قفسِ رنگ

الف عین

لائبریرین
طوفانی رات میں انتظار

اس کے ریشمی کپڑے ہیں یا تیز ہوا کا شور
چھن چھن کرتی پازیبیں ہیں یا پتّوں کا شور
آنکھیں نیند سے بوجھل ہیں پر دل بھی ہے بے چین
اسی طرح سے کٹ جائے گی کاجل جیسی رین
 

الف عین

لائبریرین
تسلّی

ابھی اور کچھ دن اکیلے پھرو
ہواؤں سے دل کی کہانی کہو
سیہ بادلوں سنگ روتے رہو
کبھی چاند کو تک کے آہیں بھرو

بہت جلد وہ شام بھی آئے گی
نئی چھب نگاہوں کو بہلائے گی
مہک گزری باتوں کی مٹ جائے گی
کویہ یاد دل میں نہیں آئے گی
 

الف عین

لائبریرین
گاؤں کا میلہ

میلہ ہے یہ گاؤں کا، سب ڈھول بجانے آؤ
وحشی خوں کی موجوں کا طوفان بنانے آؤ
گھر میں چھُپے ہوئے چوروں کا دل دہلانے آؤ
جسم کی پر اسرار مہک کی آگ جلانے آؤ

اونچے نیلے آسمان پر جھولے چڑھتے دیکھو
جادو کے سانپوں کو چھپ کر آگے بڑھتے دیکھو
بچّوں والی دوربین میں تارے جھڑتے دیکھو
سب رنگوں کو بھاگ بھاگ کر چور پکڑتے دیکھو
 

الف عین

لائبریرین
توٗ اور وہ

ایک تیسرا شخص ہے ایسا جس کی شکل بھی میری ہے
اُس نے میرے دل کی دنیا عجب رنگ سے گھیری ہے
سامنے تو کبھی آتا نہیں پر چھپ کر تکتا رہتا ہے
میرے مکاں کی دیواروں کے پرے بھٹکتا رہتا ہے
جانے کب دیوار پھاند کر چپکے چپکے آئے گا
تیری نئی تصویر اُٹھا کر اُسی طرح چھُپ جائے گا
اُسی سے ڈر کر تجھ سے جھوٹا پیار جتانا پڑتا ہے
جی نہیں کرتا پھر بھی تیرے سامنے آنا پڑتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ایک خواہش

یخ آلود ٹھنڈی ہوا
بادلوں سے بھری شام ہو
اور طوفاں زدہ بحر کی تند موجوں کی مانند
آوازیں دیتے ہوئے پیڑ ہوں
شہر کی سُونی گلیوں میں اۃڑتے ہوئے خشک پتّوں،
پر اسرار دروازے کھلنے کی مدھم صدا،
ریشمی پیرہن سرسرانے کی خوشبوؤں کا شور ہو
اور ہم چپکے بیٹھے
کسی کی جفائیں، کسی کی وفا یاد کرتے ہوئے
اپنے بے چین دل کو سُلاتے رہیں
 

الف عین

لائبریرین
خواہش اور خواب

اجنبی شکلوں سے جیسے کچھ شناسائی بھی تھی
چاند کچھ نکلا ہواتھا، کچھ گھٹا چھائی بھی تھی
ایک عورت پاس آ کر مجھ کو یوں تکنے لگی
جیسے میری آنکھ میں کوئی دیکھنے کی چیز تھی
دفعتاً لِپٹی جو مجھ سے، کیا بتاؤں دوستو
وہ گھڑی بیتی جو مجھ پہ، کیا سناؤں دوستو
زخم جو دل پر لگے اب کیا دکھاؤں دوستو

جسم کی گرمی اور اُس کا درد اب تک یاد ہے
ایک ناآسودہ آہِ سرد اب تک یاد ہے
 

الف عین

لائبریرین
خواہش کے خواب


گھر تھا یا کوئی اور جگہ جہاں میں نے رات گزاری تھی
یاد نہیں یہ ہوا بھی تھا یا وہم کی ہی عیاری تھی
ایک انار کا پیڑ باغ میں اور گھٹا متواری تھی
آس پاس کالے پربت کی چُپ کی دہشت طاری تھی
دروازے پر جانے کس کی مدھم دستک جاری تھی
 
Top