جا رہے ۔ ناچار لو ٹا تو جس وقت زمینہ المساجد کے برابر آیا، نمازی مغرب کی نمازیں پڑ ھ پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے۔ دریا گنج کے نکڑ پر دور سے اس کو ایسا دکھائی دیا کہ بیچ سڑک میں کوئی انگریز اکیلا پن چکیوں کی طرف کو چلا جا رہا ہے۔ پچیس تیس قدم کا فاصلہ ہوگا کہ وہ انگریز پیچھے سے ٹاپ کی آواز سن کر کنارے ہو گیا۔ ابن الوقت برابر سے نکلا تو پہچانا کہ صاحب کلکٹر ہیں۔ باگ روک کر اس نے خود کہا : آہا مسٹر شارپ ! گڈ ایوننگ ٹویو۔ مجھے​
 
Top