قصہ ایک بندر اور چنے کے دانے کا

دلاور خان

لائبریرین
آپ لوگوں نے ویسے تو بڑے قصے سنیں ہوگے۔ شہزادوں کے، پریوں کے، طوطا مینا کے اور نجانے کس کس کے کسی میں کوئی شہزادہ کسی جادوگر سے لڑتا ہے تو کسی میں پرستان پہنچ جاتا ہے۔

یہ قصہ تھوڑا ہٹ کر ہے تو سنئے اور سر دھنیے!!

تو قصہ ہے ایک بندر کا، اس کو ایک چنے کا دانا مل جاتا ہے وہ اسے لے کر ایک درخت پر جا بیٹھتا ہے اور بس اسے کھانے کو ہوتا ہے کہ وہ اس کے ہاتھ سے پھسل کر درخت میں موجود ایک سراخ میں جا پھنستا ہے۔ بندر غریب درخت سے بہت کہتا ہے کہ وہ اسے ان کا دانا واپس کردے لیکن درخت صاحب اسے دانا نہیں دیتے۔

وہ بندر درخت سے اتر کر ایک بڑھئی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ "بڑھئی۔ بڑھئی !لکڑ چیرو گے؟"

بڑھئی: "لکڑ نے میرا کیا لیا جو میں اسے چیروں؟"

بندر: "بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل پڑتا ہے۔

پھر بندر راجا کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ "راجا۔ راجا !بڑھئی ڈانڈو گے؟"

راجا: "بڑھئی نے میرا کیا لیا جو میں اسے ڈانڈوں؟"

بندر: "راجا بڑھئی نہ ڈانڈے، بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھی چل پڑتا ہے۔

پھر وہ رانی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ "رانی۔ رانی !راجا رُسو گی؟"

رانی: "راجا نے میرا کیا لیا جو میں اسے رُسوں؟"

بندر: "رانی راجا نہ رُسے، راجا بڑھئی نہ ڈانڈے، بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھی چل پڑتا ہے۔

پھر وہ سانپ کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔" سانپ ۔ سانپ !رانی ڈسو گے؟"

سانپ: "رانی نے میرا کیا لیا جو میں اسے ڈسوں؟"

بندر: "سانپ رانی نہ ڈسے، رانی راجا نہ رُسے، راجا بڑھئی نہ ڈانڈے، بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھی چل پڑتا ہے۔

پھر وہ لاٹھی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ "لاٹھی۔ لاٹھی !سانپ مارو گی؟"

لاٹھی: "سانپ نے میرا کیا لیا جو میں اسے ماروں؟"

بندر: "لاٹھی سانپ نہ مارے، سانپ رانی نہ ڈسے، رانی راجا نہ رُسے، راجا بڑھئی نہ ڈانڈے، بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھی چل پڑتا ہے۔

پھر وہ آگ کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ "آگ۔ آگ! لاٹھی جلاؤ گی؟"

آگ: "لاٹھی نے میرا کیا لیا جو میں اسے جلاؤں؟"

بندر: "آگ لاٹھی نہ جلائے، لاٹھی سانپ نہ مارے، سانپ رانی نہ ڈسے، رانی راجا نہ رُسے، راجا بڑھئی نہ ڈانڈے، بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھی چل پڑتا ہے۔

پھر وہ پانی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ "پانی ۔ پانی !آگ بجھاؤ گے؟"

پانی: "آگے نے میرا کیا لیا جو میں اسے بجھاؤں؟"

بندر: "پانی آگ نہ بجھائے، آگ لاٹھی نہ جلائے، لاٹھی سانپ نہ مارے، سانپ رانی نہ ڈسے، رانی راجا نہ رُسے، راجا بڑھئی نہ ڈانڈے، بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھی چل پڑتا ہے۔

پھر وہ مشک کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ "مشک۔ مشک! پانی بھرو گی؟"

مشک: "پانی نے میرا کیا لیا جو میں اسے بھروں؟"

بندر: "مشک پانی نہ بھرے، پانی آگ نہ بجھائے، آگ لاٹھی نہ جلائے، لاٹھی سانپ نہ مارے، سانپ رانی نہ ڈسے، رانی راجا نہ رُسے، راجا بڑھئی نہ ڈانڈے، بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھی چل پڑتا ہے۔

پھر وہ چوہوں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ "چوہوں ۔ چوہوں ! مشک کترو گے؟"

چوہے: مشک نے ہمارا کیا لیا جو ہمیں اسے کتریں؟"

بندر: چوہے مشک نہ کتریں، مشک پانی نہ بھرے، پانی آگ نہ بجھائے، آگ لاٹھی نہ جلائے، لاٹھی سانپ نہ مارے، سانپ رانی نہ ڈسے، رانی راجا نہ رُسے، راجا بڑھئی نہ ڈانڈے، بڑھئی لکڑ نہ چیرے ، لکڑ دانا نہ دے میں کیسے جیئوں گا؟" یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھی چل پڑتا ہے۔

پھر وہ جاتا ہے بلیوں کے پاس اور کہتا ہے۔ " بلیوں ۔ بلیوں! چوہے کھاؤ گی؟"

بلیاں: "لبالب"

بس یہ سننتا ہوتا ہے کہ بندر خوشی سے آدھا پاگل ہوجاتا ہے ۔ پورا اس لیے نہیں ہوتا کہ پھر وہ باقی کہانی کیسے مکمل کرتا۔

بھاگا بھاگا چوہوں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے ۔ "چوہوں۔ چوہوں تم تو کھائے جاؤ گے۔

چوہے کہتے ہیں ۔ "پھر ہم بھی مشک کتریں گے"

مشک کے پاس جاکر کہتا ہے۔ مشک۔ مشک تم تو کتری جاؤ گی"

مشک کہتی ہے ۔ " پھر میں بھی پانی بھروں گی"

پانی کے پاس جاکر کہتا ہے ۔ "پانی ۔ پانی تم تو بھرے جاؤ گے"

پانی کہتا ہے۔ "پھر میں بھی آگ بجھاؤں گا"

آگ کے پاس جاکر کہتا ہے۔ "آگ۔ آگ تم تو بجھ جاؤ گی"

آگ کہتی ہے ۔ "پھر میں بھی لاٹھی جلاؤں گی"

لاٹھی کے پاس جاکر کہتا ہے۔ "لاٹھی۔ لاٹھی تم تو جل جاؤ گی"

لاٹھی کہتی ہے ِ ۔ " پھر میں بھی سانپ ماروں گی"

سانپ کے پاس جاکر کہتا ہے۔ "سانپ۔ سانپ تم تو مارے جاؤ گے"

سانپ کہتا ہے ۔ "پھر میں بھی رانی ڈسوں گا"

رانی کے پاس جاکر کہتا ہے۔ "رانی۔ رانی تم تو ڈسی جاؤ گی"

رانی کہتی ہے۔ "پھر میں بھی راجا رُسوں گی"

راجا کے پاس جاکر کہتا ہے۔ "راجا۔ راجا تم تو رُسے جاؤ گے"

راجا کہتا ہے۔ "پھر میں بھی بڑھئی ڈانڈوں گا"

بڑھئی کے پاس جاکر کہتا ہے۔ "بڑھئی۔ بڑھئی تم تو ڈانڈے جاؤ گے"

بڑھئی کہتا ہے۔ "پھر میں بھی لکڑ چیروں گا"

درخت کے پاس جاکر کہتا ہے۔ "درخت۔ درخت تم تو چیرے جاؤ گے"

درخت کہتا ہے۔ "پھر میں بھی دانا دوں گا" اور یہ کہہ کو وہ اس کو چنے کا دانا واپس کردیتا ہے ۔

بندر اس کو کھاتا ہے اور پھر اسی درخت پر لیٹ کر سوجاتا ہے اور پھر یہ کہانی ختم ہوجاتی ہے:)
 
Top