قول فیصل صفحہ 96 تا 141

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 96 - 97

(پینل کوڈ) کی طرح اسلامی قانون میں کوئی دفعہ 124۔الف نہیں ہے۔

پہلے دور کے مسلمانوں کی حق گوئی کا یہ حال تھا کہ دارالخلافت کی ایک بڑھیا عورت خلیفہ وقت سے برسرعام کہہ سکتی تھی "اگر تم انصاف نہ کرو گے تو تکلے کی طرح تمہارے بل نکال دیں گے۔" لیکن وہ مقدمہ بغاوت چلانے کی جگہ خدا کا شکر ادا کرتا کہ قوم میں اسی راست باز زبانیں موجود ہیں! عین جمعہ کے مجمع میں جب خلیفہ منبر پر خطبہ کے لیے کھڑا ہوتا اور کہتا " اسمعو و اطیعوا" سنو اور اطاعت کرو۔ تو ایک شخص کھڑا ہو جاتا اور کہتا۔ "نہ تو سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے۔"

کیوں؟

"اس لیے کہ تمہارے جسم پر جو چُغہ ہے وہ تمہارے حصہ کے کپڑے سے زیادہ کا بنا ہوا ہے اور یہ خیانت ہے۔"

اس پر خلیفہ اپنے لڑکے سے گواہی دلاتا۔ وہ اعلان کرتا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا بھی اپنے باپ کو دے دیا تھا۔ اس سے چُغہ تیار ہوا۔

قوم کا یہ طرز اس خلیفہ کے ساتھ تھا، جس کی صولت اور سطوت نے مصر اور ایران کا تخت اُلٹ دیا تھا تاہم اسلامی حکومت میں کوئی دفعہ 124-الف نہ تھی۔

دوسرا دور شخصی جبر و استبداد (Autocracy) کا تھا، جس کی پہلی ضرب آزادی رائے اور آزادی تقریر ہی پر پڑتی ہے۔ لیکن اس دور مین بھی زبانوں کی بے باکی اور دلوں کی بے کوفی اسی طرح سرگرم رہی اور قید خانے کی تاریک کوٹھریاں، تازیانوں کی ضرب اور جلاد کی تیغ بھی اُنہیں روک نہ سکی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (صحابہ کرام) جب تک زندہ رہے، وقت کے جابر بادشاہوں کے ظلم کا اعلان کرتے رہے اور برابر مطالبہ کرتے رہے کہ حکومت قوم کے مشورہ اور انتخاب سے ہونی چاہیے۔ جو لوگ ان کے تربیت یافتہ تھے (تابعین) ان کا اعلان بھی بعینہ یہی رہا کہ "درست ہو جاؤ یا مٹ جاو۔"

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ نے (جن کو یورپ کے مورخین فلسفہ بھی al-Ghazali کے نام سے پہچانتے ہیں اور اب میڈیم کاریلی کے ناول Ardath کے دوسرے باب نے انگریزی علم و ادب کو بھی روشناس کر دیا ہے) صرف ان اصحابہ اور تابعین کا ذکر کیا ہے جو خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے زمانے تک موجود تھے اور جنہوں نے حکمرانوں کے مظالم کا اعلان کر کے ہمیشہ منصفانہ اور نیابتی گورنمنٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کی تعداد 23 سے بھی زیادہ ہے۔

ہشام بن عبد الملک نے طاؤس یمانی کو بلایا۔ وہ آئے، مگر اس کا نام لے کر سلام کیا " امیر المومنین" یعنی قوم کا سردار نہ کہا، جو مسلمان خلفأ کا لقب تھا۔

ہشام نے سبب پوچھا تو کہا: "قوم تیری حکومت سے راضی نہیں۔ اس لیے تجھے ان کا امیر کہنا جھوٹ ہے۔"

ہشام نے کہا: نصیحت کیجئے۔ فرمایا: "خدا سے ڈر، کیونکہ تیرے ظلم سے زمین بھر گئی۔"

مالک بن دینار بصرہ کی جامع مسجد میں اعلان کرتے "ان ظالم بادشاہوں کو خدا نے اپنے بندوں کا چرواہا بنایا تھا تا کہ ان کی رکھوالی کریں۔ پر اُنہوں نے بکریوں کا گوشت کھا لیا۔ بالوں کا کپڑا "بُن" کر پہن لیا اور صرف ہڈیاں چھوڑ دیں۔"

سلیمان بن عبد الملک جیسے ہیبت ناک خلیفہ سے ابو حازم کہتے :

"ان ابائک فھروا الناس بالسیف، واخذ الملک عنوۃ من گیر مشورۃ من المسلمین و الا رضا منھم۔"

تیرے باپ دادوں نے تلوار کے زور سے لوگوں کو مقہور کیا اور بلا قوم کی رائے اور انتخاب کے مالک بن بیٹھے۔ سلیمان نے کہا : اب کیا کیا جائے؟ جواب دیا "جن کا حق ہے انہیں لوٹا دے۔" کہا: میرے لیے دُعا کیجئے۔ فرمایا "خدایا! اگر سلیمان حق پر چلے تو اسے مہلت دے۔ لیکن اگر ظلم سے باز نہ آئے تو پھر تُو ہے اور اس کی گردن۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 98 - 99

سعید بن مسیب بہت بڑے تابعی تھے۔ وہ علانیہ برسربازار حکام کے طلم و جور کا اعلان کرتے اور کہتے " کتوں کا پیٹ بھرتے ہو مگر انسانوں کو تم سے امان نہیں۔"

اس عہد کے بعد مسلمان عالموں اور پیشواؤں کی حق گوئی کا یہی عالم رہا۔ منصور عباسی کے خوف ہیبت سے گھر میں بیٹھے ہوئے لوگ کانپا کرتے تھے۔ سفیان ثوری سے ایک بار اس نے کہا " مجھ سے اپنی کوئی حاجت بیان کیجیئے۔" اُنہوں نے جواب دیا۔ "اتق اللہ فقد ملأت الارض ظلماً و جوراً خدا سے ڈر۔ زمین طلم و جوف سے بھر گئی ہے۔

جب مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید تخت نشین ہوا (جس نے فرانس کے شارلیمین کوایک عجیب گھڑی بطور تحفہ کے بھیجی تھی اور قیصر روم کو بقول گبن "اے کتے کے بچے" کے لقب سے خط لکھا تھا) تو اس نے انہی سفیان ثوری کو اپنے ہاتھ سے اشتیاق ملاقات کا خط لکھ کر بھیجا۔ خط میں لکھا تھا کہ میں نے تخت نشینی کی خوشی میں بے شمار مال و دولت لوگوں میں تقسیم کی ہے۔ تم بھی مجھ سے آ کر ملو۔ سفیان کوفہ کی مسجد میں ایک بڑے مجمع کے اندر بیٹھے تھے کہ یہ خط پہنا۔ لیکن اُنہوں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا۔ "جس چیز کا ایک ظالم کے ہاتھ نے چھوا ہے، میں اسے چھونا نہیں چاہتا۔"

جب پڑھ کر سنایا گیا تو اسی کی پشت پر جواب لکھوا دیا "خدا کے مغرور بندے ہارون کو جس کا ذوق ایمان سلب ہو چکا ہے، معلوم ہو۔ تو نے قوم کا ملا بلا کسی حق کے اپنی تخت نشینی کی خوشی میں لٹایا اور اس کا حال لکھ کر اپنے گناہ پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو بھی گواہ ٹھہرایا۔ پس ہم سب کل کو اللہ کے آگے اس کی گواہی دیں گے۔ اے ہارون! تو نے انصاف و حق سے کنارہ کیا۔ تو نے پسند کیا کہ ظالم بنے اور ظالموں کی سرداری پائے۔ تیرے حاکم بندگانِ خدا کو ظلم و جور سے پامال کر رہے ہیں اور تو تخت شاہی پر عیش و عشرت کر رہا ہے۔" ہارون نے جب یہ خط پڑھا تو بے اختیار رونے لگا اور کہا۔ یہ خط ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا!

مسلمان عالموں اور اماموں پر موقوف نہیں، اس عہد کا ہر عام فرد بھی اس اعلان میں بالکل بے خوف تھا۔ منصور عباسی ایک دن کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ آواز آئی کہ کوئی شخص دعا مانگ رہا ہے۔ " خدایا! میں تیرے آگے فریاد کرتا ہوں۔ ظلم غالب آ گیا ہے اور حق اور حقداروں کے درمیان روگ بن گیا ہے۔" منصور نے اس شخص کو بلا کر پوچھا۔ "وہ کون ہے جس کا ظلم روگ بن گیا ہے؟" کہا: "تیرا وجود اور تیری حکومت!"

حجاج بن یوسف کا ظلم و ستم تاریخ اسلام کا نہایت مشہور واقعہ ہے۔ لیکن اس کی بے پناہ تلوار بھی مسلمانوں کی حق گوئی پر غالب نہ آ سکی۔ حطیط جب گرفتار ہو کر آیا تو پوچھا : اب میرے لیے کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: "تو خدا کی زمین پر اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔" پوچھا خلیفہ کے لیے کیا کہتے ہو؟ کہا: "اس کا جرم تجھ سے بھی زیادہ ہے۔ تیرا ظلم تو اس کے بے شمار ظلموں میں سے صرف ایک ظلم ہے۔"

مامون الرشید کے عہد میں ایسے مسلمان موجود تھے جو پکار پکار برسر دربار کہتے "یا ظالم! انا ظالم ان لم اقل لک ظالم!" اے ظالم! میں ظالم ہوں اگر تجھے ظالم کہہ کر نہ پکاروں۔

فتئہ تاتار اور فتنئہ یورپ :

یہ تاریخ اسلام کے ابتدائی اوراق ہیں، لیکن اس عہد کے بعد بھی ہر دور کا یہی حال رہا۔ مسلمانوں کے لیے موجودہ عہد کا عالمگیر فتنہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے ہی سیلاب میں ڈوب کر اچھل چکے ہیں۔ جس طرح آج یورپ اور علی الخصوص انگلستان کے ظہور و تسلط سے تمام ایشیا اور اسلامی ممالک کی آزادی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پندرھویں صدی عیسوی میں بھی تاتاریوں کے وحشیانہ تسلط سے ظہور میں آیا تھا۔ یورپ کے فتنہ کا آخری نتیجہ عثمانی خلافت کی پامالی اور ایشیائے کوچک کا قتلِ عام ہے۔ تاتاری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 100 - 101

فتنہ کی آخری وحشت ناکی عباسی خلافت کا خاتمہ اور بغداد کا قتل عام تھا۔ تاتاری انسان نہیں تھے، درندے تھے۔ تاہم ہلاکو خان، منکو خان آباقا آن خان جیسے سفاکوں کے زمانے میں بھی وہ مسلمان موجود رہے جن کی زبانیں اعلان حق میں ان تلواروں سے زیادہ تیز تھیں۔ شیخ سعدی شیرازی نے (جن کی گلستان کا نام اس کوتٹ نے بھی سنا ہو گا) ہلاکو خان کے منہ پر اسے ظالم کہا۔ شمس الدین تیاری نے منکو خان کے دربار میں اس کی ہلاکت کی دعا مانگی۔ شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ نے آباقا آن پر برسر دربار لعنت بھیجی۔ تاتاریوں کے پاس بے دریغ قتل کر دینے کا قانون تھا۔ تاہم "تورۂ چنگیز خانی" (قوانین چنگیز خان) میں کوئی دفعہ 124-الف نہ تھی۔

"حجاج" اور "ریڈنگ"

ہم مسلمانوں کا جب اپنی قومی گورنمنٹوں کے ساتھ (جن کی اطاعت از روئے شرع ہم پر واجب ہے) ایسا سلوک رہا ہے، تو پھر ایک اجنبی گورنمنٹ کے کارندے ہم سے کیا امید رکھتے ہیں؟ کیا ہندوستان کی " ازروئے قانون قائم شدہ" گورنمنٹ ہمارے لیے اس گورنمنٹ سے بھی زیادہ محترم ہے جو " ازروئے شریعتِ اسلام" واجب الاطاعت ہے؟ کیا انگلستان کی بادشاہت اور لارڈ ریڈنگ کی نیابت عبد الملک کی خلافت اور حجاج بن یوسف کی نیابت سے بھی ہمارے لیے زیادہ مقتدر ہو سکتی ہے؟ اگر ہم " اجنبی و غیر مسلم " اور " قومی و مسلم " کا عظیم الشان اور شرعی فرق بالکل نظر انداز کر دیں، جب بھی ہم سے صرف یہی امید کی جا سکتی ہے کہ جو کچھ حجاج بن یوسف اور خالد قسری کی گورنمنٹوں کے لیے کہہ چکے ہیں، وہی " چمسفورڈ " اور "ریڈنگ" کی گورنمنٹوں کے لیے بھی کہیں۔ ہم نے ان سے کہا تھا۔ " اتق اللہ فقد ملأت الارض ظلماً و جوراً" خدا سے ڈرو کیونکہ تمہارے ظلم سے زمین بھر گئی ہے، یہی ہم آج بھی کہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوری اور بے بسی کی وجہ سے آج ہندوستان میں جو کچھ کر رہے ہیں، وہ دراصل قومی حکمرانوں کے ظلم و جور کے لیے ہمیں بتلایا گیا تھا، نہ کہ ایک اجنبی قبضہ و تصرف کے مقابلہ میں۔ اگر برٹش گورنمنٹ کے ارکان اس حقیقت کو سمجھتے ہیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑتا کہ مسلمانوں کے تسامح اور درگزر کی حد ہو گئی ہے۔ اس سے زیادہ وہ اسلام کو برطانیہ کے لیے نہیں چھوڑ سکتے!

اسلام نے حکمرانوں کے ظلم مقابلہ میں دو طرح کے طرز عمل کا حکم دیا ہے کیونکہ حالتیں بھی دو مختلف ہیں : ایک ظلم اجنبی قبضہ و تسلط کا ہے۔ ایک خود مسلمان حکمرانوں کا ہے۔ پہلے کے لیے اسلام کا حکم ہے کہ تلوار سے مقابلہ کیا جئاے۔ دوسرے کے لیے حکم ہے کہ تلوار سے مقابلہ تو نہ کیا جائے لیکن " امر بالمعروف " اور اعلان حق جس قدر بھی امکان میں ہو، ہر مسلمان کرتا رہے۔ پہلی صورت میں دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہونا پڑے گا۔ دوسرے صورت میں ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں اور سزائیں جھیلنی پڑیں گے۔ مسلمانوں کو دونوں حالتوں میں دونوں طرح کی قربانیاں کرنی چاہئیں اور دونوں کا نتیجہ کامیابی اور فتح مندی ہے۔ چنانچہ گذشتہ تیرہ صدیوں میں مسلمانوں نے دونوں طرح کی قربانیاں کیں۔ اجنبیوں کے مقابلے میں سرفروشی بھی کی اور اپنوں کے مقابلے میں صبر و استقامت بھی دکھلائی۔ پہلی صورت میں جس طرح انکی " جنگی جد و جہد " کوئی مثال نہیں رکھتی۔ اسی طرح دوسری صورت میں ان کی " شہری جد و جہد " بھی عدیم النظیر ہے۔

ہندوستان میں آج مسلمانوں نے دوسری صورت اختیار کی ہے، حالانکہ مقابلہ ان کا پہلی حالت سے ہے۔ ان کے لیے " جنگی جد و جہد " کا وقت آ گیا تھا۔ لیکن انہوں نے "شہری جد و جہد " کو اختیار کیا۔ اُنہوں نے "نان وائلنس" رہنے کا فیصلہ کر کے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ ہتھیار سے مقابلہ نہ کریں گے یعنی صرف وہی کریں گے جو انہیں مسلمان حکومتوں کے ظلم کے مقابلے میں کرنا چاہیے۔ بلاشبہ اس طرزِ عمل میں ہندوستان کی ایک خاص طرح کی حالت کو بھی دخل ہے۔ لیکن گورنمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ اس سے زیادہ بدبخت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 102 - 103

مسلمان اور کیا کر سکتے ہیں؟ حد ہو گئی کہ اجنبیوں کے ظلم کے مقابلہ میں وہ بات کر رہے ہیں جو انہیں اپنوں کے مقابلہ میں کرنی تھی!

انقلابِ حال :

میں سچ کہتا ہوں۔ مجھے اس کی رائی برابر شکایت نہیں کہ سزا دلانے کے لیے مجھ پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔ یہ بات تو بہرحال ہونی ہی تھی۔ لیکن حالات کا یہ انقلاب میرے لیے بڑا ہی درد انگیز ہے کہ ایک مسلمان سے کتمانِ شہادت کی توقع کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ظلم کو صرف اس لیے ظلم نہ کہے کہ دفعہ 124-الف کا مقدمہ چلایا جائے گا!

مسلمانوں کو حق گوئی کا جو نمونہ ان کی قومی تاریخ دکھلاتی ہے، وہ تو یہ ہے کہ ایک جابر حکمران کے سامنے ایک بے پروا انسان کھڑا ہے۔ اس پر الزام یہی ہے کہ اس نے حکمران کے ظلم کا اعلان کیا ہے۔ اس کی پاداش میں اس کا ایک ایک عضو کاٹا جا رہا ہے۔ لیکن جب تک زبان نہیں کٹ جاتی، وہ یہی اعلان کرتی رہتی ہے کہ حکمران ظالم ہے! یہ واقعہ خلیفہ عبد الملک کے زمانہ کا ہے جس کی حکومت افریقہ سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ تم دفعہ 124-الف کو اس سزا کے ساتھ تول لے سکتے ہو!

میں اس درد انگیز اور جانکاہ حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ اس انقلاب حالت کے ذمہ دار کود مسلمان ہی ہیں۔ اُنہوں نے اسلامی زندگی کے تمام خصائص کھو دیئے اور ان کی جگہ غلامانہ زندگی کے تمام رذائل قبول کر لیے۔ ان کی موجودہ حالت سے بڑھ کر دنیا اسلام کے لیے کوئی فتنہ نہیں۔ جبکہ میں یہ سطر لکھ رہا ہوں، تو میرا دل شرمندگی کے غم سے پارہ پارہ ہو رہا ہے کہ اسی ہندوستان میں وہ مسلمان بھی موجود ہیں جو اپنی ایمانی کمزوری کی وجہ سے علانیہ ظلم کی پرستش کر رہے ہیں!

آزادی یا موت :

لیکن انسانوں کی بدعملی سے تعلیم کی حقیقت نہیں جھٹلائی جا سکتی۔ اسلام کی تعلیم اس کتاب میں موجود ہے۔ وہ کسی حال میں بھی جائز نہیں رکھتی کہ آزادی کھو کر مسلمان زندگی بسر کریں۔ مسلمانوں کو مٹ جانا چاہیے۔ یا آزاد رہنا چاہیے۔ تیسری راہ اسلام میں کوئی نہیں ہے۔

اس لیے میں نے آج سے بارہ سال پہلے "الہلال" کے ذریعہ مسلمانوں کو یاد دلایا تھا کہ آزادی کی راہ میں قربانی و جان فروشی ان کا قدیم اسلامی ورثہ ہے۔ ان کا اسلامی فرض ہےکہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کو اس راہ میں اپنے پیچھے چھوڑ دیں۔ میری صدائیں بےکار نہ گئیں۔ مسلمانوں نے اب آخری فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو غلامی سے نجات دلائیں۔

مسئلہ خلافت و پنجاب :

10) میں یہاں گورنمنٹ کی ان ناانصافیوں کا افسانہ نہیں چھیڑوں گا جو مسئلہ "خلافت" اور "مظالم پنجاب" کا عالمگیر افسانہ ہیں۔ لیکن میں اقرار کروں گا کہ گزشتہ دو سال کے اندر کوئی صبح و شام مجھ پر ایسی نہیں گزری ہے، جس میں، میں نے "خلافت" اور "پنجاب" کے لیے گورنمنٹ کے مظالم کا اعلان نہ کیا ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے۔ جو گورنمنٹ اسلامی خلافت کو پامال کر رہی ہو اور مظالم پنجاب کے لیے کوئی تلافی اور شرمندگی نہ رکھتی ہو، ایسی گورنمنٹ کے لیے کسی ہندوستانی کے دل میں وفاداری نہیں ہو سکتی۔ گورنمنٹ کی جگہ وہ ایک فریق محارب کی حیثیت رکھتی ہے۔

میں نے 13۔دسمبر 1918عیسوی کو (جب میں رانچی میں گورنمنٹ آف انڈیا کے حکم سے نظر بند تھا) لارڈ چمسفورڈ کو ایک مفصل چٹھی لکھی تھی۔ اس میں واضح کر دیا تھا کہ خلافت اور جزیرۃ العرب کے بارے میں اسلامی احکام کیا ہیں؟ میں نے لکھا تھا کہ اگر برٹش گورنمنٹ اسلامی خلافت اور اسلامی ممالک پر خلاف وعدہ متصرف ہو گئی، تو اسلامی قانون
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 104 - 105

کی رو سے ہندوستانی مسلمان ایک انتہائی کشمکش میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ان کے لیے صرف دو ہی راہیں رہ جائیں گی یا اسلام کا ساتھ دیں، یا برٹش گورنمنٹ کا۔ وہ مجبور ہوں گے کہ اسلام کا ساتھ دیں۔

بالآخر وہی ہوا۔ گورنمنٹ صریح وعدہ خلافی سے باز نہ رہی۔ اس وعدہ کا بھی ایفا ضروری نہ سمجھا گیا جو گورنمنٹ آف انڈیا نے 2-نومبر 1914 عیسوی کے اعلان میں کیا تھا اور وہ وعدہ بھی فریبِ وقت ثابت ہوا جو مسٹر لارڈ جاج وزیر اعظم انگلستان نے 5-جنوری 1918 عیسوی کو ہاؤس آف کامنز کی تقریر میں کیا تھا۔ شریف آدمیوں کے لیے وعدہ خلافی عیب ہے، لیکن طاقتور حکومتوں کے لیے کوئی بات بھی عیب نہیں ہے۔

اس حالت نے مسلمانوں کے لیے آخری درجہ کی کشمکش پیدا کر دی۔ اسلامی قانون کی رو سے کم از کم بات جو ان کے فرائض میں داخل تھی، یہ تھی کہ ایسی گورنمنٹ کی اعانت اور کوآپریشن سے ہاتھ کھینچ لیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ اس وقت تک اس پر قائم رہیں گے، جب تک انہیں اپنے مذہب کے اٹل احکام عزیز ہیں۔

مسلمانوں کو یقین ہو گیا ہے کہ اگر وہ حق و انصاف چاہتے ہیں تو اس کی راہ صرف ایک ہی ہے۔ سوراج کا حصول۔ یعنی ایسی قومی گورنمنٹ کا حصول، جو ہندوستانیوں کی ہو، ہندوستان میں ہو اور ہندوستان کے لیے ہو۔

اگر ظلم نہیں تو کیا عدل ہے؟

11) غرض اس بارے میں میرا اقرار بالکل صاف اور واضح ہے۔ موجودہ گورنمنٹ محض ایک ناجائز بیوروکریسی ہے۔ وہ کروڑوں انسانوں کی مرضی اور خواہش کے لیے محض نفی ہے، وہ ہمیشہ انصاف اور سچائی پر پرسٹیج کو ترجیح دیتی ہے، وہ جلیانوالہ باغ امرتسر کا وحشیانہ قتل عام جائز رکھتی ہے، وہ انسانوں کے لیے اس حکم میں کوئی ناانصافی نہیں مانتی کہ چارپایوں کی طرح پیٹ کے بل چلائے جائیں وہ بے گناہ لڑکوں کو صرف اس لیے تازیانے کی ضرب سے بے ہوش ہو جانے دیتی ہے کہ کیوں ایک بت کی طرح "یونین جیک" کو سلام نہیں کرتے؟ وہ تیس کروڑ انسانوں کی پیہم التجاؤں پر بھی اسلامی خلافت کی پامالی سے باز نہیں آتی، وہ اپنے تمام وعدوں کے توڑنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتی، وہ سمرنا اور تھریس کو صریح نامنصفانہ طور پر یونانیوں کے حوالہ کر دیتی ہے اور پھر تمام اسلامی آبادی کے قتل و غارت کا تماشہ دیکھتی ہے۔

انصاف کی پامالی میں اس کی جرات ان تھک اور دلیری بالکل بے باک ہے اور حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے اس کے منہ میں کوئی لگام نہیں۔ سمرنا 80 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے، مگر وزیراعظم بغیر کسی شرمندگی کے مسیحی آبادی کی کثرت کا اعلان کر دیتا ہے۔ یونانی حکومت تمام اسلامی آبادی کو خون اور آگ کے سیلاب میں غرق کر دیتی ہے، لیکن وہ بے دھڑک ترکی مظالم کی فرضی داستانے بیان کرتا رہتا ہے اور خود انگلستان کے بھیجے ہوئے امریکن کمیشن کی رپورٹ پوشیدہ کر دی جاتی ہے!

پھر نہ تو ان تمام مظالم و جرائم کے لیے اس کے پاس اعتراف ہے، نہ تلافی۔ بلکہ ملک کی جائز اور باامن جد و جہد کو پامال کرنے کے لیے ہر طرح کا جبر و تشدد شروع کر دیا جاتا ہے اور وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو گزشتہ ایک سال کے اندر ہو چکا ہے اور 18 نومبر سے اس وقت تک ملک کے ہر حصہ میں ہو رہا ہے۔ میں اگر ایسی گورنمنٹ کو "ظالم" اور "یا درست ہو جاؤ یا مٹ جاؤ" نہ کہوں، تو کیا "عادل" اور "نہ درست ہو، نہ مٹو" کہوں؟

کیا صرف اس لیے کہ ظالم طاقتور ہے اور اس کے پاس جیل ہے، اس کا حق دار ہو جاتا ہے کہ اس کا نام بدل دیا جائے؟ میں اٹلی کے نیک اور حریت پرست جوزف میزینی (massini)کی زبان میں کہوں گا " ہم صرف اس لیے کہ تمہارے ساتھ عارضی طاقت ہے، تمہاری برائیوں سے انکار نہیں کر سکتے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 106 - 107

"جرم" کا قدیم اور ناقابلِ شمار ارتکاب:

12) میں نہایت متعجب ہوں کہ میرے خلاف صرف یہی دو ناتمام اور ناکافی تقریریں کیوں پیش کی گئی ہیں؟ کیا ان ہزاروں صفحات سے جو میرے قلم سے نکل چکے ہیں اور ان بے شمار تقریروں سے جن کی صدائیں ہندوستان کے ایک ایک گوشہ میں گونج چکی ہیں، صرف یہی سرمایہ گورنمنٹ بہم پہنچا سکی؟ میں اقرار کرتا ہوں کہ میری کوئی تقریر گذشتہ دو سال کے اندر ایسی نہیں ہوئی جس میں یہ تمام باتیں میں نے بیان نہ کی ہوں۔

میں مسلسل بارہ سال سے اپنی قوم و ملک کو آزادی و حق طلبی کی تعلیم دے رہا ہوں۔ میری عمر 18 برس کی تھی جب میں نے اس راہ میں تقریر و تحریر شروع کی۔ میں نے زندگی کا بہترین حصہ یعنی عہد شباب صرف اسی مقصد کے عشق میں قربان کر دیا۔ میں اسی کی خاطر چار سال تک نظر بند رہا، مگر نظر بندی میں میری ہر صبح و شام اسی کی تعلیم و تبلیغ میں بسر ہوئی۔ "رانچی کے در و دیوار اس کی شہادت دے سکتے ہیں جہاں میں نے نظر بندی کا زمانہ بسر کیا ہے۔ یہ تو میری زندگی کا دائمی مقصد ہے۔ میں صرف اسی کام کے لیے جی سکتا ہوں : إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ الانعام۔ آیت 162)۔

آخری اسلامی تحریک :

13) میں اس "جرم" سے کیوں کر انکار کر سکتا ہوں جب میں ہندوستان کی اس آخری "اسلامی تحریک" کا داعی ہوں، جس نے مسلمانانِ ہند کے پولیٹیکل مسلک میں ایک انقلابِ عظیم پیدا کر دیا اور بالآخر وہاں تک پہنچا دیا جہاں آج نظر آ رہے ہیں۔ یعنی ان میں سے ہر فرد میرے اس جرم میں شریک ہو گیا۔ میں نے 1912 عیسوی میں اردو جرنل "الہلال" جاری کیا جو اس تحریک کا آرگن تھا اور جس کی اشاعت کا تمام تر مقصد وہی تھا جو اوپر ظاہر کر چکا ہوں۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ "الہلال" نے تین سال کے اندر مسلمانان ہند کی مذہبی اور سیاسی حالت میں ایک بالکل نئی حرکت پیدا کر دی۔ پہلے وہ اپنے ہندو بھائیوں کی پولیٹیکل سرگرمیوں سے نہ صرف الگ تھے، بلکہ اس کی مخالفت کے لیے بیوروکریسی کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی طرح کام دیتے تھے۔ گورنمنٹ کی تفرقہ انداز پالیسی نے انہیں فریب میں مبتلا کر رکھا تھا کہ ملک میں ہندوؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہندوستان اگر آزاد ہو گیا تو ہندو گورنمنٹ قائم ہو جائے گی۔ مگر "الہلال" نے مسلمانوں کی تعداد کی جگہ ایمان پر اعتماد کرنے کی تلقین کی اور بے خوف ہو کر ہندوؤں کے ساتھ مل جانے کی دعوت دی۔ اسی سے وہ تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا نتیجہ آج متحدہ تحریک خلافت و سوراج ہے۔ بیوروکریسی ایک ایسی تحریک کو زیادہ عرصہ تک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے پہلے "الہلال" کی ضمانت ضبط کی گئی۔ پھر جب "البلاغ" کے نام سے دوبارہ جاری کیا گیا تو 1916 عیسوی میں گورنمنٹ آف انڈیا نے مجھے نظر بند کر دیا۔

میں بتلانا چاہتا ہوں کہ "الہلال" تمام تر " آزادی یا موت" کی دعوت تھی۔ اسلام کی مذہبی تعلیمات کے متعلق اس نے جس مسلک بحث و نظر کی بنیاد ڈالی، اس کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے۔ صرف اس قدر اشارہ کروں گا کہ ہندوؤں میں آج مہاتما گاندھی مذہبی زندگی کی جو روح پیدا کر رہے ہیں، "الہلال" اس کام سے 1914 میں فارغ ہو چکا تھا۔ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں، دونوں کی نئی اور طاقتور سرگرمی اسی وقت شروع ہوئی، جب دونوں میں مغربی تہذیب کی جگہ مذہبی تعلیم کی تحریکوں نے پوری طرح فروغ پا لیا۔

خلافت کانفرنس کلکتہ :

14) چار سال بعد پہلی جنوری 1920 عیسوی کو میں رہا کیا گیا۔ اس وقت سے گرفتاری کے لمحہ تک، میرا تمام وقت انہی مقاصد کی اشاعت و تبلیغ میں صرف ہوا ہے۔ 28-29 فروری 1920 عیسوی کو اسی کلکتہ کے ٹاؤں ہال میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا تھا اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 108 - 109

مسلمانوں نے مایوس ہو کر اپنا آخری اعلان کر دیا تھا :

"اگر برٹش گورنمنٹ نے مطالبات خلافت کی اب بھی سماعت ہ کی، تو مسلمان اپنے شرعی احکام سے مجبور ہو جائیں گے کہ تمام وفادارانہ تعلقات منقطع کر لیں۔"

میں اس کانفرنس کا پریذیڈنٹ تھا۔

میں نے اس کے طولانی پریذیڈنشل ایڈریس میں وہ تمام امور بالتفصیل بیان کر دیئے تھے جو اس قدر ناقص شکل میں ان دو تقریروں کے اندر دکھلائے گئے ہیں۔

موالات اور فوجی ملازمت :

میں نے اسی ایڈریس میں اسلامی حکم کی بھی تشریح کر دی تھی جس کی بنأ پر مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے کہ موجودہ حالت میں گورنمنٹ سے "ترک موالات" کریں۔ یعنی کوآپریشن اور اعانت سے ہاتھ کھینچ لیں۔ یہی "ترک موالات" ہے، جو آگے چل کر "نان کوآپریشن" کی شکل میں نمودار ہوا اور مہاتما گاندھی جی نے اس کی سربراہی کی۔

اسی کانفرنس میں فوج کے متعلق وہ ریزولیوشن منظور ہوا تھا، جس میں اسلامی قانون کے بموجب مسلمانوں کے لیے فوجی نوکری ناجائز بتلائی گئی تھی۔ کیونکہ گورنمنٹ اسلامی خلافت اور اسلامی ملکوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ کراچی کا مقدمہ اسی ریزولیوشن کی بنا پر چلایا گیا۔ میں بار بار اخبارات اور تقریروں میں اعلان کر چکا ہوں کہ یہ ریزلیوشن سب سے پہلے میں نے ہی تیار کیا تھا اور میری ہی صدارت میں تین مرتبہ منظور ہوا۔ سب سے پہلے کلکتے میں۔ پھر بریلی اور لاہور میں۔ پس اس "جرم" تقریر کا پہلا حق دار میں ہی ہوں۔

میں نے اس ایڈریس کو مزید اضافہ کے بعد کتاب کی شکل میں بھی مرتب کیا، جو انگریزی ترجمہ کے ساتھ بار بار شائع ہو چکا ہے اور گویا میرے "جرائم" کا ایک تحریری ریکارڈ ہے۔

میری زندگی سر تا سر 124 ہے :

15) میں نے گزشتہ دو سال کے اندر تنہا اور مہاتما گاندھی کے ساتھ تمام ہندوستان کا بار بار دورہ کیا۔ کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں میں نے خلافت، پنجاب، سوراج اور نان کوآپریشن پر بار بار تقریریں نہ کی ہوں اور وہ تمام باتیں نہ کہی ہوں جو میری ان دو تقریروں میں دکھلائی گئی ہیں۔

دسمبر 1920 عیسوی میں انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ آل انڈیا خلاف کانفرنس کا بھی اجلاس ہوا، اپریل 1921 عیسوی میں جمعیۃ العلمأ کا بریلی میں جلسہ ہوا، گزشتہ اکتوبر میں یو پی پروانشل خلافت کانفرنس آگرہ میں منعقد ہوئی، نومبر میں آل انڈیا علمأ کانفرنس کا لاہور میں اجلاس ہوا۔ ان تمام کانفرنسوں کا بھی میں ہی صدر تھا۔ لیکن ان میں بھی تمام مقررین نے جو کچھ کہا اور صدارتی تقریروں میں، میں نے جو خیالات ظاہر کئے، ان سب میں وہ تمام باتیں موجود تھیں، جو ان دو تقریروں میں دکھلائی گئی ہیں۔ بلکہ میں اقرار کرتا ہوں کہ ان سے بہت زیادہ قطعی و واضح خیالات ظاہر کئے گئے تھے۔

اگر میری ان دو تقریروں کے مطالب دفعہ 124-الف کا جرم ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ صرف پہلی اور پندرھویں جولائی ہی کا ارتکاب کیوں منتخب کیا گیا ہے؟ میں تو اسی کثرت کے ساتھ اس کا ارتکاب کر چکا ہوں کہ فی الواقع اس کا شمار میرے لیے ناممکن ہو گیا ہے۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ میں نے گزشتہ سالوں کے اندر بجز 124-الف کے اور کوئی کام نہیں کیا۔

نان وایلنس – نان کوآپریشن :

16) ہم نے آزادی اور حق طلبی کی اس جنگ میں "نان وایلنس، نان کوآپریشن" کی راہ اختیار کی ہے۔ ہمارے مقابلے میں طاقت اپنے تمام جبر و تشدد اور خونریز وسائل کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن ہمارا اعتماد صرف خدا پر ہے اور اپنی غیر مختتم قربانی اور غیر متزلزل استقامت پر۔ مہاتما گاندھی کی طرح میرا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ کسی حال میں بھی ہتھیار کا مقابلہ ہتھیار سے نہین کرنا چاہیے۔ اسلام نے جن حالتوں میں اس کی اجازت دی ہے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 110 - 111

میں اسے فطرتِ الٰہی اور عدل و اخلاق کے مطابق یقین کرتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی اور موجودہ جد و جہد کے لیے مہاتما گاندھی کے تمام دلائل سے متفق ہوں اور ان دلائل کی سچائی پر پورا اعتقاد رکھتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ ہندوستان نان وایلنس جد و جہد کے ذریعے فتح مند ہو گا اور اس کی فتح مندی اخلاقی اور ایمانی طاقت کی فتح مندی کی ایک یادگار مثال ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ لوگوں کو باامن جد و جہد کی تلقین کی اور اس کو کامیابی کی سب سے پہلی شرط قرار دیا۔ خود یہ تقریریں بھی اسی موضوع پر تھیں جیسا کہ پیش کردہ نقول سے ثابت ہوتا ہے۔ میں ان چند مسلمانوں میں سے ہوں جو بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے نہایت مضبوطی کے ساتھ مسلمانوں کو باامن جد و جہد پر قائم نہ رکھا ہوتا، تو نہیں معلوم، مسئلہ خلافت کی وجہ سے ان کا صبر آزما اضطراب کیسی خوفناک شکل اختیار کر لیتا؟ کم از کم ہندوستان کے ہر حصہ میں ایک "مالیبار " کا منظر تو ضرور نظر آ جاتا۔

سی –آئی-ڈی کے رپورٹرز :

17) اب جبکہ میں ان دو تقریروں کے تمام ان حصوں کا اقرار کر چکا ہوں جن سے پراسیکیوشن استدلال کر سکتا ہے، تو کوئی مضائقہ نہیں، کہ چند الفاظ ان کی پیش کردہ صورت کی نسبت بھی کہہ دوں۔

سی-آئی-ڈی کے گواہوں نے بیان کیا ہے کہ میری تقریروں کے نوٹس بھی لیے گئے اور مختصر نویسی کے ذریعہ بھی قلمبند کی گئیں۔ جو کاپی داخل کی گئی (اگزویٹ اے اور سی) وہ مختصر نویس کی مرتب کی ہوئی ہے، لیکن یہ میری تقریروں کی ایک ایسی مسخ شدہ صورت ہیکہ اگر چند ناموں اور واقعات کی طرف اشارہ نہ ہوتا تو میرے لیے شناخت کرنا بھی بہت مشکل تھا۔ وہ بلا شبہ ایک چیز ہے جو دور تک پھیلتی ہوئی چلی گئی ہے، لیکن میں نہیں جانتا کہ کیا چیز ہے؟ محض بے جوڑ، بے تعلق اور اکثر مقامات پر بے معنی جملے ہیں، جو بغیر کسی ربط اور سلسلہ کے صفحوں پر بکھیر دیئے ہیں۔ گرامر اور محاورہ دونوں سے انہیں یک قلم انکار ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹر تقریر سمجھنے اور قلم بند کرنے سے عاجز تھا۔ اس لیے درمیان سے جملوں کے جملے چھوڑتا جاتا ہے اور تمام حرف ربط و تحلیل تو بالکل ہی حذف کر دیئے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تمام وہ الفاظ جن کی آواز یا اسپیلنگ (املا) میں ذرا سا تھی تشابہ ہے، وہ بالکل ہی بدل گئے ہیں اور عبارت یا تو بے معنی ہو گئی ہے یا محرف۔

مثلاً میں نے یکم جولائی کی تقریر میں مشہور فرنچ شاعر اور ادیب وکٹر ہیوگو کا قول نقل کیا تھا :

"آزادی کا بیج کبھی بارآور نہیں ہو سکتا جب تک ظلم کے پانی سے اس کی آبیاری نہ ہو۔"

مختصر نویس نے "ظلم" کی جگہ "دھرم" لکھ دیا ہے جو صریح غلط اور بے موقع ہے۔ البتہ اس کی آواز "ظلم" سے مشابہ ہے۔

اسی طرح ایک مقام پر :

"انہوں نے جیل خانے کی مصیبت کو برباد کیا ہے"

حالانکہ مصیبت کو برباد کرنے کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے۔ غالباً میں نے "برداشت کیا ہے" کہا ہو گا۔ یعنی اُنہوں نے جیل کی مصیبت جھیل لی ہے۔ چونکہ دونوں لفظوں کی آواز ملتی جلتی ہے اور مختصر نویس خود فہم و امتیاز سے محروم ہے، اس لیے "برداشت" کی جگہ "برباد" لکھ گیا!

اردو مختصر نویسی :

اصل یہ ہے کہ اردو مختصر نویسی کا قاعدہ اور مختصر نویسی کی ناقابلیت، دونوں ان نقائص کے لیے ذمہ دار ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 112 - 113

اردو مختصر نویسی کا قاعدہ 1905 عیسوی میں کرسچین کالج لکھنؤ کے دو پروفیسروں نے ایجاد کیا، جن میں سے ایک کا نام مرزا محمد ہادی بی-اے ہے۔ میں اس وقت لکھنؤ ہی میں تھا، اس لیے مجھے ذاتی طور پر اسکے دیکھنے اور موجدوں سے گفتگو کرنے کا بارہا اتفاق ہوا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کے موجدوں نے انگریزی علامات کو بہت تھوڑے تغیر کے ساتھ منتقل کر لیا ہے، لیکن وہ اردو حروف و املا کو پوری طرح محفوظ کر دینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ خود انہیں بھی ان نقص کا ایک حد تک اعتراف تھا۔ لیکن وہ خیال کرتے تھے کہ مختصر نویس کی ذاتی قابلیت اور حافظہ و مناسبت سے اس کی تلافی ہو جائے گی۔ میں اپنی ذاتی معلومات کی بنأ پر کہتا ہوں کہ تجربے سے ان کا خیال درست نہ نکلا۔

صوبجات متحدہ کی گورنمنٹ نے ابتدائی تجربے کے لیے دو پولیس سب انسپکڑوں کو تعلیم دلائی تھی۔ اُنہوں نے سب سے پہلے آزمائشی طور پر جن پبلک تقریروں کو قلمبند کیا، میں بتلانا چاہتا ہوں کہ وہ میری اور شمس العلمأ مولانا شبلی نعمانی (مرحوم) کی تقریریں تھیں۔ ہم دونوں نے انجمن اسلامیہ ہردوئی کے سالانہ جلسہ میں لیکچر دیئے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا شبلی نے فی منٹ ساٹھ الفاظ کی رفتار سے تقریر کی تھی اور میری تقریر فی منٹ 80 سے 90 تک تھی۔ جیسا کہ خود مختصر نویسوں نے ظاہر کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی تیز رفتار نہ تھی۔ تاہم جب اُنہوں نے اپنا کام مرتب کر کے دکھلایا تو بالکل ناقص اور غلط تھا۔ اس کے بعد بھی مجھے بارہا اپنی تقریروں کے قلم بند کرانے کا اتفاق ہوا ، لیکن ہمیشہ ایسا ہی نتیجہ نکلا۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ خلافت کانفرنس آگرہ میں میرا زبانی پریذیڈنشل ایڈریس ایک مشتاق مختصر نویس سید غلام حسنین نے قلم بند کیا جو عرصہ تک یو-پی کے محکمہ سی-آئ-ڈی میں کام کرنے کے بعد مستعفی ہوا ہے۔ لیکن جب لانگ ہینڈ میں مرتب کر کے مجھے دکھلایا گیا تو اس کا کوئی حصہ صحیح اور مکمل نہ تھا۔

یہ تو اصل قاعدہ کا نقص ہے، لیکن جب اس پر مختصر نویس کی ناقابلیت کا بھی اضافہ ہو جائے، تو پھر کوئی خرابی ایسی نہیں ہے جس سے انسانی تقریر مسخ نہ کی جا سکے۔ کلکتہ اور بنگال کی مخصوص حالت نے اس نقص کو اور زیادہ پُر مصیبت بنا دیا ہے۔ یہاں کے دیسی اور یورپین افسر خود اردو زبان سے بالکل واقفیت نہیں رکھتے۔ حتی کہ معمولی طور پر بول بھی نہیں سکتے۔ ان کے نزدیک ہر وہ آدمی جو انگریزی زبان سے کسی مختلف لہجہ میں آواز نکالے، اردو کا اسکالر ہے۔ نتینہ یہ ہے کہ پولیس اور عدالت ان رپورٹوں اور مختصر نویسوں کو بطور سند کے استعمال کر رہی ہے، جن بے چاروں کی استعداد پر ہمیشہ ہم لوگ تمسخر کیا کرتے ہیں۔

میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کلکتہ کی پولیس اور عدالتوں میں ایک شخص بھی اردو زبان کے لیے قابل اعتماد نہیں ہے۔ اگر یہاں اس حقیقت کا کچھ بھی احساس ہوتا، تو صرف یہی بات بطور ایک عجیب واقع کے خیال کی جاتی کہ میری تقریروں کے لیے پولیس اور سی-آئی-ڈی کے غریب رپورٹروں کی شہادت لی جا رہی ہے!

میں تسلیم کرتا ہوں کہ کم از کم یہ منظر ضرور میرے لیے تکلیف دہ ہے!

مشرقی لٹریچر اور سرکاری وسائل علم :

یہ کہنا ضروری نہیں کہ میں اپنے دیفنس کی غرض سے ان شہادتوں کی بے اعتمادی ثابت نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو پورا پورا اقرار کر چکا۔ مقصود صرف دو باتوں کا اظہار ہے :

اولاً، جو سرکاری مقدمات اردو تقریر و تحریر کی بنأپر چلائے جاتے ہیں، ان کے وسائل ثبوت کس درجہ ناکارہ اور ناقابل اعتماد ہیں؟

ثانیاً، ہندوستان کی بیورو کریسی کی ناکامیابی اور ناموافقت۔ وہ ڈیرھ سو برس تک حکومت کر کے بھی اس قابل نہیں ہوئی کہ ہندوستانی زبانوں کے متعلق صحیح اور مستند ذرائع سے معلومات حاصل کر سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب اکتوبر 1916 عیسوی میں نظر بند کیا گیا اور بہار گورنمنٹ کے حکام اور پولیس افسر (جن کو اردو زبان سے بمقابلہ بنگال سے زیادہ تعلق
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 114 - 115

ہے) تلاشی کے لیے آئے، تو انہوں نے میری تمام کتابوں کو بھی ایک خوفناک لٹریچر سمجھ کر نہایت احتیاط کے ساتھ قبضہ میں کر لیا۔ یہ تمام کتابیں عربی اور فارسی زبان میں تھیں اور تاریخ، فقہ اور فلسفہ کا معمولی مطبوعہ ذخیرہ تھا جو بازاروں میں فروخت ہوتا رہتا ہے۔ صرف ایک کتاب "مطالب عالیہ" نامی قلمی تھی جو سب سے زیادہ پراسرار سمجھی گئی۔ لطف یہ ہے کہ ان کی فہرست ڈپٹی کمشنر کی درخواست سے مجھے ہی مرتب کرنی پڑی۔ کیونکہ تفتیشِ جرائم کے اس پورے کمیشن میں ایک شخص بھی اس قابل نہ تھی کہ کتابوں کے ٹائیٹل پیج کو صحت کے ساتھ پڑھ لیتا!

میں نے نظر بندی کے زمانے میں چار سال تک اپنی ڈاک کے لیے خود ہی سنسر شپ کے فرائض بھی انجام دیئے ہیں، کیونکہ جو سرکاری افسر اس غرض سے مقرر کیا گیا تھا، وہ اس قدر قابل آدمی تھا کہ اردو کے معمولی لکھے ہوئے خطوط بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ وہ اکثر میری ڈاک صرف دستخط کر کے بھیج دیتا اور شب کو آ کر مجھ سے اس کا ترجمہ لکھوا لیتا!

جبکہ نظر بندی میں، میں اپنی ڈاک کی خود ہی نگرانی کر رہا تھا، تو شملہ اور دہلی کے حکام اپنی کارفرمائی پر نہایت نازاں تھےا ور سمجھتے تھے کہ اُنہوں نے اپنے ایک خطرناک دشمن کو بالکل مجبور اور معطل کر دیا ہے!

اس وقت بھی میرے قلمی مسودات کلکتہ پولیس کے قبضہ میں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خوف ناک جرم، تاریخ، تفسیرِ قرآن اور لٹریچر ہے!

میں یہاں عربی داں اشخاص کی دلچسپی کے لیے ان کتابوں کے چند نام درج کر دیتا ہوں جنہیں نہایت خوفناک سمجھ کر پولیس نے شملہ بھیجا تھا اور عرصہ تک سر چارلس کلولینڈ کے حکم سے میری نظر بندی کے دیگر معاملات کی طرح ان کی بھی تحقیقات ہوتی رہی :

فتح القدیر، شرح ہدایہ، طبقات الشافعیہ سبکی، ازالۃ الخفا، کتاب الام، مدونہ امام مالک، مطالب عالیہ امام رازی، شرح حکمۃ الاشراق، شرح مسلم الثبوت، بحر العلوم، کتاب المستصفی، کتاب اللمغ۔

اصل یہ ہے کہ کسی جرم کے لیے جو لٹریچر سے تعلق رکھتا ہو، کوئی ایسی عدالت منصفانہ کاروائی نہیں کر سکتی، جو ذاتی طور پر رائے قائم نہ کر سکے۔ یعنی خود اس زبان سے واقف نہ ہو۔ لیکن موجودہ بیوروکریسی علاوہ کریسی ہونے کے ساتھ غیر ملکہ بھی ہے، اس لیے ہر گوشہ میں اجنبی اقتدار کی غلامی کے نتائج کام کر رہے ہیں۔ عدالتیں ہندوستان کی ہیں اور ہندوستانیوں کے لیے ہیں، لیکن ان کی زبان جزیرہ برطانیہ کی ہے اور اکثر حالتوں میں ایسے افراد سے مرکب ہیں جو ملکی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے۔

یہی وجہ ہے کہ اب ہم اس گورنمنٹ سے اور کچھ نہیں چاہتے۔ صرف یہ چاہتے ہیں کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ اپنے سے بہتر اور حق دار کے لیے اپنی جگہ خالی کر دے۔

موجودہ حالت قدرتی ہے :

18) میں جیسا کہ ابتداء میں لکھ چکا ہوں، خاتمہ سخن میں بھی دہراؤں گا۔ آج گورنمنٹ جو کچھ ہمارے ساتھ کر رہی ہے، وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے جس کے لیے خاص طور پر اسے ملامت کی جائے۔ قومی بیداری کے مقابلے میں مقاومت اور جبر و تشدد تمام قابض حکومتوں کے لیے طبیعت ثانیہ (سیکنڈ نیچر) کا حکم رکھتا ہے اور ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ہماری خاطر انسانی طبیعت بدل دی جائے گی۔

یہ قدرتی کمزوری افراد اور جماعت، دونوں میں یکساں طور پر نمود رکھتی ہے۔ دُنیا میں کتنے آدمی ہیں جو اپنے قبضہ میں آئی ہوئی چیز صرف اس لیے لوٹا دیں گے کہ وہ اس کے حق دار نہیں؟ پھر پورے ایک براعظم کے لیے ایسی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے؟ طاقت کبھی کسی بات کو صرف اس لیے نہیں مان لیتی کہ وہ معقول اور مدلل ہے۔ وہ تو خود بھی طاقت کی نمود کا انتظار کرتی ہے اور جب وہ نمودار ہو جاتی ہے تو پھر ناواجب سے ناواجب مطالبہ کے آگے بھی جھک جاتی ہے۔ پس کشمکش اور انتظار ناگزیر ہے اور ایک ایسی قدرتی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 116 - 117

بات ہے جس کو بالکل دنیا کے معمولی اور روزمرہ کاموں کی طرح بلا کسی تعجب و شکایت کے انجام پانا چاہیے۔

میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ تاریخ نے اس بارے میں انسانی ظلم و تعدی کے جو ہیبت ناک مناظر دکھائے ہیں، ان کے مقابلے میں موجود جبر و تشدد کسی طرح بھی زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ میں نہین کہہ سکتا کہ یہ کمی اس لیے ہے کہ ابھی ملک کا جذبۂ قربانی ناتمام ہے، یا اس لیے کہ ظلم زیادہ مکمل نہیں؟ مستقبل اس کو واضح کر دے گا۔

جس طرح اس کشمکش کا آغاز ہمیشہ یکساں طور پر ہوا ہے، اسی طرح خاتمہ بھی ایک ہی طرح ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہمارا جذبۂ آزادی و حق طلبی سچا اور اٹل ثابت ہوا، تو یہی گورنمنٹ جو آج ہمیں مجرم ٹھہرا رہی ہے، کل کو فتح مند محب الوطنوں کی طرح ہمارے استقبال پر مجبور ہو گی!

بغاوت:

19) مجھ پر سڈیشن (SEDITION) کا الزام عائد کیا گیا ہے، لیکن مجھے "بغاوت" کے معنی سمجھ لینے دو۔ کیا "بغاوت" آزادی کی اس جد و جہد کو کہتے ہیں جو ابھی کامیاب نہیں ہوئی؟ اگر ایسا ہے تو میں اقرار کرتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی یاد دلاتا ہوں کہ اسی کا نام قابل احترام حب الوطنی بھی ہے۔ جب وہ کامیاب ہو جائے۔ کل تک آئرلینڈ کے مسلح لیڈر باغی تھے، لیکن آج ولیرا اور گریفتھ کے لیے برطانیہ عظمیٰ کون سا لقب تجویز کرتی ہے؟

اسی آئرلینڈ کے پارنل PARNEL نے ایک مرتبہ کہا تھا : "ہمارا کام ہمیشہ ابتدأ میں بغاوت اور آخر میں حُب الوطنی کی مقدس جنگ تسلیم کیا گیا۔"

قانون "قضا بالحق"

20) میں مسلمان ہوں اور میرے یقین کے لیے وہ بس کرتا ہے، جو میری کتاب شریعت نے بتلایا ہے۔ قرآن کہتا ہے۔ جس طرح مادہ اور اجسام میں انتخاب طبیعی (Natural Selection) اور بقأ اصلح (Survival of the Fittest) کا قانون جاری ہے اور فطرت صرف اسی وجود کو باقی رہنے دیتی ہے جو صحیح و اصلح ہو۔ ٹھیک اسی طرح تمام عقائد و اعمال میں یہی قانون کام کر رہا ہے۔ آخری فتح اس عمل کی ہوتی ہے جو حق اور سچ ہو اور اس لیے باقی و قائم رہنے کا حق دار ہو۔ پس جب کبھی انصاف اور ناانصافی میں مقابلہ ہو گا، تو آخر کی جیت انصاف ہی کے حصہ میں آئے گی :

[AYAH]وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّهُ الْأَمْثَالَ[/AYAH]۔ (سورۃ الرعد آیت 17)
زمین پر وہی چیز باقی رہے گی جو نافع ہو۔ غیر نافع چھانٹ دی جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں سچائی کا نام "حق" ہے، جس کے معنی ہی جم جانے کے ہیں اور ثابت ہو جانے کے ہیں اور جھوٹ اور بدی کا نام "باطل" ہے جس کے معنی ہی مٹ جانے کے ہیں۔

إ[AYAH]ِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا[/AYAH]۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت 81) (کتاب میں آیت 78 لکھا ہوا ہے جو کہ غلط ہے)
باطل تو صرف اس لیے ہے کہ مٹ جائے۔

پس آج جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا فیصلہ کل ہو گا۔ انصاف باقی رہے گا۔ ناانصافی مٹا دی جائے گی۔ ہم مستقبل کے فیصلہ پر ایمان رکھتے ہیں!۔

البتہ یہ قدرتی بات ہے کہ بدلیوں کو دیکھ کر بارش کا انتظار کیا جائے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ موسم نے تبدیلی کی تمام نشانیاں قبول کر لی ہیں۔ افسوس ان آنکھوں پر جو نشانیوں سے انکار کریں!

میں نے انہی تقریروں میں جو میرے خلاف داخل کی گئی ہیں، کہا تھا :

"آزادی کی بیج کبھی بارآور نہیں ہو سکتا جب تک جبر و تشدد کے پانی سے اس کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 118 - 119

آبیاری نہ ہو۔"

لیکن گورنمنٹ نے آبیاری شروع کر دی ہے!

میں نے انہی میں کہا تھا۔ "مبلغین خلافت کی گرفتاریوں پر کیوں مغموم ہو؟ اگر تم فی الحقیقت انصاف اور آزادی کے طلبگار ہو، تو جیل جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ علی پور کا جیل اس طرح بھر جائے کہ اس کی کوٹھڑیوں میں چوروں کے لیے جگہ باقی نہ رہے۔"

فی الحقیقت جگہ باقی نہیں رہی۔ پریذیڈنسی اور سینٹرل جیل کا بڑا حصہ معمولی قیدیوں سے خالی کر دیا گیا۔ پھر بھی جگہ کافی نہیں ہوئی۔ نیا جیل بنایا گیا وہ بھی آناً فاناً بھر گیا۔ جگہ نکالنے کے لیے سینکڑوں قیدی رہا کر دیئے گئے، لیکن اس سے دگنے آ گئے۔ اب مزید نئے جیل بنائے جا رہے ہیں!

سرکاری وکیل، پولیس اور مجسٹریٹ :

21) قبل اس کے کہ میں اپنا بیان ختم کروں، اپنے اُن ہم وطن بھائیوں کی نسبت بھی ایک دو جملے کہوں گا، جو اس مقدمہ میں میرے خلاف کام کر رہے ہیں۔ جب میں نے اوپر کہیں کہا ہے کہ "سی-آئی-ڈی کا کام جہالت اور شرارت دونوں سے مرکب ہوتا ہے۔" یہ میں نے اِس ذاتی علم کی بنا پر کہا ہے جو بے شمار مقدمات کی نسبت مجھے حاصل ہے۔ تاہم میں تسلیم کرتا ہوں کہ سی-آئی-ڈی کے جن آدمیوں نے میرے خلاف شہادت دی ہے۔ اُنہوں نے اس اعتماد کے سوا جو اپنے کام پر ظاہر کیا ہے، کوئی بات بھی غلط نہیں کہی۔

میری تقریریں جو پیش کی گئی ہیں ان میں بھی کوئی بات شرارت کی نہیں پاتا۔ جس قدر ان کے اغلاط اور نقائص ہیں، صرف ناقابلیت کا نتیجہ ہیں۔ ایک دو مقدمات ایسے ہی ہیں جن کی نسبت خیال کیا جا سکتا ہے کہ دانستہ خراب کر کے دکھلائے ہیں۔ مثلاً جہاں جہاں میں نے لوگوں کو باامن رہنے، ہڑتال نہ کرنے، ہر طرح کے مظاہرات سے مجتنب رہنے
صفحہ 119

کی تلقین کی ہے، وہ بقیہ حصوں سے بھی زیادہ الجھے ہوئے اور بے ربط ہیں۔ متعدد مقامات پر " امن " کو "ایمان" کر دیا ہے۔ جو وہاں بالکل بےربط ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی قاعدہ کے نقص اور ذاتی ناقابلیت کی وجہ سے ہے نہ کہ شرارت سے۔

البتہ میرا یقین ہے کہ اُنہوں نے اپنے کام پر جو اعتماد ظاہر کیا ہے اور جس غرض سے یہ کام انجام دیا ہے، وہ ضرور معصیت ہے۔ لیکن ساتھ ہی مجھے ان کی کمزوری بھی معلوم ہے۔ وہ محض چند روپیہ کی نوکری کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں اور اتنا قوی ضمیر نہیں رکھتے کہ سچائی کو ہر بات پر ترجیح دیں۔ پس میرے دل میں ان کے لیے رنج اور ملامت نہیں ہے۔ میں اس کام کے لیے انہیں معاف کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا بھی معاف کر دے۔

پبلک پراسیکیوٹر بھی جو اِن مقدمات میں کام کر رہا ہے، میرا ایک ہم وطن بھائی ہے۔ اس کی ضمیر یا رائے میرے سامنے نہیں ہے۔ محض مزدوری ہے، جو اس کام کے لیے وہ گورنمنٹ سے حاصل کرتا ہے۔ پس اس کی طرف سے بھی میرے دل میں کوئی رنج نہیں۔ البتہ میں ان سب کےھ لیے وہی دعا مانگوں گا جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر مانگی تھی :

"خدایا ان پر راہ کھول دے، کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کر رہے ہیں؟"

فَاقضِ ماَ اَنتَ قَاض :

میں مجسٹریٹ کی نسبت بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ زیادہ سے زیادہ سزا جو اس کے اختیار مین ہے، بلا تامل مجھے دے دے۔ مجھے شکایت یا رنج کا کوئی احساس نہ ہو گا۔ میرا معاملہ پوری مشینری سے ہے۔ کسی ایک پرزے سے نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جب تک مشین نہیں بدلے گی، پرزے اپنا فعل نہیں بدل سکتے۔

میں اپنا بیان اٹلی کے " قتیل صداقت گارڈینیر برونو" کے لفظوں پر ختم کرتا ہوں،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 120

جو میری ہی طرح عدالت کے سامنے کھڑا کیا گیا تھا :

"زیادہ سے زیادہ سزا جو دی جا سکتی ہے، بلا تامل دے دو۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ سزا کا حکم لکھتے ہوئے جس قدر جنبش تمہارے دل میں پیدا ہو گی، اس کا عشر عشیر اضطراب بھی سزا سن کر میرے دل کو نہ ہو گا۔"

خاتمہ :

مسٹر مجسٹریٹ! اب میں اور زیادہ وقت کورٹ کا نہ لوں گا۔ یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے، جس کی ترتیب میں ہم دونوں یکساں طور مشغول ہیں۔ ہمارے حصہ میں یہ مجرموں کا کٹہرا آیا ہے۔ تمہارے حصہ میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لیے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری چیز ہے، جس قدر یہ کٹہرا۔ آؤ! اس یادگار اور افسانہ بننے والے کام کو جلد ختم کر دیں۔ مورخ ہمارے انتظار میں ہے اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ ہمیں جلد جلد یہاں آنے دو اور تم بھی جلد جلد فیصلہ لکھتے رہو۔ ابھی کچھ دنوں تک یہ کام جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے۔ یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے۔ وقت اس کا جج ہے۔ وہ فیصلہ لکھے گا اور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا!

وَالحَمدُ لِلِہ اَولاً وَ اَخِراً۔

11 جنوری 1922 عیسوی
پریذیڈنسی جیل احمد
علی پور، کلکتہ

*************************************************​

صفحہ 121

آخری پیشی !
9-فروری 1922 عیسوی

صرف ایک سال قید بامشقت!
"یہ اُس سے بہت کم ہے جس کا میں متوقع تھا"!

9-فروری سے پہلے مولانا کی جانب سے حسبِ ذیل امور کا زبانی اور بذریعہ اخبار اعلان کیا گیا :

1 : 9-فروری کو کوئی شخص عدالت کی کاروائی دیکھنے کے لیے نہ آئے۔ نہ کسی طرح کا ہجوم سڑکوں پر ہو۔

2 : یہ یقینی ہے کہ انہیں سزا کا حکم سنایا جائے گا۔ پبلک کو چاہیے کہ پورے صبر و سکون کے ساتھ اس کی منتظر اور متوقع رہے۔ کوئی ہڑتال نہیں ہونی چاہیے۔ نہ کسی طرح کا غیر معمولی مظاہرہ کرنا چاہیے۔

3 : 9- کو لوگ جیل کی طرف بھی ہجوم نہ کریں اور نہ انہیں دیکھنے کے لیے جد و جہد کریں۔ صرف اپنی معمولی روزانہ جد و جہد جاری رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو اس کی سرگرمی بڑھائیں۔

بعض کارکنانِ خلافت و کانگریس نے غلطی سے کارخانوں اور سرکاری محکموں میں کام کرنے والوں کو ہڑتال کے ارادے سے نہیں روکا تھا اور خاموشی اختیار کر لی تھی۔ 7 کو جب مولانا کو معلوم ہوا تو اُنہوں نے فوراً رکوا دیا اور ہر جگہ یہ بات پہنچا دی گئی کہ جو شخص اس کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے، اس کے اظہارِ محبت و وعقیدت کی صرف یہی راہ ہے کہ والنٹیر بن جائے اور جیل جانے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہڑتال اور مظاہرہ نہ صرف اصول کے خلاف ہے، بلکہ مقاصد کے لیے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 122

مضر بھی ہے۔

اگرچہ یہ تمام کاروائیاں علانیہ ہو رہی تھیں۔ افسران جیل کی موجودگی میں وہ تمام پیغامات دیتے تھے اور لکھواتے تھے اور پھر اخبارات میں بھی شائع ہو جاتے تھے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ارکان حکومت کو اطمینان نہ تھا۔

مولانا اور مسٹر داس کے مقدمات میں عدالت کی جانب سے پے در پے التوأ کیا گیا۔ گورنمنٹ کا تذبذب اور اضطراب بھی برابر ظاہر ہوتا رہا۔ نیز راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی تجویزاور نام نہاد مصالحت کی کاروائیاں بھی جاری رہیں۔ ان تمام اسباب سے پبلک کو یہ توقع ہو گئی تھی کہ شاید انہیں رہا کر دیا جائے۔ زیادہ تائید اس بات کی کلکتہ اور بنگال کی مخصوص حالت سے بھی ہوتی تھی جس کی طرف سے مقامی گورنمنٹ کی تشویش روز بروز بڑھتی جاتی تھی اور بار بار یہ افواہیں مشہور کی جاتی تھیں کہ بہت جلد انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ گورنمنٹ کو بڑی تشویش مزدوروں کی ہڑتال سے تھی۔ علی الخصوص خضر پورڈک کے مزدوروں اور شہر کے تمام خانساموں وغیرہ سے جو پندرہ بیس ہزار کی تعداد میں ہوٹلوں اور انگریزوں کے پرائیویٹ مکانوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک دن کے لیے بھی ہڑتال کرنا تمام انگریزی آبادی کی زندگی دشوار کر سکتا ہے۔ اسی طرح ڈک کے مزدوروں کی جماعت بھی ایک ایسی جماعت ہے جو اگر کام چھوڑ دے تو اس کا کام ایک دن کے لیے بھی دوسرے آدمی نہیں چلا سکتے۔ تمام تجارت اور مال کی درآمد برآمد اسی پر موقوف ہے۔

خانساموں اور ڈک کے مزدوروں کی باقاعدہ یونین قائم ہے۔ دونوں نے فی الواقع ہڑتال کا ارادہ کر لیا تھا۔ ڈک کے مزدور تو ان کی گرفتاری پر ہڑتال کر بھی چکے تھے۔ لیکن کانگریس کمیٹی نے بمشکل سمجھا بجھا کے کام پر لگایا۔

اسی طرح تمام سرکاری کالجوں کے طلبأ کی نسبت بھی گورنمنٹ کا خیال تھا کہ بمجرد اعلان سزا کے کالجوں سے نکل آئیں گے۔ انہی اسباب سے فیصلہ میں تاخیر کی جا رہی تھی۔


صفحہ 123

لیکن مولانا نے 7 کو ایک پیغام تمام اخبارات میں اس مضمون کا شائع کرایا کہ ان کے مقدمہ کی نسبت کوئی غلط توقع لوگ نہ باندھ لیں۔ یہ قطعی ہے کہ انہیں سزا دی جائے گی۔ لوگوں کو چاہیے کہ پورے نظم و سکون کے ساتھ اس کے سننے کے لیے تیار رہیں۔ ہڑتال وغیرہ کے لیے اُنہوں نے کہا کہ :

"ہم ایک سال سے کہتے آئے ہیں کہ کامیابی اسی پر موقوف ہے کہ خاموشی کے ساتھ لوگ گرفتار ہو جائیں۔ چنانچہ ہزاروں آدمیوں نے اپنے تئیں گرفتار کرا دیا۔ اب جب ہم خود گرفتار ہوئے ہیں تو ہمیں بھی اپنے لیے وہی پسند کرنا چاہیے جو ہم نے دوسروں کے لیے پسند کیا تھا۔ یہ نہایت افسوس ناک غلطی ہو گی اگر ہماری سزایابی کے لیے ہڑتالیں کی گئیں، یا ہمیں چھوڑ دینے کے لیے کسی ایک ہندوستانی نے بھی کام چھوڑا۔"

اس پیغام نے نہایت تعجب انگیز اثر پیدا کیا جس کی خود گورنمنٹ کو بھی توقع نہ تھی۔ تمام لوگ جو جوش و اضطراب میں بے قابو ہو رہے تھے، پتھر کی طرح اپنی اپنی جگہ جم گئے۔ ہڑتال کا ارادہ بالکل فسخ کر دیا اور 9 کو عدالت اور جیل میں کسی قسم کا ہجوم نہیں ہوا۔

باایں ہمہ گورنمنٹ کے ارکان مطمئن نہ تھے اور دیکھ رہے تھے کہ گیارہ بجے کے بعد کیا صورت پیش آتی ہے؟ اس لیے گیارہ بجے تک جیل میں کوئی خبر نہیں دی گئی کہ کاروائی کہاں ہو گی؟ کورٹ میں یا جیل میں؟ جب گیارہ بج چکے اور کسی طرح کی بھیڑ عدالت میں نہیں ہوئی، تو مولانا طلب کئے گئے۔ بارہ بجے وہ پہنچے۔ اس وقت ایک مقدمہ کی کاروائی ہو رہی تھی۔ لیکن مجسٹریٹ نے عارضی طور پر اسے ملتوی کر کے مولانا کو طلب کیا اور فیصلہ سنایا۔ فیصلہ یہ تھا کہ ایک برس قید بامشقت۔

مولانا نے فیصلہ سن کر مجسٹریٹ سے مسکراتے ہوئے کہا :

"یہ تو اس سے بہت کم ہے جس کی مجھے توقع تھی!" مجسٹریٹ ہنسنے لگا اور مولانا برآمدے میں واپس آ گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 124

یہاں کورٹ انسپکٹر موجود تھا۔ جو انہیں اپنے آفس روم میں لے گیا اور کہا مجھے آپ معاف کریں گے اگر میں چند منٹ آپ کو یہاں بٹھاؤں اور ضابطہ کی کاروائی انجام دے دوں؟

مولانا نے کہا :

میں یہ "چند منٹ " ایک سال قید بامشقت میں شمار نہ کروں گا۔

یہاں اُس نے سزا کے رجسٹر میں حسب قاعدہ ان کا نام، ولدیت، عمر، حلیہ، قد اور دستخط کا اندراج کر لیا۔ اس کے بعد وہ جیل کی گاڑی میں مسلح پولیس کے ساتھ روانہ کر دیئے گئے۔

اس طرح کامل ساٹھ دن کے بعد یہ کہانی ختم ہو گئی اور جس شخص کو ایک دن کے لیے بھی قید کرنا گورنمنٹ کے لیے آسان نہ تھا اور بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ لاکھوں انسانوں کے اضطراب پر غلبہ حاصل کیا جائے، وہ اس آسانی اور خاموشی کے ساتھ ایک برس کے لیے قید خانے میں بھیج دیا گیا! یہ فی الحقیقت نان کوآپریشن کے نظم و طاقت کا ایک حیرت انگیز ثبوت ہے!

عدالت کا فیصلہ (جیسا کہ توقع تھی) نہایت ہی مختصر ہے۔ نہ تو استغاثہ کی تشریح کی گئی ہے، نہ الزام کے اثبات کے وجوہ و دلائل بیان کئے ہیں۔ حتی کہ یہ بات بھی اس سے معلوم نہیں ہو سکتی کہ ملزم نے کن الفاظ کے ذریعہ دفعہ 124-الف کا ارتکاب کیا ہے؟ اور کیوں کر اس کی تقریریں اس دفعہ کے ماتحت آتی ہیں؟ البتہ اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ملزم نے تقریروں کے تمام وہ حصے تسلیم کر لیے ہیں جو گورنمنٹ کے متعلق تھے۔ مگر وہ کیا ہیں؟ ان پر کوئی توجہ نہیں کی گئی۔ بہتر یہ تھا کہ سزا کی بنیاد اسی بار پر رکھ دی جاتی کہ ملزم نے نہایت صفائی کے ساتھ اپنے "مجرم" ہونے کا بار بار اظہار کیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ بحالتِ موجودہ آزادی اور حق کا مطالبہ ہی جرم ہے!

**********************************​


صفحہ 125

نقول و ترجمہ

فیصلہ عدالت

مقدمہ نمبری 28 1922 عیسوی

قیصرِ ہند

بنام

محی الدین احمد عرف مولانا ابو الکلام آزاد

فیصلہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 126

اس مقدمہ میں مولانا ابو الکلام آزاد زیر دفعہ 124-الف تعزیرات ہند مجرم قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ اُنہوں نے پہلی جولائی 1921 عیسوی کو مرزا پور اسکوائر کلکتہ میں مسئلہ خلافت، پنجاب اور آزادی وطن کے مضامین پر اور نیز 15-جولائی 1921 کو اسی مقام پر مسئلہ ترکِ موالات وغیرہ پر اردو میں تقریر کرتے ہوئے، ایسے الفاظ استعمال کئے، جن کے ذریعہ گورنمنٹ قائم شدہ بروئے قانون کے خلاف لوگوں نے نفرت اور حقارت پھیلانے کی کوشش کی۔

استغاثہ کی طرف سے جو شہادتیں پیش ہوئی ہیں، ان سے حسب ذیل واقعات ثابت ہوتے ہیں : مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر پولیس اسپیشل برانچ نے یہ اطلاع پاتے ہی کہ یکم جولائی کو مزرا پور پارک میں کوئی جلسہ ہونے والا ہے، اپنے اردو شارٹ ہینڈ رپورٹرز ابو اللیث محمد، انسپکٹر ایس اے گھوسال، سب انسپکٹر محمد اسماعیل اور ایس سی کر کو جلسہ کی کاروائی اور تقریروں کے نوٹ لینے کے لیے متعین کیا۔

افسران مذکور جلسہ میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے تمام کاروائی اور تقریروں کے نوٹ لیے۔ ان میں ملزم کی تقریر بھی ہے جو اس جلسہ کے صدر تھے۔ جلسہ میں تقریباً 12 سو آدمیوں کا اجتماع تھا۔ جلسہ کا مقصد خلافت کے تین مبلغین : سعید الرحمٰن، اجودھیا پرشاد اور جگدمبا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تھا۔

منجملہ اور مقرروں کے ملزم نے بھی اردو میں ایک طویل تقریر کی۔ ان تقریروں کے نوٹ اردو شارٹ ہینڈ رپورٹرز ابو اللیث محمد نے اور کچھ حصے دوسرے پولیس کے افسروں نے لیے۔ یہ نوٹ مسٹر گولڈی کے سامنے پیش ہوئے۔ اُنہوں نے اِن پر دستخط ثبت کر دیئے۔

ابو اللیث نے اپنا نوٹ صاف کر کے اس کی نقل مسٹر گولڈی کے پاس بھیج دی۔ دوسرے پولیس افسروں نے بھی اپنے اسی لانگ ہینڈ نوغ کی ایک مشترکہ رپورٹ افسر مذکور کے پاس بھیج دی تھی۔

15-جولائی 1921 عیسوی کو مسٹر گولڈی نے اسی اردو شارٹ ہینڈ رپورٹر ابو اللیث محمد، انسپکٹر


صفحہ 127

بی۔ بی مکر جی، سب انسپکڑ محمد اسماعیل اور ایس سی کر کو ایک دوسرے جلسہ کی کاروائیوں اور تقریروں کے نوٹ لینے کے لیے متعین کیا۔ جو اسی مقام پر ہونے والا تھا۔

ملزم حاضرین جلسہ میں تھے۔ اُنہوں نے مذکورہ بالا خلافت کے تین مبلغین : سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد، اوجودھیا پرشاد کی سزا یابی کے خلاف اردو میں تقریر کی اور لوگوں کو اس بات کی تلقین کی اور شوق دلایا کہ وہ بھی ان کی پیروی کریں اور جیل جائیں۔ جلسہ میں 10 ہزار کا مجمع تھا۔ ابو اللیث نے ملزم کی تقریر کے نوٹ اردو شارٹ ہینڈ میں لیے اور دوسرے افسرون نے ان کے کچھ حصے لانگ ہینڈ لیں لیے۔

ابو اللیث نے اپنا نوٹ صاف کر کے اس کی نقل اور دیگر افسروں نے ایک مشترکہ رپورٹ مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کر دی۔

ابو اللیث کی اردو کی دونوں نقلوں کا ترجمہ سرکاری مترجم مسٹر بابا چرن چٹر جی نے کیا ہے۔ مسٹر گولڈی نے نقل اور ترجمہ ملنے کے بعد ملزم کی مذکورہ تقریروں کے خلاف دفعہ 124-الف کے ماتحت گرفتار کرنے کی درخواست گورنمنٹ آف بنگال سے کی اور 22-دسمبر 1921 عیسوی کو سینکشن حاصل کیا۔

اس نے اس سینکشن کی تصدیق بھی کر دی ہے۔

ابو اللیث اور دوسرے افسروں نے حلفیہ بیان کیا ہے کہ جو نوٹ اُنہوں نے لیے ہیں اور جو مشترکہ رپورٹ اُنہوں نے داخل کی ہے، وہ درست اور سچی ہیں۔

بابا چرن چٹر جی نے بھی حلفیہ بیان کیا ہے کہ دونوں نقلوں کا جو ترجمہ اس نے کیا ہے، وہ صحیح اور اصلی ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ میں ان کی سچائی میں شبہ کروں۔

ملزم نے ایک طویل بیان داخل کیا ہے جو گورنمنٹ کی برائیوں کی داستان سے پُر ہے۔ اس میں نہایت تشریح کے ساتھ ان تمام کاروائیوں کو دکھایا گیا ہے جن کی وجہ سے وہ گورنمنٹ کو "ظالم گورنمنٹ" کے نام سے تعبیر کرتا ہے اور نیز اپنی ان تمام کاروائیوں کا ذکر کیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 128

ہے جو ان غیر قانونی کاروائیوں کے خلاف اس نے کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی تقریروں کی نقل بالکل ناقص، غلط اور مسخ شدہ ہے اور محض بے جوڑ اور بعض مقامات پر بے معنی جملوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن بہر کیف وہ ان تمام حصوں کو تسلیم کرتا ہے جن میں گورنمنٹ کے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یا پبلک سے گورنمنٹ کے خلاف جد و جہد کی اپیل کی گئی ہے۔

میں نے نہایت احتیاط سے یہ تقریریں پڑھی ہیں اور ان پر کامل غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ باغیانہ ہیں۔

اور یہ کہ ملزم نے ان تقریروں کے ذریعہ گورنمنٹ قائم شدہ از روئے قانون کے خلاف نفرت و حقارت پھیلانے کی کوشش کی۔

میں ملزم کو حسبِ دعویٰ استغاثہ مجرم پاتا ہوں اور زیر دفعہ 124-الف تعزیراتِ ہند ایک سال قید بامشقت کی سزا دیتا ہوں۔

9-فروری 1922 عیسوی (دستخط) ڈی سونیہو
چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ – کلکتہ

********************************​


صفحہ 129

ضمیمہ ۔۔۔۔۔۔ از پیغام 9-دسمبر 1921 عیسوی

آخری منزل کے آثار پھر شروع ہو گئے

باز ہوائے چمنم آرزوست

وقت آ گیا ہے کہ اسلام اور ملک کا ہر فرزند بھی آخری آزمائش کے لیے تیار ہو جائے۔

[ayah]كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ [/ayah]۔ (سورۃ البقرہ- آیت 249)

"کتنی ہی چھوٹی اور کم تعداد جماعتیں ہیں، جو اللہ کے حکم سے بڑی تعدادوں پر غالب آ گئیں؟ مگر شرط کامیابی صبر ہے کیونکہ اللہ صبر کرنے ہی والوں کا ساتھ دیتا ہے۔

مقدمہ کراچی کی گرفتاریوں کے بعد حیرانی و درماندگی کی جو خاموشی چھا گئی تھی، بالآخر ٹوٹی اور گورنمنٹ نے آخری حملے کے لیے ہتھیار اٹھا لیے۔ وہ اب ایک نئی شان کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ اس میں طاقت سے زیادہ طیش ہے اور طیش کے ساتھ غصہ کی گھبراہٹ بھی مل گئی ہے۔ وہ گویا ضبط کرتے کرتے اکتا گئی۔ اب حریف کی طرح مقابلہ نہیں کرے گی۔ غیظ و غضب میں بھرے ہوئے آدمی کی طرح ٹوٹ پڑے گے۔ بنگال، آسام، یو-پی، دہلی اور پنجاب میں والنٹیر کورز توڑ ڈالی گئی ہیں۔ خلافت اور کانگریس کمیٹیوں کے دفتروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ عہدہ داروں کو بے دریغ گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اکثر حالتوں مین سفید ٹوپی اور گاڑھے کا لباس گرفتاری کے لیے بھی کاجی جرم ہے۔ بنگال و آسام میں صرف پولیس افسروں کی مرضی کا نام حکومت اور قانون ہے۔ کلکتہ کی سڑکوں پر بے شمار آدمی گرفتار کر لیے گئے، جو گاڑھا پہنے ہوئے تھے، یا چاند اور تارے کا نشان ان کی ٹوپی پر تھا۔ جلسوں کی ممانعت کا آرڈر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 130

بھی ہر جگہ نافذ کر دیا گیا ہے۔ گرفتاریاں بھی آخری حد تک پہنچ گئی ہیں۔ پنجاب میں لالہ لاجپت رائے جی اور ان کے ساتھ چار اعلٰی عہدی داران کانگریس گرفتار کر لیے گئے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ گورنمنٹ تحریک کے بڑے بڑے لیڈروں کو گرفتار کر لینے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ گزشتہ دو ہفتہ کے اندر وائسرائے اور گورنر بنگال کی طرف سے بار بار اعلان بھی ہو چکا ہے۔ اب گورنمنٹ کی جانب سے کسی طرح کی کوتاہی نہ ہو گی۔

بے بسی کا غصہ!

17 تاریخ کی فتح مند ہڑتال اور پرنس آف ویلز کے دورہ کے کامیاب بائیکاٹ نے گورنمنٹ کو بے بس کر دیا۔ بے بسی نے اب غیظ و غضب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ گورنمنٹ صاف صاف کہہ رہی ہے کہ آئندہ ہڑتال کو روکا جائے گا۔ کلکتہ میں پولیس پورا زور لگا رہی ہے کہ لوگ سہم جائیں اور ہڑتال نہ ہو سکے۔ سول گارڈ کا قیام خلافت والنٹیرز کا جواب ہے اور اس ذریعہ سے تمام آبادی کو مرعوب کیا جا رہا ہے۔

والنٹیر کورز کو توڑ کر جلسوں کی ممانعت کر کے اور کارکنوں کو کثرت کے ساتھ گرفتار کر کے گورنمنٹ چاہتی ہے کہ تحریک کا خاتمہ کر دے۔ اس نے خیال کیا کہ تحریک کی ہستی اور تبلیغ کے صرف تین ہی ذرائع ہیں۔ والنٹیرز، جلسے، لیڈر۔ ان سب پر بے یک وقت وار کر کے وہ اپنے کام سے پوری طرح فارغ ہو جائے گی۔

تشدد اور برداشت کا مقابلہ :

ہم نے گورنمنٹ کے تشدد کا ہمیشہ استقبال کیا، ہم نے صرف استقبال ہی نہیں کیا بلکہ آرزوئیں کیں۔ گورنمنٹ نے کراچی ریزولیوشن کو جرم قرار دیا، تو ہم میں سے ہزاروں دلوں نے منتیں کیں کہ انہین بھی گرفتار کر لیا جائے۔ لیکن گورنمنٹ برابر قدم اٹھا کے پیچھے ہی ہٹتی رہی۔ اب پھر اس نے قدم بڑھایا ہے۔ ہم اس کا، اس کے تمام ساز و سامان کا، اس کے ہر طرح کے جبر و تشدد کا، اس کے زیادہ سے زیادہ غیظ و غضب کا، اس کے اس آخری اعلان جنگ کا پوری


صفحہ 131

آمادگی و قبولیت کے ساتھ استقبال کرتے ہیں اور ہمارا اعلان ہے کہ ہم آخر تک میدان کو پیٹھ نہ دکھلائیں گے۔

اب جبر و تشدد اور برداشت میں آخری مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ فتح اس کی ہو گی جو زیادہ طاقتور ہر گا اور زیادہ دیر تک میدان میں ٹک سکے گا۔ اگر گورنمنٹ کی طاقت ملک کی برداشت سے زیادہ ہے، تو جیت اس کی ہے۔ اگر ملک کی برداشت گورنمنٹ کی طاقت سے زیادہ ہے تو ملک کی فتح مندی کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔

آخری منزل ہمارا فرض :

اگر سچ مچ گورنمنٹ کا یہ آخری وار ہے، تو ہم کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ "سفر کی آخری منزل" آ گئی اور اس لیے ہم کو بھی آخری آزمائش کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ ہم نے دو سال سے جس قدر اعلان کئے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ان میں سے ہر اعلان اپنی حقیقت کے لیے مطالبہ کرے۔ ہم نے دو سال سے جس قدر دعوے کئے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ ان میں سے ہر دعویٰ اپنی سچائی کا دنیا کو یقین دلا دے۔ ہم دو سال سے جو کچھ کہہ رہے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ دنیا کو کر کے دکھلا دیں۔ ہم نے ایمان کا اعلان کیا ہے۔ ہم نے خدا پرستی کا دعویٰ کیا ہے، ہم نے سرفروشی اور جانستانی کا نعرہ لگایا ہے۔ ہم نے قربانی و جانبازی کا ہزاروں لاکھوں مرتبہ نام لیا ہے۔ ہم نے حق پرستی کے عہد کئے ہیں اور اسلام اور ملک سے عشق و محبت کا پیمانِ وفا باندھا ہے۔ ہم نے نامردی اور بزدلی کی ہمیشہ حقارت کی۔ ہم نے حق سے منہ موڑنے اور خدا کو پیٹھ دکھلانے پر لعنتیں بھیجیں۔ ہم ان پر ہنسے اور مشکلوں سے گھبرا گئے۔ ہم نے ان کی بدبختی و محرومی سے پناہ مانگی جو وقت پر اپنے دعوؤں میں پورے نہ اترے۔ ہم نے خدا کا نام لیا اور اس کی شریعت کے حکموں کی اطاعت کی راہ میں قدم اٹھایا۔ ہم نے خود ہی اپنے ایمان و نفاق کے لیے معیار بنا دیا اور ہم نے تمام دنیا کو دعوت دی کہ وہ ہم میں سے مومنوں کو منافقوں میں سے چن لیں۔ ہم نے کہا کہ ایمان کی گھڑی ہے اور اسلام کا فیصلہ ہے۔ پس مومن وہ ہے جو وقت کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 132 - 133

فرض انجام دے اور منافق وہ ہے جو وقت پر پیٹھ دکھلا دے :

[ayah]يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكْفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُواْ الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ [/ayah](سورۃ آل عمران۔ آیت 106-107)

یہ سب کچھ ہم نے اپنی مرضی اور اپنی طلب سے کیا۔ خدا اور اس کے فرشتے ہماری زبانوں اور ہمارے دلوں پر گواہ ہیں۔ پھر اگر آج آزمائش کی گھڑی آ گئی ہے اور منزل سامنے ہے جس کے لیے ہم اس قدر دعوے کر چکے ہیں، تو کیا ہم عین وقت پر اپنے تمام دعوے بھلا دیں گے؟ کیا اپنے تمام اعلان واپس لے لیں گے؟ کیا ہمارا دعویٰ دھوکہ ثابت ہو گا اور ہمارا اعلان محض فریب کا تماشا ہو گا؟ کیا ہم نے جو کچھ کہا وہ جھوٹ تھا اور ہم نے اپنے ایمان اور حق کے لیے جو کچھ سمجھا وہ دھوکا تھاَ؟ کیا ہم خدا اور اس کی سچائی سے منہ موڑ لیں گے؟ کیا ہم ایمان کی اس سب سے چھوٹی آزمائش میں بھی پورا نہ اتریں گے؟ کیا مشکلیں ہم کو ہرا دیں گی؟ تکلیفیں ہمیں ڈرا دیں گی؟ اور گرفتاریوں کا ہراس ہمارے ایمان پر غالب آ جائے گا؟

دنیا ہماری طرف تک رہی ہے۔ تاریخ کے صفحات ہمارے انتظار میں ہیں۔ ہزاروں لاکھوں شہیدانِ ظلم کی نگاہیں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ سمرنا اور ایشیائے کوچک کی خون آلود سرزمین سے ہمارے لیے صدائیں اُٹھ رہی ہیں اور ہندوستان کی پامال سرزمین کا ایک ایک ذرہ ہماری کھوج میں ہے۔ کیا ہمارا وجود ان سب کے لیے مایوسی ہو گا؟ کیا ہماری نامرادی و بدبختی کی سرگزشتیں لکھی جائیں گی؟ کیا تاریخ کو ہم صرف اپنی منحوس ناکامی ہی کی کہانی دے سکتے ہیں۔ کیا آنے والی نسلوں کی زبان پر ہمارے لیے صرف نفرتیں اور لعنتیں ہی ہو سکتی ہیں؟ کیا ہم دنیا کو اس بات کے لیے چھوڑ دیں گے کہ ہماری ایمان سے محرومی اور ہمت سے تہی دستی پر گواہی دے؟

آہ! یہی گھڑی ہے جو اس کا فیصلہ کرے گی۔ یہی وقت ہے جو ہمیشہ کے لیے ہماری فتح و شکست کا فیصلہ لکھ دے گا۔ آؤ، اپنی قسمت کی تعمیر کریں۔ اپنی عزت و اقبال کو ڈوبنے سے بچا لیں۔ اپنی فتح کو شکست کے لیے نہ چھوڑ دیں۔ اسلام کے دامن کے لیے دھبہ نہ بنیں جو کبھی محو نہ ہو۔ ہندوستان کی آزادی اور نجات کی امید تاراج نہ کر دیں، جو صدیوں تک واپس نہ مل سکے!

راہِ عمل :

ہمارے کام کا راستہ بالکل صاف ہے۔ ہماری کامیابی کے لیے کوئی روک نہیں۔ یقیناً خدا کی رحمتوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہم پر ایسی راہ عمل کھول دی کہ جب تک ہم خود اپنے کو شکست نہ دینا چاہیں، کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔

ہم نے اول دن ہی سے قربانی اور استقامت کا اعلان کیا ہے۔ "قربانی" سے مقصود یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں ہر طرح کی تکلیف و مصیبت جھیلتے رہنا۔ "استقامت" سے مقصود یہ ہے کہ راہ میں جمے رہنا اور کبھی اس سے منہ نہ موڑنا۔

پھر بتلاؤ، گورنمنٹ یا گورنمنٹ سے بھی کوئی بڑی طاقت اس کے مقابلہ میں کیا کر سکتی ہے؟ کیونکر وہ ہمیں روک سکتی ہے؟ اور کس طرح ہم پر غالب آ سکتی ہے؟ فوج ہو تو اسے شکست دی جائے، قلعے ہوں تو انہیں ڈھا دیا جائے، دیواریں ہوں تو انہیں گرا دیا جائے، ہتھیار ہوں تو انہیں چھین لیا جائے۔ لیکن جو قوم قربان ہونے اور مٹنے کے لیے تیار ہو گئی ہو اور صرف قربان ہونا اور جان پر کھیل جانا ہی اس کی فوج اور ہتھیار ہو، اس کا مقابلہ کس چیز سے کیا جائے گا؟ جسموں کو مارا اور ہتھیاروں کو چھینا جا سکتا ہے، لیکن دلوں کے عشق اور روحوں کے ایمان کے لیے نہ کوئی کاٹ ہے، نہ کوئی آگ۔

اچھا، اب ایک ایک چیز کو گنواور سوچو کہ ہمارے مقابلے میں کون کون سی طاقت لائی جا سکتی ہے؟

گورنمنٹ ڈرانے کے لیے پوری طرح ہیبت ناک ہے۔ لیکن بے خوفی کے مقابلہ میں کیا کرے گی؟َ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 134 - 135

گورنمنٹ احکام نافذ کر کے ہمیں روک دے سکتی ہے۔ لیکن جن لوگوں نے ٹھان لیا ہو کہ کبھی نہ رکیں گے اور نہ رک کر سب کچھ جھیل لیں گے، ان کے مقابلے میں وہ کیا کرتے گی۔

گورنمنٹ گرفتار کر کے قید خانے بھر دے گی۔ لیکن جو لوگ خود ہی قید ہونے کے لیے تیار ہیں، ان کے لیے قید خانے کی نمائش کیا کام دے سکتی ہے؟

سب سے آخری طاقت، ہلاکی اور خونریزی کی طاقت ہے۔ بلا شبہ فوجیں جمع ہو سکتی ہیں۔ ہتھیار چمک سکتے ہیں۔ توپیں گرج سکتی ہیں۔ لیکن جو لوگ موت کے لیے خود ہی تیار ہو چکے ہوں، ان کے سامنے موت آ کر کیا کر لے گی؟

ہم کو ہمارے سوا کوئی زیر نہیں کر سکتا :

لیکن ہاں، جبکہ کرۂ ارضی کی سب سے بڑی مغرور طاقت بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، تو ایک طاقت جو ہمیں پل بھے کے اندر پاش پاش کر دے سکتی ہے۔

وہ کون ہے؟

وہ خود ہم ہیں اور ہماری خوفناک غفلت ہے اگر وہ وقت پر نمودار ہو گئی ہم پر ہمارے سوا کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ ہم ایمان اور استقامت سے مسلح ہو کر اتنے طاقتور ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا ارضی گھمنڈ بھی ہمیں شکست نہیں دے سکتا، لیکن اگر ہمارے اندر اعتقاد اور عمل کی ادنٰی سے کمزوری اور خامی بھی پیدا ہو گئی، تو ہم خود آپ ہی اپنے قاتل ہوں گے اور ہم سے بڑھ کر دنیا میں اچانک مٹ جانے والی کوئی چیز بھی نہیں ملے گی۔

ہم کو گورنمنٹ شکست نہیں دے سکتی۔ پر ہماری غفلت ہمیں پیس ڈالے گی۔ ہم کو فوجیں پامال نہیں کر سکتیں لیکن ہمارے دل کی کمزوری ہمیں رونڈ ڈالے گی۔ ہمارے دشمن اجسام نہیں ہیں۔ عقائد اور اعمال ہیں۔ اگر ہمارے اندر ڈر پیدا ہو گیا، شک و شبہ نے جگہ پا لی، ایمان کی مضبوطی اور حق کا یقین ڈگمگا گیا، ہم قربانی سے جی چارنے لگے، ہم نے اپنی روح فریبِ نفس کے حوالہ کر دی، ہمارے صبر اور برداشت میں فتور آ گیا، ہم انتظار سے تھک گئے، طلب گاری سے اکتا گئے، ہم میں نظم نہ رہا، ہم اپنی تحریک کے تمام دلوں اور قدموں کو ایک راہ پر نہ چلا سکے، ہم سخت سے سخت مشکلوں اور مصیبتوں میں بھی امن اور انتظام قائم نہ رکھ سکے، ہمارے باہمی ایکے اور یگانگت کے رشتہ میں کوئی ایک گرہ بھی بڑی گئی، غرض کہ اگر دل کے یقین اور قدم کے عمل میں ہم پکے اور پورے نہ نکلے، تو پھر ہماری شکست، ہماری نامرادی، ہماری پامالی، ہمارے پس جانے اور ہمارے نابود ہو جانے کے لیے نہ تو گورنمنٹ کی طاقت کی ضرورت ہے، نہ اس کے جبر و تشدد کی۔ ہم خود ہی اپنا گلا کاٹ لیں گے اور پھر صرف ہماری نامرادی کی کہانی دنیا کی عبرت کے لیے باقی رہ جائے گی!

ہماری طاقت بیرونی سامانوں کی نہیں ہے کہ انہیں کھو کر دوبارہ پا لیں گے۔ ہماری ہستی صرف دل اور روح کی سچائیوں اور پاکیوں پر قائم ہے اور وہ ہمیں دنیا کے بازاروں میں نہیں مل سکتیں۔ اگر خزانہ ختم ہو جائے تو بٹور لیا جا سکتا ہے۔ اگر فوجیں کٹ جائیں تو دوبارہ بنا لی جا سکتی ہیں۔ اگر ہتھیار چھن جائیں تو کارخانوں میں ڈھال لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے دل کا ایمان جاتا رہا تو وہ کہاں ملے گا؟ اگر قربانی و حق پرستی کا پاک جذبہ مٹ گیا تو وہ کس سے مانگا جائے گا؟ اگر ہم نے خدا کا عشق اور ملک و ملت کی شیفتگی کھو دی تو وہ کس کارخانہ میں ڈھالی جائے گی؟

گورنمنٹ کی مخالفت یا اعانت؟

گورنمنٹ نے آخری حملہ کے لیے ہتھیار اٹھا لیے لیکن پھر کیا ہوا؟ کیا ہماری شکست، ہماری پامالی، ہماری ناکامیابی کے لیے کوئی بات بھی دکھلا سکی؟ یہ الفاظ بھی ٹھیک نہیں۔ یوں پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ کوئی ایک بات بھی ہماری مخالفت میں کر سکی؟ وہ تو اور زیادہ ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔ عین ہماری آرزوؤں اور خواہشوں کے مطابق ہمیں کامیابی کی طرف کھینچ رہی ہے۔

وہ زیادہ مخالف ہوئی تو اس نے زیادہ گرفتاریاں شروع کر دیں، لیکن گرفتاریوں ہی کے لیے تو ہم نے اپنا پروگرام بنایا تھا؟ وہ زیادہ سختی پر آئی تو اس نے بڑے بڑے لیڈروں پر بھی ہاتھ
 
Top