ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Aasar1_page_0148.jpg
 

نایاب

لائبریرین
21
پانی کی سیر کو جانب جنوب چھوٹی سی پہاڑی پر کہ عین اس پانی کے کنارے پر واقع تھی ۔ یہ قلعہ بنایا اور شہر تغلق آباد کے دروازے سے اس قلعہ کے دروازے تک ایک پل بنایا اور جانب غرب اس میدان کے مقبرہ تغلق شاہ بنایا ہے اور اس کے دروازے اور قلعہ کے دروازے میں بھی پل بنا دیا ہے اور آگے قلعہ کی دیوار شمالی پر مشرف بہ آب عمارت ہزار ستون بنائی تھی ۔ اور سنگ مرمر کے ستون لگائے تھے ۔ اگرچہ اس قلعہ کی سب عمارت بالکل ٹوٹ گئی ہے اور اس عمارت ہزار ستون کا بھی نام و نشان نہیں رہا ۔ الا ہم نے جو اس قلعہ کو دیکھا تو بنظر قطع اور وضع تعمیر مکانات کے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمارت ہزار ستون کی مشرف بہ آب اس قطع کی بنی ہوئی تھی جس قطع پر بارہ دری بنانے کا دستور ہے اور اس میں کچھ شک نہیں معلوم ہوتا کہ عمارت دو منزلی تھی بلکہ اگر سہ منزلی ہو تو بھی کچھ عجب نہیں ۔ اس زمانے کے مورخوں نے اس قلعہ کی تعمیر کی تاریخ " فادخلوہا " کہی تھی ۔ بعضوں کو یہ شبہ پڑا ہے کہ یہ وہی محل ہے جس کی چھت گرنے کے سبب سلطان غیاث الدین تغلق شاہ مرا تھا ۔ یہ بات بالکل غلط ہے وہ محل چھوٹا سا تین دن کے عرصے میں اس بادشاہ نے سن 725 ہجری مطابق سن 1324 عیسوی میں موضع افغان پور (1) کے قرب اپنے زمانہ ولی عہدی میں بنایا تھا کہ وہ کھانا کھانے کے وقت بسبب بودا بننے کے یا بجلی کے صدمے سے سلطان غیاث الدین تغلق شاہ پر گر پڑا تھا ۔ اور یہ قلعہ وہ ہے جو اس بادشاہ نے اپنے تخت پر بیٹھنے کے بعد بنایا ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
حوالہ صفحہ 21
(1) تاریخ فیروز شاہی
ضیا اے برنی


22
جہاں پناہ
جب کہ سن 728 ہجری مطابق سن 1327 عیسوی کے سلطان محمد تغلق شاہ عادل آباد کے بنانے سے فارغ ہوا تو اس نے قلعہ علائی سے قلعہ رائے پتھورا تک جو سلطان جلال الدین فیروز خلجی (1)کے وقت سے پرانی دلی کے نام سے مشہور تھا دو دیواریں (2) شہر پناہ کے طور پر کھینچ دیں تھیں ۔ ایک سرا ان دیواروں کا اسی قلعہ علائی یا کوشک سیری سے ملا دیا تھا ۔ اور دوسرا سرا قلعہ رائے پتھورا سے اور اس کا نام جہاں پناہ (3) رکھا تھا اور یہ تینوں قلعہ یعنی قلعہ رائے پتھورا یا دہلی کہنہ اور قلعہ علائی یا کوشک سیری اور جہاں پناہ مل کر ایک قلعہ ہو گیا تھا ۔ اور تینوں قلعوں کے تیس (4) دروازے تھے ۔ تیرہ تو جہاں پناہ کے سات تو جنوب کی طرف مائل بشرق اور چھ جانب شمال مائل بغرب اور قلعہ علائی یا کوشک سیری کے سات دروازے تھے چار تو باہر کی طرف کھلتے تھے اور تین جہاں پناہ کے شہر کے اندر کھلتے تھے ۔ اور قلعہ رائے پتھورا یا دہلی کہنہ کے دس دروازے تھے کچھ تو باہر کی طرف کھلتے تھے اور کچھ جہاں پناہ کے شہر کے اندر کھلتے تھے ۔ اور یہ بہت بڑا شہر آباد ہوگیا تھا ۔ سن 948 ہجری مطابق 1541 عیسوی کے شیر شاہ کے وقت میں ویران ہوا ۔
کوشک بجی سنڈل یا بدیع منزل
یہ عمارت درحقیقت ایک برج (5) ہے قلعہ جہاں پناہ کا مگر اس برج کو محمد عادل تغلق شاہ نے بہت نفیس و لطیف بنایا تھا ۔ برج کے اوپر چار دروازوں کا کمرہ اس کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) تاریخ فرشتہ
(2) توزک تیموری
(3) فتوحات فیروز شاہی
(4) توزک تیموری
(5) اخبار والاخیار
 

نایاب

لائبریرین
23
دیواروں میں اوپر سے جانے کا رستہ ہے اس کے اوپر اگلے زمانے میں سنگین بہت خوشنما بارہ دری تھی مگر اب بالکل ٹوٹ گئی ہے اس برج پر بیٹھ کر عرض لشکر لے جاتے تھے ۔ سلطان سکندر لودھی کے وقت میں شیخ حسن طاہر اسی برج میں رہا کرتے تھے اس برج کے پاس جو قبرستان ہے وہ ان کا اور ان کی اولاد کا ہے ۔ سن 909 ہجری مطابق سن 1503 عیسوی کے ان کا انتقال ہوا تھا اور شیخ ضیاء الدین خلیفہ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی اسی کے پاس مزار ہے ۔
کوشک فیروز شاہ یا کوٹلہ فیروز شاہ
جب کہ نوبت سلطنت کی فیروز شاہ تک پہنچی اس نے سن 755 ہجری (1)مطابق 1354 عیسوی کے دریا کے کنارے سرحد (2) موضع کادین میں اس کوشک کو بنایا ۔اور اس کے متصل شہر بسایا ۔ اور اس کوشک (3) میں تین نقیبیں بنائیں تھیں ۔ کہ اپنے محل کی عورتوں سمیت سواریوں پر اس میں چلے جاتے تھے ۔ ایک نقب دریا کی طرف تھی ۔ پانچ جریب لمبی ۔ ایک جہاں نما کی طرف تھی دو کوس لمبی ۔ اور ایک پرانی دلی کی طرف تھی پانچ کوس لمبی ۔ اور واضع ہو کہ پرانی دلی سے قلعہ اور شہر رائے پتھورا مراد ہے ۔ کیونکہ تیسری نقب اسی جانب کو ہے اور بڈھے بڈھے آدمی بیان کرتے ہیں کہ یہ نقب بدیع منزل اور حوض خاص تک جاتی تھی ۔ راجہ اشوکا کی لاٹھ جس کا حال تیسرے باب میں آئے گا موضع نوہرہ پر گنہ سالورہ ضلع خضر آباد سے لا کر فیروز شاہ نے اسی کوشک میں کھڑی کری ہے ۔
(1) تاریخ فرشتہ
(2) تاریخ فیروز شاہی ۔ شمس سراج عفیف
(3) آئین اکبری
 

نایاب

لائبریرین
24
اسی بادشاہ نے اسی سن میں پرانی دلی کے پاس تھوڑے فاصلے پر اس قصر سے ملا ہوا ایک شہر آباد کرنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ (1) یہ شہر بہت بڑا اور نہایت آباد ہو گیا ۔ قطر اس شہر کا پانچ کوس طولانی تھا ۔ اب جو یہ شہر شاہجہان آباد ہے اس میں سے بھی ترکمان دروازے کا سارا تھا نہ اور بلبلی خانے کا سارا محلہ جہاں رضیہ سلطانہ کی قبر ہے اور بھوجلا پہاڑی کا تھانہ ۔ یہ سب فیروز آباد کے شہر میں داخل تھے اور کالی مسجد جو اب شہر شاہ جہاں آباد کی چار دیواری کے اندر واقع ہے اسی شہر میں کی ایک مسجد ہے ۔ غرض کہ اس شہر میں قصبہ اندمتہ اور سرائے ملک یار پران اور سرائے شیخ ابوبکر طوسی اور زمین موضع کادین اور زمین کیٹھواڑہ اور زمین لڑادت اور زمین اندھا ولی اور زمین سرائے ملکہ اور زمین مقبرہ سلطان رضیہ یعنی محلہ بلبلی خانہ اور زمین پہاڑی یعنی بھوجلا پہاڑی اور زمین نرولہ اور زمین سلطان پور وغیرہ اٹھارہ گاؤں کی شہر کی آبادی میں آ گئی تھی ۔ اور ہر طرح کی چیز اور ہر محلے میں جانے کو کرایہ کی سواری یہاں ملتی تھی ۔ اتنا بڑا یہ شہر تھا کہ جب تیمور (2) یہاں آیا تو اس نے شہر کے دروازے کے باہر خیمے کھڑے کیئے تو وہاں سے حوض خاص جہاں فیروز شاہ کی قبر ہے قریب تھا ۔ راجہ مان سنگھ نے گوالیار کے قلعے کے نیچے اک محل بنایا تھا اور بادل گراؤ اس کا نام رکھا تھا اس جگہ کانسے کا ایک بیل بنا ہوا تھا کہ مدت سے ہندو اس کو پوجتے تھے ۔ سلطان ابراہیم لودھی نے
(1) تاریخ فیروز شاہی ۔ شمس سراج عفیف
(2) ظفر نامہ تیموری ۔ شیخ علی یزدی
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ نمبر49​
سنگ مرمر کا ساڑھے تین گز کے طول اور ڈھائی گز کے عرض سے اور اس حوض سے مشرقی طاق کے کنارے تک ایک نہر ہے ڈیڑھ گز کے عرض سے نری سنگ مرمر کی بہت تحفہ اور پرچین ساز اور منبت کار اور یہ دونوں حوض بھی نہایت پرچین ساز اور منبت کار ہیں اور عقیق اور مرجان اور پتھر بیش قیمت جڑے ہوئے ہیں اس نہر میں سے ایک نہر نکل کر عربی طاق کے حوض میں پڑتی ہے اور اس سے برج کی نہر میں آ کر اور شمن حوض میں سے ہو کر شرقی طاق کی طرف بہتی ہے کہ اس کے نیچے دریا کی طرف ایک آبشار بنی ہوئی ہے۔ سارے قلعہ میں اسی مقام سے نہر گئی ہے اور ہر جگہ پانی جانے کے قلبہ اسی برج میں بنے ہوئے ہیں اور ہر ہر قلبہ پر نام لکھا ہوا ہے کہ یہ فلانے حوض کا قلبہ ہے اور یہ فلانی نہر کا اور دوسرے درجے کی عمارت بھی شمن ہے۔ نہایت صفائی کے ساتھ آٹھ گز کے قطر سے اور اس کے آٹھوں ضلعوں پر سراسر ایوان ہے۔ چوبیس ستون کا اور تیسرے درجے کی عمارت ایک نشیمن ہے گنبدی آٹھ ستون پر اور اس کا برج سنگ مرمر اور کلس سنہری ہے غرضیکہ یہ عمارت بھی بہت نفیس ہے۔​
مہتاب باغ
یہ باغ کسی زمانے میں بہت اچھا ہوگا مگر اب تو بجز اس کے کہ ایک بہت چوڑی نہر اس میں جاری ہے اور اس کے غرب کی جانب سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ حال نے قطب صاحب کے جھرنے کی نقل بنائی ہےاور کچھ نہیں۔​
شہر شاہجہان آباد
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ50​
کسے را زندگانی شاد باشد کہ در شاہ جہاں آباد باشد​
جب کہ یہ قلعہ بن چکا اور بادشاہ اس میں رہنے لگے یعنی 1058ہجری مطابق 1648 عیسوی جب ہی سے یہ شہر بھی آباد ہونا شروع ہوا۔ چنانچہ میر یحیی کاشی نے یہ تاریخ کہی​
شد شاہجہاں آباد از شاہجہاں آباد​
24 جلوسی مطابق 1060 ہجری موافق 1650 مسیحی شاہجہاں کے حکم بموجب مٹی اور پتھر سے چار مہینے کے عرصے میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہو کر شہر کی فصیل تیار ہوئی مگر دوسرے برس برسات میں اکثر جگہ سے گر پڑی۔ اس واسطے شاہجہاں نے چونے اور پتھر سے از سر نو بننے کا حکم دیا اور سات برس کے عرصے میں یعنی 1049 ہجری مطابق 1658 میں چار لاکھ روپیہ خرچ ہوکر یہ فصیل تیار ہو گئی طول اس چھ ہزار چھ سو چونسٹھ گز کا ہے اور چار گز کی چوڑی اور نو گز کی اونچی ہے اور اس میں ستائیس برج دس گز کے قطر سے ہیں۔ 1802 عیسوی مطابق 1218 ہجری کے جب سرکار انگریزی کی عملداری ہوئی تو یہ فصیل ہر جگہ سے ٹوٹ رہی تھی۔ سرکار کے حکم سے اس کی مرمت ہوئی اور خندق اور دیوار بہت آراستگی سے درست کی گئی۔ اجمیری دروازے کے باہر غازی الدین خان فیروز جنگ پدر نظام الملک آصف جاہ کا مقبرہ تھا جو مدرسہ کر کر مشہور ہے۔ اس کو بھی شہر پناہ کے اندر لے لیا اور قریب 1811 عیسوی مطابق 1226 ہجری کے اس مدرسے کے گرد بھی شہر پناہ سرکار کے حکم سے بنائی گئی۔ اس نئے شہر پناہ کے برج پر سنگ مرمر میں یہ کتبہ کھود رکھا ہے۔​
برج اکبر شاہ
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ نمبر 51
اس شہر کے دروازے بہت خوشنمائی سے بنے ہوئے ہیں اکثر دروازوں کی ایک ہی سی قطع ہے 1852 عیسوی بمطابق 1629 ہجری میں سرکار انگریزی کے حکم سے ایک اور نیا دوہرا دروازہ بنا ہے ایک دروازے میں سے آتے ہیں اور ایک میں سے جاتے ہیں اور کلکتہ دروازہ اسکا نام رکھا ہے اور اس پر یہ کتبہ ہے
کلکتہ دروازہ سن 1852 عیسوی
اب اس شہر کے چور دروازے اور چودہ کھڑکیاں ہیں اور انکے نام یہ ہیں۔
نام دروازوں کے
دلی دروازہ ۔ راج گھاٹ دروازہ۔ خضری دروازہ ۔ کلکتہ دروازہ ۔ نکمبود دروازہ ۔ کیلہ گھاٹ دروازہ ۔ لال دروازہ ۔ کشمیری دروازہ ۔ بدررودروازہ ۔ کابلی دروازہ ۔ پتھر کھٹی دروازہ ۔ مسدود لاہوری دروازہ ۔ اجمیری دروازہ ۔ ترکمان دروازہ ۔
کھڑکیوں کے نام
زینت المساجد کی کھڑکی ۔ نواب احمد بخش خان کی کھڑکی ۔ نواب غازی الدین کی کھڑکی ۔ نصیر گنج کی کھڑکی ۔ نئی کھڑکی ۔ شاہ گنج کی کھڑکی ۔ اجمیری دروازے کی کھڑکی ۔ مسدود سید بھولے کی کھڑکی ۔ مسدود بلند باغ کی کھڑکی ۔ مسدود فراش خانے کی کھڑکی ۔ امیر خان کی کھڑکی ۔ خلیل خان کی کھڑکی ۔ بہادر علی خان کی کھڑکی ۔ نکمبود کی کھڑکی ۔
اردو بازار اور چاندنی چوک
قلعہ کے لاہوری دروازے کے آگے چالیس گز چوڑا اور ایک ہزار پانچسو بیس گز لمبا بازار ہے
 

میر انیس

لائبریرین
سیدہ شگفتہ بہن حیرت کی بات ہے کہ آپ نے مجھے ٹیگ کیا اور مجھ کو کوئی پیغام موصول نہیں ہوا ۔ وہ تو اتفاق سے میں نے تازہ ترین میں ایک پوسٹ دیکھی اور یہاں چلا آیا ۔ اب نہ جانے کہاں کہاں مجھ کو آپ نے ٹیگ کیا ہوگا اور مجھ کو پتہ نہ چل سکا ۔
 

نایاب

لائبریرین
25
اس کو فتح کیا تو اس بیل کو وہاں سے لا کر اس (1) شہر کے بغدادی دروازے پر لگایا تھا اور اکبر کے وقت تک وہ بیل موجود تھا ۔
کوشک جہاں نما یا کوشک شکار
اس بادشاہ ے انہی عمارتوں کے ساتھ شہر (2) فیروز آباد سے تین کوس کے فاصلے پر ایک اور محل بنایا تھا ۔ اور اس کا نام جہاں نما رکھا تھا ۔ اور اس کے پاس پہاڑوں کا پانی روکنے کو ایک بند پختہ بنایا تھا ۔ کہ اس کی دیواریں کہیں کہیں اب بھی موجود ہیں ۔ یہ عمارت در حقیقت شکار گاہ ہے اور کوشک فیروز شاہ سے اس عمارت تک ایک نقب بنائی تھی ۔ دو کوس کی لمبی کہ اس میں سے سواری پر محل کی عورتوں سمیت چلا جاتا تھا ۔ رفتہ رفتہ اس کوشک کے پاس بھی اکثر امرا نے مکانات بنائے تھے ۔ اور یہاں بھی ایک بہت بڑی آبادی ہو گئی تھی ۔ اور جدا شہر سا بس گیا تھا ۔ جب تیمور اول اول (3)لونی کی جانب سے دلی میں آیا یعنی سن 801 ہجری مطابق 1398 عیسوی تو اسی کوشک کے مقابل لشکر اترا تھا ۔ راجہ اشوکا کی دوسری لاٹھ جس کا ذکر تیسرے باب میں آئے گا ۔ نواح میرٹھ میں سے لا کر فیروز شاہ نے اسی کوشک میں کھڑی کی تھی ۔ اگرچہ یہ کوشک بالکل ٹوٹ گیا ہے مگر ایک مکان کا نمونہ باقی ہے ۔
خضر آباد
دلی سے امیر تیمور کے جانے کے بعد جب خضر خان رایات اعلی بادشاہ ہوا ۔
(1) تاریخ فرشتہ
(2) آئین اکبری
تاریخ فیروز شاہی
شمس سراج عفیف
(3) توزک تیموری
 

نایاب

لائبریرین
43
دیوان خاص کے جانب جنوب ایک دالان ہے اور وہ تسبیح خانہ کر کے مشہور ہے اس دالان کی دیوار پر بیچوں بیچ میں سنگ مرمر میں ترازو کی صورت کھدی ہے اور میزان عدل اس پر لکھ دیا ہے ۔ اسی تسبیح خانے میں سے خوابگاہ کا راستہ ہے کہ وہ خاصی ڈیوڑھی کہلاتی ہے ۔
عقب حمام
یہ حمام بیمثل اور بیعدیل ہے یقین ہے کہ ملکوں ملکوں میں ایسا حمام نہ ہو ۔ پہلا درجہ اس حمام کا کمرہ نما بنایاہے ۔ اجارہ تک سنگ مرمر کا اور اس پر منبت کاری کی ہے اور شرق کی طرف جالیاں لگا کر آئینہ بندی کی ہے کہ اس میں سے دریا اور جنگل اور سبزہ بہت کیفیت سے دکھائی دیتا ہے دوسرے درجے میں جانب شمال ایک شہ نشین ہے سر سے پاؤں تک سنگ مرمر کی اور اس پر بہت تحفہ منبت کاری اور پچی کاری ہے اس کے آگے ایک درجہ ہے مربع نرا سنگ مرمر کا ۔ اس کے فرش سے لے چھت تک عجیب عجیب رنگ کے پتھروں سے پچیکاری کی ہے ۔ اور طرح بطرح کے بیل بوٹے پھول پتی بنائی ہیں یہ پچی کاری ایسی خوش قطعہ
 
Top