اسکین دستیاب قصہ ء اگر گل

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 97
آیا۔ کہنے لگا کہ آدم زادوں میں یہ رسم ہے کہ جو کوئی سفر سے پھرے یا فتح کر کے آئے ،عزیز اقربا، یگانہ و بیگانہ ، یارو آشنا کچھ تصدق بھیجتے ہیں ۔گل بادشاہ نے کہا " اس جوگی بچہ نے ایسی کون سی لڑائی فتح کی۔" جواہر نے کہا" گستاخی معاف، جی ہی جانتا ہوگا۔" ہنس کر بادشاہ نے کہا " تو تو اس کا احسان مند ہے، ایسے کیوں نہ کہے گا۔" غرض کہ گل بادشاہ نے وزیر کو ما تصدق شاہانہ ادھر روانہ کیا۔ باریاب ہوا، آداب بجا لایا۔ اگر شاہ نے کہا " اس دیو بچہ نے بہت پچھتا کے تصدق بھیجا، بڑی زیر باری ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے تیرا بادشاہ کوڑی کوڑی پر جان دیتا ہے، جی چاہتا ہے اس کو صدقے اتاریے۔" جواہر نے سر اٹھا کر دیکھا کہ گل بادشاہ تخت پر سوار گرد پھر رہاہے، تصدق ہو رہا ہے۔ جواہر نے اشارے سے اگر شاہ کو جتایا۔ ایسی چھیڑ چھاڑ دونوں طرف سے رہی، چوری چھپے ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔ اگر شاہ برخاست کرکے جوگی کے مکان میں آیا، نقب کی راہ سے اپنی تخت گاہ میں رونق افزا ہوا۔ کاروبار مالی و ملکی میں مشغول تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ اگر شاہ جوگی صاحب کے مکان میں سرگرم صحبت تھا، جواہر وزیر حاضر ہوا۔ بادشاہ نے کہا " اے جواہر ! آج کل تو بہت بےعزتی سے رہتا ہے، تیرے بادشاہ کو پان تک میسر نہیں ہے جو تجھے دیتا۔" اس نے کہا " کیا عرض کروں، پان ایک طرف، کئی دن سے میرے بادشاہ نے آب و دانہ ترک کیا ہے، میں کس طرح پان کھاؤں" اگر بادشاہ نے کہا " اگر ہم تیرے آقا کو کھانا کھلائیں تو ہمیں کیا نذر کرے؟" اس نے کہا " غلام جان و مال سے حاضر ہے لیکن اب وہ نہ کھائیں گے۔ قریش و لال دیو نے بہت سمجھایا، نوش نہ فرمایا۔

ریختہ صفحہ 98
شعر
فائدہ اب کیا کرے تریاق وصل
زہر غم ہجر اثر کر گیا
ارشاد فرمایا کہ اس پر کچھ شرط باندھئیے۔ جواہر نے کہا " بہت اچھا، کیا بدتے ہو؟" بادشاہ نے کہا " جو ہم اس کو کھانا کھلائیں تو ساتھ پاپوشیں تیرے لگائیں اور جو شرط ہاریں تو یہ شہباز تجھے دیں۔" اس نے کہا" قبول!" یہ شرک بد کر وہ رخصت ہوا۔ گل بادشاہ کو خبردار کیا۔
جانا اگر شاہ کا گل شاہ کے مکان میں جذب صادق سے اور کھانا کھلانا اس کو
جب گردہء آفتابی گرما گرم تنور مشرق سے نکلا اور رزاق مطلق نے اطعام عام کا حکم دیا، اگر شاہ تشنہ ءدیدار کی سیری کے واسطے بہ صد آب و تاب چلا۔ گل بادشاہ کو اس کے دل نے آگاہ کیا کہ وہ مہمان نمکین با صد شیر یں ادائی اس بیت الاحزان میں مہمان ہوا چاہتا ہے۔ اس مریض محبت نے بے ساختہ سر اٹھا کر دیکھا اور یہ شعر پڑھا
شعر
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سر من فدائے راہت کہ سوار خواہی آمد
جواہر وزیر آمد آمد کی خبر لایا، وہ ناتوان و زار بے اختیار اٹھ بیٹھا، درستی مکان میں مشغول ہوا۔ آپ اہتمام کرتا تھا اور یہ شعر جو اہر کو سنا سنا پڑھتا تھا:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 99
شعر
ہم نشیں جب میرے ایام بھلے آئیں گے
بن بلائے میرے گھر آپ چلے آئیں گے
مشتاق و منتظر تھا کہ وہ یکہ تاز میدان دلربائی، طاؤس گلستان شوخی و رعنائی، شہباز ہاتھ پر، تاج مرصع سر پر، اسپ صبا رفتار پر سوار نمودار ہوا۔ گل بادشاہ بے قرار ہو کر بستر اندوہ سے اٹھا، بے ساختہ منہ سے نکل گیا۔
شعر
منتظر جس کے تھے ہم آج وہ جاناں آیا
اپنے طالع نے مدد کی کہ وہ مہماں آیا
اگر شاہ آہستہ آہستہ ناز و اداکے ساتھ، کبھی ادا سے نہال، کبھی پائمال کرتا ہوا مکائین صدر میں آیا، آفتاب رخ سے اس ظلمت کدہ کو روشن کیا۔ صاحب خانہ استقبال کو گیا، ساتھ لایا ۔ اگر شاہ نے گل بادشاہ کا ہاتھ تھام کر اپنے برابر بٹھایا۔ گل بادشاہ نے بار منت سے سر جھکایا اور فرط خوشی سے از خود رفتہ ہوا۔ اگر شاہ نے کہا " اس سکوت وخموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا آنا بہت ناگوار گزرا۔" گل بادشاہ کئی بارتصدق ہوا اور یہ رباعی پڑھنے لگا:
رباعی
اگر خواہم غم دل با تو گویم جا نمی یابم
اگر جائے شود پیدا ترا تنہا نمی یابم
اگر یابم ترا تنہا و جائے ہم شود پیدا
ز شادی دست و پا گم می کنم خود را نمی یابم
بعد اس کے اس نیم جان نے جان تازہ پا کر عطر عیاری ہاتھ

ریختہ صفحہ 100
پر انڈیل کر اس کے بدن پر ملنے لگا کہ اسی بہانے سے کوئی نیا پھل ہاتھ آئے۔ اگر شاہ نے جس وقت ارادہ ادھر کا کیا تھا، پہلے وہی پھول روباہ کا دیا ہوا کہ جس کے سونگھے سے زن مرد ہو جائے، سونگھ لیا تھا۔ جب کہیں کچھ علامت نہ پائی بہت کھویاگیا۔ سخت نادم ہوا۔ شہزادے نے کہا " اے بد ظن ! زن باطل کو دل سے دور کر۔" اس نے کہا " آپ کے بہروپ سے بندہ خوب واقف ہے۔" مہمان نے کہا " بس زیادہ باتیں نہ بنا، کھانا منگا، دستر خوان بچھا۔" مہمان نے کہا " تنہاخوری کی عادت نہیں ہے " اس نے کہا " میں کھا چکا ہوں، آپ تناول فرمائیں۔" کہا " یہ نہ ہوگا۔" انکار و اصرار بہت رہا۔ اگرچہ گل بادشاہ نے کہا " میں نے قسم کھائی تھی۔" اس کی خاطر شکنی نہ کر سکا ، پیمان شکنی کی، ایک نوالہ کھا کر ہاتھ کھینچ لیا اور یہ شعر پڑھا
شعر
" جھوٹا ہمیں پلاؤ کوئی جام آب کا
دے گا مزہ زباں کو ہماری شراب کا"
اگر بادشاہ نے کہا " گھڑی گھڑی اغماض موقوف کیجئے اور کھائیے۔" کہا " اپنے ہاتھ سے کھلا ئیے۔" اگر بادشاہ نے کہا " اختلاط زیادہ بر آشنائی اچھا نہیں ہوتا ہے۔" آزردگی کے خوف سے دوچار لقمے کھا کے پھر ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے بھی ہاتھ اٹھایا۔ گل بادشاہ نے کہا کہ قسم ہے اس رزاق مطلق کی! میرا دل آپ کی نعمت دیدار سے سیر ہو گیا ہے۔ اگر بادشاہ نے کہا " اس کا ہضم کرنا آسان نہیں۔" غرض کہ میٹھی میٹھی باتوں سے خوب مزے اٹھائے اور سیر ہو کر کھانا کھائے۔ جب دسترخوان بڑھایا، گل بادشاہ نے کہا " میری خلوت کی بھی سیر کیجئے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 101
وہاں بھی قدم رنجہ فرمائیے۔" شہزاد ےنے جواہر کو بلا کر کہا " تو نے کچھ سنا؟"
شعر
مجھ سے کہتا ہے میرے گھر چلیے
دیکھئے اختلاط کی خوبی

اے صاحب! میں نے تو فقط اپنی شرط کے جیتنے کے واسطے ناگوار گوارا کیا ورنہ:
مصرع
ہم کہاں، تم کہاں ، یہ بزم کہاں"
یہ سن کر جو اہر روپوش ہوا، اگر شاہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا۔ گل بادشاہ اس کی مفارقت سے بے قرار ہوا۔ کئی مرتبہ شہزادے نے جواہر کو بلایا، وہ خجلت سے نہ آیا۔ کسی نے کہا " بادشاہ کے سامنے کیوں نہیں جاتا؟" اس نے کہا " مجھے اپنی شرط کے ہارنے کی بڑی ندامت ہے۔ وہ مجھ کو لوگوں میں ذلیل کرنے کو بلاتے ہیں۔" غرض اس بات کی مدت تک دونوں طرف ہنسی رہی۔
اگر شاہ نے ایک مکان گل بادشاہ کے مکان کی نقل بنایا ، گویا نقل مکان کر دکھایا
کہتے ہیں جب اگر شاہ اپنی دولت سرا میں آیا، جوگی صاحب سے کہا" میں چاہتا ہوں جیسا گل بادشاہ کا مکان ہے، ویسا ہی ایک مکان آپ کے واسطے تعمیر کروں بلکہ نقل کو اصل کر دکھاؤں۔" جوگی نے کہا" اے بابا! وہ بادشاہ! میں فقیر، مگر بسم اللہ، تم مختار ہو، بہتر۔" اگر شاہ مکان کی تعمیر میں خود مصروف ہوا۔

ریختہ صفحہ 102
اشعار
بنائی ایسی خوش اسلوب منزل
جو دیکھے ہو شگفتہ غنچہء دل
کیا طرفہ گلستاں اس میں تیار
گل بے خار تھا گویا وہ گلزار
وہی رنگ آمیزی، ویسی ہی گل کاری، طلسم طرح طرح کے بے نظیر بنائے، تصویروں کو جو دیکھے تصویر بن جائے۔ جب وہ باغ تیار ہوا، جوکی صاحب کو واسطے سیر کے اس میں لے گیا۔ جوگی صاحب نے بہت سی تعریف کی، باغ بے نظیر اس کا نام رکھا۔ اگر شاہ نے سامان جشن اس میں ترتیب دیا، ہر ایک کو مہمان کیا۔ چند روز چوگان بازی میں مشغول رہا۔ گل بادشاہ نے یہ خبر سن کر جوگی صاحب کو یہ پیغام بھیجا" ہم نے سنا ہے کہ آپ کے فرزند دل بند نے ایک باغ بےنظیر تعمیر کیا ہے۔ یہ تکلیف و تصدیع ناحق اٹھائی، باغ حاضر تھا، اسی سرزمین میں نصب کر دیتا۔ "اگر شاہ نے کہا " سبحان اللہ! چار پیسے تصدق کے ہزار طرح سے پچھتا کے بھیجے تھے، باغ کو یہاں لاتے، آسمان سر پر اٹھا تے۔" جوگی صاحب مسکرا کر چپ ہو رہے۔ پھر وکیل نے عرض کیا کہ باغ کے تیار ہونے کی بہت سی مبارک باد دی ہے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ شہزادے اکثر اس باغ میں چوگان بازی کرتے ہیں۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ گیند کی طرح افتاں و خیزاں وہاں پہنچوں۔ جوگی صاحب نے کہا " وہ بادشاہ زادہ، یہ جو گی بچہ، شاہ کو گدا سے کیا نسبت؟ کہنا یہ غریب خانہ گھر آپ کا ہے، ضرور تشریف لائیے لیکن اس ارادے سے قصد نہ فرمائیے۔" جب گل بادشاہ اس آرزو سے مایوس ہوا، تخت پر سوار ہو کر چوری چھپے سے وہاں آیا، چوگان بازی کا تماشہ دیکھنے​
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 103
لگا۔ جب وہ چوگان گیند پر پڑتا تھا، گل بادشاہ کے دل پر چوٹ لگتی تھی۔ شہزادہ شاد و خرم اپنے باغ میں بیٹھا تھا، جو امیر باریاب ہوتا، اسے انعام وخلعت دیتا تھا۔ جب تک وہ عاشق صادق ہوا پر ٹہرا، یہ بھی بیٹھا۔ وہ ادھر گیا یہ ادھر اٹھا۔ حمید ہمراہ چلا، گھوڑے کی جانب خراماں جانکلا۔ اس نے دریافت کیا کہ اس وقت اس کی طبیعت کچھ مکدر ہے۔ رفع ملال کے واسطے کہا" اے بادشاہ! کچھ سیرو تماشے کو جی چاہتا ہے تو آئے سوار ہو جائیے۔" اگر شاہ سوار ہوا، گھوڑا اس قدر آسمان پر بلند ہوا کہ عمارت زمین کی مثل حباب کے معلوم ہوتی تھی۔ گھوڑے نے کہا" میرے کف دہن کا سرمہ لگائیے، آسمان کو زمین بنائیے، دور سے نزدیک کی سیر کیجئے۔" اگر شاہ نے سرمہ دیا، گھوڑے نے اشارہ کیا کہ فلانے مکان کی طرف ملاحظہ ہو۔ بادشاہ ادھر متوجہ ہوا، دیکھا تخت پر ایک پری زاد نازنین بیٹھی ہے۔اگر صاحب نے کہا" اس زہرہ جبیں سے کچھ بوئے آشنائی آتی ہے۔
شعر
یہ معنی ہوئے اس کی صورت سے پیدا
یہ نا آشنا ہم سے کچھ آشنا ہے"
گھوڑے نے کہا" یہ پری زادہ گل بادشاہ کی خواہرہے اور پیوند ہونا اس کا محمود وزیر زادے سے مقدر ہے۔"
سیر دریا میں دیکھنا سر وآسا کی سواری کا بحالت عجیب اور دریافت کرنا اس کا بسنت وزیر سے
ایک شب کا ذکر ہے کہ نورمہتاب نے شب تیرہ کو روشن اور مقام ظلمت کو وادی ایمن کیا، خوشہ ءانجم شمع طور، جس سے ظلمت زنگی بھی کافور، آب دریا پر تو مہتاب سے گوہر، زمین صحرا

ریختہ صفحہ 104
نور کی چادر، سر خاب مرغ سفید، خفاش رشک خورشید۔
ابیات
زمیں نور کی، آسماں نور کا
جدھر دیکھیئے ایک سماں نور کا
عجب چاندنی اور عجائب بہار
کیا ماہ نے نور اپنا نثار
مہ چار دہ چاندنی صاف صاف
شب و روز میں کچھ نہ تھا اختلاف
اگر شاہ کا دل اس چاندنی میں لہرایا، شہریار، جواہر، منوچہر سے کہ حاضر تھے، فرمایا کہ آج تمہارے ساتھ بسنت وزیر کیوں نہ آیا؟" کسی نے کہا" کچھ علیل ہے۔" اگر شاہ نے کہا" آج دریا کی طرف چلیے، چاندنی کی سیر دیکھئے۔" سب کے سب بسم اللہ کہہ کر اس ماہ کامل کے ساتھ مثل نجوم کے روانہ ہوئے۔ دریا پر پہنچتے ہی ایسی آندھی تیز اور تند اٹھی کہ شب نور مبدل بہ دیجور ہوئی۔ ایک کو ایک نہ سوجھتا تھا، ہاتھ کو ہاتھ نہ معلوم ہوتا تھا۔ درخت شدت ہوا سے تپاتے پھرتے تھے اور پہاڑ زلزلے سے آپس میں ٹکراتے تھے۔ یہ حال ہولناک دیکھ کر حمید اور گھوڑے نے عرض کی" حضرت سلامت! مراجعت فرمائیے۔ دیکھیے کیا سناٹے کی ہوا ہے جس نے قندیل فلک کو گل کر دیا ہے۔ معلوم نہیں کیا آفت نازل ہو، کیا بلا آئے؟ برائے خدا و رسولؐ سوار ہو جئیے۔" ارشاد ہوا" اگر تمہاری خاطر اس ہوا سے مکدر ہوئی، جاؤ۔ میں تو جیسے چاندنی کی سیر دیکھتا تھا، اب اس آندھی کی سیر دیکھتا ہوں۔"
شعر
کار بستہ سے نہ کر اندیشہ رکھ دل کو قوی
آب حیواں جس کو کہتے ہیں وہ ہے ظلمات
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 105
سب وہاں بیٹھے رہے ۔گل بادشاہ کو بھی اس سیر کی خبر پہنچی، فورا تحت ہوا پر سوار ہوا، موج کی مانند اس دریائے حسن کی ہوا میں آ پہنچا۔ اس ماہ جبین کو اندھیرے میں تنہا پایا، اپنے بیگانے کی نظر سے محفوظ، قرب یار سے محظوظ ہوا۔ یار ائے ضبط نہ رہا، بے ساختہ اگر شاہ کو سینے سے لگایا۔ جھٹ پٹ دو چار بوسے لے کر آنکھیں تلووں سے ملنے لگا۔ بادشاہ صدمہ ءآسیب سمجھا، لاحول پڑھی، سورہء نور دم کیا۔ الغرض جب وہ زور شور ہوا کا برطرف ہونے لگا، گل بادشاہ یہ شعر پڑھتا ہوا
شعر
ہجر کے صدمے بھلائے گرد و باد احساں ہے
سو مزے دل کو مرے دلبر سے بے منت ملے
روا نہ ہوا۔ اگر شاہ نے اس کی آواز پہچان کر اپنے دل میں کہا کہ غضب کیا اس نے، ایسے اندھیرے میں آیا۔ وہ بھوت بھی کم بخت تھا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک کشتی میں چالیس درخت مرصع دھرے، ہر شاخ پر ایک دختر پری پیکر آراستہ پیراستہ بیٹھی ہوئی کڑی کمان کے تیر کی طرح چلی آتی ہے۔ جب وہ کشتی گئی، دوسری کشتی آئی۔ اس پر بھی اتنے ہی درخت اور ویسی ہی حسینان شیریں ا دا تھیں۔ وہ کشتی بھی گزری، تیسری کشتی پر سونے کے درخت، شاخوں پر دختران خورد سال صاحب جمال بازی کناں خندہ زناں دیکھیں۔ بعد اس کے ایک بجرا قابل نظارہ باتجمل شاہی نمودار ہوا، ہما کا مورچھل ہوتا ہوا، مادہ خوک اس پر سوار، ایک مرد دیرینہ، ریش سفید تا بہ سینہ اس کے برابر بیٹھا ہوا نمودار ہوا۔ شہزاد ےنے لاحول پڑھ کر کہا" اس نا پاک کے واسطے یہ سامان شاہانہ؟" چاہا اسے کچھ پھینک کر مارے یا اس پیر مرد کو پکارے، حمید نے کہا" کس واسطے؟"


ریختہ صفحہ 106
شعر
یہ بحر جہاں ہے اک گزر گاہ
جو دیکھا یہاں، وہ پھر نہ دیکھا"
اگر شاہ اپنے مکان میں آیا ،مگر تحقیق حال میں متوحش اور پیچ و تاب کھاتا رہا ۔دوسرے دن بسنت وزیر خدمت میں مشرف ہوا۔ اگر شاہ چاندنی کی سیر عجیب اور وہ ماجراغریب اس سے بیان کیا۔ وہ بے اختیار مانند ابر بہار رونے لگا اور برق کی طرح تڑپنے لگا۔ اگر شاہ نے کہا" اے وفا دار! تو کیوں روتا ہے؟" اس نے کہا:
بیت
" قابل گفتن نہیں راز نہاں
کیا کروں میں اپنی بدبختی عیاں"
بادشاہ نے اصرار کیا اور اپنے سر کی قسم دی۔ بسنت نے عرض کیا کہ ایک مدت سے وہ پری زاد کہ نام اس کا سرو آساہے، مجھ پر عاشق ہے ۔میری ملاقات کی حاضر و غائب شائق ہے وہ مرد کہن سال اس صاحب جمال کا پدر ہے ۔وہ بزرگ وار مجھ سے آزردگی اور افسردگی طبیعت رکھتا ہے ۔کہتا ہے کہ تیری نسبت بسنت سے ہرگز نہ کروں گا۔ اس واسطے پری نے اپنا یہ حال بنایا ہے تاکہ لوگوں کو اس سے نفرت ہو، کوئی طلبگار مناکحت نہ ہو۔" شہزادہ اس بات کو سن کر خاموش ہوا، بسنت کو رخصت کیا۔ جوگی کے مکان سے اٹھ کر اپنی تخت گاہ میں آیا۔ داد خواہوں کو داد دی، ماں باپ کی طبیعت شاد کی۔ شام کو بہ حسب معمول جوگی صاحب کی خدمت میں پہنچ کر صحبت کیمیا خاصیت سے راحت اور سعادت حاصل کی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 107
جانا اگر شاہ کا سرو آسا کے ملک میں اور راضی کرنا اس کو عقد پر پہلی صحبت میں

صبح ہوئی،اگرشاہ گھوڑے کے پاس گیا۔دست شفقت اس کے زانو پر پھیرا،گھوڑے نے کہا " اے بادشاہ! کچھ بسنت کی خبر ہے کہ اس کی تقدیر سے کیا گل پھولا ہے۔؟ جوگی صاحب نے کسی سے سن لیا ہے۔ دروازے پر حکم پہنچا ہے کہ بے ہماری اجازت آمد و رفت سب کی مسدود، اور جو اغوا کر کے شہزادے کو کہیں لے جاوے وہ مغضوب اور مردود ہے۔" اگر شاہ نے کہا " وہ مالک ہیں، مگر ہم خواہ مخواہ سرو آسا کے ملک میں جائیں گے،اس کی تلاش میں خاک اڑائیں گے۔ ہمارا رفیق اس کی مفارقت میں تباہ ہے۔" گھوڑے نے کہا " بسم اللہ ! اپ سوار ہوجئیے، حمید کو ہمراہ لیجئیے، میں آسمان کو طرارا بھروں گا، کسی کو مطلق خبر نہ کروں گا۔" شہزادے نے وہی کیا، گھوڑا اسے سرو آسا کے ملک میں لے اڑا۔
شعر
کبھی زمیں پر اس کا قدم نہیں لگتا
اسی سے اسپ فلک سیر نام ہے اس کا
وہاں پہنچ کے کیا دیکھتا ہے کہ سرو آسا بہ شکل مادہ خوک بیٹھی ہے اور باپ اس کا با شمشیر برہنہ اس کے قتل پر آمادہ ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے بد بخت! یہ برن جلد اتار،نہیں تجھے ہلاک کرتا ہوں۔سرو آسا نے کہا " بسم اللہ!یہی آرزو ہے،یہ موت تو جینے سے بہتر ہے۔" یہ سن کر چایتا ہے کہ غصے سے تلوار لگائے کہ اگر شاہ نے دوڑ کر ہاتھ پکڑ لیا اور کہا " اے بزرگ وار! بس، عجب ہے کہ باپ اپنی بیٹی کو بے گناہ قتل کرے۔" اس نے کہا " یہ

ریختہ صفحہ 108
ننگ خاندان قابل گردن زنی ہے۔" بادشاہ نے کہا " یہ سچ ہے، مگر یہ تیر عشق دل پر کھائے ہوئے ہے، مرگ کو زندگی سے بہتر اور قتل کو حیات سے خوش تر سمجھتی ہے۔
بیت
خم ابروئے یار ہے جس کو تیغ
جھکاوے وہ گردن نہ کیوں بے دریغ
اے بزرگ وار با حمیت! یہ کوچہء عشق علیحدہ ہے،اس میں کسی کا قابو نہیں۔ بلبل کو خیال کرو،پروانے کو دیکھو۔" اور ہزارہا قصہ ہائے عشق سنائے۔
شعر
عشق تا خام است ،باشد بستہء ناموس و ننگ
پختہ مغزاں جنوں را کے حیا زنجیر پاست
" اس کا انجام برا ہے، اس خون ناحق سے عاصی و بدنام بلکہ رسوائے خاص و عام ہوں گے۔" یہ سن کر مرد دیرینہ اس کے قتل سے باز رہا اور پوچھا" تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟" اگر شاہ نے کہا " آنا میرا خشخاش سے ہوا۔ منصور شاہ کہ والی اس مملکت کا ہے، اس کا فرزند ہوں۔ نام میرا اگر ہے، سیر کرتا ہوا ادھر آ نکلا ہوں۔" اس نے کہا" کسی رشک گل سے پیوند ہو نامنظور ہے؟" شہزاد ےنے کہا" کیا مضائقہ، حاضر ہوں۔" اس بات سے نہایت خوش ہوا، پیغام شادی کا اگر شاہ نے قبول کیا، سرو آسا سے کہلابھیجاکہ اے نا مراد! ایک بادشاہ آدم زاد، صاحب حسن و جمال، ماہ پارہ، قابل نظارہ، تیرے عقد مناکحت پر آمادہ ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 109
ابیات
نہیں اس سے بہتر کوئی آدمی
یہ انسان ہے نوعِ بشر میں پری
بہت ہم نے انسان دیکھے مگر
نہ دیکھا اس انداز کا بھی بشر
پری ہے، فرشتہ ہے، یا حورہے
جو کچھ ہے سو ہے دل کو منظور ہے
سرو آسانے بعد عمل بسیار کے یہ جواب دیا کہ اپنی نظر میں بسنت کے سوا کوئی نہیں سماتا۔
شعر
فرشتہ وہ ہے تو کچھ آرزو نہیں مجھ کو
وہ حور ہے تو نہیں اس کی جستجو مجھ کو
میرا یہ جامہ نہ اترے گا۔ ان شاء اللہ تعالی اسی قالب میں جان دوں گی ۔" شہزادے نے اس کی وفاداری پر تحسین وآفرین کرکے کہا "اے بزرگوار! اس کے پیغام سے آزردہ نہ ہو، مجھ کو اختیار دے کہ میں خود اس کو راضی کروں، شیشے میں اتار و ں ۔"اس نے کہا " ازیں چہ بہتر۔" شہزادہ اس کی خلوت گاہ میں گیا ،الگ لے بیٹھا۔ آہستہ سے کہا" اے سرو آسا! میں بھی تیری طرح سے عورت ہوں، ظاہر میں مرد ہوں، بسنت مجھ سے اتحاد دلی رکھتا ہے، اسے بے قرار دیکھ کر تجھ تک پہنچا ہوں، اس کے واسطے تجھے لیے جاتا ہوں۔ یہ برن اتار، کپڑے بدل، میرے ساتھ چل۔ تجھے قسم ہے حضرت سلیمان کی کہ میرا حال کسی پر ظاہر نہ ہو۔" سرو آسا اس مژدے سے نہایت خوش و خرم ہوئی، ماں باپ سے کہا" میں نے ساری عمر آپ کو آزردہ رکھا ،گستاخی کی عذر خواہ ہوں، میرا قصور معاف کرو ۔جس سے چاہو منعقد کرو ،اختیار ہے۔" ماں باپ اس کے جواب باصواب سے شاد ماں ہوئے۔

ریختہ صفحہ 110
اسی دن شہزادے کے ساتھ اسے منعقد کیا، پردے چھٹ گئے، دونوں کو خلوت گاہ میں بھیجا۔
ابیات
یہ صحبت تو البتہ دیکھی ہے کم
کہ بلبل سے ہو کوئی بلبل بہم
صدف کو صدف سے مقابل کیا
مرزا دل کامل مل کے حاصل کیا
پری فاختہ اور قمری اگر
وہی ایک کو کو ادھر اور ادھر
سرو آساںبھی حسن میں کچھ کم نہ تھی گویا تخلیے میں تلے اوپر کی بہنیں معلوم ہوتی تھیں۔ شہزاد ےنے اپنی سرگزشت ابتدا سے انتہا تک سرو آساسے بیان کی۔ اس نے بھی بسنت کی حقیقت، تپ فرقت کی مصیبت،یرقان قبل از سابع کی اذیت، طبیب جان سے بیان کی۔ پھر سر و آسانے اگر شاہ سے کہا کہ میرے باغ میں ایک حوض ہے، اس میں مرد نہائے تو عورت ہو جائے عور ت نہائے تو مرد ہو۔ مزاج میں آئے تو آزمائش کیجئے۔ اگر شاہ نے کہا" حق تعالیٰ نے ہمت مردانگی عطا کی ہے، فضل خدا سے اکثر کام بن پڑے ہیں، کئی مہم میرے ہاتھ سے سر ہوئی ہیں۔ باز اس طرح سے لایا، گل بادشاہ کے وزیروں کی شادیاں کی، محض یہ عنایات و فضل خدا ہے۔" معااس ذکر کے آواز آئی کہ سبحان اللہ! رقیب شاد، عاشق مغموم، وزیر کامیاب، بادشاہ محروم۔ اگر شاہ نے اس آواز پر سرو آسا کو مخاطب نہ ہونے دیا اور اپنے دل میں کمال منفعل ہوا کہ یہ سب باتیں گل بادشاہ نے میری زبانی سنی ہوں گی۔ قصہ کوتاہ سرو آسا کو بڑی دھوم دھام سے اس کے باپ نے رخصت کیا۔ اگر شاہ نے حمید سے کہا کہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 111
تم آگے جاؤ،بسنت کو یہ مژدہ سناؤ۔جب سرو آسا کا آنااس عاشق نے سنا،قمری کی طرح کو کو کہتا ہوا اڑا۔راہ میں پایا۔ اگر شاہ کے تصدق ہوتا تھا اور یہ کہتا تھا:
شعر
تمام عمر کو اپنا مجھے غلام کیا
کبھی کسی سے نہ ہوتا جو تم نے کام کیا
شہزادے نے کہا"اے عزیز تیرا رنج ناگوار ہوا۔حق تعالیٰ نے مجھے تیری مد د کی توفیق دی۔سرو آسا حاضر ہے، خدا تجھ کو مبارک کرے۔" بسنت، سرو آسا کو ساتھ لے کر ادھر روانہ ہوا، یہ جوگی صاحب کی خدمت میں آیا۔ اس نے کہا" اگر صاحب! اب تمہاری حرکات سے میں نہایت آزردہ ہوتا ہوں، مفارقت اور مہاجرت کے صدمے سہتا ہوں۔" شہزادے نے کہا" آپ کا ارشاد بجا لاؤں گا۔" جوگی نے اپنے وزیر کو کہ نام اس کا بوقلمون ،عقل و فراست میں افلاطون تھا، ارشاد فرمایا کہ ایک کارنامہ جس میں یہ مہمات مندرج ہوں لکھ کر قلعے کے دروازے پر لگا دو تاکہ اس کا اشتہار چار سوئے عالم میں ہو۔ بوقلمون حسب ارشاد عمل میں لایا۔
بدھی پہنانا گل بادشاہ کا اگر صاحب کو سودا گر بن کر شہر خشخاش میں
اگر شاہ مہمات سلطنت میں مصروف تھا، گل بادشاہ ایک مرد مسن باریش بن کر ،جامہ پہن کر، پگڑی اور پٹکا بہت بھاری باندھ کر ملک التجار کی صورت در دولت پر حاضر ہوا۔ بعد عرض ہونے کے اجازت باریابی کی حاصل کی ہوئی۔ اس سوداگر نے کہ گوہر اشک اور عقیق جگر اپنا بیچنے آیا تھا، پہلے اپنے مشتری کے یاقوت لب و دہان اور الماس پارہ ہائے دندا ں کو خوب پرکھا،

ریختہ صفحہ 112
پھر صندوقچے سے ایک بدھی بیش قیمت کے ہر گوہر اس کا چمک دمک میں گوہر نایاب تھا ،نکال کر پیش کش لایا۔ بادشاہ نے کہا " قیمت اس کی کہو۔" سوداگر نے کہا " پہلے قبلہ ءعالم اسے آراستگی سے آبرو بخشیں، اگر درست و زیبا ہو تو قیمت اس کی عرض کی جاوے۔" بادشاہ نے بسم اللہ کہہ کر اسے حمائل کیا، پسند فرمایا۔ سوداگر نے عرض کیا کہ ارشاد ہو تو غلام گوہرسخحن کو آہستہ صدف گوش مبارک میں پہنچائے؟ بادشاہ نے گوشہ یابرو سے متصل بلایا۔ سوداگر دعائیں دیتا ہوا قریب اسے قریب پہنچا اور گوش مبارک میں کہا کہ حضرت نے جو احوال نہانی اپنا سرو آسا سے بیان فرمایا، یہ غلام پردے سے لگا ہوا سب باتیں سنتا تھا۔ اگرچہ پہلے سے ثابت تھا کہ آپ کے گوہر ناسفتہ کو سوزن الماس کی حاجت ہے مگر اس روز سے یقین کلی ہوا۔ یہ بدھی رسم کی حاضر ہے، مبارک ہو۔ اس بات کے سنتے ہیں شہزادے کا عارض الماس رنگ کلام عکس سے گل رنگ ہوگیا، سوداگر غائب ہوا۔ اگر شاہ درہم برہم ہو کر اٹھ گیا۔ جوگی صاحب نے بدھی کو اس کے گلے میں دیکھ کر کہا" ہر کسی کی چیز لائی ہوئی پہن لینا مناسب نہیں۔" شہزاد نے وہ بدھی گلے سے دور کی۔
شعر
عبث ہے بھیجنا میری طرف سے ہار اس گل کو
وہ زیور اور پہنے گا مگر اس کو نہ پہنے گا

عاشق ہونا محمود وزیر کا خواہر گل بادشاہ گلنار پری پر اورراضی کرنا لعل شہزادے کا لال دیو کو اس کی مواصلت پر
یہاں سے احوال محمود وزیر زادے کا سنیے؛ ایک دن لعل شہزادہ محمود کو اپنے ساتھ لے کر بالا خانے پر گیا، سیر کرتے کرتے کیا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 113
دیکھتا ہے کہ ایک عورت خوانچہ سر پر رکھے ہوئے باد تند کے مانند چلی آتی ہے۔ ایک جگہ پر ٹھہری، ادھر ادھر دیکھ کر تختہ اس کا اٹھایا، اندر گئی، بعد دو گھڑی خوانچہ خالی لے کر پھری۔
ابیات
ہوا آمدورفت سے یہ عیاں
کوئی سر حکمت ہے پوشیدہ یاں
نہیں آمدورفت وہ بے سبب
وہ ہے کچھ نہ کچھ ماجرائےعجب
وہ کیا دیکھتی تھی ادھر اور ادھر
پھری جلد واں سے وہ کیوں اس قدر​
لعل شہزادےنے کہا:
شعر
چلو دیکھیں یہ ماجراکیا ہے
اس نہانخانے میں دھرا کیا ہے​
محمود نے کہا "جانے بھی دو"۔ شہزاد ےنے نہ مانا۔ وہاں آیا، تختہ اٹھایا، اس میں ایک دروازہ مرصع خوش اسلوب پایا۔ اسے مفتح شوق سے مفتوح کیا۔ دیکھا ایک مکان مختصر، خوش تر و بہتر، صحن اس کا مسطح و برابر۔ اس میں تخت زرنگار پر ایک پر ی خوبصورت، خوش جمال، مہر تمثال، بارھواں یا تیرھواں سال، مسند ناز پر تکیہ دیئے بیٹھی ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت مصحف رخ کی صحت کر رہی ہے۔ دیکھتے ہی محمود وزیرزادے کا دل پارہ پارہ ہوا، یہ شعر ناسخ کا پڑھ کر منہ کے بل گرا:
شعر
جھکی رہتی ہیں پلکیں بہر سجدہ طاق ابرو میں
لکھا ہے آیہ ءسجدہ مقرر صفحہ ء رو میں​


ریختہ صفحہ 114
پری زاد نے اپنی رسوائی کے واسطے محمود کو مصحف رخسار کی ہوا دے، سورہ ءاخلاص کو پانی پر پڑھ کے دم کیا۔ اسے پلایا، ہوش میں آیا۔ آنکھ کھول کر دیکھا کہ گود میں لعل شہزادے کے میرا سر ہے، پری کچھ کچھ دعائیں پڑھ رہی ہے۔ اس خوشی سے ازخودرفتہ ہوا۔ پری نے شہزادے سے کہا" للہ، اس کو میرے مکان سے اٹھا لے جاؤ۔ میں کس و ناکس میں بد نام بلکہ رسو ائےعام ہوں گی۔
ابیات
مجھے عشق کے نام سے ننگ ہے
کہ ناموس شیشہ ہے، یہ سنگ ہے
نہ میں بوالہوس ہوں نہ میں عشق باز
نہیں جانتی میں نشیب و فراز
اس آلودگی سے کرو مجھ کو پاک
نہیں کرتی ہوں آپ کو میں ہلاک"​
شہزاد نے کئی بار اس کو پکارا، بارے ہوش میں آیا، یہ اشعار زبان پر لایا:
ابیات
اس خاک سے مجھے تو اٹھایا نہ چاہیے
کہتا ہے دل یہاں سے تو جایا نہ چاہیے
اس کے خیال میں مری آنکھیں ہوئی ہیں بند
یہ خواب خوش ہے مجھ کو جگایا نہ چاہیے
دیتا ہے اپنے مصحف عارض کی وہ ہوا
منہ اپنا اس طرف سے پھرایا نہ چاہیے​
شہزاد نے چاروناچار دوش پر اسے اٹھایا، اپنے مکان میں لایا۔ لال دیو نے سنا، شہزادے کا وزیر بیمار ہے، وہ اس کے لئے
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 115
بے قرار ہے ۔عیادت کے لیے آیا ،حال اس کا دگرگوں پایا ۔قیاس و تمیز سے دریافت کیا کہ یہ کسی پری کے شعلہء رخ اور نظارہ ء زلف سے سوزاں و پریشان ہے، مگر یہ نہ جانا کہ ہماری شمع کا پروانہ ،یعنی گلنار کے عشق کا دیوانہ ہے۔ ہزار ہزار عمل لاکھ لاکھ افسوں پڑھ،ے اس کی طبیعت کی وحشت نہ گئی۔
شعر
کب درد کی میں اپنے تدبیر نہیں کرتا
نسخہ تو کوئی اس کو تاثیر نہیں کرتا​
جب وہ از خو ر میدہ دام تدیبر سے رام نہ ہوا، شہزادے نے لال دیو سے کہا "میری زندگانی کا باعث یہ یار جانی ہے، اگر اس کے دشمنوں کو کچھ ہوا، میں بھی اپنے تئیں بلاک کروں گا۔" دیو نے کہا "میری تدبیر اس پر کارگر نہیں ہوتی ۔جو تم کہو سو کروں۔" شہزاد ےنے کہا "آپ اس کو اپنی غلامی میں قبول کیجیے ۔گلنار کے عشق نے جلایا ہے ،اس کی زلف کے پیچ میں آیا ہے۔" دیو نے افعی کی طرح پیچ و تاب کھایا مگر حرف انکار زبان پر نہ لایا ۔شہزادہ سمجھا کہ یہ رضامند ہے۔ قریش کی خدمت میں لے گیا ،کوئی دقیقہ منت و الحاح و خوشامد و چاپلوسی کا فروگذاشت نہ کیا۔ قریش نے نہایت غصہ و طیش کھایا، برہم و درہم ہوئی، گھر کا، جھڑکا اور کہا "سبحان اللہ ! یہ ہوا ہے نہ ہوگا، زمین و آسمان ایک کروں گی۔ وزیر کو کہ بمنزلہ خادم کے ہوتا ہے، کل کی بہن نہ دوں گی۔ اس کی پاپوش پر سے ہزار محمود صدقے اتارے تھے ،پھر اس طرح کا کلام سنو ں گی تو بری طرح پیش آؤں گی۔" شہزادہ اس جواب صاف سے رونے لگا ۔گل بادشاہ نے کہا "اے اماں جان !مجھے شہزاد ےکارنج نہایت ناگوار، اس کا ملال خاطر پر بار ہے۔ محمود اور یہ ایک جان دو قالب ہیں،

ریختہ صفحہ 116
یہ مطلوب وہ طالب۔ جس طرح محمود سے محبت اسے ہے، اس سے مجھے ہے۔ اگر اس کو صدمہ پہنچا، میں بھی نہ جیوں گا۔ سوا اس کے نجوم سے بھی دریافت ہوتا ہے کہ اس مشتری کا اس ماہ سے ہم قرین ہونا ہے۔" قریش نے تامل کے بعد لعل شہزادےسے کہا کہ خیر تمہاری خاطر سے ناگوار کو گوارا کرتی ہوں، گل بادشاہ کی نازک طبعی سے ڈرتی ہوں۔ شہزادہ گل کا ہاتھ پکڑے ہوئے باہر آیا۔ گل بادشاہ نے کہا" تیرا کہنا ہمیں سب طرح منظور ہے مگر صد حیف! تجھے میرے حال کی مطلق خبر نہیں، میرے رنج و ملال کا ذرا اثر نہیں ہے۔ سچ ہے دگر دگر، جگر جگر۔ محمود کی بے قراری دو دن نہ دیکھ سکے، ہماری کبھی بات نہ پوچھی۔" شہزاد ےنے کہا" اگرچہ میں بھی یہ جانتا تھا:
ابیات
کسی کے عشق میں سرشار ہے تو
کسی کی چشم کا بیمار ہے تو
تجھے سودا ہے اک زلف سیہ کا
تو ہے کشتہ کسی تیغ نگہ کا​
مگر پاس ادب سے پوچھ نہ سکتا تھا۔اپنا ملال مجھ سے بیان کیجئے، جان تک سےدریغ نہیں ہے۔" گل بادشاہ بے اختیار رونے لگا اور یہ کہا کہ محمود کی بہن نے اپنی زلف سے مجھے مار رکھا ہے۔ اس اگر کے واسطے ععد و اگر کی طرح جلتا ہوں، شمع صفت افروختہ رہتا ہوں۔ شہزادہ ہنسا اور کہا " عوض معاوض گلہ ندارد، خاطر جمع رکھیے، انشاء اللہ تعالی وہ آپ کے ہاتھ آئے گی۔" القصہ شہزادے نے ہر ایک کو رضامند کیا، محمود کوپیا م وصل سے خرسند کیا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 117
بیت
پیام وصل جب اس کو سنایا
تب اس خود رفتہ کو کچھ ہوش آیا​
الغرض تدبیر شادی کی شروع ہوئی۔
بیت
وہ ساما ن عروسی گر رقم ہو
تو میرے ہاتھ میں بے خود قلم ہو​
ساعت سعید میں محمود وزیر کو دولہا بنایا اور گلنار کو دلہن بنا کے محمود کے ساتھ منعقد کیا۔ اس محمود عاقبت نے چشمہء و صال اس کے سے آتشِ اشتیاق کو سرد کیا۔ جب وہ مجلس شادی برخاستہ ہوئی، بعد فراغت جواہر اور منوچہر گل بادشاہ کے وزیر اگر صاحب کی مجلس میں مشرف ہوئے۔ ارشاد ہوا" کئی روز سے کہاں تھے؟" انہوں نے کہا" ہماری سرکار میں تقریب عروسی تھی۔ محمود وزیر زادے کا گلنار پری سے کہ بیٹی لال دیو کی اور گل بادشاہ کی بہن ہے، نکاح ہوا۔ بعد فراغت کے ہم باریاب ہوئے ہیں۔" اگر شاہ نے اس داستان کو کان بھر کر سنا اور وزیروں کو خوشخبری کے عوض انعام و اکرام ان کے لائق عطا کیا۔

ملاقات ہونی لعل شہزادے اور محمود وزیر کی منصورشاہ اور خوشحال وزیر سے اور نسبت ہونی گل بادشاہ کی اگر صاحب کے ساتھ ان کی تدبیر سے
نقاشِ نگارستانِ محبت نے اس داستان مواصلت کو اوپر صفحہ ء بیان ملاقات لعل شہزادے کے منصورشاہ سے اور محمود کے خوشحال سے اس طرح کھینچا ہے؛ جب کہ کمال اشتیاق اور درد فراق سے

ریختہ صفحہ 118
اگر شاہ کے، حال گل بادشاہ کا نہایت تباہ ہوا۔
شعر
شرر شعلہ پرخطر ہوگیا
بھڑک کر چراغ سحر ہو گیا​
لعل شہزادے نے کہا کہ میری عقل میں کوئی تدبیر اس سے بہتر نہیں کہ مجھے اور محمود کو اپنے ساتھ لے کر حضرت قبلہ گاہی کی ملاقات کو چلیے۔ وہ ہمارے دیدار سے جان تازہ پائیں گے، جو کچھ آپ کہیں گے، بہ سروچشم بجا لائیں گے۔ اور میں آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ تا با زندگی طوقِ بندگی گردن سے جدا نہ کروں گا اور حضرت سلامت کو رنجِ مہاجرت میں مبتلا نہ کروں گا۔ چاروناچار لال دیو نے تیاری ادھر کے چلنے کی۔ جلوس بے شمار بہم پہنچایا، ماہ پرور کو نا لکی پر تکلف میں، گلنار کو محافے میں بٹھایا۔ محمود کا شہزادے نے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بڑے کروفر سے شہر خشخاش کی طرف بہ تعجیل تمام پہنچایا۔ تمام شہر دیو پری کی کثرت سے معمور ہو گیا۔ منصورشاہ بہت گھبرایا اور وزیر خوشحال کو یاد فرمایا۔ جب وہ حاضر ہوا، ارشاد کیاکہ " اے خوشحال! تعجب ہے کہ یہ غنیم بے خوف وبیم ہمارے ملک میں داخل ہوا، تم نے ہمیں آج تک اطلاع نہ کی، اس کا کیا سبب؟ ایسی غفلت کی!" وزیر نے کہا" حضرت کا فرمانابجا ہے، لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لشکر شاہ راہ ممالک محروسہ سے نہیں آیا؛ کس واسطے کہ افواج شاہی جابجا نظم و نسق پر متعین ہے، خوامخواہ معرکہ آرائی ہوتی، مقابلہ ہوتا، کوسوں کا کھیت پڑتا۔ یہ لشکر قوم جنات سے معلوم ہوتا ہے کہ آفت آسمانی کی کس کو خبر ہو، یہ راز کیوں کر کھلے۔ بادشاہ وزیر میں یہ گفتگو تھی کہ دفعتاً ایک تحت ہوا سے زمین پر اترا۔ لعل شہزادہ محمود
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 119
وزیر زادہ دونوں اس پر دکھائی دیے۔ جلد جلد اتر کر بادشاہ کے قدموں پر گر ے۔ بادشاہ حیرت میں آگیا، کہنے لگا" یہ غفلت ہے کہ ہوشیاری، خواب ہے کہ بیداری۔"
ابیات
کہا یہ مقدر، کہاں یہ نصیب
وقوعات ہیں یہ عجیب و غریب
کس سے بخت خفتہ سے تھی یہ امید
کہ پھر ہوگی روشن یہ چشم سفید
مقدر میرا ایسا یاور ہوا
ہم آغوش مجھ سے یہ دل بر ہوا
بغل میں لیا اور رویا بہت
کہا بخت سے چونک، سویا بہت
کبھی اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملیں
وہ آنکھیں جو اندھی تھیں روشن ہوئیں
کبھی ہائے بیٹا کبھی ہائے لال
شکایت بہت کی علی الاتصال​
بیٹے کو گلے لگایا، سینہ ء داغدار دکھایا۔ ادھر ادھر رونے کا ایک تار، یہ مضطر و بے قرار۔ مادر یہ خبر سنتے ہی خود رفتہ ہوئی، ایسی دوڑی کہ گر پڑی۔ لعل کو دامن میں لیا، دل کو ٹھنڈا کیا۔ سیل اشک سے پاؤں کی گرد چھڑائی، کلیجے کی آگ بجھائی۔ دل سب کے شاد، دونوں گھر آباد ہوئے۔ جو جو کہ مرادیں اور منتیں مانی تھیں، وہ کیں۔ وزیر خوشحال نے عجب ایک حسرت سے محمود کو گلے لگایا، آنکھوں سے دریا بہایا۔ ہر ایک نے بیٹوں کے آنے سے جان تازہ پائی، جو آرزو تھی وہ بر آئی۔ دونوں طرف مبارک سلامت کی دھوم دھام ہوئی،لعل

ریختہ صفحہ 120
شہزادے کے ماں باپ ماہ پرور پر ہالہ، محمود کے والدین گلنار پر پروانہ۔ محلوں میں رت جگے ہوئے، پیر دیدار کے کونڈے، بی بی کی صحنک، بی آسا کا کاسا، ترت پھرت کی پوڑیاں، جناب مشکل کشا کے دو نے دیے، ہر جگہ سامان جشن مہیا ہوئے۔ وقت شب شہزادے نے منصور شاہ سے قصہ اپنے شکار کا اور سلوک لال دیو کا، افسانہ ماہ پرور اور گلنار کا، بیان کیا۔ لال دیو کو بلوایا، ماں باپ سے ملاقات کروائی۔ اس کی مروت اور محبت کی اپنے پدر بزرگوار سے تعریف کی کہ میں نے اس پدر مہربان کی بدولت کوئی تکلیف نہیں اٹھائی۔ بادشاہ نے کہا" تم نے ان کی بدولت آرام پایا، انہوں نے آپ کی نعمت دیدار سے حظ اٹھایا۔ ہم نے رو رو کے آنکھوں کو کھویا۔ خیر جو مقدر میں تھا ،وہ ہوا۔ ہزار شکر کہ خدا نے پھر آج ہمیں زندہ کیا۔" القصہ دیو تو وہاں سے اٹھ کر اپنی فرودگاہ میں آیا، شہزاد نے عاشق ہونا گل بادشاہ کا اگر صاحب کے اوپر ظاہر کیا۔ برسبیل مذکور یہ بھی کہا کہ حضرت کو میرا حاضر رہنا منظور ہے تو وزیر کی بیٹی کو اس سے منسوب کیجیے۔ واللہ یہ غلام خدمت سے معذور، پاس رہنے سے مجبور ہے۔ کوئی صورت قدم بوسی کی اس کے سوا نہیں نکلتی۔ بادشاہ نے کہا" اس کی جواں مر دی شہرہء آفاق ہے، منظور نہیں کہ اس کے خلاف مرضی وقوع میں آوے۔" شہزادے نے کہا" قبلہء عالم کا دل نسبت پر مائل نہیں۔" وہاں سے اٹھ کر وزیر کے مکان میں آیا۔ محمود وزیر کی سرگزشت، بادشاہ کی حقیقت کو مفصل بیان فرمایا، مطلب پرسخن کو لایا۔ وزیر نے کہا" اے شہزادے! اس کے باعث سے اس کی مشکل آسان ہوئی۔ انصاف چاہتا ہے۔ جس طرح یہ مطلب وہ مراد کو پہنچا، گل بادشاہ بھی کامیاب ہوں، لیکن اس نسبت میں عذر چند در چند ہیں: اول تو یہ کہ وہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ121
ہمارے دست قدرت میں نہیں۔ اکثر ملک تمہارے بعد اس نے فتح کئے ہیں، اب وہ کسی سے محکوم ہونے سے ننگ وعار رکھتی ہے۔ دوسرے یہ کہ جو گی اس سے بہت مالوف اور اس کی دلجوئی پر مصروف ہو بلکہ سر انجام ہونا اس بات کا اس کی رائے پر موقوف ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ جوگی مرتاض ہے، سب دیو پری میں ممتاز ہے۔ ایسا نہیں کہ لال دیو اس کا کچھ کر سکے۔ چوتھے یہ کہ شرعا بھی وہ عاقلہ بالغہ خود ممیز و مختار ہے لیکن تمہارے کہنے سے کچھ رسوم نسبت کی درمیان میں آئے گی۔ ہر گاہ اسے راضی پاؤں گا، عقد کر دوں گا۔" شہزادے نے کہا" یہی مناسب ہے۔" وزیر نے لال دیو اور گل بادشاہ کو اپنے روبرو طلب کیا۔ پان کا بیڑہا کھلایا، امام ضامن کا روپیہ بازو پر باندھا۔ یہ التماس کیا" ہماری آرزو یہ ہے کہ محمود کا بیاہ دوبارہ کریں۔ آپ گلنار کو اپنے ساتھ لے جاویں، فلانی تاریخ ہم اسے دولہا بنا کر لائیں گے۔" لال دیو گلنار کو ساتھ لے کر رخصت ہوا۔
دوبارہ شادی ہونا گلنار اور محمود کی، شریک ہونا منصورشاہ اور خوشحال اور جو گی اور اگر صاحب کا برات میں
جب لال دیو اور گل بادشاہ اپنے ملک میں آئے، محفل شادی ترتیب دی، تیاری قرارواقعی کی۔ جابجا رقعے بھجوائے، مہمان بڑے کروفر سے آئے۔ جوگی صاحب کو ایک نامہ اس مضمون کا لکھا:
" برادر صاحب مشفق بندہ! آپ کے بھتیجے کی شادی قرار پائی ہے، آپ بھی مع صاحب زادہ ء عالی وقار اور ازواج عصمت شعار رونق افروز بزم عروسی ہوں۔" جوگی صاحب نے اولا انکار کیا۔

ریختہ صفحہ 122
اگر شاہ نے کہا" اس مجلس سے کنارہ کش رہنا صلاح وقت نہیں۔ محمود میرا برادر حقیقی ہے، خلق کیا کہے گی۔" جوگی نے کہا" بسم اللہ! جو کچھ مناسب ہو کہلا بھیجو۔" شہزادے نے جواب میں کہا" انشاء اللہ تعالی بروز معہود بسروچشم حاضر ہوں گے۔" بعد اس کے اگر شاہ نے بسبب قرب مکان کے شادی محمود کی جوگی صاحب کے ملک میں قرار دی۔ وزیر بوقلموں کو حکم دیا کہ یہاں سے دلہن کے مکان تک فرش بوقلموں خیمہ ہائے گونا گوں استادہ ہوں۔ ان میں چوکی پہرہ رہے اور سب سامان ہے عیش و عشرت کا مہیا اور آمادہ ہو۔
کہیں بادل ہو مشجر ، کہیں
فلک کے مقابل ہو روئے زمین
روشنی کے ٹھاٹھر گڑ جائیں، جھاڑ جھنکاڑ اکھڑ جائیں۔ شبہائے تیرہ مثل روز روشن، دشت گلشن، بیابان وادی ایمن ہو جائئے۔ ارباب نشاط بے حساب، فوج مسلہ ہمراہ رکاب؛ غریب، غربا، ننگے، بھوکے، فیض شاہ سے کامیاب ہوں۔ خبردار خبردار! کوئی دقیقہ اس میں فروگذاشت نہ کرنا۔ جو چیز دمڑی کی ہو، اسے پیسہ دے کے لینا۔ کسی کو آزردہ خاطر نہ کرنا۔ پھر شہزادے نے بڑی دھوم دھام، نہایت اژدہام سے روانہ کیا۔ شہر خشخاش کے بھی سب مہمان جمع ہوئے، سامان عیش و نشاط کا مہیا۔ سب رسوم بڑے سامان سے عمل میں لائے۔ دن بارات کا آیا، بساعت سعید محمود کو نوشہ بنایا۔ منصور شاہ نے اپنی گود میں بٹھایا، مع چاروں وزیروں کے خوش حال تھا۔ اگر شاہ جوگی صاحب کے ساتھ ہاتھی پر سوار، چاروں محل ہمراہ، جوگی صاحب کے جواہرات
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 123
لٹاتے ہوئے برات لے چلے۔ آمد آمد سن کے پیشوائی کے واسطے لال دیو مع لعل شہزادہ بڑے کروفر سے رسم و عادت شہر کے پری زادوں کے ساتھ آیا۔
شعر
یہ کثرت ہوئی جن و انسان کی
ہوئی تنگ وسعت بیابان کی
گل بادشاہ اگر صاحب کی مواصلت سے شاداں۔ لال دیو، منصور شاہ، جوگی صاحب کی مشارکت سے خنداں۔ القصہ بارات روانہ ہوئی، روشنی نے شب تیرہ کو دن کیا، آتش بازی کے شور نے شور محشر خاطر سے بھلایا۔ ارباب نشاط کے تحت رواں بے شمار، مطرب و قوال ہزاراں ہزار؛ اور جلوس و سامان کہاں تک بیان ہو۔ برات دلہن کے دروازے پر آئی، ہر ایک نے اس کش مکش سے راہ پائی۔ دولہا کو ہاتھی پر سے اتار کر تخت شاہی پر سوار کیا۔ مشت مشت زر، عقد عقد جواہر، سلک سلک گوہر دولہا پر نثار کیا۔ صغیر و کبیر، بادشاہ وزیر اس کے جلوس میں چلے آئے۔ مسند دامادی پر بٹھایا، شربت پلایا، ہار دیئے، سمدھی سمدھی ملے۔ آپس میں مصافحہ اور معانقہ کا ہوا۔ گل بادشاہ نے کہا" عمومی صاحب! میں بھی امیدوار ہوں۔" جوگی نے کہا" آؤ بابا!" اگر شاہ سمجھا کہ اس فیلسوف نے یہ حیلہ مجھ سے ہم بغل ہونے کے واسطے اٹھایا۔ اگر شاہ وہاں سے ٹل گیا۔ گل بادشاہ جلدی جلدی جوگی صاحب سے مل کے اگر شاہ کے پیچھے بے تابانہ دوڑا۔ اگر شاہ جھک کے سر کو سینے کے پاس لے جا کے جلدی سے ہٹ گیا۔ گل بادشاہ کہنے لگا" کبھی تو سینہ صاف ملیے۔" شہزاد نے ہنس دیا۔ گل بادشاہ نے بڑی جرأت کرکے ہاتھ میں ہاتھ لے کے آگے بڑھایا، خوب چمٹایا، آئینے کو آئینے سے ملایا۔ کان میں جھک کر کہا

ریختہ صفحہ 124
" خدا یہ دن تمہیں بھی نصیب کرے، گلنار کا جھوٹا پانی پی لینا۔" کہا " اے دیو! کیوں دیوانہ ہوا ہے۔ وہ محمود ہی تھا جس نے تیری بہن کو قبول کیا۔ میں تو قریش پر نہ تھوکوں۔" دو دو باتیں رمز و کنایہ کی آپس میں ہوئیں۔ ساگر شاہ دولہا کے پہلو میں جا بیٹھا، راگ رنگ ہونے لگا۔ گل بادشاہ کی نظر اگر صاحب پر جا پڑی، دیکھا کہ خواب آلودہ ہے۔ جوگی صاحب سے گل بادشاہ نے کہا" اگر صاحب بے چین ہیں، بہتر ہے کہ یہ آرام کریں۔" بعد تامل کے جوگی صاحب نے کہا" اچھا" شہزادے کو اس کی خواب گاہ میں سلایا۔ گل بادشاہ کبھی اس کی صورت دیکھتا تھا، کبھی تلوے اپنی آنکھوں سے ملتا تھا، کبھی گرد پھرتا تھا، تصدق ہوتا تھا اور یہ اشعار پڑھتا تھا۔
ابیات
مہ من برا زمستی بسرت قسم کہ امشب
ز تو دیدہ ام ادائے کہ تو ہم نہ دیدہ باشی
تو بخواب ناز بودی کہ من از رقیب پنہاں
کف پات بوسہ دادم ز حنا شنیدہ باشی
کچھ دل میں آئی، اگر شاہ کی تلوار بغل سے اٹھائی۔ شہزادہ جب بیدار ہوا، سمجھا کہ یہ کام گل کے سوا دوسرے کا نہیں۔ کہلا بھیجا کہ میری تلوار مجھے بھیج دو۔ گل بادشاہ دوڑا آیا؛ ہنستا تھا، کہتا تھا" سبحان اللہ، واہ! واہ! ایسا سوئے کہ اپنی چیز بست کی خبر نہ رہی۔ تلوار کے اٹھانے سے ایسا تیز ہوئے، میںان سے باہر ہوئے۔ اگر کسی اور چیز پر قبضہ کرتا تو اپنے دشمنوں کو جو ہر کرتے۔ آپ تو کہتے تھے ہم بڑے سپاہی ہیں۔" شہزادے نے کہا" مجھے چھیڑ چھاڑ کی باتیں خوش نہیں آتیں۔" قصہ مختصر شہزادہ مجلس میں تشریف لایا، نکاح ہوا، مبارک سلامت کا غلغلہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 125
پڑ گیا، دلہن کی رخصت کی تیاری ہونے لگی۔
بیت
د کھایا چرخ نے ایک تازہ۔ نیرنگ
کہ یہ نیرنگ سازی میں ہے یک رنگ
ہنوز برات رخصت نہ ہوئی تھی کہ خبردار نے آکر شہزادے سے گزارش کیا کہ آپ کے ماموں کے شہر پر غم چڑھ آیا ہے۔ اس ملک کوتاخت تاداج کیا چاہتا ہے۔
جانا اگر شاہ کا اپنے ماموں کے ملک میں اور فتح کرنا اس لڑائی کا فضل خدا سے
ادھر سامان رخصت کا درپیش تھا کہ اگر بادشاہ جوگی کی آنکھ بچا کر گھوڑے پر سوار ہو کر طرفۃ العین میں منزل مقصود پر پہنچا، ماموں سے ملاقات کی۔ تسلی و دلاسہ دیا کہ ان شاء اللہ تعالی ایک میدان داری میں لڑائی فتح ہو جائے گی۔ یہ کہتا تھا کہ ایک نوجوان ماہ تاباں نظر آیا۔ استفسار فرمایا: عرض کیا کہ آپ کے ماموں کا فرزند ارجمند ہے۔ اسےچھاتی سے لگایا۔ بعد اس کے مردانہ و شیرانہ حریف سے ہم نبرد ہوا، لوہا اس کا اس کی برق تیغ سے سرد ہوا۔ چوگان اقبال سے گوئے فتح کو اپنی طرف غلطاں ، دشمن کو گریزاں کیا۔ حریف نے لاچار ہو کر امان چاہیے، اس شہنشاہ تاج بخش سے امان پائی۔ گستاخی کی عذرخواہی کی۔ اسے رخصت کیا، ادھر فتح کے شادیانے بجے، ادھر اگر شاہ کے گم ہونے سے نوبت سینہ زنی کی تھی۔

ریختہ صفحہ 126
ابیات
ہوئی بزم ماتم،وہ بزم طرب
پریشان وحیران تھے سب کے سب
ہوا حا لت غم سے یہ بے قرار
نشان وعلم اس کو تھے مثل دار
کہاں کی وہ شادی کہاں کا وہ بیاہ
ہوا مثل شب روز روشن سیاہ
کروں حالت گل کا کیا میں بیان
مصیبت کا اس پر گرا آسماں
سب کے سب غم ناک، گریبان چاک بیٹھے تھے کہ شہزادہء عالی شاں، سرمایہ ء عاشقاں نمایا ں ہوا۔ آمد آمد سے ہر تن بے جان میں گویا جان آئی۔ گویا شمع رخسار پر پروانوں کا ہجوم، تشریف لانے کی دھوم ہوئی۔ سب نے اپنے اپنے قرینے پر حال پرسی کی۔ اگر شاہ نے وہاں جانے کا احوال اور سرگزشت جنگ وجدال مجملاً بیان کر کے ایک نامہ وزیر خوش حال کو دیا۔ اس کے برادر نسبتی نے لکھا تھا کہ برادر صاحب سلمہ اللہ تعالی! الحمد للہ والمنہ قوم کہ اگر شاہ کے اقبال سے دشمن قوی دست پر فتح پائی، ریاست رفتہ ہاتھ آئی۔ خدا اس بلند اقبال کو سلامت رکھے۔ اس کی شجاعت اور جواں مردی کا بیان کرنا سراسر فضول ہے، فقط۔" جب وہ خط بادشاہ نے وزیر سے سنا، اگر شاہ کو چھاتی سے لگایا۔ مگر جوگی نے بہت غصہ فرمایا کہ میں نے تم کو ہزار بار منع کیا ہے کہ ایسے امور میں بغیر اطلاع کے جرأت نہ کیا کرو ،تم نہیں مانتے ہو۔ لال دیو اس خط کا مضمون سن کر اپنے دل میں کہنے لگا" تعالیٰ اللہ ! جو دختر
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 127
کہ جواں مردی پر اپنی اس قدر ناز اں ہے، یہ کیوں کر گل کے ہاتھ آئے گی۔" اس روز برات کا رخصت ہونا موقوف رہا۔ شہر میں گشت کرکے دلہن کو محل میں لا اتارا، مجلس عشرت کو بدستور ترتیب دیا۔ اگر شاہ اس مجلس سے اٹھا، گل بادشاہ نے کہا "اے شہزادے، ہمارے باغ میں ایک ایسا طلسم ہے کہ کبھی تم نے نہ دیکھا ہوگا۔ اگر آپ کو میرے ساتھ چلنے میں کچھ دغدغہ ہے، اکیلے جائیے، اسے دیکھ کر آئیے۔" شہزادے نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا اور اسے غافل کرکے سیر باغ ہو گیا۔ وہ شیفقتہ عاشق بھی نظر بچا کے وہاں جا پہنچا اور اپنے سر کو اس کے قدموں پر سر رکھ کر رونے لگا۔ اس کے احوال زار پر اگر شاہ کے دل میں رحم آیا۔ طلسم سکوت کو مفتاح زبان سے کھولا، کچھ ہنسا بولا۔ اپنے ہاتھ سے سر اس کا قدموں پر سے اٹھایا، باتیں محبت آمیز کرنے لگا۔ اس جسم بے جان میں جان آئی، طائر شوق نے حوصلے کی جرأت بائی۔ کہنے لگا" اپنی خیرات ایک بوسہ ڈالیے۔" اس نے کہا" منہ لگانا بھی قباحت ہے، کتنا کم ظرف پست ہمت ہے۔"
آخر گل بادشاہ دوڑ کر بے اختیار لپٹ گیا۔ ہم آغوشی اس کی طبیعت نازک پر بہت ناگوار ہوئی۔ پسینے میں تر، عرق خجالت سر بسر۔ خیر بہرصورت دامن عصمت کو آلودگی سے بچایا، مجلس میں آیا۔ جوگی صاحب نے کہا" تمہارا چہرہ بہت متغیر ہے؟" اس نے کہا" روشنی کی گرمی سے عرق عرق ہوا ہوں۔" اتنے میں حمید نے عرض کیا" آپ کے ماموں صاحب مع اہل و عیال تشریف لاتے ہیں، مگر ابھی دور ہیں۔" شہزادہ جلدی اٹھا، ادھر روانہ ہوا۔ افلاطون اور زلیخا سے ملاقات کی، محفل میں لا بٹھایا۔ افلاطون اس کے قد بالا پر دم بدم نگاہ کرتا تھا۔شہزادے نے پوچھا " آپ مجھے گھڑی گھڑی کیا دیکھتے ہیں۔" کہا " آج تمہارا وہ بوٹا سا قد مجھے دراز معلوم ہوتا

ریختہ صفحہ 128
ہے، اس میں کیا راز ہے؟" شہزادہ ہنسا اور اپنی ہیئت اصلی پر آگیا۔ زلیخا اس غیرت یوسف کو دیکھ کر کہنے لگی" ہزار حیف، باز است وطعمہ نیست۔" شہزادے نے یہ بات اپنے جی میں رکھی۔ ہر وقت شہباز عقل کو طعمے کی تحقیق پر لگایا، مگر شکار مدعا نہ پایا۔ دو دن اسی طرح کا سامان عیش و نشاط مہیا رہا، تیسرے دن چوتھی کھیلنے کی تیاری ہوئی۔

روانگی چوتھی کی، دلہن کے گھر سے اور جدا ہونا گل بادشاہ کا اگر صاحب سے
میوے اور ترکاری جواہر نگار خانوں میں آنے لگی۔ پریوں کے غول،مہمانو ں کے ہجوم بہت تھے۔ غرض دولہا کو چوتھی کھیلنے کے واسطے محل میں بلایا، دلہن کو پہلو میں بٹھا یا۔ باغبان فلک ترنج ماہتاب اور چھڑیاں شعاع کی طبق زریں میں لایا۔ادھر اور ادھر سے سب پری زادان نازنین چوتھی کھیلنے پہنچیں۔ہر چہار طرف سے پھولوں کی بوچھاڑ، چھڑیوں کی مارا مار ہونے لگی۔ محمود کا لعل شہزادے سے ،اگر اور گل کا سامنا، قریش کا اور دولہا کی ماں کا مقابلہ ہوا۔ گل بادشاہ گلاب کا پھول بھی آہستہ سے اگر شاہ پر پھینکتا تھا۔ وہ اس سے بھی اپنے تئیں بچاتا تھا، نارنج پستان کو ہر ادا سے چھپاتا تھا۔ گل بادشاہ نے ہر چند چاہا کہ اس بہانے سے ہاتھ سینے تک پہنچائے نہ پہنچا. مجبور ہو کر یہ شعر پڑھا:
شعر
سمجھئے ہاتھ رکھنے دیجئے نارنج پستاں پر
فراموش آپ جیتیں گے، دوگانا یہ نیا پھل ہے
اگر شاہ نے یہ سن کر، قابو پاکر ایک ترنج گل کے سینے پر ایسا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 129
مارا کہ چہرے کا رنگ زرد ہو گیا۔ سنبھلا نہ تھا کہ ایک چھڑی زور سے لگا کر کہا" لو یہ بدھی بھی مدت تک گلے کا ہار رہے گی۔" لال دیو نے یہ دیکھ کر سمدھی سے کہا کہ شہزادے کو منع کرو۔ ایسا نہ ہو کہ خود انہیں کی طبع نازک پر کچھ ملال آئے، چوٹ کسی کے زیادہ لگ جائے۔ آخر الامر سب نے چوتھی کھیلنے سے فراغت پائی، رخصت کی تیاری ہوئی۔ گل بادشاہ نے کی تجویز سے لال دیو نے یہ درخواست کی کہ چند روز یہی صحبت ہو، رخصت دلہا کی ملتوی رہے۔ اگر شاہ نہ مانا، وزیر کو ارشاد کیا کہ زنانی سواریاں روانہ کرو۔ گل بادشاہ کا صدمہء فرقت سے چہرہ متغیر ہوا۔ بہت منت والحاح سے کہا " اے شہزادے! دو چار روز ابھی اس غریب خانے کو اپنے فیض قدم سے آباد رکھئے۔ آپ کا یہاں تشریف لانا اتفاقات سے تھا۔"
شعر

نصیب ایسے کہاں تھے کہ آپ مہماں ہوں
پس اتفاق خدا ساز اس کو کہتے ہیں
اگر بادشاہ نے کہا" تمہاری خاطر سے اس قدر اتفاق رہنے کا ہوا، میں کہاں اور یہ صحبت کہاں؟" گل بادشاہ اتنے ہی میں پھولا نہ سمایا، شگفتہ ہو کر کہا" کچھ ان دنوں میں آپ کی طبیعت میری طرف سے صاف ہوئی تھی۔ یہ صحبت یہ الطاف نہ بھولیں گے، بہت یاد آئیں گے۔
شعر
اس رکاوٹ پہ تو میں جان فدا کرتا تھا
تیرے الطاف جو یاد آئیں گے مر جاؤں گا
امیدوار ہوں کہ چندے انتظار وعدہ میں جلائیے۔" اگر بادشاہ نے کہا" پہلے حجاب آنے جانے کا مانع تھا، اب اکثر ملاقات ہوتی

ریختہ صفحہ 130
رہے گی۔" غرض اس کو بسمل چھوڑ کر قریش اور لال دیو کے پاس رخصت کوگیا۔ انہوں نے سر اس کا چھاتی سے لگایا، بہت سا عذر کیا۔ خدا کو سونپا، رخصت کیا۔ شہزادے نے حمیدسے کہا کہ گل بادشاہ شاید جوگی صاحب سے رخصت ہونے گیا ہے۔ اس نے کہا:
بیت
" جہاں ہے شمع پروانہ وہاں ہے
پری جس جا ہے دیوانہ وہاں ہے"
حمید کے کہنے سے ادھر ادھر دیکھا، گل بادشاہ کو وابستہء محبت پایا۔ ہنس کر کہا" خدا حافظ۔" گل بادشاہ نے کہا کہ امیدوار ہوں، گلے لگائیے، رخصت فرمائیے۔ اگر بادشاہ نے سکوت کیا۔ گل بادشاہ نے ہاتھوں کو گلے میں حمائل کر کے کہا:
بیت
برسر مہر و وفا ہے وہ ستمگر اپنا
آج ہر طرح سے یاور ہے مقدر اپنا
شہزادے نے کہا" اتنی باتیں نہ بناؤ۔ مجھے خوشامد اور ظاہرداری سے نفرت ہے، جاؤ بس رخصت ہو، ہوا کھاؤ۔" اس نے کہا" میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، برائے خدا دو گھڑی ٹھہریئے۔" شہزاد ےنے کہا" دیکھتے ہو کہ جوگی صاحب بلاتے ہیں، آدمی پر آدمی آتے ہیں۔ اس وقت غیر ممکن ہے، پھر کسی دن آؤں گا۔" یہ کہہ کر اگر بادشاہ نے اس کو روتا چھوڑ ا۔ صید بسمل سے صیاد نے منہ موڑا۔ مع الخیر اپنے ملک میں آیا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ اس کی ممانی نے ایک جوڑا کبوتر کا شہزادے کو دیا کہ وہ آدمی کی طرح گویا تھے۔ زلیخا کے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 131
تحفے سے وہ غیرتِ یوسف نہایت خوش ہوا۔ زلیخا نے اسے خوش و خرم دیکھ کر یہ کہا کہ جائے تعجب ہے، باز ہو اور طعمہ نہ ہو۔ شہزاد ےنے اپنے دل میں کہا" یہ معمہ کسی طرح نہیں کھلتا۔
بیت
مجھ کو لازم اس کی تحقیقات ہے
بازہے طعمہ نہیں، کیا بات ہے!"
غرض اس کے دریافت کرنے کے واسطے خلوت گاہ میں آیا، مگر اس کا مطلب منکشف نہ ہوا۔ پریشان ہو کر حمید سے کہا" گھوڑا تیار کر لاؤ۔" سوار ہوکر بسنت کے مکان کی طرف گیا۔ حمید نے خبر کی۔ اس نے کہا" خیر تو ہے؟ اگر حضرت تشریف لائے ہیں، چلے کیوں نہیں آتے؟" سرو آسا یہ گفتگو سن کر استقبال کے واسطے آئی، بسنت نے مسند بچھائی۔ سرو آسا سے مہمان داری کا ذکر ہونے لگا۔ شہزادے نے کہا" فی الحقیقت کوئی طریقہ مہمان داری کا قریش اور ماہ پرور نے فروگزاشت نہیں کیا۔" اس نے گل بادشاہ کی روئیداد تمام و کمال اس سے بیان کی کہ فریب و مکر سے اس نے مجھے طلسم کی سیر کو بھیجا اور تنہائی میں ہم آغوشی سے ہلکان کیا۔ اس بدبخت کو اپنے خنجر کی، جو اس کی کمر میں تھا، خبر نہ تھی۔ اس کے دستے سے دو نیل سیاہ میرے سینے پر پڑ گئے۔ سرو آسا بہ لحاظ و ادب کلمات رمز وکنایہ کے کہتی رہی، آپس میں ہنستی بولتی رہی۔ دو چار گھڑی کے بعد شہزادہ وہاں سے رخصت ہو کر جوگی صاحب کے مکان میں آیا، آرام فرمایا۔ صبح صادق سے پہلے اپنی خلوت گاہ میں گیا، نماز پڑھی، پوشاک بدلی، تخت پر جلوس کیا۔

ریختہ صفحہ 132
جانا اگر شاہ کا گل بادشاہ کے ملک میں اور حظ اٹھانا وہاں کی سیر سے
جب مسافر جہاں پیمائے خورشید کمربند شعاعی باندھ کر خانہ ءمغرب میں گیا، تنگ تنہا اگر شاہ مثال ماہ گل بادشاہ کی طرف چلا اپنے آنے کی خبر کی، وہ اپنی آنکھوں کو بچھا لینے۔ شہزادے نے کہا" تم سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ تنہا، وفا کیا۔" گل بادشاہ نے کہا" وعدہ وفائی دکھائی، مسیحائی فرمائی۔ تشریف لے چلو، میری آنکھیں تلوؤں سے ملو ۔" شہزادے نے کہا" تیرے ماں باپ مجھے پہچان لیں گے۔" اس نے کہا" ہر گز ان کے فرشتوں کو خبر نہ ہو، ان کے ہمزاد نہ دیکھیں۔" شہزادے نے کہا" لے جانے کی وجہ بیان کرو۔" کہا " دو چار گھڑی راحت فرمائیے گا، سیرت سے حظ اٹھائیے گا، اس مردے کو جلائیے گا۔" یہ کہہ کر ایک انگوٹھی اس کے ہاتھ میں پہنچا دی؛ وہ سب کو دیکھتا تھا، اسے کوئی نہ دیکھتا تھا۔ القصہ اپنے مکان میں لا بٹھایا، تماشا طرح طرح کا دکھایا۔
بیت
کبھی دریا دکھایا آنسوؤں کا
کبھی اپنے بدخشان جگر کا
وہاں سے اٹھ کر محمود کی خواب گاہ میں تشریف لے گئے، دیکھا کہ گلنار کی گردن میں محمود کے ہاتھ پڑے ہیں، دونوں ایک پلنگ پر لیٹے ہیں۔ محمود نے گلنار سے کہا کے اگر شاہ کی عمر دراز جس نے ہم پر باب نشاط کو باز کیا، ہمارے ارمان اس کی بدولت نکلے۔گلنار نے کہا " جب مسبب حقیقی کو کسی کام کی درستی منظور ہوتی ہے، ایسے ہی اسباب مہیا کرتا ہے۔" گل نے اپنے مہمان کے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 133
کان میں کہا" مثل مشہور ہے کہ خر بوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، مجھے کب تک مانند عود و عنبر سوختہ آتشِ فراق رکھئیے گا؟"
بیت
اسی دن کا میں بھی ہوں امیدوار
مرے ہاتھ ہوں تیری گردن میں ہار
اگر شاہ نے کہا" اے کم ظرف! ایک قطرہء محبت سے تیرے حوصلے کا پیالہ چھلکنے لگا، ایسا بہکنے لگا۔ اگر سو بار تیری خاک سے کلال گردش ایام ساغر بنائے، میرے وصل کی شراب سے کبھی معمور نہ ہو۔ یہ پری ہے جو مرد سے دید بازی کرتی ہے۔ یہاں کسی کی جوتی نہ مرتی تو آئینہ ہو تو شکل نہ دکھاؤں، تصویر ہو تو صورت نہ دیکھوں۔" گل بادشاہ نے کہا" میں تجھ سے ہنستا ہوں، تو تو مرد ہے، تجھ سے اس کی ہوس رکھنا سراسر نادانی ہے۔ چلو ایک اور سیر دیکھو۔" لعل شہزادہ اور ماہ پرور کی خلوت میں لایا۔ دونوں اس وقت چوسر کھیلتے تھے۔ دونوں نے گھات سے اپنے تئیں چھپایا۔ لعل شہزادے نے ماہ پرور سے کہا" کچھ مہمان داری کا حال بیان کرو، کوئی دقیقہ مدارت سے رہ تو نہیں گیا یا کوئی اگر شاہ کے متوسلوں سے آزردہ تو نہیں گیا؟" اس نے کہا" خدا کے فضل سے سب راضی گئے، مگر میں تم سے ایک بات پوچھنی ہوں؛ تمہیں میرے سر کی قسم! سچ بتاؤ کہ اگر شہزادہ جوگی کا پسر ہے یا تمھارے وزیر کی دختر ہے؟" شہزاد ےنے کہا" یہ راز بہت نازک ہے، تمہیں بھی ہمارے سر کی قسم کہ ابھی کسی سے ظاہر نہ کرنا۔"
قطعہ
گرچہ ہے وہ وزیر کی دختر
لاکھ مردوں سے ہے مگر بہتر

ریختہ صفحہ 134
اور ایک طرفہ ماجرا سنیے
گل دل و جان سے ہے فدا اس پر
شیدا ہے، دیوانہ ہے۔ نام پر جان دیتا ہے، تصور میں اس کے دن رات رہتا ہے۔" ماہ پرور نے کہا " اگر وہ دختر ہے تو گل کے ساتھ وصلت اس کی کیوں نہیں کرتے؟" شہزادے نے کہا " محمود کی شادی میں میں نے خوش حال وزیر کو بہت سمجھا کےراضی کیا۔ خدا کے فضل سے امید ہے کہ یہ کام سرانجام پاوے۔" گل نے اگر کو الگ لے جا کے کہا " آپ تو فرماتے تھے کہ ہم مرد ہیں، آپ کے ولی نعمت کیا کہتے ہیں؟ خدا کے واسطے میرے حال زار پر رحم کھاؤ، راستی پر آؤ۔ یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ نسبت میری آپ کے ساتھ مقرر ہوئی۔ اب تو میرا زور بھی چلتا ہے، حق بھی پہنچتا ہے۔" اگر انہوں نے کہا " وزیر کی بیٹی سے منسوب ہونا ہم نے بھی سنا ہے۔ میں تو جوگی بچہ ہوں، مجھ پر زور اور حق کیا ثابت کرتا ہے۔" یہ کہہ کر اس مکان سے باہر آیا، نہایت غصے ہوا، برا بھلا کہا۔ گل نے یہ شعر پڑھا:
شعر
جھڑکی تو مدتوں سے مساوات ہو گئی
گالی کبھی نہ دی تھی سو اک بات ہوگئی
القصہ بڑی محنت و خوشامد سے غصے کو اس کے برطرف کیا۔ مہربان پاکر یہ پوچھا " کیوں صاحب لعل بہتر ہے یا ماہ پرور؟ محمود طرح دار ہے یا گلنار؟" اس نے کہا" پری کے حسن کا وصف کیا۔ یہ ضرب المثل ہے کہ فلانا ایسا خوبصورت ہے جیسے پری۔ ماہ پرور اس سے کہیں اچھی ہے۔ علی ھذاالقیاس گلنار بھی بری ہے۔" گل نے کہا " میرے اور اپنے درمیان آپ منصف ہوں۔" اگر نے کہا " تو تو میری جوتی کی برابری نہیں کر سکتا۔" یہ سن کر
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 135
گل بادشاہ خوب ہنسا۔ غرض ایسی ایسی باتوں سے دیر تک حظ اٹھایا۔ اتنے میں لال دیو گل کو ڈھونڈتا ہوا ادھر آ نکلا۔ اگر نے کہا " اس بھوت کی نظر سے کیوں کر بچیے؟" گل نے کہا " پلنگ کے نیچے چھپئیے۔" دیو، گل کو ایک فرد حساب دے کر چلا گیا۔ پھر اگر شاہ نے گل سے رخصت چاہی۔ وہ مشتاق گرفتار رنج فراق ہوا۔ گل نے کہا" چلتے ہوئے تو گلے لگائیے" اگر نے کہا" اس تمنا سے ہاتھ اٹھائیے۔" القصہ عاشق کو روتا چھوڑ کر وہ ادھر روانہ، یہ ادھر دیوانہ ہوا۔

خبردار ہونا اگر صاحب کا گل بادشاہ کی بے قراری سے اور طعام لے جانا وہاں کو
ایک دن کا ذکر ہے کہ اگر شاہ خوان نعمت پر بیٹھا ہوا مع رفقا خاصہ نوش فرمانا تھا کہ چند مگس متوجہ طعام ہوئیں۔ شاگرد پیشہ نے رومال سے ان کو دفع کیا۔
شعر
ناسخ نہ ہو جیو مگس خوان اغنیا
سنتے ہیں یہ سخن لب نان جو یں سے ہم
شیو نے اپنی زبان میں طعن اور ملامت کی اور کہا کہ ایک ہفتے سے بہ سبب ترک کرنے آب وطعام گل بادشاہ کے ہم نے یہ پریشانی اٹھائی۔ اگر شاہ نے یہ گفتگو علم کیوں کی سنی تو بقول رسا:
شعر
خوں رگِ مجنوں سے ٹپکا،فصد لیلٰی نے جو لی
عشق میں تاثیر ہے، پر جذبہ ء دل چاہیے

ریختہ صفحہ 136
جذبہ محبت سے اپنے عشق کے دفعتاً مضطر وبے قرار ہو کر کچھ طعام علیحدہ ان مکھیوں کے واسطے رکھوا دیا اور خود گل بادشاہ کے مکان کی طرف ایک خوان طعام ہمراہ لے کر روانہ ہوا بات کی بات میں وہاں پہنچایا، اپنی آواز سے عاشق کو جگایا۔ گل بادشاہ روتا ہوا دوڑا، نقاہت و ضعف سے آکر گر پڑا۔ اگر شاہ نے کہا " ایسا خود رفتہ ہوا؟" اس نے کہا " خاطر نازک دیری حضور سے آزردہ نہ ہو۔" شہزادہ اس کی سخن سازی پر ہنسا۔ پھول اس کے منہ سے جھڑے۔ گل نے اپنے دامن امید میں بھرے۔ ہاتھ اس کا پکڑ کے مسند پر آ بیٹھا۔ وزیر سے خطاب کیا کہ مجھ پر گرسنگی کا نہایت غلبہ ہے۔ اس نے عرض کی کہ ایک ہفتے سے حضرت نے بہ سبب بدمزگی طبیعت کے آب و طعام ترک کیا ہے مگر ابھی تیار ہوا جاتا ہے۔ شہزادے نے کہا" حمید کو بلا لو۔" جواہر اسے بلانے گیا۔ اگر نے گل سے کہا " اے بادشاہ! گلنار کے بیاہ میں جو خرچ ہوا ہے، اسے فاقہ کشی سے وصول کیا چاہتا ہے؟" ہنوز اس نے کچھ جواب نہ دیا تھا کہ حمید مع خوان نعمت حاضر ہوا۔ شہزادے نے کہا" ایسا مہمان بھی کم دیکھا ہوگا کہ میزبان کو اپنی نعمت سے سیر کرے۔" گل نے کہا " میں ایسی نعمت کا بھوکا نہیں۔" اگر نے کہا " بس فیل نہ لاؤ، اب کھانا کھاؤ۔" اس نے کہا " تمہیں کھاؤ۔" اگر شاہ نے ایک نوالہ بنا کر اس کے منہ میں دیا، اس نے کھایا:
شعر
دے اگر یار اسے جام شراب
توبہ اس سے کرے زاہد، توبہ
گل بادشاہ نے کہا " اے شہزادے! تجھے میرے سر کی قسم، سچ کہہ، میرے حال سے تجھے کیوں کر خبر ہوئی؟" شہزادے نے
 
آخری تدوین:
Top