شمشاد
لائبریرین
صفحہ 96 - 97
(پینل کوڈ) کی طرح اسلامی قانون میں کوئی دفعہ 124۔الف نہیں ہے۔
پہلے دور کے مسلمانوں کی حق گوئی کا یہ حال تھا کہ دارالخلافت کی ایک بڑھیا عورت خلیفہ وقت سے برسرعام کہہ سکتی تھی "اگر تم انصاف نہ کرو گے تو تکلے کی طرح تمہارے بل نکال دیں گے۔" لیکن وہ مقدمہ بغاوت چلانے کی جگہ خدا کا شکر ادا کرتا کہ قوم میں اسی راست باز زبانیں موجود ہیں! عین جمعہ کے مجمع میں جب خلیفہ منبر پر خطبہ کے لیے کھڑا ہوتا اور کہتا " اسمعو و اطیعوا" سنو اور اطاعت کرو۔ تو ایک شخص کھڑا ہو جاتا اور کہتا۔ "نہ تو سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے۔"
کیوں؟
"اس لیے کہ تمہارے جسم پر جو چُغہ ہے وہ تمہارے حصہ کے کپڑے سے زیادہ کا بنا ہوا ہے اور یہ خیانت ہے۔"
اس پر خلیفہ اپنے لڑکے سے گواہی دلاتا۔ وہ اعلان کرتا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا بھی اپنے باپ کو دے دیا تھا۔ اس سے چُغہ تیار ہوا۔
قوم کا یہ طرز اس خلیفہ کے ساتھ تھا، جس کی صولت اور سطوت نے مصر اور ایران کا تخت اُلٹ دیا تھا تاہم اسلامی حکومت میں کوئی دفعہ 124-الف نہ تھی۔
دوسرا دور شخصی جبر و استبداد (Autocracy) کا تھا، جس کی پہلی ضرب آزادی رائے اور آزادی تقریر ہی پر پڑتی ہے۔ لیکن اس دور مین بھی زبانوں کی بے باکی اور دلوں کی بے کوفی اسی طرح سرگرم رہی اور قید خانے کی تاریک کوٹھریاں، تازیانوں کی ضرب اور جلاد کی تیغ بھی اُنہیں روک نہ سکی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (صحابہ کرام) جب تک زندہ رہے، وقت کے جابر بادشاہوں کے ظلم کا اعلان کرتے رہے اور برابر مطالبہ کرتے رہے کہ حکومت قوم کے مشورہ اور انتخاب سے ہونی چاہیے۔ جو لوگ ان کے تربیت یافتہ تھے (تابعین) ان کا اعلان بھی بعینہ یہی رہا کہ "درست ہو جاؤ یا مٹ جاو۔"
امام محمد غزالی رحمۃ اللہ نے (جن کو یورپ کے مورخین فلسفہ بھی al-Ghazali کے نام سے پہچانتے ہیں اور اب میڈیم کاریلی کے ناول Ardath کے دوسرے باب نے انگریزی علم و ادب کو بھی روشناس کر دیا ہے) صرف ان اصحابہ اور تابعین کا ذکر کیا ہے جو خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے زمانے تک موجود تھے اور جنہوں نے حکمرانوں کے مظالم کا اعلان کر کے ہمیشہ منصفانہ اور نیابتی گورنمنٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کی تعداد 23 سے بھی زیادہ ہے۔
ہشام بن عبد الملک نے طاؤس یمانی کو بلایا۔ وہ آئے، مگر اس کا نام لے کر سلام کیا " امیر المومنین" یعنی قوم کا سردار نہ کہا، جو مسلمان خلفأ کا لقب تھا۔
ہشام نے سبب پوچھا تو کہا: "قوم تیری حکومت سے راضی نہیں۔ اس لیے تجھے ان کا امیر کہنا جھوٹ ہے۔"
ہشام نے کہا: نصیحت کیجئے۔ فرمایا: "خدا سے ڈر، کیونکہ تیرے ظلم سے زمین بھر گئی۔"
مالک بن دینار بصرہ کی جامع مسجد میں اعلان کرتے "ان ظالم بادشاہوں کو خدا نے اپنے بندوں کا چرواہا بنایا تھا تا کہ ان کی رکھوالی کریں۔ پر اُنہوں نے بکریوں کا گوشت کھا لیا۔ بالوں کا کپڑا "بُن" کر پہن لیا اور صرف ہڈیاں چھوڑ دیں۔"
سلیمان بن عبد الملک جیسے ہیبت ناک خلیفہ سے ابو حازم کہتے :
"ان ابائک فھروا الناس بالسیف، واخذ الملک عنوۃ من گیر مشورۃ من المسلمین و الا رضا منھم۔"
تیرے باپ دادوں نے تلوار کے زور سے لوگوں کو مقہور کیا اور بلا قوم کی رائے اور انتخاب کے مالک بن بیٹھے۔ سلیمان نے کہا : اب کیا کیا جائے؟ جواب دیا "جن کا حق ہے انہیں لوٹا دے۔" کہا: میرے لیے دُعا کیجئے۔ فرمایا "خدایا! اگر سلیمان حق پر چلے تو اسے مہلت دے۔ لیکن اگر ظلم سے باز نہ آئے تو پھر تُو ہے اور اس کی گردن۔"
(پینل کوڈ) کی طرح اسلامی قانون میں کوئی دفعہ 124۔الف نہیں ہے۔
پہلے دور کے مسلمانوں کی حق گوئی کا یہ حال تھا کہ دارالخلافت کی ایک بڑھیا عورت خلیفہ وقت سے برسرعام کہہ سکتی تھی "اگر تم انصاف نہ کرو گے تو تکلے کی طرح تمہارے بل نکال دیں گے۔" لیکن وہ مقدمہ بغاوت چلانے کی جگہ خدا کا شکر ادا کرتا کہ قوم میں اسی راست باز زبانیں موجود ہیں! عین جمعہ کے مجمع میں جب خلیفہ منبر پر خطبہ کے لیے کھڑا ہوتا اور کہتا " اسمعو و اطیعوا" سنو اور اطاعت کرو۔ تو ایک شخص کھڑا ہو جاتا اور کہتا۔ "نہ تو سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے۔"
کیوں؟
"اس لیے کہ تمہارے جسم پر جو چُغہ ہے وہ تمہارے حصہ کے کپڑے سے زیادہ کا بنا ہوا ہے اور یہ خیانت ہے۔"
اس پر خلیفہ اپنے لڑکے سے گواہی دلاتا۔ وہ اعلان کرتا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا بھی اپنے باپ کو دے دیا تھا۔ اس سے چُغہ تیار ہوا۔
قوم کا یہ طرز اس خلیفہ کے ساتھ تھا، جس کی صولت اور سطوت نے مصر اور ایران کا تخت اُلٹ دیا تھا تاہم اسلامی حکومت میں کوئی دفعہ 124-الف نہ تھی۔
دوسرا دور شخصی جبر و استبداد (Autocracy) کا تھا، جس کی پہلی ضرب آزادی رائے اور آزادی تقریر ہی پر پڑتی ہے۔ لیکن اس دور مین بھی زبانوں کی بے باکی اور دلوں کی بے کوفی اسی طرح سرگرم رہی اور قید خانے کی تاریک کوٹھریاں، تازیانوں کی ضرب اور جلاد کی تیغ بھی اُنہیں روک نہ سکی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (صحابہ کرام) جب تک زندہ رہے، وقت کے جابر بادشاہوں کے ظلم کا اعلان کرتے رہے اور برابر مطالبہ کرتے رہے کہ حکومت قوم کے مشورہ اور انتخاب سے ہونی چاہیے۔ جو لوگ ان کے تربیت یافتہ تھے (تابعین) ان کا اعلان بھی بعینہ یہی رہا کہ "درست ہو جاؤ یا مٹ جاو۔"
امام محمد غزالی رحمۃ اللہ نے (جن کو یورپ کے مورخین فلسفہ بھی al-Ghazali کے نام سے پہچانتے ہیں اور اب میڈیم کاریلی کے ناول Ardath کے دوسرے باب نے انگریزی علم و ادب کو بھی روشناس کر دیا ہے) صرف ان اصحابہ اور تابعین کا ذکر کیا ہے جو خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے زمانے تک موجود تھے اور جنہوں نے حکمرانوں کے مظالم کا اعلان کر کے ہمیشہ منصفانہ اور نیابتی گورنمنٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کی تعداد 23 سے بھی زیادہ ہے۔
ہشام بن عبد الملک نے طاؤس یمانی کو بلایا۔ وہ آئے، مگر اس کا نام لے کر سلام کیا " امیر المومنین" یعنی قوم کا سردار نہ کہا، جو مسلمان خلفأ کا لقب تھا۔
ہشام نے سبب پوچھا تو کہا: "قوم تیری حکومت سے راضی نہیں۔ اس لیے تجھے ان کا امیر کہنا جھوٹ ہے۔"
ہشام نے کہا: نصیحت کیجئے۔ فرمایا: "خدا سے ڈر، کیونکہ تیرے ظلم سے زمین بھر گئی۔"
مالک بن دینار بصرہ کی جامع مسجد میں اعلان کرتے "ان ظالم بادشاہوں کو خدا نے اپنے بندوں کا چرواہا بنایا تھا تا کہ ان کی رکھوالی کریں۔ پر اُنہوں نے بکریوں کا گوشت کھا لیا۔ بالوں کا کپڑا "بُن" کر پہن لیا اور صرف ہڈیاں چھوڑ دیں۔"
سلیمان بن عبد الملک جیسے ہیبت ناک خلیفہ سے ابو حازم کہتے :
"ان ابائک فھروا الناس بالسیف، واخذ الملک عنوۃ من گیر مشورۃ من المسلمین و الا رضا منھم۔"
تیرے باپ دادوں نے تلوار کے زور سے لوگوں کو مقہور کیا اور بلا قوم کی رائے اور انتخاب کے مالک بن بیٹھے۔ سلیمان نے کہا : اب کیا کیا جائے؟ جواب دیا "جن کا حق ہے انہیں لوٹا دے۔" کہا: میرے لیے دُعا کیجئے۔ فرمایا "خدایا! اگر سلیمان حق پر چلے تو اسے مہلت دے۔ لیکن اگر ظلم سے باز نہ آئے تو پھر تُو ہے اور اس کی گردن۔"