قصے یہ ہجر کے چھوڑیں اب۔۔۔

زھرا علوی

محفلین
اپنے کالج میں فیرویل پر کہی چھوووووووووٹی سی سادہ سی نظم:)

قصے یہ ہجر کے چھوڑیں اب
کچھ باتیں وصل پہ ہو جائیں
کوئی رخصت لینے والا ہے
پل بھر کو اس کے ہو جائیں

لیے ازم سفر کسی منزل کا
اک قافلہ ہے تیار کھڑا
ہےکوچ کا منطر آنکھوں میں
یہ وقت ہے کیسا آن پڑا

سب دور نگر کے باسی ہیں
یہاں رہنے کا سامان نہیں
مظہر اسی ایک حقیقت کا
کوئی لمحہ بھی انجان نہیں

حالات کی گہری دلدل میں
گردن تک جب دھنس جائیں گے
تم ہم کو بھول ہی جاؤ گے
ہم تم کو بھول ہی جائیں گے
گو جب بھی رتوں کی گردش سے
موسم یہی لوٹ کے آئیں گے
"کچھ لمحے" بھول کے زنداں میں
سر پٹخ ُپٹخ چلائیں گے
کیا چین سے تم جی پاؤ گے
کیا چین سے ہم رہ پائیں گے
تم ہمکو بھول نہ پاؤ گے
ہم تمکو بھول نہ پائیں گے۔۔۔
 
Top