قلعہ بلتت کی سیر کا احوال

لاریب مرزا

محفلین
ارد گرد کی صرف ایک تصویر؟
زیک بھائی ہم نے ارد گرد کی کئی تصاویر لی تھیں۔ پتہ نہیں مل نہیں رہیں ہمیں۔ :nailbiting: قلعے کی چھت سے راکا پوشی پہاڑ صاف نظر آتا ہے۔ اس کی تصویر بھی لی تھی۔ دوبارہ کھنگالتے ہیں۔ شاید کچھ مل جائے۔ :cry:

ایک قلعہ جس میں ستر سال پہلے تک حکمران رہائش پذیر تھے اس لحاظ سے عمارت کی حالت کافی بری محسوس ہوئی
جی ہاں!! ہم خود حیران تھے کہ بیسویں صدی میں ایسی جگہ پر رہنا بہت عجیب بات لگتی ہے۔ لیکن شاید سہولیات کے ساتھ رہنا آسان ہوتا ہو۔
 

لاریب مرزا

محفلین
قلعہ بلتت کی روداد تو ختم ہوئی۔ لیکن ابھی کچھ ادھار باقی تھا۔ پانچ دن کے ٹور کا یہ پروگرام کیسے بنا اور ٹور گروپ کے ساتھ ہمارا تجربہ کیسا رہا؟؟ ان باتوں کا تذکرہ ابھی باقی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہماری پرنسپل صاحبہ چونکہ ٹور گروپ کے ساتھ پہلے بھی جا چکی ہیں لہذا انہوں نے ہی اس گروپ کا انتخاب کیا اور پھر ہمیں لنک بھیجا۔ ہم نے بھی کہا کہ مناسب ہے۔ چلتے ہیں۔ اجازت ملنے کا مرحلہ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوا۔ کیونکہ ابو جان منع نہیں کرتے ہیں اور امی جان کو قائل کرنے کے لیے ہماری پرنسپل صاحبہ گھر تشریف لائیں اور فرمایا کہ میری اپنی بیٹی بھی میرے ساتھ جا رہی ہے تو آپ لاریب کو بھی منع مت کیجیے گا۔ امی جان تھوڑی تھوڑی راضی تھیں مزید راضی ہو گئیں۔

پرنسپل صاحبہ نے اپنے بیٹے کو ٹور گروپ کے آفس میں بھیجا کہ دیکھ کے آئیں کیسے لوگ ہیں اور کچھ تفصیلات سے آگاہی ہو۔ ان کے بیٹے خاصے مطمئن لوٹے کہ گروپ مناسب ہے۔ گروپ میں کوئی بیچلر نہیں ہو گا۔ ساری فیملیز ہوں گی۔ ہمارے پانچ دن کے ٹور کی تفصیلات یہاں دیکھی جا سکتی ہیں​
۔
تور گروپ کے ساتھ جانے کا انتخاب اس لیے بہتر تھا کہ اگر بھائی لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ جائیں تو وہ خود سے بھاگ دوڑ کے رہائش یا ہر طرح کا انتظام کر لیتے ہیں۔ لیکن خواتین کا معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے کم از کم ریائش کی طرف سے ہم لوگ بے فکر تھے کہ جا کے انتظام وغیرہ کیسے ہو گا۔

خیر وہ دن آن پہنچا جب ہمیں گھر سے روانہ ہونا تھا۔ پہلی دفعہ اتنے لمبے ٹور پہ جا رہے تھے اس لیے ہم تھوڑے تھوڑے سے پریشان تھے لیکن ہم نے بالکل ظاہر نہیں ہونے دیا۔ (مبادا گھر والے یہ نہ کہہ دیں کہ مت جاو) بس میں سوار ہونے تک غیر یقین سی کیفیت بھی تھی کہ ہم جا رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ کسی بھی لمحے معلوم پڑے گا کہ ہم نہیں جا رہے ہیں۔ گھر واپس جانا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بس میں بیٹھنے کے بعد ہم نے پہلا فیس بک اسٹیٹس دیا۔ :p

جب ٹور پہ جانے کا پروگرام بن رہا تھا تب سب اساتذہ بڑھ چڑھ کے کہہ رہے تھے کہ ہم بھی جائیں گے۔ لیکن آخری دن تک ہم صرف چار لوگ رہ گئے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ اب تو ضرور پروگرام کینسل ہو جائے گا۔ لیکن پرنسپل صاحبہ نے پروگرام کو بالکل بھی کینسل نہیں کیا۔ کہتی ہیں کہ اگلے سال بھی یہی کچھ ہو گا۔ اور اگلا سال دیکھا کس نے ہے؟؟ ہم ضرور جائیں گے۔

اب ذرا بس میں سوار دوسری فیملیز کی تفصیل ہو جائے۔ بس میں سوار ہوئے تو پتہ چلا کہ بس میں ہم سمیت پانچ فیملیز موجود ہیں۔ تین فیملیز میاں بیوی اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں پر مشتمل تھی۔ چوتھی فیملی میں پانچ یونیورسٹی فیلوز کا گروپ شامل تھا۔ جو کہ تین لڑکیوں اور دو لڑکوں پر مشتمل تھا۔ وہ لوگ دوست تھے۔ پانچواں ہم چاروں کولیگس کا گروپ۔
ٹور گروپ کا تجربہ اچھا رہا۔ ٹور گائیڈ (وقار صاحب) اور ڈرائیور (فہد صاحب) کے علاوہ دو اور بھی لوگ تھے جو مسافروں کا سامان بس سے اتارنے اور چڑھانے میں مددگار تھے۔ مسافر فیمیلیز بھی ٹھیک تھیں۔ ایک فیملی کے انکل خاصے لڑاکا تھے۔ اور خواتین کو یونیورسٹی فیلوز کے گروپ سے کچھ اعتراض تھا۔ بقول ایک خاتون کے کہ جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی تو ہم سکردو کے اطراف میں گھومنے پھرنے گئے تھے تو ٹور گروپ والوں نے سب سے پہلے ہمارا نکاح نامہ دکھانے کو کہا تھا۔ ان سے کسی نے نہیں مانگا؟؟ :D

ہوٹلز کی بات کریں تو ہوٹل اور کمرے اچھے تھے۔ صاف سھترے اور اٹیچ باتھ رومز۔ ہم چار کولیگس نے ایک کمرے کا اشتراک کیا تھا۔ ایک ڈبل بیڈ ایک سنگل بیڈ اور ایک میٹرس موجود تھا۔ اسی طرح ہر فیملی کا ایک ایک کمرہ تھا۔ کھانا کچھ جگہ پہ اچھا تھا اور کچھ جگہ کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ ناشتے میں پراٹھے، آملیٹ، چنے اور چائے ہوتی تھی۔ رات کے کھانے میں دو دن چکن، دال، چاول اور سلاد کھایا تھا۔ ایک دن باربی کیو اور بون فائر تھا تو وہی باربی کیو کھایا اور آخری رات کو ناران میں دریا کنارے بیٹھ کے مچھلی کھائی۔ سبزی نہیں کھائی کہیں سوائے دن میں خود سے کبھی جو کھانے کھاتے تو کوئی سبزی آرڈر کرتے۔

آخری بات جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ سیر کے دئیے گئے پلان کے مطابق چند ایک جگہوں کو چھوڑ کر تمام جگہیں وہی تھیں جن کا احوال عبداللہ محمد نے مع شاندار تصاویر کے چند دن پہلے ہی محفل کی زینت بنایا ہے۔ ان کی روداد اور تصاویر کے لیے جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہم نے سوچا کہ محفلین نے ابھی تازہ تازہ ان جگہوں کی سیر کی ہے تو ہم اس جگہ کا احوال بیان کریں جس کا ذکر ابھی نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے ہم نے قلعہ بلتت کی سیر کے احوال کو منتخب کیا۔​
 
مدیر کی آخری تدوین:

عثمان

محفلین
قلعہ بلتت کی روداد تو ختم ہوئی۔ لیکن ابھی کچھ ادھار باقی تھا۔ پانچ دن کے ٹور کا یہ پروگرام کیسے بنا اور ٹور گروپ کے ساتھ ہمارا تجربہ کیسا رہا؟؟ ان باتوں کا تذکرہ ابھی باقی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہماری پرنسپل صاحبہ چونکہ ٹور گروپ کے ساتھ پہلے بھی جا چکی ہیں لہذا انہوں نے ہی اس گروپ کا انتخاب کیا اور پھر ہمیں لنک بھیجا۔ ہم نے بھی کہا کہ مناسب ہے۔ چلتے ہیں۔ اجازت ملنے کا مرحلہ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوا۔ کیونکہ ابو جان منع نہیں کرتے ہیں اور امی جان کو قائل کرنے کے لیے ہماری پرنسپل صاحبہ گھر تشریف لائیں اور فرمایا کہ میری اپنی بیٹی بھی میرے ساتھ جا رہی ہے تو آپ لاریب کو بھی منع مت کیجیے گا۔ امی جان تھوڑی تھوڑی راضی تھیں مزید راضی ہو گئیں۔

پرنسپل صاحبہ نے اپنے بیٹے کو ٹور گروپ کے آفس میں بھیجا کہ دیکھ کے آئیں کیسے لوگ ہیں اور کچھ تفصیلات سے آگاہی ہو۔ ان کے بیٹے خاصے مطمئن لوٹے کہ گروپ مناسب ہے۔ گروپ میں کوئی بیچلر نہیں ہو گا۔ ساری فیملیز ہوں گی۔ ہمارے پانچ دن کے ٹور کی تفصیلات یہاں دیکھی جا سکتی ہیں​
۔
تور گروپ کے ساتھ جانے کا انتخاب اس لیے بہتر تھا کہ اگر بھائی لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ جائیں تو وہ خود سے بھاگ دوڑ کے رہائش یا ہر طرح کا انتظام کر لیتے ہیں۔ لیکن خواتین کا معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے کم از کم ریائش کی طرف سے ہم لوگ بے فکر تھے کہ جا کے انتظام وغیرہ کیسے ہو گا۔

خیر وہ دن آن پہنچا جب ہمیں گھر سے روانہ ہونا تھا۔ پہلی دفعہ اتنے لمبے ٹور پہ جا رہے تھے اس لیے ہم تھوڑے تھوڑے سے پریشان تھے لیکن ہم نے بالکل ظاہر نہیں ہونے دیا۔ (مبادا گھر والے یہ نہ کہہ دیں کہ مت جاو) بس میں سوار ہونے تک غیر یقین سی کیفیت بھی تھی کہ ہم جا رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ کسی بھی لمحے معلوم پڑے گا کہ ہم نہیں جا رہے ہیں۔ گھر واپس جانا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بس میں بیٹھنے کے بعد ہم نے پہلا فیس بک اسٹیٹس دیا۔ :p

جب ٹور پہ جانے کا پروگرام بن رہا تھا تب سب اساتذہ بڑھ چڑھ کے کہہ رہے تھے کہ ہم بھی جائیں گے۔ لیکن آخری دن تک ہم صرف چار لوگ رہ گئے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ اب تو ضرور پروگرام کینسل ہو جائے گا۔ لیکن پرنسپل صاحبہ نے پروگرام کو بالکل بھی کینسل نہیں کیا۔ کہتی ہیں کہ اگلے سال بھی یہی کچھ ہو گا۔ اور اگلا سال دیکھا کس نے ہے؟؟ ہم ضرور جائیں گے۔

اب ذرا بس میں سوار دوسری فیملیز کی تفصیل ہو جائے۔ بس میں سوار ہوئے تو پتہ چلا کہ بس میں ہم سمیت پانچ فیملیز موجود ہیں۔ تین فیملیز میاں بیوی اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں پر مشتمل تھی۔ چوتھی فیملی میں پانچ یونیورسٹی فیلوز کا گروپ شامل تھا۔ جو کہ تین لڑکیوں اور دو لڑکوں پر مشتمل تھا۔ وہ لوگ دوست تھے۔ پانچواں ہم چاروں کولیگس کا گروپ۔
ٹور گروپ کا تجربہ اچھا رہا۔ ٹور گائیڈ (وقار صاحب) اور ڈرائیور (فہد صاحب) کے علاوہ دو اور بھی لوگ تھے جو مسافروں کا سامان بس سے اتارنے اور چڑھانے میں مددگار تھے۔ مسافر فیمیلیز بھی ٹھیک تھیں۔ ایک فیملی کے انکل خاصے لڑاکا تھے۔ اور خواتین کو یونیورسٹی فیلوز کے گروپ سے کچھ اعتراض تھا۔ بقول ایک خاتون کے کہ جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی تو ہم سکردو کے اطراف میں گھومنے پھرنے گئے تھے تو ٹور گروپ والوں نے سب سے پہلے ہمارا نکاح نامہ دکھانے کو کہا تھا۔ ان سے کسی نے نہیں مانگا؟؟ :D

ہوٹلز کی بات کریں تو ہوٹل اور کمرے اچھے تھے۔ صاف سھترے اور اٹیچ باتھ رومز۔ ہم چار کولیگس نے ایک کمرے کا اشتراک کیا تھا۔ ایک ڈبل بیڈ ایک سنگل بیڈ اور ایک میٹرس موجود تھا۔ اسی طرح ہر فیملی کا ایک ایک کمرہ تھا۔ کھانا کچھ جگہ پہ اچھا تھا اور کچھ جگہ کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ ناشتے میں پراٹھے، آملیٹ، چنے اور چائے ہوتی تھی۔ رات کے کھانے میں دو دن چکن، دال، چاول اور سلاد کھایا تھا۔ ایک دن باربی کیو اور بون فائر تھا تو وہی باربی کیو کھایا اور آخری رات کو ناران میں دریا کنارے بیٹھ کے مچھلی کھائی۔ سبزی نہیں کھائی کہیں سوائے دن میں خود سے کبھی جو کھانے کھاتے تو کوئی سبزی آرڈر کرتے۔

آخری بات جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ سیر کے دئیے گئے پلان کے مطابق چند ایک جگہوں کو چھوڑ کر تمام جگہیں وہی تھیں جن کا احوال عبداللہ محمد نے مع شاندار تصاویر کے چند دن پہلے ہی محفل کی زینت بنایا ہے۔ ان کی روداد اور تصاویر کے لیے جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہم نے سوچا کہ محفلین نے ابھی تازہ تازہ ان جگہوں کی سیر کی ہے تو ہم اس جگہ کا احوال بیان کریں جس کا ذکر ابھی نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے ہم نے قلعہ بلتت کی سیر کے احوال کو منتخب کیا۔​
اچھی تفصیل ہے۔ فارمیٹنگ درست کر لیں، نستعلیق میں نہیں ہے۔
کل کتنے گھنٹے لگے منزل پر پہنچنے میں؟
کیا یہ تمام سفر اور مقامات محفوظ ہیں ؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
شکریہ!! :) کیا آپ کے پاس وہ لنک ٹھیک سے کھل رہا ہے جس میں پانچ روزہ ٹور کی دنوں کے لحاظ سے پوری تفصیل دی گئی ہے۔

فارمیٹنگ درست کر لیں، نستعلیق میں نہیں ہے۔
ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مراسلے کی فونٹ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے تو ہم نے اسی وقت رپورٹ کر دیا تھا۔ لیکن ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا۔

کل کتنے گھنٹے لگے منزل پر پہنچنے میں؟
لاہور سے ناران تک پہنچنے میں تقریباً دس گھنٹے لگے تھے۔ وہاں ناشتہ کر کے دن ناران میں ہی گزارنا تھا۔ ناران میں واٹر رافٹنگ کے بعد کچھ جگہوں پر رکتے ہوئے چلاس جا کر قیام کیا۔ اس طرح پورا سفر چونکہ مختلف جگہوں پر قیام کے ساتھ تھا۔ تو کسی ایک منزل کا تعین کرنا مشکل ہے۔ :)
کیا یہ تمام سفر اور مقامات محفوظ ہیں ؟
محفوظ سے کیا مراد ہے آپ کی؟؟ کیمرے میں محفوظ یا خطرے سے محفوظ؟؟ :)
 

عثمان

محفلین
شکریہ!! :) کیا آپ کے پاس وہ لنک ٹھیک سے کھل رہا ہے جس میں پانچ روزہ ٹور کی دنوں کے لحاظ سے پوری تفصیل دی گئی ہے۔
لنک درست کام کر رہا ہے۔
محفوظ سے کیا مراد ہے آپ کی؟؟ کیمرے میں محفوظ یا خطرے سے محفوظ؟؟ :)
دہشت گردی کے خطرات سے محفوظ۔
 

لاریب مرزا

محفلین
دہشت گردی کے خطرات سے محفوظ۔
دہشت گردی کے علاوہ جرائم وغیرہ کا بھی وہاں کوئی خطرہ نہیں۔ ہم نے ہنزہ میں دو دن قیام کیا تھا۔ رات کا کھانا کھا کے ہم چاروں کولیگس یونہی واک کے لیے نکل جاتے۔ پہلی رات واک کے دوران ایک سٹور پہ آئس کریم لینے رکے تو اتفاقاً اس سٹور پہ ہماری ملاقات ایک مقامی محترم جاوید علی خان صاحب سے ہوئی۔ وہ The City school اور بیکن ہاؤس سکول سسٹم میں adventure consultant کے طور پر جاب کر رہے تھے۔ وہ اپنی اہلیہ اور بچی کے ساتھ اس سٹور پہ کچھ لینے آئے تھے۔ ان کی اہلیہ نے ایم بی اے کر رکھا تھا اور وہ بھی جاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے ہی ہم لوگوں کو مخاطب کیا۔

بات چیت کے دوران ہم نے بتایا کہ ہنزہ سیر و تفریح کی غرض سے آئے ہیں۔ انہوں نے ہمارا پانچ دن کا پلان پوچھا اور کہا کہ ان جگہوں کے علاوہ کوشش کریں کہ یہاں کی مقامی جگہوں کو ایکسپلور کریں۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر پولو کا گراؤنڈ ہے۔ وہ دیکھ کے آئیں۔ اور مقامی لوگوں سے بات چیت کریں۔ ان کے مطابق ہر انسان کا ایڈونچر taste مختلف ہوتا ہے۔ کسی جگہ کے مشہور مقامات تو ہر کوئی دیکھ لیتا ہے۔ اصل چیز اس جگہ کی مقامی خوبصورتی دیکھنے میں ہے۔ مزید بتایا کہ ہنزہ کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں جرائم وغیرہ کا کوئی تصور نہیں۔ آپ خواتین بلا خوف و خطر جہاں مرضی واک کریں۔ اور جتنے بجے تک مرضی کریں۔ یہاں کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔ ان سے ملاقات کے بعد ہم نے پولو کا گراؤنڈ دیکھنے کی ٹھانی۔ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے اور گھپ اندھیرا تھا۔ اس دن ہمیں پتہ چلا ہم انسانوں سے زیادہ جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کے تصور سے خوفزدہ ہیں۔ ہم نے تو چشم تصور سے سفید لباس میں ملبوس اور بال بکھرائے ایک چڑیل دیکھ بھی لی تھی۔ :p فون میں ٹارچ تو ہمارے پاس تھی لیکن اندھیرا کچھ زیادہ ہی تھا۔ ہم نے میم سے کہا کہ اس وقت اندھیرے میں ہمیں کیا خاک پولو گراونڈ نظر آئے گا۔ :shock: چلیے واپس چلتے ہیں۔ صبح وقت سے اٹھنا بھی ہے۔ :confused4: ہم لوگ آدھے راستے سے ہی واپس لوٹ آئے۔

اگلے دن خنجراب پاس سے واپس آ کر دوبارہ رات کو واک کے لیے چلے گئے۔ ایک ڈھابے پہ بیٹھ کے چائے پی رہے تھے کہ اتفاقاً جاوید علی خان صاحب سے دوبارہ وہاں ملاقات ہوئی۔ اگلے دن بھی وہ اپنی اہلیہ اور بچی کے ساتھ تھے۔ کوئی گھنٹہ بھر سے زیادہ ان سے بات چیت رہی۔ دونوں میاں بیوی بہت نائس شخصیت کے مالک تھے۔ ان سے مل کر بہت اچھا لگا۔
 

عثمان

محفلین
بیکن ہاوس تو لاہور اور کراچی میں ایک ایلیٹ سکول تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب پاکستان بھر میں اس کی کئی شاخیں کھل چکی ہیں۔
 

عثمان

محفلین
میں جب سفر کرتا ہوں تو شہر میں میرا دلچسپ مشغلہ گلیوں اور بازاروں میں بے مقصد گھومنا ہوتا ہے۔ جی پی ایس آن رکھتا ہوں اور جو سڑک یا گلی دلچسپ لگے اس کا رخ کرتا ہوں۔ گھنٹوں زگ زیگ کرنے کے بعد جی پی ایس کی مدد سے واپس مقام پر۔
 

زیک

مسافر
میں جب سفر کرتا ہوں تو شہر میں میرا دلچسپ مشغلہ گلیوں اور بازاروں میں بے مقصد گھومنا ہوتا ہے۔ جی پی ایس آن رکھتا ہوں اور جو سڑک یا گلی دلچسپ لگے اس کا رخ کرتا ہوں۔ گھنٹوں زگ زیگ کرنے کے بعد جی پی ایس کی مدد سے واپس مقام پر۔
جی پی ایس کا بہترین فائدہ یہی ہے کہ یہ گمنے میں مدد دیتا ہے
 

لاریب مرزا

محفلین
بیکن ہاوس تو لاہور اور کراچی میں ایک ایلیٹ سکول تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب پاکستان بھر میں اس کی کئی شاخیں کھل چکی ہیں۔
جی ہاں!! اب تو کافی سارے بڑے شہروں میں بیکن ہاؤس کی شاخیں کھل گئی ہیں۔ ہماری ٹریننگ کے لیے بھی بیکن ہاؤس ہی سے ٹیم آتی ہے۔
 

اے خان

محفلین
بہت ہی خوبصورت روداد اور تصاویر.
٢٥٠روپے ٹکٹ نامناسب ہے. آپ کی جگہ میں ہوتا تو کبھی اندر نہیں جاتا. :D
 
دلچسپ روداد۔۔۔۔۔فوٹوگرافی اور منظر کشی کا حسین امتزاج حصول مسرت کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہوا۔۔۔بھئی آپا ہم نے تو دل کے آئینے میں جھانک کر مذکورہ تمام مقامات کی سیر کر لی:)
 
Top