قصہ ایک چاند رات کا

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
قصہ ایک چاند رات کا
رمضان کا آخری عشرہ گزر رہا تھا۔ بس کچھ ہی دن باقی تھے۔ میرا گزر ڈھوک حسو چوک سے ہوا ۔ اچانک مجھے تصدیق کی آواز آئی۔ تصدیق میرا ایک دوست ہے۔ اس کی کاسمیٹکس کی دوکان بیچ چوک کے ہیں مطلب اس کی دوکان چوک کے درمیان ہے ہر طرف سے کسٹمر اس دوکان کا رخ کرتے ہیں۔ میں تصدیق کی دوکان کی طرف گیا۔ کافی گپ شپ ہوئی۔ جب میں اٹھ کر آنے لگا تو اس نے مجھے کہا یار خرم چاند رات کو کیا کر رہے ہو۔ میں نے کہا کچھ نہیں بس فارغ ہی ہوتا ہوں۔ میری ایک عادت تھی بلکے میرے باقی دوستوں کی بھی عادت تھی ہم چاند رات کو کیا رمضان کے آخری عشرہ میں چوک کے راستے نہیں گزرتے تھے۔ کیونکہ وہاں عورتوں کا بہت رش ہوتا تھا۔(آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ بچہ شریف بننے کی کوشش کر رہا ہے ہی ہی ہی میں ایسا ہی تھا سچ میں آگے جو باتیں آئیں گی تو سب پتہ چل جائےگا کتنے پانی میں ہوں) اس لیے ہم نے اگر کسی کام جانا ہوتا تو گلیوں سے ہی گزر کر جاتے تھے۔ جب تصدیق کو پتہ چلا میں فارغ ہوں تو اس نے کہا یار ہم نے چوڑیوں کا سٹال لگایا ہوا ہے۔ چاند رات کو بہت رش ہوتی ہے اس بار کزن بھی نہیں ہے ہم تین بھائی ہونگے ۔ لیکن رش اتنا ہو گا کہ ہم تین کنٹرول نہیں کر سکے گے تم بھی آ جاو ہماری مدد ہو جائے گی۔ میں نے کہا یار مجھے تو چوڑیاں پہنانی بھی نہیں آتی اور نا ہی مجھے اس کا تجربہ ہے۔ مجھے تو معاف ہی رکھو۔ پھر اس نے کہا یار میں اور کسی دوست کو بھی کہہ سکتا ہوں۔ لیکن مسئلہ لڑکیوں کا ہے اگر کسی نے کسی بھی لڑکی کو چھیڑ دیا۔ تو اپنی دوکان کا معاملہ ہے۔ ساری ریپوٹیشن خراب ہو جائے گی۔ان دنوں میرے ساتھ ایک مسئلہ بنا ہوا تھا۔ ایک ناکامی ہوئی تھی جس کا بہت دکھ تھا۔ میں نے کہا چلو وقت اچھا گزر جائے گا۔
29 روزے کو صبح 11 بجے میں تصدیق کی دوکان پر چلا گیا۔ روزوں میں تو ویسے بھی رش ہوتا تھا۔ لیکن آج صبح سے ہی بہت رش تھا۔ مجھے تصدیق نے ایک جگہ بتادی کہ تم یہاں کھڑے ہو جاو۔ جو چیز بھی سیل کرو اس کے پیسے اپنے پاس ہی رکھ لو رات کو حساب کر لیں گے۔ میں نےدیکھا دن کے وقت دن کافی رش تھی۔ سب کی کوشش تھی کہ جو کچھ خریدنہ ہے وہ آج ہی خرید لیں کل عید ہو گی تو کیا کریں گے۔ مجھے چوڑیاں پہنانی نہیں آتی تھیں اس لیے میں صرف پیک کر کے دے رہا تھا۔زندگی میں پہلی دفعہ بہت سی عورتوں اور لڑکیوں سے گفتگو کرنے کا تجربہ ہوا۔ کچھ لڑکیاں تو بھائی کہہ کر بلاتی تھی اور کچھ مسٹر کہتی تھی۔ بہت عجیب لگتا تھا۔ اسی دوران تین لڑکیاں آئیں۔ میں اپنا کام کر رہا تھا میں نے ابھی تک کسی لڑکی پر توجہ نہیں دی تھا نا کسی کو غور سے دیکھا تھا۔ اچانک میری نظر اس لڑکی پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں وہ مجھے دیکھ رہی تھی۔ مجھے تصدیق کی بات یاد آ گی کہ اس نے مجھے دوسرے دوستوں پر اس لیے اہمیت دی تھی کہ اس کی دوکان کی ریپوٹیشن کا مسئلہ تھا۔ بس یہی سوچ کر میں نے پھر توجہ اپنے کام کی طرف مرکوز کر دی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد پھر میری نظر اس پر پڑی تو وہ مسلسل مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ اب میں نے بھی کچھ ہمت کی اور ظفری بھائی کی طرح آنکھیں چار کرنے لگا۔ اس نے دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا اور تینوں میری طرف چلی پڑی۔ بس میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ میں نے سوچا اب گیا ، کہ اب گیا ۔ لیکن بچت اس وقت ہوئی جب ان میں سے ایک لڑکی نے بہت پیار سے کہا۔ ایسکوز می! چوڑیاں پہننی ہیں۔ میں نے اپنی نظر اس پر ڈالی تو وہ وہی ساتھ والی لڑکی تھی جس کے کان میں اس لڑکی نے کچھ کہا تھا جو مجھے ٹکٹکی بھاندے دیکھ رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے کہا مجھے چوڑیاں پہنانی نہیں آتی۔ تو اس نے شرارتی انداز میں کہا تو کیا یہاں لڑکیاں دیکھنے کے لیے کھڑے ہو۔ یہ کہہ کر وہ اسی لڑکی کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگی۔ میں تو ڈر رہا تھا۔ لیکن معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ میں نے ہمت کر کے کہا میں چوڑیاں نہیں پہنا رہا صرف پیکنگ کر کے دے رہا ہوں اگر آپ کو لینی ہیں تو لیے لیں۔ اگر پہننی ہیں تو پھر تصدیق کے پاس چلی جائیں۔ لیکن ہم نے تو آپ سے ہی پہننی ہیں۔ میرے خاموش ہوتے ہی وہی لڑکی بولی جو مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں اسے کچھ کہہ نہیں سکا اور خاموش ہو گیا ۔ مجھے خاموش دیکھ کر اس نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا۔ مجھے تو کچھ اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کے ہاتھ میں کس سائز کی چوڑی آئے گی۔چوڑیوں میں مختلف سائز ہوتے ہیں اور ان سائز کے مختلف نام ہوتے ہیں جو مجھے نہیں پتہ تھا۔ میں نے اس کو دیکھا جو مسلسل مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ اور کہا پہلے چوڑی پسند کر لیں اس نے ایک نظر چوڑی پر ڈالی اور فوراََ ایک چوڑیوں کے ڈبے پر ہاتھ رکھ دیا ۔ یہ والی پہنا دیں۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کو چوڑیاں نہیں پہنائیں تھیں یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ اتنے میں تصدیق نے مجھے دیکھا اور میں نے اسے اشارے سے بُلا لیا۔ تصدیق کے آتے ہی میں نے کہا یار ان کو چوڑیاں پہنا دو
تصدیق نے کہا کس نے پہننی ہیں ہاتھ آگے کریں۔ اس لڑکے نے بڑے نخرے کے ساتھ کہا آپ سے نہیں ان سے پہننی ہیں۔ تصدیق نے مجھے دیکھا اور آنکھ مار کر چلا گیا۔ لیکن میں پرشان تھا کہ اب کیا کروں۔ خیر اللہ ، اللہ کر کے محترمہ کا ہاتھ پکڑا اور چوڑی پہننانے کی کوشش کرنے لگا۔ جو چوڑی محترمہ نے پسند کی تھی وہ ان کے ہاتھ سے چھوٹی تھیں اس لیے مجھ سے پہنائی نہیں گی۔ میں نے کہا یہ تو چھوٹی ہیں آپ کوئی اور چوڑی پسند کریں پھر اس نے ایک اور پسند کی سائز میں وہ بھی اتنی ہی تھی اس رنگ میں میں نے اس سے کچھ بڑی چوڑی نکالی اور پہنانے کی کوشش کی بڑی مشکل سے آدھے ہاتھ تک ہی پہنچی تھی کہ بیچاری شہید ہو گی۔ نجانے میں نے کتنی چوڑیاں توڑ دیں۔ تصدیق بھی خاموش رہا اور وہ لڑکی بھی۔ آخر کار وہاں جو سب سے بڑا سائز تھا اس سائز کی چوڑیاں لیں اور میں نے اس کے ہاتھ میں ڈال دیں دونوں ہاتھوں میں دو ، دو درجن چوڑیاں پہننے کے بعد وہ لڑکی بولی یہ تو مجھے کھلی ہیں آپ ایسا کریں یہ چوڑیاں پیک کر دیں۔ اس نے پھر وہی چوڑیاں پسند کی جو سب سے پہلے اس نے پسند کی تھی۔ اور جو چوڑیاں پہنی ہوئی تھی اس کو پھر سے اتارنے کا کہا ۔ بس پھر میں نے غصے میں وہ چوڑیاں اتار دیں اور دوسری پیک کر کے دے دیں۔چوڑیاں پہنانے کا پہلا تجربہ اور وہ بھی ناکام۔ جاتے ہوئے اس نے پھر مجھے دیکھا اور چلی گی۔ اگر یہاں ظفری بھائی ہوتے تو میں یقین سے کہتا ہوں انھوں ایک عشق اور ہو جاتا ہی ہی ۔ لیکن مجھے یہاں ساری رات کھڑا ہونا تھا۔ وقت گزرتا گیا کوئی بہت سی لڑکیاں اور عورتیں آتی رہی۔ کچھ محلے والیاں بھی آئیں جو مجھے دیکھ کر حیران ہوگئی۔اس لڑکی کے واقعہ کے بعد میں نے سب پر نظر رکھنی شروع کر دی۔ شام سے کچھ پہلے میری امی اور چھوڑی پہن بھی چوڑیاں لینے کے لیے آئیں ان کو خبر ہو گی تھی کہ آپ کا بیٹا فلاں دوکان پر چوڑیاں فروخت کر رہا ہے۔ اسی لیے وہ سیدھی میرے پاس ہی آئیں۔ میں نے اپنی بہن اور امی کو چوڑیاں دیں لیکن تصدیق نے پیسے نہیں لیے۔ کچھ ایسے چہرے بھی نظر سے گزرے جو بہت مخترم ہیں میری نظر میں۔ ان میں کچھ میری ٹیچرز بھی تھیں۔ جو مجھ دیکھ کر میرے پاس آئیں حال احوال پوچھا اور چوڑیاں بھی لیں۔ کچھ سے میں نے پیسے نہیں لیے اور کچھ نے پیسے ذبردستی میری جیب میں ڈال دیے۔ کچھ پتہ نہیں چلا کب افطاری ہوئی افطاری کے وقت صرف دس منٹ ملے۔ اس کے بعد پھر سے وہی رش شروع ہو گیا۔ اسی دوران ایک چہرہ نظر سے گزرا جو کبھی محبوبِ نظر ہوا کرتا تھا۔ جس سے کبھی ایک عظیم رشتہ تھا، ایک تعلق تھا ۔ جس کے بارے میں دونوں کا کہنا تھا کہ یہ تعلق کبھی ختم نہیں ہوگا۔ لیکن ختم ہو چکا تھا، کچھ دیر تک دور سے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر وہ چہرا کچھ بھی خریدے بغیر اس رش میں گم ہو گیا اور پھر اس کے بعد آج تک نظر نہیں آیا۔ اور نا ہی میں نے کبھی دیکھنے کی کوشش کی۔ صبح 11 بجے سے لے کر رات آٹھ بجے تک کھڑے ہو کر چوڑیاں فروخت کرنے کا پہلا تجربہ اور اتنا سخت کہ پاؤں جواب دے گے۔ نا بیٹھنے کا وقت ملا اور نا کچھ کھانے کو۔ اور اوپر سے ایک ظلم اور ہو گیا کہ چاند نظر آ گیا۔ اب تو صبح تک اسی طرح کھڑے ہونا تھا۔ رات 1 بجے تک یوں ہی رش رہی ایک بجے کے بعد رش کچھ کم ہوئی تو میں نے آگے پیچھے کی خبر لینا شروع کر دی۔ دور ،دور تک سٹال ہی نظر آ رہے تھے اب رش کافی کم تھی لیکن پھر بھی عام دونوں سے زیادہ تھی۔
سٹال پر موجود تمام لڑکے ایک دوسرے سے گپ شپ لگا رہے تھے۔ کچھ تو لڑکیوں کی باتیں کر رہے تھے، کہ وہ والی لڑکی بہت خوبصورت تھی، یار میری والی ابھی تک نہیں آئی، گھر والوں نے آنے نہیں دیا ہو گا ، تو سنا تیرے والی آئی تھی کیا، ہاں یار ایک گھنٹہ میرے سٹال پر ہی رہی باتیں کرتے رہے۔
اتنے میں چار لڑکیاں مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔ میں نے ایک نظر ان کو دیکھا اور دوسرے سٹال پر کھڑی لڑکیوں کی طرف دیکھنے لگا۔ رات کے ایک بجے کے بعد ابھی تک لڑکیاں خریداری میں مصروف تھیں۔ اور حیران ہونے والی بات یہ تھی کہ صرف لڑکیاں تھی ان کے ساتھ نا ان کی مائیں تھیں اور نا ہی بھائی نا کوئی بڑی عورت بس لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔ میرا دھیان وہاں سے ہٹا تو پھر دوبارہ ان چار لڑکیوں کی طرف چلا گیا جو باتیں کر رہی تھیں اس بار وہ کچھ اور میرے قریب تھیں اور ان کی آواز مجھے صاف سنائی دے رہی تھی۔ میں نے نظریں تو ان سے ہٹا دیں لیکن کان ان کی طرف ہی رکھے۔ ان میں سے ایک لڑکی نے کہا چلو اس دوکان پر چلتے ہیں۔ دوسری لڑکی نےکہا میرے پاس پیسے ختم ہو گے ہیں۔ تو پہلی والی پھر بولی تو کیا ہوا۔ ہم نے کون سا کچھ خریدنہ ہے بس دیکھیں گے اور دوکان دار کو تنگ کرے گے کیاخیال ہے۔ چاروں ایک ساتھ ہنسی اور ساتھ والی دوکان میں چلی گیں۔ لڑکیاں اپنی مستی میں اور لڑکے اپنی مستی میں جتنی لڑکیاں تھی اس سے کہیں زیادہ لڑکے وہاں نظر آئے کچھ موٹرسائیکل پر تھے اور کچھ پیدل چل رہے تھے۔ میں نے جس لڑکی کو ایک بار دیکھا اپنے سٹال پر یا کسی بھی سٹال پر تو دوسری بار وہ مجھے کم ہی نظر آئی ۔ لیکن لڑکے میں نے میرے خیال میں دس ، دس دفعہ دیکھیں ہونگے ، کبھی اس سڑک سے اور کبھی اس سڑک سے آتے ہوئے نظر آتے تھے۔ کبھی کسی کو جگت مار رہے تھے اور کبھی کسی پر ہوٹنگ کر رہے تھے۔ 3 بجے کے قریب رش نا ہونے کے برابر رہ گیا ۔ میں نے تصدیق سے اجازت چاہی۔ لیکن تصدیق نے کھانے کے لیے روک لیا۔ کچھ دیر میں ہی تصدیق کے گھر سے کھانا آیا ، کھانے کے دوران تصدیق نے معذرت کی کہ رش کی وجہ سے ہو کوئی خدمت نہیں کر سکا۔ 4 بجے کے قریب میں گھر کی طرف چل پڑا۔ اور سارے راستے میں یہی ان لڑکیوں اور لڑکوں کے بارے میں سوچتا رہا جو گھروں سے اتنی دیر تک باہر رہے اورگھر والوں میں سے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا۔
یہ میرا پہلا اور آخری تجربہ تھا اس کے بعد میں کبھی کسی سٹال پر کھڑا نہیں ہوا۔ بڑی عید پر تصدیق نے پھر درخواست کی لیکن میں معذرت کر لی۔
خرم شہزاد خرمد
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب، ویسے یہ بات ہے کب کی، بھائی دیکھنا کہیں یہ تحریر جہلم نہ پہنچ جائے کے آپ بھی " چوڑیاں" پہناتے ہو، ہاہاہاہاہاہا
 
Top