قومی المیہ !

ابن ِ محمود

محفلین
اللہ کریم نے اس ارض ِ پاک کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ۔ ۔ ۔ سندھ ہو یا پنجاب ، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخواہ ۔ ۔ ۔ یہ چاروں صوبے نہ صرف زرعی زمینوں کی زرخیزی میں اپنی مثال آپ ہیں بلکہ تیل ، گیس اور قیمتی قدرتی معدنیات کی دولت سے بھی مالا مال ہیں ۔ ۔ ۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزّت نے اس ملک کے باشندوں کو بے بہا صلاحیتوں سے بھی سرفراز فرمایا ہے ۔ ۔ ۔ تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کے نہ صرف معترف ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں پاکستانیوں کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ بھی کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔

مشرق ِ وسطیٰ اور مشرق ِ بعید کے کئی ممالک ، جنھوں نےقیام ِ پاکستان کے بہت بعد آزادی حاصل کی ، پاکستانی ماہرین کی صلاحیتوں اور اپنے ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آج اقوام عالم میں نمایاں اہمیت و حیثیت کے حامل ہیں مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم بے پناہ وسائل رکھتے ہوئے بھی ابھی تک دوسروں کے دست ِ نِگر ہیں ۔ ۔ ۔

آئی ایم ایف سے سخت بلکہ انتہائی ناروا شرائط پر قرضے حاصل کر کے ہمارے کوتاہ اندیش حکمران یوں پھولے نہیں سماتے جیسے انھوں نے معرکہء تسخیر ِ کائنات سر کر لیا ہو ۔ ۔ ۔ قرضے کی قسط کے بل بوتے پر قوم کو زر ِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی نوید سناتے ہوئے ان کے چہرے فخر و کامیابی کے احساس سے ایسے تمتما رہے ہوتے ہیں گویا دولت ِ ہفت اقلیم حاصل کر لی ہو ۔ ۔ ۔

پاکستان کا شمار بیشتر شعبوں میں دنیا کے " ٹاپ ٹین " ممالک میں ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ بلاشبہ ایک پاکستانی کے لئے یہ ایک اعزاز ہے لیکن اسکا یہ فخر اس وقت ندامت اور افسوس میں بدل جاتا ہے جب اسے بد عنوانی میں پاکستان کا نام " ٹاپ تھری " میں نظر آتا ہے ۔ ۔ ۔ اور یہی وجہ ہے کہ زراعت ، ڈیری اور پولٹری جیسے شعبے میں " ٹاپ ٹین " میں شمار ہونے کے باوجود عام آدمی کی حالت آج بھی دگرگوں ہے ۔ ۔ ۔

اسی طرح خیبر پختونخواہ اور بلوچستان قیمتی پتھروں اور بیش قیمت معدنی ذخائر سے بھرے پڑے ہیں ۔ ۔ ۔ خصوصاً بلوچستان میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں ۔ ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف سونے کے ذخائر کی مالیت ، جو دنیا کے دس بڑے ذخائر میں سے ایک ہے ، ۳۰ کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے ۔ ۔ ۔ ان ذخائر پر امریکہ و بھارت کی حکومتوں سمیت کئی دیگر ممالک کی حکومتوں نے بھی نظر جما رکھی ہے ۔ ۔ ۔ تاہم انکی اہمیت و افادیت سے ہماری موجودہ و سابقہ تمام حکومتیں ناواقف نظر آتی ہیں ۔ ۔ ۔ اور یہ بات ہم صرف برائے تنقید نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اس کا ثبوت صوبائی و وفاقی حکومتوں کی جانب سے اس معاملے پر برتی جانی والی لاپرواہی ہے ۔ ۔ ۔ آج تک قومی سطح پر اس حوالے سے کوئی جامع حکمت ِ عملی مرتب نہیں کی جا سکی ۔ ۔ ۔

ان ذخائر کی مدد سے ملک و قوم کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے ۔ ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کہیں ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کی فکر و خواہش ہے بھی کہ نہیں ؟ اتنے قیمتی اور وسیع ذخائر کے موجود ہوتے ہوئے بھی ہماری حکومتوں کا بیرونی قرضوں کے لئے در در بھیک مانگنا باعث ِ شرم بھی ہے اور باعث ِ آزار بھی ۔ ۔ ۔ ہمیں کسی سے قرضے لینے کے بجائے اپنے معدنی ذخائر کو استعمال کرنا چاہئیے تھا ۔ ۔ ۔ ان سے بھر پور استفادہ کر کے ہم ہمیشہ کے لئےقرضے کی لعنت سے نجات پا کر " لینے والے ہاتھ " کے بجائے " دینے والے ہاتھ " کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں مگر بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ کیا ایسا کچھ کرنے کی کوئی خواہش ہے بھی کہ نہیں ؟ بظاہر ایسی کوئی خواہش کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی کیونکہ ہمارے تن آسان اور سہل پسند حکمران " کمیشن " کے ذریعے آسانی سے پیسہ بنانے کے گُر سے بخوبی واقف ہیں ۔ ۔ ۔ ملکی و قومی مفاد پر ذاتی مفادات غالب دکھائی دیتے ہیں ۔ ۔ ۔

شنید یہ ہے کہ ہمارے ناعاقبت اندیش و نا اہل حکمران اور انکے کچھ حواری محض " چند ارب روپے " کے کمیشن کی خاطر کھربوں ڈالرمالیت کا یہ عطیہء الٰہی اغیار کو سونپنے کا فیصلہ کر چکے ہیں وہ بھی انھی کی طے کردہ شرائط پر جس میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ سونا نکالنے کے اس منصوبے میں کوئی بھی پاکستانی شامل نہیں ہوگا ۔ ۔ ۔

میں ان نااہل و کوتاہ نظر حکمرانوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا جس ملک کے سائنسدان اور انجینئرز ایٹم بم اور بین البرِاعظمی میزائل بنا سکتے ہیں وہ سونا خود نہیں نکال سکتے ؟ آپ نا اہل ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ قوم بھی نا اہل ہے ۔ ۔ ۔ آپ کو اسے نا اہل سمجھنے اور اس کے اثاثے کسی اور کے حوالے کر دینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ۔ ۔
 
Top