شکیل بدایونی :::: قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں - Shakeel Badayuni

طارق شاہ

محفلین
شکیلؔ بدایونی
غزل
قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں
میخانہ اگر وِیراں ہے تو کیا، رِندوں کے ٹھکانے اور بھی ہیں

آغازِ جَفا کی تلخی سے، گھبرا نہ دِلِ آزار طَلَب!
یہ وقت، یہیں پہ ختم نہیں، کُچھ تلخ زمانے اور بھی ہیں

لمحاتِ حَسِینِ پُرسِشِ غم، محدُود نہیں تا شُکرِ کَرَم
بے لفظ سہی، بے نام سہی، ہونٹوں کے فسانے اور بھی ہیں

جِینا ہے تُجھے پِینے کے لیے، اے دوست! کسی عُنواں سے پی
جینے کا بہانہ ایک سہی، پینے کے بہانے اور بھی ہیں

غُنچوں کے چٹکنے پر ہی نہ ہوں مصرُوفِ توجّہ اہلِ چَمن!
کُچھ نِیم شگُفتہ ہونٹوں پر، خاموش ترانے اور بھی ہیں

یہ جلوہ گہِ فطرت ہی نہیں اربابِ جہاں کا عکسِ حَسِیں
اِس جلوہ گہِ فطرت کے سِوا، کُچھ آئینہ خانے اور بھی ہیں

ہر تِیرِ نَظر کی جُنبش میں، پاتا ہُوں شکیلؔ اندازِ جنُوں
معدُوم ہے اب تک جِن کا نِشاں، کُچھ ایسے نِشانے اور بھی ہیں

شکیلؔ بدایونی

 
Top