ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

عائشہ عزیز

لائبریرین
Aasar1_page_0258.jpg
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
33

دالان ہے ایک اور چھوٹے سے گنبد میں اور قبریں ہیں اٹھائیسویں صفر کو ہر برس یہاں عرس ہوتا تھا اب چندے سے موقوف ہوگیا ہے۔
مسجد درگاہ حضرت نظام الدین
یہ مسجد جو کتابوں میں جماعت خانہ کرکر لکھا ہے حضرت نظام الدین کی درگاہ میں ہے اس مسجد کو فیروز شاہ بادشاہ نے قریب ؁754 ہجری مطابق ؁1353 عیسوی کے بنایا ہے خود فیروز شاہ لکھتا ہے کہ یہ جماعت خانہ نئے سرے سے میں نے بنایا پہلے یہاں نہ تھا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خادمون میں جو اس مسجد کا پہلے سے ہونا مشہور ہے غلط ہے یہ مسجد بہت نادر ہے اس مسجد کا بیچ کا درجہ نرا سنگ سرخ کا ہے اور چودہ گز کے قطر کا گنبد ہے اس کے بیچ میں سونے کا کٹورہ لٹکتا ہے جاٹوں نے اس میں گولیاں ماریں تھیں مگر ٹوٹا نہیں دو درجے اس بڑے درجے کے ادھر ہیں اور ان کی چھت پر دو دو برج ہیں کہ ساری مسجد کے پانچ برج ہوئے مسجد کے درون کی پیشانی پر بعضی جگہ نسخ خط اور بعضی جگہ کوفی خط میں آیات قرآنی کندہ ہیں مگر تاریخ نہیں ہے باہر کی دیوار پر صحن کے رخ تھوڑے دن ہوئے ہوں گے کہ کسی شخص نے حضرت نظام الدین کے انتقال کی تاریخ کھود دی ہے مگر پہلے کی کھود ہوئی نہیں ہے۔
تاریخ
نظام دو گیتی شہ ما وطین ۔۔سراج دو عالم دشدہ بالیقین
چو تاریخ فوتش بحستم زغیب۔۔ ندا داد ہاتف شہنشاہ دین
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
34

مسجد جامع فیروزی
فیروز شاہ نے اپنے کوٹلہ میں قریب ؁755 ہجری مطابق ؁1354 عیسوی کے یہ مسجد بنائی تھی چنانچہ اب تک یہ مسجد ٹوٹی پھوٹی لاٹھ کے پاس موجود ہے اس مسجد کا گنبد ہشت پہلو تھا اور اس کے آٹھوں طرف بادشاہ نے تاریخ فتوحات فیروز شاہی کا خلاصہ جو اس بادشاہ نے خود اپنے حالات میں تصنیف کی تھی پتھر میں کھودوا کر لگا دیا تھا اور اس میں خلاصہ ان احکامات کا تھا جو اس بادشاہ نے درباب اوقاف اور درباب کرنے سیاست بدنی اور لینے خراج اور آسایش رعایا میں جاری کیے تھے لیکن اس گنبد کا اب نشان بھی نہیں رہا ٹوٹے ہوئے پتھر بھی کہیں نہیں ملتے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ گنبد جہانگیر بادشاہ کے زمانے تک ثابت تھا پھر معلوم نہیں کہ کس زمانے میں ٹوٹا ؁801 ہجری مطابق ؁1398 عیسوی میں جب تیمور نے دلی کو فتح کیا تو اسی مسجد میں تیمور کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔
کوشک انور یا مہندیان
یہ ایک کہنہ عمارت ہے کوٹلہ فیروز شاہ کے سامنے جپلخانے کے پاس اگرچہ اس کا حال کچھ معلوم نہیں مگر کتابوں میں اس کا نام کوشک انور لکھا ہے اس کے نام سے یقین پڑتا ہے کہ کسی بادشاہ کی بنائی ہوئی ہے کیونکہ اس طرح کے نام اس زمانے میں بادشاہی عمارتوں کے ہوتے تھے اور جس موقع پر یہ عمارت محازی کوٹلہ کے واقع ہے اس قرینے سے متصور ہوتا ہےکہ فیروز شاہ کی بنائی ہوئی ہے پھر کچھ

35

؁1354 عجب نہیں کہ قریب ؁755 ہجری مطابق عیسوی کے بنی ہو ہندوستان میں رواج ہوگیا ہے کہ برسویں دن بڑے پیر کی نیاز میں کاغذ کی برجی جس کو مہندی کہتے ہیں بنا کر اس کے چاروں طرف روشنی کرتے ہیں یا تو اس سبب سے کہ اس عمارت کی صورت اسی طرح کی ہے اور یا اس سبب سے کہ خاص اسی دن کی روشنی کو بنی تھی مہندیان اس کا نام مشہور ہوگیا ہے بہرحال اس کے دونوں ناموں سے ثابت ہے کہ یہ عمارت روشنی کرنے کے لیے بنی ہے یہ مکان نئے قطع کا ہے اس کے نیچے درہ لاد کر کرسی دی ہے اور پھر اس کے اوپر پانچ برج بنائے ہیں چار چاروں کونوں پر اور ایک بیچ میں برجوں کی قطع بھی بہت خوبصورت ہے مگر اب یہ مکان بہت شکستہ ہوگیا ہے اور جو کہ نرے چونے اور پتھر سے بنا ہوا تھا اس واسطے بالکل گر پڑا ہے دو ایک برجیاں باقی رہ گئیں ہیں۔
بولی بھٹیاری کا محل
یہ ایک بند ہے شہر شاہجہاں آباد کے باہر تھوڑے فاصلے پردرگاہ سید حسن رسول نما کے پاس غالب ہے کہ یہ بن فیروز شاہ کا اس زمانے کا بنایا ہوا ہو جس زمانے میں کہ اس نے کوشک شکار بنایا یعنی قریب ؁755 ہجری مطابق ؁1354 عیسوی کا اور اس بند پر ایک مکان چھوٹا سا بہت بد قطع بنا ہوا ہے اس مکان کا یہ نام ہے مشہور ہے کہ کسی زمانے میں بوعلی خان بھٹی اس مکان میں رہتے تھے جب سے بولی بھٹیاری کا محل مشہور ہوگیا ہے یہ بند بہت خوب بنا ہوا ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
36

اور اب تک بجز تھوڑے سے نقصان کے اور کچھ نہیں بگڑا اسی بند پر ہر سال اساڑھ کے مہینے میں پور نماشی کو پون پرچھیاکا میلہ ہوتا ہے اور برہمن جاکر اس میدان میں ایک جھنڈی کھڑی کرکر ہوا کو دیکھتے ہیں اور اس سے موسم کی بھلائی برائی کا حال بتاتے ہیں اور اس روز یہاں بڑا میلہ اکٹھا ہوتا ہے۔
کالی مسجد کوٹلہ نظام الدین
متصل درگاہ حضرت نظام الدین کے یہ مسجد خانہجان فیروز شاہی کی بنائی ہوئی ہے اس نے ؁772 ہجری مطابق ؁1370 عیسوی کے بنائی قطع اس مسجد کی ایسی ہے جیسے کالی مسجد اور بیگم پور وغیرہ مسجدوں کی ہے چونے اور پتھر سے یہ مسجد بنی ہے اور دروازے پر کتبہ سال بنا کندہ ہے۔
درگاہ حضرت روشن چراغ دہلی
یہ درگاہ حضرت نصیر الدین روشن چراغ دہلی کی بہت نامی ہے انتقال آپ کا اٹھارھویں رمضان ؁757 ہجری مطابق ؁1356 عیسوی جمعہ کے دن ہوا ہے مگر یہ عمارت فیروز شاہ بادشاہ نے ؁775 ہجری مطابق ؁1373 عیسوی میں بنائی ہے درگاہ کے گنبد کے بارہ درہین اور سنگ خارا کے ستون لگے ہوئے ہیں سب دروازوں میں سنگ سرخ کی جالیاں جنوب کے ایک در میں دروازہ ہے گنبد چونے پتھر سے بنا ہے اور اس پر سنہرا اکلس ہے اور گنبد کے اندر سنہرا اکٹور الٹکتا ہے سنگین چھجہ گنبد میں خواجہ محمد خان نے یہ حال میں بنوایا دیا ہے اور میرزا غلام حیدر نے

37

گنبد کے گرد بارہ دری بنوائی تھی کہ وہ گر پڑی درگاہ کے صحن میں دو گنبد اور ہیں ایک میں حضرت شیخ فرید شکر گنج کی پوتی کی قبر ہے اور دوسرے میں مخدوم زین الدین کی قبر ہے جو آپ کے بھانجے اور خلیفہ تھے اس کے پاس مخدوم کمال الدین کی قبر ہے جو مولوی فخر الدین صاحب کے پیروں میں ہیں اور اسی مقام پر نواب فیض طلب خان بنگش کی قبر ہے درگاہ کے پاس ایک مسجد ہے فرخ سیر کے عہد کی اس درگا کا دروازہ بھی گنبد نما ہی ہے اور اس پر فیروز شاہ کے نام کا کتبہ لگا ہوا ہے ؁1142 ہجری مطابق ؁1729 عیسوی کے محمد بادشاہ نے اس درگاہ کے گرد پونے چار لاکھ روپیہ خرچ کرکر شہر پناہ بنوا دی ہے اور اس میں چار دروازے اور ایک کھڑکی ہے۔
نمبر (32)
قدیم شیریف یا مقبرہ فتح خان
یہ درگاہ بہت نامی اور درحقیقت یہ مقبرہ ہے شاہزادہ فتح خان بن فیروز شاہ کا جبکہ ؁776 ہجری مطابق ؁1374 عیسوی کے شاہزادہ فتح خان نے انتقال کیا تو اس کی لاش یہاں دفن ہوئی اور فیروز شاہ نے اس کے گرد مکانات اور مدرسہ اور مسجد بنائی اور چار دیواری کے پاس ایک بہت بڑا حوض بنوایا کہ اب تک موجود ہے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معجزہ ہوا تھا کہ اس کے سبب پتھر پر نقش پڑ گئے تھے چنانچہ اکثر کتابوں میں یہ مذکور ہے مشہور ہے کہ انھیں نقش کے پتھروں میں کا ایک پتھر فیروز شاہ کے عہد میں آیا اور اس نے وہ پتھر
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
38

بطور تبرک اپنے بیٹے کی قبر پر لگا دیا اور اسی سبب سے یہ مقبرہ قدیم شریف کے نام سے مشہور ہوا اس قبر پر حوض بنادیا ہے او اس کے گرد سنگ مرمر کا کٹہرا لگایا ہے اس میں پانی بھرتے ہیں اور نقش قدم کو دھو کر پانی کا تبرک لے جاتے ہیں اور زبان حال سے یہ شعر پڑھتے ہیں۔
شعر
ای خضر دل اسی کے پیے سے نجات ہے
پانی قدم شریف کا آب حیات ہے
بارھویں ربیع الاول کو ہر سال یہاں بہت بڑا میلہ ہوتا ہے تمام خلقت جمع ہوتی ہے اور ہزاروں ملنگ آتے ہیں اور دروازے کے آگے دھمال کرتے ہیں۔
مسجد چوراہیہ قدم شریف
یہ مسجد بھی فیروز شاہ کے وقت کی بنی ہوئی ہے اور قطع اس کی ایسی ہی ہے جیسے خانجہان کی بنائی ہوئی مسجدیں ہیں مگر خیال میں یہ آتا ہے کہ جب فیروز شاہ نے یہ مقبرہ بنایا یعنی قریب ؁776 ہجری مطابق ؁1374 عیسوی کے تب اس نے آپ یہ مسجدبھی بنائی یہ مسجد چونے اور پتھر سے برجیوں دار نہایت مستحکم بنی ہوئی ہے اور چوراہیہ قدم شریف کی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔
درگاہ حضرت سید محمود بحار
یہ درگاہ سرحد موضع کیلو کھڑی میں واقع ہے اور اگرچہ یہاں کوئی عمدہ عمارت نہیں مگر یہ درگاہ بہت متبرک مانی جاتی ہے حضرت سید محمود بحار بڑے عالم اور بہت بڑے ولی تھے حضرت سید ناصر الدین سونی پتی کی اولاد میں ہیں۔

39

؁؁778 ہجری مطابق ؁1376 عیسوی کو آپ کا انتقال ہوا مشہور ہے کہ آپ کی دعا سے ایک مردہ جی اتھا تھا اس سبب سے محی العظام اور راجہ ہاڑ کوڑ آپ کا لقب ہوگیا ہے ستائیسویں صفر کو ہر برس یہاں عرس ہوتا ہے
کالی مسجد یا کلان مسجد
فیروز شاہ کے وقت میں جب شہر فیروز شاہ آباد آباد ہوا تھا اس کے ایک محلے میں خانجہان نے ؁770 ہجری مطابق ؁1387 عیسوی کے یہ مسجد بنائی تھی جب وہ شہر ویران ہوا اور شاہجہاں نے یہ شہر بسایا تو یہ مسجد شہر میں آگئی اس مسجد کو بہت کرسی دیکر بنایا ہے کہ بیتس سیڑھیاں چڑھ کر مسجد میں جاتے ہیں اندر سے مسجد کو سہ گہا بنایا ہے اور ہر گہا میں پانچ پانچ در ہیں اور اس کی چھت پر لداؤ کے چھوٹے چھوٹے گنبد بنائے ہیں اور اس کے دروازے پر کتبہ ہے۔
مسجد بیگم پور
یہ مسجد بھی منجملہ انھیں سجدون کے ہے جن کو خانجہان فیروز شاہی نے ؁789 ہجری مطابق ؁1387 عیسوی کے بنایا تھا یہ مسجد نرے چونے اور پتھر کی ہے قطع اس کی نری بھدی بالکل پٹھانوں کے وقت کی ہے مگر البتہ مستحکم خوب ہے اس کی قطع اور کھڑکی کی مسجد کی قطع بہت قریب قریب معلوم ہوتی ہے۔
مسجد کالو سراے
متصل مسجد بیگم پور کے ایک اور مسجد ہے خانجہان فیروز شاہی کی بنائی ہوئی
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
40

یہ مسجد بھی چونے اور پتھر سے برجیوں دار بنی ہوئی ہے اور جب کہ یہ سب مسجدیں خانجہان نے قریب قریب زمانے میں بنائی ہیں اس واسطے اس کی سال بنا بھی قریب ؁789 ہجری مطابق ؁1387 عیسوی تصور کی جاتی ہے اس مسجد کے ضلع شمالی و جنوبی منہدم ہوگئے ہیں اور اب زمیندار اس میں بستے ہیں۔
مسجد کھڑکی
موضع کھڑکی میں ست پلے کے پاس یہ مسجد ہے قریب ؁789 ہجری مطابق ؁1387 عیسوی فیروز شاہ کے وقت میں خانجہان نے یہ مسجد بنائی ہے اب اس مسجد میں زمیندار بستے ہیں یہ مسجد چھوکھونٹی ہے اور چاروں طرف مربع کے ضلعوں کے بیچ میں ایک ایک مربع بطور تاج کے نکالا ہے تین طرف تو دروازے ہیں اور قبلے کی طرف سے بنہ ہے تمام مسجد میں بہت سے ستون لگائے ہیں ایک ایک برج چاروں تاج کے مربعوں پر ہے اور مسجد کی چھت پر نو جگہ ملے ہوئے نو نو برج ہیں ہر ہر برج کے تلے چار چار ستون ہیں مسجد کے صحن میں چار چوک چھوڑے ہیں اس قطع کی مسجد اس نواح میں کہیں نہیں ہے بلاد روم کی مسجدوں کی قطع معلوم ہوتی ہے۔
مقبرہ فیروز شاہ
یہ مقبرہ حوض خاص کے کنارے واقع ہے جبکہ ؁790 ہجری مطابق ؁1388 عیسوی کے فیروز شاہ کا انتقال ہوا تو اس مقام پر دفن کیا میرے رائے میں یہ مقبرہ


41

ناصر الدین محمد شاہ کے وقت میں ؁792 ہجری مطابق ؁1389 عیسوی کے بنا ہے یہ مقبرہ بالکل چونے اور پتھر سے بنا ہوا ہے اس کی پیشانی پر چونے کے حرفوں سے کتبہ بھی ہے مگر اکثر حرف جھڑ گئے ہیں اسی جگہ اور بھی چھوٹے چھوٹے برج بنے ہوئے ہیں اور ناصر الدین محمد شاہ اور علاؤ الدین سکندر شاہ کی یہیں قبر ہے اور ایک چھوٹا سا برج شہاب الدین تاج خان اور سلطان ابو سعید کا ہے اور اس پر کتبہ لگا ہوا ہے۔
خضر کی گنبٹی
دریا کے کنارے موضع اوکھلہ کی سرحد میں خضر خان کا یہ مقبرہ ہے ؁824 ہجری مطابق ؁1421 عیسوی میں ابو الفتح مبارک شاہ اس کے بیٹے نے مقبرہ بنایا یہ مقبرہ کچھ اچھا نہیں ہے صرف ایک گنبد تھا کہ وہ گر پڑا ہے فصیل میں کا ایک برج باقی رہ گیا ہے البتہ دریا کے بہنے اور کشتیوں کے چلنے کی ایک کیفیت ہے۔
مبارک پور کوٹلہ
یہ مقبرہ موضع مبارک پور مین شاہجہاں آباد سے تین چار کوس جنوب کی طرف واقع ہے جبکہ معز الدین ابو الفتح مبارک شاہ ؁837 ہجری مطابق ؁1433 عیسوی میں مراتب یہ مقبرہ بنا یہ مقبرہ بھی بہت خوش قطع ہے سنگ خارا سے بنا ہوا ہے اور سنگ خارا ایسی خوبصورتی سے لگایا ہے کہ دیکھنے سے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
42

علاقہ رکھتا ہے بعضے لوگ یوں خیال کرتے ہیں کہ اس بادشاہ نے شہر مبارک آباد بھی اسی مقام پر آباد کرنا چاہا تھا مگر یہ بات صحیح نہیں بلکہ اس بادشاہ نے موضع مبارک پوریتی میں شہر مبارک آباد آباد کرنا چاہا تھا۔
مقبرہ محمد شاہ
منصور کے مقبرے کے سامنے سواد موضع کے خیر پور میں یہ مقبرہ ہے سلطان محمد شاہ بن فرید خان بن خضر خان کا جو سلطان معز الدین ابو الفتح مبارک شاہ بن خضر خان کے بعد تحت پر بیٹھا جبکہ ؁849 ہجری مطابق ؁1445 عیسوی کے اس بادشاہ کا انتقال ہوا تو یہاں دفن کیا اور یہ مقبرہ اس کے بیٹے علاؤ الدین عالم شاہ نے بنایا یہ مقبرہ نرا چونے اور پتھر کا بنا ہوا ہے لیکن قطع اس کی بہت نفیس ہے اندر کا مکان اور باہر کی غلام گردش اور اوپر کی برجیاں بہت خوبصورتی سے بنائی ہیں۔
مقبرہ سلطان بہلول لودھی
جبکہ سلطان بہلول لودھی موضع بھد اولی نواح سکیٹ مین ؁894 ہجری مطابق ؁1488 عیسوی کے مرا اس کی نعش کو اس مقام پر حضرت روشن چراغ دہلی کی درگاہ کے پاس لا کر دفن کیا اور سلطان سکندر اس کے بیٹے نے یہ مقبرہ بنایا یہ مقبرہ عجب قطع کا بنا ہوا ہے نیچے تو بارہ در ہیں اور اوپر پانچ برج ہیات مجوعی مقبرے کی بہت خوبصورت ہے اس مقام پر اور بھی قبرستان

43

بن گیا ہے اور سنگ سرخ کے محجر میں قبریں بنی ہوئی ہیں یہاں سے روشن چراغ دہلی کی درگاہ کی فصیل جو محمد شاہ نے بنائی ہے اور ایک دروازہ فصیل کا بہت خوشنمائی سے دکھائی دیتا ہے۔
پنج برجہ زمرد پور
زمرد پور ایک گاؤں ہے شاہجہاں آباد سے چھ میل جانب جنوب پہلے اس گاؤں کا نام کنچن سرائے تھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سلطان سکندر بہلول کے وقت میں زمرد خان کی جاگیر میں ملا جب سے زمرد پور نام پڑا اس گاؤں میں زمرد خان کا قبرستان ہے اور قبروں پر چھوٹے چھوٹے اور بڑے بڑے برج ستون دار بنے ہوئے ہیں عمارت دیکھنے سے کچھ شک نہیں رہتا کہ یہ عمارت سلطان سکندر کے وقت کی ہے اسی سبب سے اس قبرستان کی بنا بھی تخمیناََ پندرھویں صدی یعنی قریب ؁894 ہجری مطابق ؁1488 عیسوی کے خیال کی گئی ہے۔
بستی باوڑی
یہ مقبرہ ہے قریب درگاہ حضرت نظام الدین کے سلطان سکندر بہلول کے وقت میں بستی خوجہ سرا تھا اس نے اپنا مقبرہ قریب ؁894 ہجری مطابق ؁1488 عیسوی کے بنایا اس مقام پر ایک باؤلی بہت نفیس ہے اس میں نیچے اوپر دالان بنے ہوئے تھے جانب غرب باؤلی کے ایک مسجد ہے اور اس پر چونے کی منبت کاری میں آیات قرآنی کندہ ہیں مسجد کی بغل میں بائیں طرف دروازہ ہے اور اس پر

44

بھی برج بنا ہوا ہے اس دروازے کے سامنے قبر کا گنبد ہے پہلے تو بہت اونچا چبوترہ بنا کر اس میں کمرے کے طور پر گھر بنائے ہیں اور اس پر قبر بنائی ہے اور قبر پر برج مع لداؤ اور ستون کے سنگ سرخ کا بہت نفیس بنا ہوا ہے چبوترہ بھی بہت خوبصورت ہے اس کے چاروں کونوں پر بھی خوشنمائی کے لیے چار برجیاں بنائیں تھیں ان میں کی تین برجیاں قائم ہیں اور ایک ٹوٹ گئی ہے۔
موٹھ کی مسجد
مبارک پور کوٹلے سے تھوڑی دور آگے یہ مسجد اور اس کے ساتھ کا ایک کنواں ہے مگر یہ مسجد بہت نامی اور نہایت خوشنما چونے اور پتھر کی ہے دروازہ اس کا مسجد سے بھی اچھا بنا ہوا تھا سنگ مرمر میں آیات قرآنی کندہ تھیں مگر اب بالکل شکستہ اور خراب ہوگیا ہے مشہور ہے کہ کسی شخص نے راہ چلتے میں زمین پر سے موٹھ کا دانہ اٹھا لیا تھا اس دانے کو بویا جو اس میں خوشے لگے دوسرے برس پھر سب کو بوایا یہاں تک کہ چند سال میں بہت رُپَوں کی کی موٹھ ہوگئی اس کی یہ مسجد بنی اور اسی سبب سے موٹھ کی مسجد مشہور ہے کنوئیں کے اندر ایک کتبہ سنگ سرخ کے پتھر پر ہے اس کے اکثر حرف شور لگنے سے جھڑ گئے ہیں جس قدر کہ باقی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد اور کنواں سلطان سکندر بن سلطان بہلول کے وقت میں یعنی تخمیناََ ؁894 ہجری مطابق ؁1488 عیسوی کے بنے ہیں۔

45

مقبرہ لنگر خان
موضع زمرد پور کے پاس راے پور ایک گاؤں ہے اس کی سرحد میں یہ مقبرہ ہے لنگر خان سلطان بہلول لودھی کے وقت کے امیروں میں سے تھے ان کا یہ مقبرہ ہے اور اسی واسطے اس کی بنا تخمیناََ ؁900 ہجری مطابق ؁1494 عیسوی کے خیال کی گئی ہے یہ مقبرہ نہایت بھدا چونے پتھر کا بنا ہوا ہے مگر اس کے اندر کی قبر اتنی اونچی بنائی ہے کہ ار آدمی اس کے پاس کھڑا ہو کر ہاتھ اونچا کرے تو بھی انگلیاں قبر کے سرے تک نہیں پہونچیں اسی مقبرے کے پاس ایک چھوکھنڈی کی برجی اور ہے اور اس میں بھی کسی کی قبر ہے شاید کہ انھیں کے خاندان میں سے کسی کی ہوگی۔
تِبُر جہ
موٹھ کی مسجد کے پاس یہ تین برج برابر برابر ہیں معلوم نہوئے کہ یہ کس کے مقبرے ہیں مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ سلطان سکندر کے عہد کے یعنی تخمیناََ ؁900 ہجری مطابق ؁1494 عیسوی کے بنے ہوئے ہیں یہ تینوں مقبرے چونے اور پتھر سے بنے ہوئے ہیں پہلا مقبرہ اور مقبروں سے اچھا بنا ہوا ہے اور کہیں کہیں اس میں سنگ سرخ بھی لگا ہوا ہے۔
راجوں کی بائین
نواح قطب صاحب میں کوٹھی دلکشا سے تھوڑی دور پرے یہ باؤلی ہے

46

؁922 ہجری مطابق ؁1506 عیسوی کے سکندر شاہ کے وقت میں دولت خان نے اس کو بنایا ساخت اس باؤلی کی بہت اچھی ہے سر سے پاؤں تک چونے پتھر کی ہے اور اب تک سب جگہ سے ثابت ہے اس کے پاس ایک مسجد ہے اور اس کے صحن میں گنبد ہے پتھر کے ستون کھڑے کرکر اس پر برجی بنائی ہے کسی زمانے میں اس باؤلی کے مکانات میں راج آبسے تھے جب سے راجوں کی بائین مشہور ہے اس باؤلی کے برج کی پیشانی پر یہ کتبہ لگا ہوا ہے۔
مقبرہ سلطان سکندر بہلول
موضع خیر پور کے پاس یہ مقبرہ ہے سلطان سکندر بن سلطان لودھی کا یہ مقبرہ ؁923 ہجری مطابق ؁1517 عیسوی کے سلطان ابراہیم اس کے بیٹے نے بنایا اگرچہ یہ مقبرہ نرے چونے اور پتھر کا ہے الا اندر کا درجہ اور باہر کی غلام گردش اور اوپر کی برجیاں بہت خوشنمائی سے دکھائی دیتی ہیں۔
درگاہ شیخ یوسف قتال
کھڑکی کی مسجد کے پاس یہ درگاہ ہے شیخ یوسف قتال کی جو مرید ہیں قاضی جلال الدین لاہوری کے ؁933 ہجری مطابق ؁1526 عیسوی کے آپ کا انتقال ہوا اور شیخ علاؤ الدین حضرت شیخ فرید شکر گنج کے نواسے نے یہ مکانات بنائے یہ درگاہ سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہے چاروں طرف کی جالیاں بھی سنگین ہیں برج چونے کا ہے اور اس کے حاشیے پر چینی کا کام بنا ہوا ہے اس کے پاس ایک
 

وجی

لائبریرین

اس مسجد کے ادھر ودھرتین تین دربڑھائے یعنی 637؁ ہجری مطابق 1229؁ عیسوی کے اوسی زمانے میں اس لاٹھ کو بھی بڑھایا اور دوسرے کھنڈ کے دروازے پر اسکا حال ِ کھدوایا اور جب سے اسکا نام اذنہ رکھا اور ہر درجے پر اسی نام کا کتبہ ؀ 2 اور جمعے کی نماز کی آیت کو کھودا اور معمار کا نام لکھا اگرچہ اب اس لاٹھ کے پانچ کھنڈ ہیں لیکن اسمین بھی کچھ شک نہین کہ جسطرح مشہور ہی پہلے اس لاٹھ کے سات کھنڈ تھے اور منارہ ہفت نظری کے نام سے بھی یہ لاٹھ مشہور ہے اور جہان اب کٹہرا لگا ہوا ہے وہان ایسے کنگورے بنے ہوئے تھے جیسے فصیلون کے ہوتے ہین اور پانچوین درجے پر ایک درجہ تھا کہ اوسکے چارون طرف دروازے تھے اور اسکے اوپر بطور لنبی برجی کے مشل راس مخروط لداؤ تھا کہ ساتو ان درجہ شماارمین آتا تھا یہ ساتوان درجہ 770 ؁ ہجری مطابق 1368 ؁ عیسوی مین فیروز شاہ نے بنایا تھا کیونکہ وہ لکھتا ہے کہ مرمت کے وقت مین نے اس لاٹھ کو جتنی پہلے تھی اوس سے اونچا کردیا اور اس لاٹھ کی مرمت کا حال پانچون کھنڈکے دروازے پر کھدوادیا بعد اوسکے پھر لاٹھ مرمت طلب ہوگئی تھی 909 ؁ عیسوی مین فتح خان نے سلطان سکندر بہلول کے وقت مین مرمت کی اور اسکا حال کھدوا کر پہلے دروازے کی پیشانی پر لکھوادیا مشہور ہے کہ تخمینا 1197 ؁ ہجری مطابق 1782 ؁عیسوی کے کالی آندھی اور بھونچال کے صدمے سے اوپر کے کھنڈ گرپڑے تھے اور نیز سبب پرانے ہونے کے پہلے کھنڈکے پتھر بہت گرپڑے تھے اور اکثر جگہ سے​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
38

جو کہ بڑی بیٹھک کرکے مشہور ہے اگرچہ یہ عمارت بھی بہت نفیس و لطیف اور نہایت خوشنما ہے لیکن میرزا جہانگیر بہادر مرحوم نے اس میں تصرفات جدید کیے تھے کہ قطع قدیم شاہجہانی نہیں رہی۔
اسد برج
یہ جنوبی برج قلعہ کا ہے اور قرینہ ہے برج شمالی کا جو شاہ برج کرکے مشہور ہے یہ برج ہرناتھ چیلے کے ہنگامے میں بسبب صدمہ گولوں کے بالکل ٹوٹ گیا تھا محمد اکبر شاہ ثانی کے عہد دوبارہ بنا ہے اور جیسا تھا ویسا ہی ہوگیا ہے۔
خواب گاہ یا بڑی بیٹھک
یہ خواب گاہ امتیاز محل کے جانب شمال کو واقع ہے اور یہ عمارت بھی بہت نفیس و لطیف سر سے پاؤں تک سنگ مرمر کی ہے اور اس میں طرح طرح سے منبت کاری کا کام اور سونے کے بیل بوتے بنے ہوئے ہیں اس کے بیچ میں شہ نشین کی طرح ایک مکان ہے اور اس کے جنوب اور شمال کو دو بڑے در لداؤ کے سنگ مرمر اور پرچین سازی سے بنے ہیں کہ اس شہ نشین کو طول پندرہ گز اور عرض چھ گز کا ہے اور اس کی دو محرابوں پر ایک کتبہ کہ سعد اللہ خان نے انشا کیا ہے لکھا ہوا ہے اور گرد اجارہ کے پاس سونے کے پانی سے اشعار لکھے ہوئے ہیں کہ ہم ان سب کو اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔
کتبہ محراب جنوبی
سبحان اللہ این چہ منزلہاست رنگین و نشیمن ہاست دلنشین قطعہ بہشت برین
چون گویم کہ قدسیان ہمت بلند بتماشایش آرزومند اگر ساکنان اطراف و اکناف
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
37

پھول نکلتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اس پیالے میں ایک سوراخ ہے اور ایک نہر پوشیدہ تلے تلے آئی ہے اور اس پیالے میں سے اوبلی ہے پیالے کے لبوں سے پر پانی کا گرنا اور حجاب آب سے گل بوٹوں کا لہراتا ہوا دکھائی دینا ایک عالم طلسمات معلوم ہوتا ہے نہر بہشت جو موتی محل اور دیوان خاص میں سے ہوتی آئی ہے اس محل کے بیچوں بیچ میں سے گزری ہے اور جانب جنوب بہتی ہوئی چلی گئی ہے اور ایک نہر اس محل میں اس حوض سے جانب شرق و غرب بہتی ہے اور جانب شرق اس حوض میں جو صحن کی طرف روکار کے سامنے رکھا ہوا ہے چادر ہو کر گرتی ہے ہر ایک نہر میں منبت کاری اور پرچین سازی اور پچکاری کا وہی حال ہے یہ محل اجارہ تک اور اس کے ستون کہ پایہ نما ہیں اور محرابیں سب کی سب سنگ مرمر کی ہیں اور اور اس میں پچکاری کی ہوئی ہے علاوہ اس کے ہر ایک درو دیوار پر سونا لپا ہو ہے اور سونے کے کام سے گل بوٹے بنے ہوئے ہیں کہتے ہیں کہ اس محل کی چھت نری چاندی کی بنی ہوئی تھی فرخ سیر کے وقت میں کسی ضرورت کے سبب وہ چھت اکھاڑی گئی اور اس کے بدلے تانبے کی چھت چڑھا دی محمد اکبر شاہ ثانی کے وقت میں اس تانبے کی چھت کو بھی اکھاڑ لیا اور اس کے بدلے کاٹ کر چھت لگائی ہے کہ وہ بھی اب بوسیدہ ہوگئی ہے۔
چھوٹی بیٹھک
یہ عمارت جانب جنوب امتیاز محل کے واقع ہے اور حقیقت میں قرینہ ہے خواب گاہ کا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
41

پانی ابلتا تھا اس دالان کے آگے صحن ہے وسیع دلکش سنگ مرمر کا فرش اس میں کیا ہوا ہے اور نہر بہشت بہتی ہے اور رنگ محل میں چلی جاتی ہے۔
برج طلایا مثمن برج
اس عمارت کے متصل جانب شرق یہ برج ہے مثمن سر سے پاؤں تک سنگ مرمر کا اور بدستور اور مکانات عالی کے اس میں بھی سونے کا کام اور پرچین سازی اور منبت کاری کی ہوئی ہے اور اس کا برج اور کلس سنہری ہے اسی سبب سے اس کو سنہری برج بھی کہتے ہیں اور بسبب مثمن ہونے کے مثمن برج بھی کہلاتا ہے تین ضلع اس کے عمارت خواب گاہ کی طرف ہیں اور پانچ جانب دریا شرف ہیں ان پانچوں ضلعوں میں سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں اور اس میں ایک اور نشیمن بطور برآمدے کے جانب دریا بنا ہوا ہے۔
شاہ محل یا دیوان خاص
خواب گاہ کی جانب شمال کو ایک بہت بڑا چوک ہے اس چوک کے ضلع شرقی میں ڈیڑھ گز اونچا چبوترہ بنایا ہے اسی گز لمبا اور چھبیس گز کا چوڑا اس کے بیچوں بیچ میں دیوان خاص کی عمارت ہے چونتیس گز کی لمبی اور چھبیس گز کی چوڑی سر سے پاؤں تک سنگ مرمر کی اور سر تا سرا اس کے بیچ میں چار گز کے عرض سے نہر بہشت بہتی ہے اس عمارت کے بیچوں بیچ میں چوکور ستون بنا کر اٹھارہ گز کے طول اور دس گز کے عرض سے مکان بنایا ہے اور اس کے بیچوں بیچ میں ایک
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
6

بلدیو سانبھر کا راجہ تھا جہاں سے چوہانوں کا نکاس ہے اس نے جوج کشی کرکر تنورون پر جو دلی کے راجہ تھے فتح پائی راے پتھورا نے اپنی زمانہ ریاست یعنی سمت 1220 مطابق 1163 عیسوی کے اس لاٹھ پر اپنے پُرکھا کا فتح نامہ لکھوا دیا اس کتبے کے ناگری حرف اور سنسکرت زبان ہے اس کے اشلوک بخوبی پڑھے جاتے ہیں اس کتبے میں بلدیو کی تعریف اور اس کی خوبیوں کا بیان اور یہ بات کہ اس نے فتح کرکر ہندوستان میں دھرم قائم کردیا لکھا ہوا ہے جس زمانے میں فیروز شاہ بعد بنائے کوٹلہ کے ستھتہ کی طرف آیا اور پھر وہاں سے پھر کر دلی میں آیا یعنی قریب ؁770 ہجری مطابق ؁1368 عیسوی کے تو اس زمانے میں یہ لاٹھ موضع نوہرہ پرگنہ سالورہ ضلع خضر آباد میں نصب تھی جو دلی سے پہاڑ کی طرف نوے کوس کے فاصلے پر ہے اور اس زمانے میں مشہور تھا کہ بھیم کی گوین چرانے کی یہ لاٹھی ہے فیروز شاہ نے ارادہ کیا کہ اس کو یہاں سے اکھاڑ کر دلی میں لے جانا چاہییے کہ مدت تک یادگار رہے گی اس خیال سے گرد نواح کے قصبات اور دیہات کے بہت سے آدمی جمع کیے اور روئی کے بورے بھروا کر اس لاٹھ کے گرد چُن دیے اور اس کی جڑ کو کھودنا شروع کیا جب کہ جڑ تک کھد چکی تو ٹیڑھی ہو کر ان روئی کی بوروں پر تھم گئی پھر ایک ایک بورہ روئی کا سہج سہج نکالتے گئے اور لاٹھ کو نیچے لیتے گئے اس کی جڑ میں ایک بہت بڑا مربع پتھر تھا جس میں یہ لاٹھ کھڑی کی تھی اس پتھر کو بھی نکالا اور جب یہ لاٹھ زمین پر لیٹ گئی تو اس کے گرد

7

بانس باندھے اور کچے چمڑے سے ساری لاٹھ کو منڈھ دیا کہ کسی طرح کا صدمہ نہ پہونچے اور اس کے لادنے کو ایک چھکڑہ بیالیس پہیے کا بنایا اور بہت سے آدمیوں نے مل کر رسیاں باندھ کر اس لاٹھ کو اٹھایا اور چھکڑے پر رکھا اور اس کے ہر ایک پہیے میں بہت مضبوط رسیاں باندھیں ان رسیوں کو دو دو سو آدمی ملکر کھنچتے تھے جب چھکڑا چلتا تھا اس طرح بہزار مشقت لاٹھ کو دریا کے کنارے پر لائے جو موضع نوہر کے نیچے بہتا تھا اور بہت بڑی بڑی کشتیاں باندھ کر اس لاٹھ کو کشتیوں پر چڑھایا اور دریا دریا شہر فیروز آباد میں لائے اور کوٹلہ فیروز شاہ میں مسجد کے پاس اس لاٹھ کے کھڑا کرنے کو سہ منزلا مکان بنانا شروع کیا جب ایک درجہ تیار ہو جاتا تب لاٹھ کو اٹھا کر اس پر رکھتے اور پھر دوسرا درجہ بنانا شروع کرتے جب وہ بھی تیار ہو جاتا تو لاٹھ کو اٹھا کر اس درجے پر رکھتے اس طرح تینوں درجے بن گئے جب لاٹھ کو کھڑا کرنا چاہا تو بہت موٹی موٹی رسی بنا کر ایک سرا ان کا لاٹھ میں باندھا اور بہت آدمی مل کر ان چرخیوں کو پھیرتے تھے اور بہت زور کرتے تھے جب آدھ گز اونچی اٹھتی تھی اس وقت اس کے نیچے بڑے بڑے لکڑ اور روئی کے بورے رکھ دیتے تھے تاکہ کسی طرح کا صدمہ مکان کو یا لاٹھ کو نہ پہونچے اس طرح بہت دنوں میں یہ لاٹھ سیدھی کھڑی ہوئی اور اس کے نیچے وہی مربع پتھر بدستور رکھ دیا اور پھر چونے اور پتھر سے بھروا کر مضبوط کردیا اور

8

اس کے اوپر سنگ مرمر اور سنگ موسی کی بہت خوبصورت برجی بنائی اور تانبے کا کلس سنہری ملمع دار بہت خوبصورت اس پر لگایا اور اسی سبب سے منارہ زرین اس کا نام رکھا مگر افسوس کہ نہ اب وہ برجی رہی اور نہ کلس رہا بلکہ لاٹھ کے سرے کا کونہ بھی جھڑ گیا بعضے کہتے ہیں کہ بجلی کے صدمے سے گرا اور بربعضے کہتے ہیں کہ گولے کے صدمے سے ٹوٹا طول اس لاٹھ کا بتیس 32 گز کا ہے آٹھ گز اس میں سے عمارت میں گڑ گئی ہوئی ہے اور چوبیس گز بلند عمارت کے اوپر نکلی ہوئی ہے۔
لاٹھ دوم اشوکا یا منارہ کوشک شکار
یہ دوسری لاٹھ ہے راجہ اشوکا کی جومیان دو اب میں میرٹھ کے پاس تھی اسی زمانے میں جبکہ فیروز شاہ نے منارہ زرین اپنی کوشک میں لگایا یہ دوسری لاٹھ کوشک جہاں نما یا کوشک شکار میں لاکر لگائی اگرچہ یہ لاٹھ پہلی لاٹھ سے چھوٹی ہے تو بھی اس لاٹھ کے لانے میں وہی دقتیں اور مشکلیں اٹھائیں جو پہلی لاٹھ میں اٹھائیں تھیں جبکہ یہ لاٹھ اس کوشک پر کھڑی ہوچکی تو بادشاہ نے جشن کیا اور سارے شہر کی خلقت کو تماشا دیکھنے کا حکم دیا اور ہرجگہ شربت کی سبیل مخلوقات کے پینے کو رکھوا دی تھی بہت مدت ہوئی کہ ایک میکھ زین اوڑے کے سبب جو اس کے قریب تھا یہ لاٹھ ٹوٹ گئی اس کے پانچ ٹکڑے ٹوٹے ہوئے اب بھی ولیم فریزر صاحب کی کوٹھی کے قریب پڑے ہیں اگر ان پانچوں ٹکڑوں کو ملائیں تو پونے تینتیس فٹ لمبی
 
Top